اسلام آباد سے مظفر آباد جاتے ہوئے کوہالہ پل سے دریائے نیلم پار کیا جاتا ہے۔ جہاں کشمیر کے پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کی خوبصورتی دل کو لبھاتی ہے وہاں خستہ حال انفراسٹرکچر اپنی بوسیدگی کا احساس دلاتا ہے۔ کسی بھی ذی شعورانسان کو اس جنت بے نظیر کے قدرتی حسن سے زیادہ یہاں کے باسیوں کی بدحالی کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ چشموں کی فراوانی کے باوجود پینے اور استعمال کے پانی کا حصول ایک مشقت طلب کام ہے۔ سڑکیں ایک طرف سے بننا شروع ہوتی ہیں تو دوسری طرف سے ٹوٹنے لگتی ہیں۔ علاج معالجے کی سہولیات برائے نام ہیں۔ روزگار نا پید ہے۔ غربت عام ہے۔
منگل تین دسمبر کو ’’آزاد کشمیر‘‘ کے دارالحکومت مظفر آباد کی سڑکوں اور شاہراہوں پر بڑے پیمانے پر فوجی دستے تعینات تھے۔ شہر کے وسط میں واقع سرکاری عمارات کا علاقہ کرفیو کا سا سماں پیش کر رہا ہے۔ جگہ جگہ لگے پولیس ناکوں پر بچوں، خواتین اور بزرگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ سے اتار کر تلاشی کے نام پر ذلیل کیا جارہا تھا۔ پولیس کی جانب سے بند کی جانے والی بسوں اور ویگنوں کے سینکڑوں مسافر کئی میل پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ یہ بھاری ریاستی آپریشن پاکستان کے منتخب اور جمہوری وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مظفر آباد آمد کے پیش نظر کیا جارہا تھا۔ میاں صاحب یہاں ’’آزاد جموں کشمیر کونسل‘‘ کے بجٹ اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے۔ چونکہ میاں صاحب کو سیر و سیاحت کا بھی شوق ہے لہٰذہ یہ اجلاس پہلی مرتبہ اسلام آباد کی بجائے مظفر آباد میں منعقد ہوا۔ وہ ہیلی کاپٹر پر گھنٹے بھر میں اسلام آباد سے کشمیر پہنچے اور اجلاس کے بعد اسی پر واپس تشریف لے گئے۔ ہیلی کاپٹر سے کشمیر کی وادیوں کا نظارہ یقیناًدلکش ہو گا لیکن اس فضائی سفر میں تلخ زمینی حقائق نظر نہیں آتے۔ کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی ترقی کے لئے مختص کیا گیا بجٹ صرف 14.98 ارب روپے ہے۔ اس رقم کا موازنہ اگر سامراجی قرضوں پر ہر سال ادا ہونے والے ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے سود، جنگی آلات کی خریداری پر صرف ہونے والے ہزاروں ارب روپوں اور حکمرانوں کی سرکاری عیاشیوں کے اخراجات سے کیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے پاکستانی حکمرانوں کی نظر میں آزاد کشمیر کے 50 لاکھ باسیوں کی کیا حیثیت ہے۔ جس کشمیر کے گرد پاکستان کی ساری ’’دفاعی پالیسی‘‘ گھومتی ہے اس کے باسیوں سے سرکار کی بے مہری ثابت کرتی ہے کہ معاملات کو جس طرح سے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، ریاست کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کے حقیقی عزائم اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ جموں کشمیر کونسل کے اجلاس میں میاں صاحب نے وہی تقریر کی جو پچھلے 66 سالوں میں پر پاکستانی حکمران کرتا آرہا ہے یعنی ’’کشمیر کے مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق نکالا جائے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’ میں نے امریکی صدر سے ملاقات میں کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھایا تھا۔ ‘‘ یہ وہ گردان ہے جسے سن سن کر کئی نسلوں کے کان پک چکے ہیں لیکن حکمرانوں کو شرم نہیں آئی۔ کون سی اقوام متحدہ اور کون سا امریکہ؟ امریکہ اور اقوام متحدہ پر براجمان دوسرے سامراجیوں کو ہندوستان کی سستی لیبر اور وسیع و عریض منڈی زیادہ عزیز ہے یا کشمیر کی آزادی؟ حکمرانوں کے دوسرے بہت سے دھوکوں کی طرح آزادی کا جھانسہ اور حق خودارادیت کی نعرہ بازی محض سیاسی چالبازی ہے۔
میاں صاحب کے بلند و بانگ دعووں اور وعدوں کے بغیرکشمیر یاترا بھلا کیسے مکمل ہوسکتی تھی؟ اس موقع پر بھی میاں صاحب نے اپنی درخشاں روایات برقرار رکھتے ہوئے کشمیر میں ہوائی اڈوں کی تعمیر، ریلوے اور سڑکوں کا جال بچھانے اور انفراسٹرکچر کے دوسرے منصوبے شروع کرنے کے کئی وعدے کر ڈالے۔ 14 ارب روپے (جس کی قیمت ہر روز گرتی چلی جارہی ہے) سے کشمیر کو سوئزر لینڈ کیسے بنایا جائے گا یہ راز میاں صاحب خود ہی بتا سکتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے فرمایا کہ کہ ’’میری خواہش ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اس خطے کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ ‘‘ جس طرح ہندوستان میں وزارتوں کی تقسیم پر مقامی اور عالمی کارپوریٹ سرمایہ دار بولیاں لگاتے ہیں اور پاکستان میں پارٹی ٹکٹ سے لے کر سینٹ کی سیٹ تک نیلام ہوتی ہے بالکل اسی طرح کشمیر کی سیاست ٹھیکیداروں کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ کشمیر ی سیاست پر براجمان یہ سیاسی ٹھیکیدار مال کمانے کے لئے سیاست کرتے ہیں نہ کہ ترقی کے ’’ٹھوس اقدامات‘‘ کرنے کے لئے۔
پچھلے 66 سالوں میں بھارتی اور پاکستانی کشمیر کے باسیوں کے معاشی اور سماجی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوگئے ہیں۔ کشمیری نوجوان اسلام آباد سے کراچی، دہلی سے ممبئی اور ملائیشیا سے یورپ تک روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کشمیر ی معیشت کا بڑا حصہ ان رقوم پر مبنی ہے تو یہ تارکین وطن اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ اور شہ رگ کہنے والوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں طرف کے حکمران کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انہوں نے پچھلے 66 سالوں میں جو کھلواڑ کیا ہے اس کے پیش نظر کشمیری کسی سے بھی الحاق نہیں چاہتے ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر نے کشمیریوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے ہیں۔ بھارتی ریاست نے ہزاروں نوجوانوں کو شہید اور بے شمار خواتین کی عصمت دری کی ہے لیکن مسلح جدوجہد ہندوستان کی دیوہیکل اور سفاک ریاست کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے۔ مذاکرات کا عمل بھی دہائیوں سے جاری ہے لیکن یہ عمل ’’مذاکرات کے بارے میں مذاکرات‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ کشمیری آزادی کے چمپیئن بننے والے پاکستانی حکمرانوں اپنی جنگی سکت اور سفارتی اوقات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ بین الاقوامی اداروں پر کوئی زور ڈال سکیں۔ بھارتی اور پاکستانی حکمرانوں نے بیرونی تضادات اور تصادم ابھار کر اخلی طور پر ابھرنے والی تحریکوں کو دبایا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو بوقت ضرورت کبھی چولہے پر رکھ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈیپ فریزر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ تاہم داخلی طور پر نازک معاشی صورتحال اور نحیف سفارتی کیفیت کے پیش نظر پاکستان کی حکمرانوں کی کشمیر کے بارے میں گرمجوشی کافی عرصے سے ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ اب وہ مظفر آباد میں نواز شریف کی بیان کی طرح مسئلہ کشمیر کے لئے دعائے مغفرت ہی کر سکتے ہیں۔
کشمیر میں قوم پرست سیاست کی ایک تاریخ ہے لیکن کشمیری عوام کی آزادی اور مسائل کو طبقاتی بنیادوں پر برصغیر کے محنت کشوں کی لڑائی سے نہ جوڑ پانے کی وجہ سے کشمیری قوم پرستی تنہائی اور بیگانگی کا شکار ہو کر بہت حد تک زائل ہوچکی ہے۔ پھر ’’جہاد کشمیر‘‘ کے نام پر اسلامی بنیادپرستی اور دہشتگری کو اس خطے پر مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے لیکن کشمیر کی سیکولر اور ترقی پسندانہ ثقافتی روایات کے پیش نظر میں اس رجحان کو کبھی بھی کشمیری عوام میں حمایت نہیں مل سکی۔ ریاست کی جانب سے قومی محرومی کے جذبات کو اپنے رجعتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ہر کوشش کو کشمیر کے نوجوانوں نے مسترد اور ناکام کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کا انقلابی جوش و جذبہ اور عملی سیاست میں شمولیت بے مثال ہے۔ یہاں کے طلبہ اور نوجوانوں کی روایتی تنظیم جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (JKNSF) ریاستی جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف جدوجہد کی سنہری روایات کی امین ہے۔ اس تنظیم کے پرچے کا نام ہی ’’عزم‘‘ ہے جو کشمیری نوجوانوں کی حریت پسندی اور بلند حوصلوں کی غمازی کرتا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو مذہبی اور قومی رنگ دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ابھرنے والی تحریکوں، احتجاجوں اور ہڑتالوں کا طبقاتی کردار واضح ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے سماجی و معاشی مسائل کا حل بنیادی مطالبات میں شامل ہے۔ مظفر آباد اور سری نگر میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 87فیصد کشمیری نوجوانوں کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ معاشی محرومی ہے۔ یہ دراصل کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تمام برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے فطری جڑت کی علامت ہے۔ بھارتی ریاست کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیر کی تحریک آزادی کے اہم رہنما مقبول بٹ نے کہا تھا کہ ’’ہماری جدوجہد آزادی میں سرمایہ دارانہ استحصال اور مذہبی قدامت پرستی کے خاتمے کی جنگ بھی شامل ہے۔ ‘‘کشمیر میں اس نظام کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک پورے جنوب ایشیا کے لئے انقلابی چنگاری کا کردار ادا کر سکتی ہے۔