نرسوں اور عوام دشمن پنجاب حکومت کا معرکہ نرسوں نے جیت لیا اور اپنے تمام مظالم اور گھناؤنے ہتھکنڈوں کے باوجود حکومت کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لاہور کے مختلف سرکاری ہسپتالوں کی ایڈہاک نرسوں نے اپنی برطرفیوں کے خلاف 11 مارچ کو پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا۔ اس میں بڑی تعداد ان ایڈہاک نرسز کی تھی جن کا روزگار بیک جنبشِ قلم پنجاب حکومت نے چھین لیا تھا۔ پنجاب حکومت نے نہ صرف احتجاج کے باوجود ان کے مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا تھا بلکہ پولیس کے ذریعے ان پر بد ترین تشدد بھی کروایا جس میں ایک سات ماہ کی حاملہ نرس شدید زخمی ہو گئی اور موت کے منہ سے واپس آئی۔
اس تمام تر تشدد کے باوجود نرسوں کی جدوجہد جاری رہی اور وہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹی رہیں۔ ا س شاندار تحریک میں ملک بھر کی نرسوں اور دیگر مزدور تنظیموں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ لاہور میں احتجاج کرنے والی ان نرسوں کے حق میں پورے پنجاب کے ہسپتالوں میں مظاہرے ہوئے اوربہت سی جگہ پر ہڑتال بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ کوئٹہ، کراچی اور ملک کے دیگر بہت سے شہروں میں بھی ان کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس تمام تر تحریک کے بعد ان نرسوں نے نہ صرف اپنا روزگار واپس حاصل کیا بلکہ اسی تحریک کے دوران اپنی اجرتوں میں اضافے کے مطالبے کو بھی منوایا۔ محنت کش نرسوں کی اس کامیابی کے بعد موجودہ حکومت کے لئے اپنی من مانی پالیسیاں بزور طاقت منوانے کے راستے بھی مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔
14 مارچ کو لاہور کی مال روڈ پر نرسوں پر وحشیانہ تشدد کے بعد تحریک پسپا ہونے کی بجائے تیزی کے ساتھ آگے بڑھی۔ بار بار حکومتی مذاکراتی ٹیم پنجاب کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کے سرکردگی میں نرسوں کو جھوٹے لاروں اور وعدوں کے ذریعے دھرنا ختم کروانے کی کوشش کرتی رہی لیکن نرسوں نے اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر پنجاب حکومت کو ان 2800 برطرف شدہ نرسوں کو انہی ہسپتالوں میں دوبارہ تین سال کا کنٹریکٹ دینا پڑا اور تین سال کے بعد ان کو مستقل کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ حکومت نے نرسوں کی اجرتوں میں اضافے کے مطالبے کو بھی ماننا پڑا اور نرسوں کی اجرتوں میں چار ہزار روپے ماہانہ کا اضافہ بھی کیا گیا، جس کے بعد اس احتجاجی دھرنے کا اختتام ہوا۔
احتجاجی دھرنے کے دوران پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے کامریڈز نے نرسوں کے ساتھ نہ صرف مکمل طور پر اظہار یکجہتی کیا بلکہ روز اول سے ہی کامریڈز اس دھرنے میں شریک رہے اور حکومت کے تمام ہتھکنڈوں کو نرسوں کے سامنے ایکسپوز کرتے رہے۔ 9مارچ کو اس احتجاج سے صرف ایک دن پہلے PTUDC نے مال روڈ پر نجکاری اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف شاندار احتجاج منظم کیا تھا جس میں ملک بھر سے ٹریڈ یونین راہنماؤں اور محنت کشوں نے شرکت کی تھی۔ اس احتجاج کی خبر جب نرسوں تک پہنچی تو ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور انہوں نے بھی اگلے ہی دن 10مارچ کو ایوان اقبال کے سامنے کوپر روڈ پر اپنے احتجاج کا آغاز کر دیا۔ اس سے پہلے وہ صرف اپنے ہسپتالوں میں ہی احتجاج کر رہی تھیں۔
اس دوران اپنے روایتی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے حکومتی اہلکاروں نے نرسوں کو تقسیم کر کے احتجاج ختم کروانے کی کوشش کی جس میں ینگ نرسز ایسوسی ایشن کی1500 نرسوں کو اگلے گریڈ میں پروموشن کا لالچ دے کر ایڈہاک نرسوں کے احتجاج کو منتشر کروانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح چند لیڈروں کو ذاتی مفادات کی بھی پیشکش کی گئی۔ لیکن PTUDC کے کامریڈ کی موجودگی اور بروقت مداخلت کے باعث تمام ہتھکنڈے ناکام ہوتے رہے۔ پولیس تشدد کے بعد کامریڈز اور نرسوں کی قیادت نے احتجاج کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان کیا جس کے بعد ملک بھر میں نرسوں کے احتجاج ہوئے جن میں PTUDC کے کامریڈز نے بھرپور شرکت کی۔ اس میں فیصل آباد، رحیم یار خان، ملتان، لیہ، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں مزدور تنظیموں کی جانب سے بھرپور حمایت کی گئی۔ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے PTUDC کی طرف سے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سرکردہ ٹریڈ یونین راہنماؤں نے شرکت کی۔
لاہور میں ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر جاوہد آہیر نے بھی پنجاب حکومت کے مظالم کی بھرپور مذمت کی اور احتجاج میں شریک ہو کر نرسوں کو پورے پنجاب کے ینگ ڈاکٹروں کی حمایت کا یقین دلایا۔ اسی طرح پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے راہنماؤں نے بھی اس احتجاج کی حمایت کی۔ یوں صحت کے شعبے کے تمام ملازمین، جن میں جھاڑو دینے والے اور صفائی کرنے والے سے لے کر نوجوان ڈاکٹرسب شامل تھے، کابہت بڑا اکٹھ نظر آیا جس نے ان حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اس اکٹھ میں پہلی دفعہ نام نہادسماجی اوراخلاقی معیاروں کو تہہ و بالا کرتے ہوئے نوجوان ڈاکٹر، نرس اور ہسپتالوں کے محنت کش حکومت کے خلاف اکٹھے لڑتے نظر آئے جو حکمرانوں کی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر ایک بڑی ضرب ہے۔
PTUDC لاہورکی طرف سے کامریڈ آفتاب اشرف اور کامریڈ عاطف علی دھرنے کو منظم کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہے۔ YDAپنجاب سے ڈاکٹر تجمل بٹ، ڈاکٹر فرحان گوہر، ڈاکٹر ولید خان، ڈاکٹر اعجاز ایوب اور ڈاکٹر فیضان اکرم نے اس احتجاج کو کامیاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ PTUDC لاہورنے دیگر مزدور تنظیموں کو بھی اس دھرنے میں احتجاج کی حمایت کے لیے بلایا جس میں پوسٹ آفس یونین کے ظفر اقبال اور دیگر نے پنجاب حکومت کے خلاف اس مظاہرے کی بھرپور حمایت کی۔ پراگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر کامریڈ عمران کامیانہ اور BSO پجار پنجاب کے سیکرٹری کامریڈ ظریف رند نے بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ احتجاجی دھرنے میں شرکت کی اور نرسوں کے تمام تر مطالبات کی نہ صرف غیر مشروط حمایت کی بلکہ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا۔
اس کامیابی کے بعد نرسوں کا عزم پہلے سے زیادہ بلند ہے اور وہ اپنے آپ کو مزید منظم کرنے کی ضرورت پر زور دے رہی ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت دوبارہ موقع پا کر ان حاصلات پر حملہ کرے اور اس نوٹیفیکیشن کو کینسل کر دیا جائے۔ اس کے لیے پورے پاکستان کے صحت کے شعبے کے محنت کشوں کو اکٹھا ہونا ہو گا اور دیگر اداروں کی مزدور تنظیموں کے ساتھ جڑت بنانی ہو گی تا کہ ان حملوں کا مستقل بنیادوں پر تدارک کیا جا سکے اور حکومت کے مظالم کو شکست دی جا سکے۔ میو ہسپتال لاہور میں پہلے ہی اس مقصد کے لیے مزدور رابطہ کمیٹی قائم ہو چکی ہے، دیگر تمام ہسپتالوں میں بھی اسی طرز پر آگے بڑھنا ہو گا۔ محنت کشوں کے پاس کھونے کے لیے صرف زنجیریں ہیں جبکہ پانے کے لیے پورا جہاں موجود ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!