جہاں مالی مفادات، سیاسی طاقت اور خارجہ پالیسی پر اختلافات کی وجہ سے پاکستان کے حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے درمیان تناؤ شدت پکڑ رہا ہے وہاں اس سماج کے باسیوں کی وسیع اکثریت کے لئے غربت، محرومی اور بے روزگاری کی اذیتوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ صورتحال بحثییت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کے شدید معاشی، سیاسی اور سفارتی بحران کی غماز ہے۔ لینن نے قبل از انقلاب صورتحال کی سب سے بڑی نشانی حکمران طبقے کے آپسی تضادات کی شدت کو قرار دیا تھا۔
آج کارپوریٹ میڈیا پر یہ بحث زور و شور کی جاری ہے کہ امریکی امداد کو مسترد کیا جائے یا پھر بھیک کا یہ سلسلہ جاری رہنے دیا جائے۔ نواز لیگ سمیت سیاست پر حاوی تمام سیاسی پارٹیوں کا یہ وطیرہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے یا اپوزیشن میں ہوتے ہوئے قومی غیرت اور ملکی سالمیت کے نعرے لگائے جاتے ہیں جبکہ برسراقتدار آکر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلا دئیے جاتے ہیں۔ نعرے بازی سے ہٹ کر اس ملک کے معیشت دانوں اور سیاسی جگادریوں کے پاس وہ صلاحیت اور جرات ہی نہیں ہے کہ عملی طور پر اس ملک کو سامراجی امداد کے گھن چکر سے آزاد کروا سکیں۔ پاکستانی سرمایہ داروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے وقت میں ’’آزاد‘‘ ہوئے جب تاریخی طور پر بہت دیر ہوچکی تھی۔ تکنیکی پسماندگی اور مالیاتی کمزوری نے انہیں ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی بورژوازی کے مرہون منت کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک الگ ریاست کے حصول کے بعد یہاں کے حکمرانوں نے امداد کے لئے فوراً سے پہلے سامراجی ممالک کا رخ کیا۔ سامراج ’’امداد‘ ‘ اور قرضوں کی آڑ میں ترقی پزیر ممالک کی دولت، محنت اور وسائل کو بے دردی سے لوٹتا ہے۔ سامراجیت کے معنی ہی یہی ہیں۔ پاکستانی ریاست اپنے کل بیرونی قرضوں سے کہیں زیادہ رقم سامراجی سود خوروں کو ادا کر چکی ہے لیکن قرضے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بجلی، ٹیلی کمیونی کیشنر، ادویات اور بینکنگ سمیت صنعت اور معیشت کے کلیدی شعبوں پر غیر ملکی کاپوریٹ اجارہ داریاں قابض ہیں اور بے دریغ منافع خوری کر رہی ہیں۔ پاکستان جیسی معیشتیں ہمیشہ تجارتی، مالیاتی اور بجٹ خساروں میں رہتی ہیں۔ سامراجی امداد اور قرضے ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے مالیاتی مفادات اور شرح منافع میں اضافے کے لئے موافق شرائط ساتھ لے کر آتے ہیں۔ ایک صحت مند سرمایہ دارانہ معیشت اور جدید صنعتی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ناکام ہوجانے والے ہمارے حکمران طبقات اس تمام تر کاروبار میں کمیشن ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ اس اقتصادی استحصال اور سامراجی لوٹ مار کا تمام تر بوجھ مہنگائی کی شکل میں یہاں کے محنت کش عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے کھل کر تسلیم کرنے کے لئے کوئی ’’دانشور‘‘ یا سرکاری معیشت دان تیار نہیں ہے۔ سب کے سب اسی نظام کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ اسی نظام سے یہاں کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور سول و فوجی افسر شاہی کے مالیاتی مفادات وابستہ ہیں۔
سرمایہ داری کوئی ملکی یا قومی نظام نہیں ہے۔ کرہ ارض پر موجود مختلف سیاسی یونٹوں یا قومی ریاستوں میں یہی نظام اپنی مختلف کیفیات اور درجات کے ساتھ موجود ہے۔ اس ملک میں معیشت پر ہونے والے بحثوں میں اس بنیادی حقیقت کو یکسر نظر انداز اور حذف کر دیا جاتا ہے۔ آج عالمی طور پر سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت امریکہ دنیا کے سب سے بڑا مقروضوں میں سے ایک ہے اور شدید ترین مالیاتی و تجارتی خساروں کے شکار ہے۔ امریکہ کا ریاستی قرضہ 16 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اس کا مجموعی قومی خسارہ 1700 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ ستمبر 2012ء کے بعد سے امریکہ کے ریاستی قرضے میں 2.65 ارب ڈالر روزانہ کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی تجارت میں ڈالر کا بطور کرنسی استعمال ہی امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے عارضی طور پر بچائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ امریکی قرضے کے بڑے حصے کو چین، جاپان اور کچھ عرب ممالک نے خریدا ہوا ہے کیونکہ ان طاقتوں کے تجارتی، سیاسی اور معاشی مفادات امریکی سامراج سے وابستہ ہیں۔ تاہم سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے قوانین کے مطابق قرضوں اور خساروں کا یہ سلسلہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکتا۔ امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیاں (ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز) اس بحران کی شدت سے خوفزدہ ہیں جو امریکی سامراج کی طاقت اور رعونت کو کھوکھلا کرتا چلا جارہاہے۔
ماضی میں سامراجی قوتیں جنگیں کروا کر اسلحہ سازی کی صنعت کے منافعوں کے ذریعے اپنی معیشتوں کو سنبھالا دیتی تھیں جبکہ جنگ کے بعد تعمیر نو کے ٹھیکوں کے ذریعے معیشت کے دوسرے شعبوں کو منافعے دلوائے جاتے تھے۔ لیکن یہ جنگیں اب اتنی آسان نہیں رہی ہیں اور امریکی ریاست اپنے فوجی بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہے۔ 2011ء میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ ایم گیٹس کا یہ بیان صورتحال کی نزاکت کو بیان کرتا ہے کہ ’’مستقبل میں اگر کوئی وزیر دفاع امریکی صدر کو ایشیا یا مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کا مشورہ دیتا ہے تو میرے خیال میں اسے پہلے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے۔‘‘ دفاعی بجٹ میں کٹوتیاں امریکی ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ یعنی اسلحے کی سب سے منافع بخش صنعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں جبکہ اسلحہ ساز صنعت سے رشوت اور کمیشن کھانے والے امریکی سیاستدان آج کل سینٹ اور ایوان زیریں میں ان کٹوتیوں کو رکوانے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس وقت دنیا کے 120 ممالک میں امریکہ کے 87000 فوجی تعینات ہیں۔ اگر عسکری بجٹ میں بڑی کٹوتیاں کی جاتی ہیں تو سامراجی تسلط کو کاری ضرب لگے گی اور اگر نہیں کی جاتیں سامراج کی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ اوبامہ نے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے پر الیکشن جیت کربرسر اقتدار آتے ہی بڑے بینکوں کو اربوں ڈالر کے ’’بیل آؤٹ‘‘ دئیے۔ اس کے علاوہ ڈالر چھاپنے کے عمل کو تیز کرکے کارپوریٹ اجارہ داریوں کو صفر شرح سود پر قرضے دلوائے گئے۔ اس وقت امریکہ میں ماہانہ 85 ارب ڈالر کے کرنسی نوٹ چھاپے جارہے ہیں۔ امریکی ریاست، سیاست اور ’’جمہوریت‘‘ ہمیشہ سے سرمائے کی غلام رہی ہے۔ اگر امریکی کانگریس میں سماج کے کسی حصے کی نمائندگی موجود نہیں ہے تو وہ امریکی محنت کش ہیں۔ چھ سالہ اقتدار کے بعد 4 دسمبر 2013ء کو واشنگٹن میں اپنے خطاب کے دوران اوبامہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ ’’بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری ’امریکی خواب‘ کے لئے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ کمپنیوں کے ایگزیکٹو افسران کی آمدن جو ماضی میں ایک عام مزدور سے 20یا 30گنا زیادہ ہوا کرتی تھی آج 273گنا ہوچکی ہے۔ ‘‘کل قومی آمدن میں امیر ترین ایک فیصد افراد کا حصہ 25فیصد جبکہ امیر ترین 10 فیصد کا حصہ تقریباً 50 فیصد ہے۔ 1966ء سے 2011ء تک امیر ترین 10 فیصد امریکیوں کی آمدن میں اوسطاً 116,071 فی کس جبکہ باقی کے 90 فیصد شہریوں کی آمدن میں صرف 59ڈالر فی کس کا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں عام امریکی خاندان کی آمدن میں 4.2 فیصد کی کمی ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف ارب پتیوں کی تعداد ددوگنا ہو چکی ہے۔ لوکل میونسپل اداروں کی کٹوتیوں سے 6 لاکھ افراد بے روزگار جبکہ لاکھوں سرکاری ملازمین پینشنوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
nbsp; ہمارے حکمران سامراجی امداد یا یورپی منڈیوں کے حصول پر جشن مناتے ہوئے عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ امریکہ اور یورپ کے اپنے باسیوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنی رعایا کے منہ سے نوالے چھیننے والے سامراجی حکمران ہمیں کیا امداد دیں گے؟ سامراج کی طرف سے پاکستانی حکمرانوں کی طرف چند سکے اچھالنے کی شرائط بھی تلخ سے تلخ تر ہوتی جائیں گی۔ آج دنیا کے ہر خطے میں مہنگائی، بیروزگاری، کٹوتیاں، قوت خرید میں کمی اور عوام پر بڑھتے ہوئے ٹیکس معمول بن چکے ہیں جو بطور نظام سرمایہ داری کی تاریخی تنزلی کا اظہار ہے۔ نام نہاد لبرل، سیکولر اور سابقہ لیفٹ کے دانشور اور سیاستدان ہوں یا مذہبی جماعتیں اور ملا، کسی کے پاس ٹھوس سائنسی بنیادوں پر اس نظام کا متبادل موجود نہیں ہے۔ حاوی سیاست پر براجمان تمام رجحانات اور چہرے اسی استحصالی نظام کی پیداوار اور ہیں اور اسے قائم رکھنے پر ان کے درمیان کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ کب تک عوام کو اپنی جعلی لڑائیوں اور نان ایشوز میں محو رکھ پائیں گے اس کا فیصلہ محنت کش طبقے کی تحریک ہی کرے گی!