تیونس اور مصرکے انقلابی واقعات سے متاثر ہو کر شام میں پھوٹنے والی انقلابی لہر، زوال پذیری کا شکار ہوکر فرقہ وارانہ خونریزی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک انقلابی قیادت سے محرومی کے باعث امیدیں المیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف امریکی سامراج کا منافقانہ اور دھمکی آمیزتذبذب مضحکہ خیزہے اور واضح طورپر امریکی طاقت کی حدودوقیود کو ظاہرکرتاہے۔ طویل عرصے سے امریکہ اپنے آپ کو کسی کا جوابدہ نہیں سمجھتا‘ تاہم شام کی صورتحال پر اوباما کی ہچکچاہٹ نے دنیا میں طاقتوں کے نئے توازن کو عیاں کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے، امریکہ کی زیر سرپرستی ’’امریکی امن‘‘کی خواہشیں تتر بتر ہوچکی ہیں جس کے انتہائی دوررس اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔ 12 سالوں کی بدترین خونریزیوں اور امریکہ کے قومی خزانے سے تباہ کن انداز میں عسکریت پر بے پناہ اخراجات نے امریکہ کی لڑائی کرنے کی صلاحیت اور جرات کو مضمحل کرکے رکھ دیا ہے۔ عراق اور افغانستان میں جارحیت کی عبرتناک ہزیمت کے بعد سے امریکہ کوشش کر رہاہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے معاملات سے باہر رہے۔ پچھلی دہائی میں امریکہ نے ایشیا کو یکسر نظر انداز کیاہے اور اب وہ چین کے ابھار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس حوالے سے جاپان کوخطے کی طاقت کے طورپر ازسرنو ابھارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم پنٹاگان، سی آئی اے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں براجمان ماہرین اور حکمت سازوں کیلئے اب معاملات اتنے سادہ اور آسان بھی نہیں رہے ہیں۔
بحرانوں، جنگوں، انقلابوں اور رد انقلابوں کا عہد!
سارا مشرق وسطیٰ امریکی دائرہ اختیار سے باہر ہوتاچلا جارہاہے۔ کئی حکومتوں کا پہلے ہی خاتمہ ہوچکا ہے اور ایک کے بعد دوسرے ملک میں انقلاب سطح کے نیچے ابل رہاہے۔ فرانس اور برطانیہ، جن کے بحری بیڑے، تاجر اور افواج کبھی ساری دنیا کو اپنے قدموں تلے روندتے پھرتے تھے، اب اپنے ہی سائے کے پیچھے بھاگتے پھررہے ہیں۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ ان کے لیڈروں کو اب کوئی پوچھتاہی نہیں۔ یورپی یونین کے ممالک اپنے ہی اندرونی وباہمی تضادات کے گھن چکر میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ذلت و ندامت سے نبردآزما روس بھرپور کوشش کررہاہے کہ وہ علاقے میں اپنے اثرورسوخ کو قائم کر سکے اور اس کیلئے وہ اپنی حیثیت سے بھی زیادہ ہاتھ پاؤں ماررہاہے۔ خطے کا ایک اور ’’شیر‘‘ ترکی کا مرد آہن طیب اردگان اپنے ہی ملک میں ڈرامائی طورپرپھوٹ پڑنے والے انقلابی ابھار کی زد میں آیاہواہے۔ کئی سالوں کی انقلابی لہروں اور انتخابی نتائج کی حیرانی کی زد میں آئے ایران میں طاقت کا توازن کھو چکاہواہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل کو بھی بادل نخواستہ ایک تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑ رہا ہے۔ وہاں بھی بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہرطرف بڑھتے ہوئے عدم استحکام نے اسے مجبور کر دیاہے کہ اس کے لیڈر تمام تر روایتی بے چینی کے باوجود سکون کریں۔ صورتحال ایک ایسے خطرناک بارود کی شکل اختیارکرچکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
اس قسم کی پرپیچ کیفیت میں امریکہ مایوس ہوکرایک طرف نہیں بیٹھ سکتا۔ اب بھی اس کے پاس چند ایک آپشن ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی امریکہ کیلئے خوش ذائقہ ثابت نہیں ہوگا۔ عراق میں سے اپنی دُم ٹانگوں میں دبا کر بھاگنے کے بعد اور اسی طرح سے افغانستان میں خجالت و خفت کے بعد سے امریکہ نے دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ ایک دیوہیکل عالمی طاقت ہے نہ کہ کاغذی شیر۔ جس طرح سے ’’ریڈلائن‘‘اور کیمیائی ہتھیاروں کا واویلا کیا جارہاہے، اس سے ہمیں جارج بش کی کذب سرائی یادآجاتی ہے کہ کیسے اس نے’’ ریت میں لکیر‘‘ کھینچ کر صدام کو پیغام بھیجاتھا۔ امریکہ ایک طرف حملہ کرنے کے عزم کی بات کررہاہے لیکن دوسری جانب کسی بھی عملی پیش قدمی سے گریزاں ہے۔
بلاشبہ بشارالاسد نے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس نے ہزاروں لاکھوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاراہے اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں بدل کے رکھ دیے اور یہ سب ’کار خیر‘ اس نے روایتی ہتھیاروں کی مدد سے ہی کیا ہے۔ اسے کیا پڑی تھی کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے سامراج کو شام میں براہ راست مداخلت کا کو ئی موقع یا جواز فراہم کرے؟بشار ایک بے رحم بدمعاش ضرورہے لیکن وہ ایک بیوقوف بدمعاش نہیں ہے۔ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے، اس بات پر شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ کس نے، کس کے حکم پر استعمال کئے ؟یہ ایک سوال ہے۔ کیا یہ کام شامی فوج کے بدمعاش کمانڈروں نے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا؟ کیا یہ کام باغی گروپوں میں سے کسی نے کیا تاکہ غیر ملکی مداخلت کوممکن بنایا جائے؟کیا یہ بشار الاسد کے اپنے حکم پر ہوا؟ سچائی کیاہے، اس کا شاید پتہ نہ چل سکے۔ لیکن مغربی میڈیا کے معروف لفظ’’عالمی رائے عامہ‘‘نے فوری طورپر ہی یہ قرار دے دیا کہ بشارالاسد نے ہی اپنے لوگوں کو گیس کے ذریعے ماراہے اور’’ریڈ لائن‘‘ سے بات آگے بڑھ چکی ہے چنانچہ اب کچھ کیاجائے۔
گھن گرج
امریکہ کے پرانے اتحادیوں نے اس موقع پر آسمان سر پر اٹھالیا کہ اقوام متحدہ فوری طورپر حملے کیلئے منظوری دے اور ایک متفقہ کاروائی کی جائے، سرجیکل بمباری کی ایک مہم شروع کی جائے جس کی مدد سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو کمزور کردیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی باغیوں کی مددسے اور ان کو مدد فراہم کرتے ہوئے فضائی حملے شروع کردیے جائیں اور جس سے بشارالاسداور اس کی علوی حکومت کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اس خیال کو ترکی اور سعودی عرب کی تائید وحمایت میسر تھی۔ ماضی کامزار بن چکی اپنی سامراجیت کے زعم میں مبتلا فرانس اور برطانیہ نے پہل گامی کرتے ہوئی فوری ملٹری ایکشن کا اعلان کردیا۔ لیکن شومئی قسمت کہ برطانوی وزیراعظم کو اپنی پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر شکست ہوگئی، پھر فرانس نے بھی چاروناچاراقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا کہہ دیا۔ جرمنی نے ابتدا میں تو ایکشن کی تائید کی، اسی طرح ڈنمارک جیسے چھوٹے ملک نے بھی جنگ کیلئے اپنی خدمات کی پیشکش کردیں لیکن جلد ہی دونوں نے اپنی پوزیشنوں سے انحراف کرلیا اور اقوام متحدہ پر معاملہ چھوڑنے کا کہہ دیا۔
اس کیفیت نے دنیا کے ’’طاقتور ترین انسان‘‘ کو اپنے دوستوں اور اتحادیوں بارے سوچنے پر مجبورکردیا۔ وہ صرف باتیں کرنے اورشام کی طرف پیش قدمی کی بجائے وائٹ ہاؤس کے آنگن میں اکیلے چہل قدمی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور انحطاط کی شدت کی حالت میں ویسے بھی عالمی پولیس مین بننا کسی طور آسان کام نہیں رہا، لیکن امریکہ نے اپنی کمزوری بھی تو نہیں دکھانی ہے۔ اس کیلئے طاقت کا مظاہرہ ضروری ہے۔ اس کیلئے ایران، روس، چین اورکچھ دیگراپنے سے چھوٹی طاقتوں کو ایک پیغام بھیجاجا نا تھا جو کہ امریکہ کی کمزوری کا ادراک رکھتے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی سوچ رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی شعلہ بیان اور اخلاقی وعظ کی آگ کے پس پردہ صدر اوبامہ کی وہ خواہش ہی جھلکتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو شام پر حملہ کردیاجائے، ایک ساتھ مل کر اور اگر اقوام متحدہ کی آشیرباد نہیں ملتی تو بھی۔
لیکن امریکہ کے طاقتور دائیں بازو نے اس کو اپنے لیے موقع جانا کہ دوسری بار منتخب ہونے کے پہلے ہی سال میں صدراوباما کو ناکوں چنے چبوائے جائیں، اگرچہ بہت کچھ ان کی اپنی منشا کے خلاف ہورہاہے اور یہ لوگ بھی جذباتیت سے ہی کام چلارہے ہیں۔ نیچے سے امریکی عوام کی طرف سے امریکہ کے جنگ میں جانے کے خلاف رائے شدت اختیار کر چکی ہے۔ رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے مطابق 80فیصد امریکی، جنگ کے خلاف ہیں۔ اس کے بعد ڈیموکریٹس نے بھی موقع کو سمجھتے ہوئے اوبامہ سے نظریں پھیر لینا مناسب سمجھا۔ اوبامہ تنہا ہوکرمحض ایسے دوچار مصاحبین تک ہی محدود ہو کے رہ گیا کہ جو اس کے سابق حریف صدارتی امیدوار جان مکین کے ہم مزاج ہیں اور جنہیں ایک ہی راگ ایک ہی گیت یاد ہوتا ہے ’’بم مارو بم‘‘۔
فوری اور تیز ترین تبدیلیاں
پچھلے ہفتے G-20 کی سربراہی کانفرنس شام میں مارے جانے والے لوگوں کی لاشوں کے معاملے پر متوجہ رہی اور بالآخر ان لاشوں کے ٹھیکیدار وں، امریکہ اور روس دونوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ ان کا اس معاملے میں اتفاق نہیں ہوسکتا۔ کانفرنس میں ایک تلخ کیفیت حاوی رہی کیونکہ اوبامہ نے بھر پو کوشش کی کہ وہ حملے کیلئے سپورٹ حاصل کر سکے۔ لیکن بحرانوں، بے یقینیوں اور عدم استحکام کی عالمگیر کیفیت میں تعلقات اور معاملات میں حیران کن ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ یہ موجودہ عہد کا خاصہ ہے۔ تازہ ترین مضحکہ خیز لیکن سنجیدہ کیفیت اس وقت سامنے آئی جب روس اور شام کے وزرائے خارجہ سرجی لواروف اور ولید معلم نے مشترکہ طورپر یہ قراردے دیا کہ بشارالاسد روس کی حکومت کی اس تجویز پر عملدرآمد کیلئے تیار ہے کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو عالمی کنٹرول کے تحت کردے۔ تجویز کے ایک حصے کے طورپر، یہ ہتھیار ضائع کردیے جائیں گے اور شام کیمیائی ہتھیاروں بارے عالمی کنونشن کا حصہ بن جائے گا۔ عین موقع پر کہ جب جنگ مسلط ہونے جارہی تھی، روس اور شام کی جانب سے سامنے آنے والی اس تجویز نے اوبامہ کے جنگ کرنے کے غبارے سے ہوا نکال دی، تاہم اس اعلان سے تمام معززین کا بھرم باقی رہ گیا۔
روس کی طرف سے تجویز آنے اور شام کی جانب سے اسے فوری طورپرتسلیم کرنے کے بعد اوبامہ نے اپنی دُھن تبدیل کرلی۔ اس نے کانگریس سے کہا ہے کہ وہ جنگ پر اپنی ووٹنگ روک لے کیونکہ اب معاملہ سفارتکاری سے حل کئے جانے کی تگ ودو شروع ہو چکی ہے، اوبامہ کو کانگریس سے جنگ کیلئے ہاں کا ووٹ نہ ملنے کا بھی اندیشہ تھا۔ اس دوران اوباما نے اپنے چہرے پر تیوریوں کے مزید بل چڑھالئے تاکہ وہ اپنی بے بسی اورخفت کو چھپا سکے۔
جان کیری کی آ ؤنیاں جاؤنیاں
مذکورہ بالا ڈرامائی کیفیت اس وقت سامنے آئی کہ جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری یورپ کے اپنے طوفانی دورے پر تھا تاکہ اپنے ہم خیالوں کے ساتھ جنگ کیلئے تائید و معاونت حاصل کر سکے۔ اپنی 9 ستمبر کی رپورٹ میں بی بی سی لکھتا ہے ’’ یورپ کے اپنے دورے میں جب جان کیری جنگ کیلئے تائیدوحمایت کیلئے متحرک تھا، اس دوران ایک پریس کانفرنس میں جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا شام کے پاس کوئی راستہ ہے کہ وہ اس جنگ سے بچ جائے تو اس کا جواب دیتے ہوئے کیری نے کہا کہ ہاں اگر شام کی حکومت ایک ہفتے کے اندر اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو عالمی برادری کے حوالے کر دے تو جنگ سے بچا جا سکتا ہے‘‘۔ کیا جان کیری کے یہ الفاظ کسی سفارتی کوشش کی ابتدا کی نشاندہی کرتے ہیں یا پھر یہ ایک غیر محسوس قسم کی ایک اور دھمکی ہے ؟نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اس سفارتی کوشش کے ابتدائی نقش پا، G-20 سربراہی کانفرنس کے دوران اوبامہ اور پوٹن کے مابین ہونے والی گفتگوکی طرف لے جاتے ہیں۔ تاہم یہ آئیڈیا جہاں سے بھی آیا ہو، اوبامہ انتظامیہ نے جان کیری کی پوزیشن کو فوری طورپر سر آنکھوں پر لیا۔ دوسری جانب جان کیری کے ان الفاظ پر سب سے پہلے روس نے تالیاں بجائیں۔ شام کی جانب سے فوری طورپر خیرمقدم کیا گیا۔ اور یوں امریکہ کا متذبذب منصوبہ جنگ کرنے سے پہلے ہی اور بھی کمزورپڑگیا۔
بدترین میں سے بہترین نکالنے کی جستجو!
کچھ ہی گھنٹوں کے اندر اوبامہ کویہ پوزیشن قبول کرنی پڑی کہ اس قسم کا معاہدہ قابل عمل ہوسکتاہے۔ تاہم اس نے مضحکہ خیزاندازمیںیہ بھی کہا کہ شام کے لوگوں کی بہتری کیلئے امریکہ شام کی نگرانی جاری رکھے گا۔ اوبامہ نے قرار دیا کہ ہم کوشش کریں گے کہ اس معاہدے سے ویسے اور وہی مقاصد حاصل کر لئے جائیں جو کہ امریکہ کو جنگ کے نتیجے میں متوقع تھے اور جن کے بعد کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں ہو سکیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں جاری بدترین اور خون آشام خانہ جنگی کی موجود ہ کیفیت میں کیمیائی ہتھیاروں کی جانچ پڑتال، نگرانی اور ان کو ضائع کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوگا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق’’اس قسم کے پروگرام کی نگرانی کرنا، اگر اسے شام قبول بھی کرلیتاہے تو بھی یہ ایک جان جوکھم کا کام ہوگاجو کہ بہت طویل اور صبر آزماہوگا۔ خاص طورپر اس لئے بھی کہ بشارالاسد نے بہت پہلے سے اپناہتھیاروں کا ذخیرہ کہیں چھپا دیاہواہے۔ یہاں تک کہ ایک سخت گیر نگرانی کی مہم کو بھی اپنے مقصد کے حصول میں سالوں لگ سکتے ہیں کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کا سراغ لگا سکے اور وہ بھی اس بے یقینی کی کیفیت میں کہ یہ ہیں بھی یا نہیں۔ ایسا ہی جواز بناکر صدر بش نے 2003ء میں عراق پر جارحیت کی تھی۔‘‘
لیکن اسی مضمون میں جریدہ نیویارک ٹائمزنے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ’’اوبامہ کی جانب سے نئے موقف (روسی منصوبے ) کو تسلیم کرنے سے اوبامہ کو اس عسکری جارحیت سے بچنے کا موقع ملا ہے جس کا حکم جاری کرنے کیلئے وہ ہچکچا رہاتھا۔ یہ ایک ایسی کیفیت میں ہوا کہ جب کیپیٹل ہل میں جنگ کی اجازت دینے کے معاملے پر سپورٹ حاصل کرنے کی امید ہاتھ سے پھسلتی چلی جارہی تھی، یہاں تک کہ شروع میں جو پارلیمنٹیرین حملے کے حق میں تھے، وہ بھی پیچھے ہٹ گئے تھے‘‘۔
سی این این کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں صدر اوبامہ نے روس کی جانب سے لائی گئی تجویز کو ایک مثبت قدم قراردیا، تاہم یہ بھی ساتھ کہاکہ شام پر عسکری حملے کے تاثر کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس نے روس کی تجویز اور اس پر شام کی آمادگی کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ چونکہ امریکہ سختی سے حملے کے موقف پر قائم رہا، اسی لئے تو یہ ممکن ہورہاہے۔ سی این این نے اس موقع پر جو سرخی جمائی وہ یہ تھی ’’شام نے گھٹنے ٹیک دیے‘‘۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ٹانگیں امریکہ کی کانپ رہی تھیں۔
امریکی حکمران طبقات میں دراڑیں
امریکہ کے اندر اوبامہ کیلئے پچھلے کئی ہفتوں سے صورتحال بدسے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، اور اس پر مستزاد عالمی سطح پر پریشان کن کیفیت ہے۔ اوبامہ کئیر سے لے کر تجارتی خسارے کی انتہا تک، امیگریشن اصلاحات سے لے کر سوشل سکیورٹی میں کٹوتیوں تک، اوبامہ کی سب مشہور پالیسیاں یا تو تعطل کا شکار ہوچکی ہیں یاپھرمنظرنامے سے باہر ہوگئی ہیں۔ سب کچھ شام کے بحران کی لپیٹ میں آیاہواہے۔ یہ سب ظاہرکرتاہے کہ امریکی حکمران طبقہ کس قدر ٹوٹ پھوٹ اور اضطراب کا شکار ہوچکاہے کہ وہ مستقبل میں پیش آنے والے طوفانی واقعات سے وہ کس طرح سے نمٹے گا؟بحران کی وجہ سے پہلے ہی وائٹ ہاؤس اور پنٹاگان کے درمیان تضادات بڑھ رہے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ میجر جنرل اور امریکی وارکالج کے سابق کمانڈر، رابرٹ ایچ سکیلز نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں امریکی فوج کی بالاپرت کے نقطہ نظرکو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ سب لوگ اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی قابل عمل اورموثر حکمت عملی نہ بناسکنے کی نادانیوں کے ہاتھوں بہت تنگ آچکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کسی ایک کوبھی جنگ بارے کوئی تجربہ ہے نہ ہی کوئی فہم و ادراک۔ جہاں تک اس کیفیت کا تعلق ہے یہ تو بہر طور جنگ کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ہماری تو حیرانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔‘‘یہ حقیقت ہے کہ امریکی فوج کے کچھ حصے یہ چاہ رہے ہیں کہ ان کا موقف زیادہ واضح انداز میں لوگوں کے سامنے آتا رہے اور اس کی وجہ سے امریکی حکمران طبقات میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
کس کے داؤ کس کے پیچ!
اس بات کو سمجھنے کیلئے کہ سطح کے نیچے کس قسم کے تضادات موجود ہیں، ہمیں ظاہروموجود سے بلندوبالاہوکر دیکھنا اور پرکھنا ہوگا۔ شام کے اندر کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے نہ توپہلے کبھی اصل وجہ تھی نہ ہی اب ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شامی حکومت اپنے خلاف مورچہ زن باغیوں کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بشارحکومت اور اس کی فوج کسی قسم کے کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کئے بغیریہ کرنے کی اہل ہے۔ شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کو عالمی کنٹرول میں دینے کا وعدہ کر لینے سے اس کی زمینی طاقت کی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ اس کے بعد اس کی طاقت میں اضافہ ہوجائے۔ بشار حکومت یہ کہہ سکے گی کہ اس نے عالمی مطالبے کو تسلیم کیاہے۔ اس کے بعد اسے کھلا موقع مل جائے گا اوروہ روایتی ہتھیاروں کی مددسے باغیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے مزید مستعد ہو جائے گی۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی ایک مضمون میں واضح کرچکے ہیں کہ امریکی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کو ایک بہانے کے طورپر استعمال کرکے شام میں مداخلت کارستہ ہموارکرناچاہتی ہے۔ لیکن یہ سب محض ایک بہانہ بازی ہے۔ اوبامہ، کیمرون، ہالینڈے یہاں تک کہ پوٹن تک کو بھی شام کے لوگوں کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ شام کے لوگ ان حکمرانوں کی جیو پولیٹیکل حکمت سازی کا محض ایک بہت چھوٹاجزوہیں۔ امریکی سامراج کا حقیقی مقصد شام کی حکومت کو کمزورکرنااور اس کے گھٹنے ٹکواناہے تاکہ ایسی کیفیت پیداہوجائے کہ نہ تو حکومت نہ ہی باغیوں کو بالادستی حاصل ہو سکے۔ اس کے بعد لامحالہ دونوں تھکے ہارے متحارب فریقین کو مذاکرات کیلئے تیار کیا جائے گاجن کے ذریعے مختلف سامراجی حکومتوں کے مفادات کی بندر بانٹ آسان ہو سکے گی۔ اس حکمت عملی پر کام کیلئے ضروری ہے کہ وہاں جاری خانہ جنگی کو طوالت دی جائے، اس امید کے ساتھ کہ آپس میں لڑ لڑ کر دونوں فریق ادھ موئے ہو جائیں گے۔ اس وقت تک اس لڑائی کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لڑائی کے مزید طول اور شدت پکڑنے کا مطلب ہوگا مزید انسانوں کی موت لیکن یہ اموات قابل قبول ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ کیمیائی ہتھیاروں سے نہیں ہوں گی !
اس حکمت عملی کے ذریعے بشارالاسدکا خاتمے یا خاموشی سے اسے منظر عام سے ہٹانا مقصود ہے، جبکہ اس کی حکومتی مشینری کا بڑاحصہ قائم رہے گا۔ سامراجی وہ غلطی نہیں دہراناچاہیں گے جو کہ وہ عراق میں کر چکے، جہاں انہوں نے نہ صرف صدام کو بلکہ اس کے ریاستی اور عسکری ڈھانچے کو بھی اکھاڑ پھینکاتھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں ایک ایسی آگ بھڑک چکی ہے جو کسی کے بھی قابو میں نہیں ہے۔ لیکن سامراجی بشارالاسد کے خلاف جن باغیوں کی پشت پناہی کرتے آرہے ہیں، وہ بھی ناقابل اعتبار ہیں۔ ان میں سے بیشتر القاعدہ سے منسلک جہادی ہیں۔ بشارکے گرنے کے بعد پیداہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ عناصر شام کو عراق اور لبنان کی مانند ایک خونریزتماشے میں تبدیل کر دیں گے۔ تاہم محسوس ہوتا ہے کہ باغیوں کو شام پر حملے کے ذریعے کوئی مدد فراہم کرنے کا موقع اوبامہ کے ہاتھوں سے نکل چکاہے۔ اس کے ہاتھ اپنے ہی ملک میں جنگ مخالف وسیع عوامی مزاحمت اور روس کی نئی سفارتی چالبازی نے باندھ دیے ہیں۔
آخرکار ایک ایسی پوزیشن آئے گی کہ جب ہر ایک کو اپنی اپنی عزت بچا کر صورتحال سے باہر نکلنے کی سوجھے گی لیکن اس کے ساتھ ہی ہر ایک جانتا ہے کہ سچائی کیا ہے۔ اوبامہ اور جان کیری کو پوٹن اور بشار نے سفارتی سازشوں سے لاچار کر دیا ہے۔ یہ حقیقت کہ امریکی سامراج کی اس حالیہ کاوش کو سخت دھچکا لگاہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو دکھانا چاہ رہاتھا کہ وہ کتنا طاقتور ہے۔ یہ امریکی سامراج کی عالمی پیمانے پرہر لحظہ کم اور کمزور ہوتی طاقت کا بدیہی اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا ترش پھل ہے جسے اوبامہ کو چاروناچار چکھناپڑے گا۔
جہاں تک شام کے محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کا تعلق ہے، ان کی مایوسی اور حالت زار پہلے جیسی ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ان کیلئے نہ کوئی نجات ہے، نہ حال، نہ مستقبل۔ وہ دونوں طرف سے مارکھا رہے اور مر رہے ہیں اور وہ دونوں سے تنگ آئے ہوئے۔ شام کے عوام کی سماجی طاقت محنت کش طبقہ، کسان اور انقلابی نوجوان ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ قیادت سے محروم اور مایوسی کی حالت میں ہیں۔ شام کی صورتحال کا یہی حقیقی المیہ ہے۔ اگر وہاں سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام سے لیس کوئی پارٹی ہوتی جو محنت کشوں کو ایک لڑی میں پروکر انہیں منظم ومتحرک کرسکتی تو آج شام میں صورتحال کچھ اور ہو تی۔ لیکن ایسی کوئی تنظیم یہاں وجود نہیں رکھتی۔ اسی کے باعث ہی دوسرے رجعتی اور وحشی عناصر صورتحال میں در آئے ہیں اور جنہوں نے بشارالاسد کے خلاف ایک انقلابی ابھار کو ایک فرقہ وارانہ نسلی و مذہبی خونریزی میں تبدیل کر کے رکھ دیاہے۔ نجات کا واحدراستہ انتہائی صبروتحمل کے ساتھ یہاں ایک موضوعی عنصر کی تعمیر ہے، محنت کشوں کی ایسی پارٹی جو کہ حقیقی مارکسزم کے پروگرام کی بنیادوں پر استوار ہواور جو لازمی طور پر شام کے عوام کی اس خواہش کی ترجمانی اور نمائندگی کرتی ہو کہ بشارکی مردود حکمرانی کو اکھاڑ کراس کی جگہ ایک مزدور جمہوریت قائم کی جائے۔ ایسا صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے اوریہ انقلاب مشرق وسطیٰ سمیت شمالی افریقہ کیلئے بھی مشعل راہ ہوگا۔ یہ ایک کٹھن ہدف ہے لیکن اس کے علاوہ جمود سے نکلنے کااور کوئی راستہ بھی نہیں!