24 مارچ کو سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف کراچی ایئر پورٹ پر پہنچے اور ایک ایسے جلسہ عام سے خطاب کیاجس میں عوام کا شائبہ تک نہیں تھا۔ آئین، قانون اور پارلیمانیت ایسی ہولناک قیاس آرائیاں ہیں جنہوں نے پاکستانی نام نہاد دانشوروں کو عجیب و غریب سیاسی توہمات کا شکار کردیا ہے
لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ یہ خواتین و حضرات ہمدردی کے مستحق ہیں کہ یہ بھٹک گئے ہیں بلکہ ان کو ان سیاسی واہموں میں مبتلا ہونے، رہنے اور زیادہ سے سے زیادہ لوگوں کو اس دلدل میں بخوشی غرق ہو جانے پر اکسانے کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ پرویز مشرف نے جس میڈیا پر ’آمرانہ ‘پابندیاں لگائی تھیں، وہی اس کی آمد پر پُرتپاک استقبال کی منظر کشی کررہا تھا، جس عدلیہ کو اس نے زد و کوب کیا اور بد ترین سلوک کیا وہی عدلیہ اس کے تمام جرائم کے خلاف اس کی ضمانت قبل از گرفتاری لینے پر مجبور ہوئی، وہی پارلیمنٹ جس کو اس نے ایک عشرے تک اپنی انگلیوں پر نچایا، وہ محض تماشائی بنے رہے۔ نواز شریف جس کو پرویز مشرف نے ذلیل و رسوا کیا وہ بھی معنی خیز خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن اس میں حیران ہونے کی تو کوئی بات نہیں یہی تو اصل میں جمہوریت کا حقیقی حسن ہے۔ پرویز مشرف کی طرف سے ورثے میں چھوڑی گئی جمہوریت کے پانچ سالہ جشن کی تقریبات بھی تو ابھی تک منائی جا رہی ہیں تو پھر کیوں نہ مشرف کو بھی اس جشن میں شامل کر لیا جائے۔ اگر مخلوط حکومت میں شامل پارٹیوں کا حکومت کے خلاف احتجاج اور حزبِ اختلاف کا حکومت کی تائید کرنا جمہوریت کا حسن ہو سکتا ہے تو جمہوریت کے قاتل پرویز مشرف کا جمہوریت کی کامیابی کے جشن میں شامل ہونا ہی تو جمہوریت کی فتح کا منہ بولتا ثبوت ہو گا۔
آئیے اس مصنوعی جشن کے نیچے دبے زندہ حقائق پر ایک نظر ڈالیں۔ جو لوگ فوج کی داخلی کمزوری کی وجہ سے اس کے براہِ راست اقتدار میں آنے کی نا اہلیت کی بنا پر پورے ہونے والے جمہوری دورانیے کو سیاسی طور پر آگے کا قدم قرار دے رہے ہیں، وہ اگر دیکھ سکتے ہیں تو ملاحظہ فرمائیں کہ اس آگے کے قدم کے نیچے دب کر آبادی کی اکثریت کا کیا حال ہوا ہے۔ اگر اس طرح کا ایک اور آگے کی جانب قدم اٹھایا گیا تو عوام کا تو کچومر نکل جائے گا۔ روزمرہ کے استعمال کی قیمتوں کا اگر جائزہ لیں تو شاید ہی کوئی اپنے حواس برقرار رکھ پائے۔ 70 فیصد کے لگ بھگ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جمہوریت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ روزانہ 30 ہزار سے زائد افراد کو جمہوریت سے بغل گیر ہونے کا موقع ملتا ہے۔ بنیادی ضرورتوں کی قیمتوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے قد و قامت پر نظر ڈالنے کے لیے گردن آسمان کی طرف کرنی پڑتی ہے، اور اسے دیکھ کر غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کے دیئے گئے غیر سرکاری اعداد و شمار پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔
حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوں سے قطع نظرریاستی خلفشار کے پس منظر میں معیشت کی زبوں حالی آب وتاب سے جاری ہے۔ حکومت کا قرضوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اگر پچھلے پانچ سالوں کا جائزہ لیا جائے تو ریاستی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم حیران کن ہے۔ جو 2008ء کی نسبت 150 فیصد اضافے کے ساتھ اس وقت 15 ہزار ارب روپے کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ اور سال 2012ء کے اختتام پر ریاستی قرض جی ڈی پی کی 68.4 فی صد کی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ مرکزی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق سال 2010ء کے بعد اندرونی قرضہ 4.5 کھرب روپے سے دوگنا ہو کر 8.1 کھرب روپے ہو چکا ہے جبکہ بیرونی قرضہ 20 فیصد اضافے کے ساتھ 5 کھرب روپے سے بڑھ کر 6.05 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ ریاستی قرضوں میں اضافہ 2008ء میں 8.3 فیصد تھا اور بعد کے سالوں میں بالترتیب5.2 فیصد، 3.9 فیصد اور 1.6 فیصدرہا جبکہ سال 2012ء میں یہ اضافہ 7.9 فیصد ہو گیا۔ جبکہ آمدن کی نمو 2008ء میں منفی 0.6 فیصد، 2009ء میں کچھ اضافے کے ساتھ 2.9 فیصد، 2011ء میں ایک مرتبہ پھر منفی 8.3 فیصد تک گری جبکہ 2012ء میں یہ نمو 3.9 فیصد رہی۔ یہ موجودہ جمہوری حکومت کی پانچ سالہ ’’کارکردگی‘‘ کا جائزہ لینے کے لیے کافی ہے۔
حقائق سے قطع نظر پاکستان کی مردم شماری کی تنظیم کے مطابق فروری 2013ء میں پاکستان کی آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ بیس لاکھ ہے۔ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس(HDI) مطابق پاکستان کی 60.3 فیصد آبادی 2 ڈالر یومیہ یا اس سے بھی کم آمدن پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس 10 کروڑ کی آبادی سے ٹیکس دینے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ لیبر فورس سروے (LFS) کے 2010-11ء کے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان میں بر سرِ روزگار افراد کی تعداد تقریباً5 کروڑ38 لاکھ ہے۔ اور قانوناً 33 ہزار ماہانہ یا 4 لاکھ سالانہ کی آمدن والوں کو ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ اس طرح سے صرف پاکستان کی کل آبادی میں سے ایک لاکھ لوگ ایسے ہیں جو ٹیکس دینے کے قابل ہیں۔ اگر پاکستان میں GDP کے حصہ داروں کو دیکھا جائے تو اس میں خدمات کا 53.3 فیصد، صنعت کا 25.8 فیصداور زراعت کا 20.9 فیصدحصہ ہے۔ لیکن اگر ٹیکس دینے والوں کے حقیقی اعدادوشمار دیکھے جائیں تو 11 کروڑ موبائل استعمال کرنے والے، 2 کروڑ بجلی کے صارفین، سوئی نادرن اور سوئی سودرن میں سے ہر ایک کے 20 لاکھ صارفین بلا ناغہ ریاست کو ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا ہر فرد کسی نہ کسی طور کوئی ٹیکس دے رہا ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست اتنے سارے ٹیکس جمع کرنے کے باوجود ان ٹیکسوں سے حاصل کیا گیا پیسہ عوام پر صرف کرنے سے قاصر ہے۔ ریاستی اخراجات میں سر فہرست کابینہ کے اخراجات یومیہ 8 کروڑ، صدارتی ہاوس کے یومیہ 13 لاکھ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے یومیہ 15 لاکھ ہیں۔ جس سے ہمیں واصح طور پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت کے پاس عوام کے مسائل کے حل کا نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی آنے والے وقت میں کوئی امکان ہے۔
20 مارچ کے ڈیلی ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2008ء میں پیٹرول 56 روپے لیٹر تھا جو اب 103 روپے ہے، اور ڈیزل 39 سے 110 روپے پر پہنچ گیا ہے۔ جمہوری حکمرانوں نے اوسطاً 300 کروڑ نوٹ چھاپے لیکن پھر بھی ان کی لوٹ کی ہوس کی تسکین نہ ہو پائی۔ اسی افراطِ زر کی وجہ سے ڈالر بھی سینچری کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ بھی ایسی کیفیت میں جب وہ خود بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں کھیل رہا تھا۔ لیکن پیٹرول اور ڈالر کی قیمتیں ہی عمومی طور پر تمام اجناس کی قیمتوں پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتی ہیں۔ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والی اجناس کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھی ہیں۔سی این جی 30 سے 75 روپے تک جاپہنچی او رپھر بھی دستیاب نہیں ہے جس نے بالعموم ساری عوام کو اور بالخصوص شہری محنت کش طبقے اور عوام کے لیے سفر کرنا ایک نا قابلِ برداشت اذیت بنا دیا ہے۔ ایک CNG سٹیشن پر ایک کلو میٹر کے برابر لائن میں لگی ہوئی گاڑی کے مسافر سے زیادہ جمہوریت کا مزہ کس نے چکھا ہو گا۔ روزگار حاصل کرنا، اپنا گھر بنانا، خاندان کی تعلیم اور صحت، نئے کپڑے جوتے، عزیز و اقارب کی شادی بیاہ میں شرکت، دیگر رسو م و رواج اور تہوار یہ سب چیزیں تو 80 فیصد لوگوں کے لیے دیو مالائی کہانیاں سی محسوس ہوتی ہیں، اکثریت نے تو اس کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اس با وقار جمہوری دور میں 10 عیدیں منائی گئیں اور ہر عید ایک قیامت کی طرح گزری، 5 آزادی کے جشن منائے گئے اور اس آزادی کا کرب اعصاب کو مختل کرتا رہا۔ واہ یہ جمہوریت تو عوام کی توقع سے کہیں زیادہ حسین و جمیل نکلی۔
لیکن زندہ رہنے کے لیے آخر کچھ کھانا تو پڑتا ہی ہے۔ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کچھ اس تناسب سے ہوا۔ آٹا 182 روپے فی دس کلو سے 368 روپے، باسمتی چاول فی کلو 38 سے 70 روپے، بڑا گوشت 125 سے 350 روپے، زندہ مرغی 84 سے 134 روپے فی کلو، بکرے کا گوشت 237 سے 550 روپے، دودھ فی لیٹر 31 سے 75 روپے، کیروسین تیل 44 سے 119 روپے فی لیٹر۔ لیکن انتہائی غریب لوگوں کی غذائی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ حقیقی تصویر کشی کرتا ہے۔ ٹماٹر 29 سے 63 روپے، پیاز 17 سے 38 روپے، آلو 16 سے 22 روپے، دال مونگ 53 سے 115 روپے، ماش 72 سے 131 روپے، چینی 28 سے 52 روپے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف سندھ میں 70 فیصد سے زیادہ گھرانے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ باقی ملک کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔ دیگر روزمرہ کے استعمال کی چیزیں مثلاًکپڑے دھونے والی صابن 10 سے 22، نہانے والی صابن کی اوسط قیمت 19 سے 32 روپے، چائے کا ایک کپ 6 سے 20 روپے تک جا پہنچا۔ پینے کا پانی بھی تیزی سے نایاب ہوتا جا رہا ہے۔
کیا ہی دلچسپ مضحکہ ہے کہ بظاہر 5 سالہ اقتدار کی مدت پوری کرنے والی پہلی پاکستانی حکومت 66 سالوں کی سب سے کمزور اور لاغر حکومت تھی جن کے منہ میں سونے کا چمچ تو ضرور تھا مگر پیروں تلے زمین نہیں تھی۔ خدا خدا کر کے پانچ سال کاٹے اور جوں جوں حکومت کے بارے میں غیر یقینی بڑھتی رہی لوٹ مار میں اتنی ہی شدت آتی چلی گئی۔ اپنے پانچ سالہ دور میں جمہوریت ایک خونخوار ریاست کے مختلف درندوں اور ان کے آقاؤں کے مابین طاقت کے توازن میں نشیب و فراز کے ساتھ ہی ہچکولے کھاتی رہی اور اس دوران ٹارگٹ کلنگ، ڈرون حملوں، بم دھماکوں میں معصوم انسانوں کے قتل کا بھیانک تماشا بھی دیکھتی رہی۔ داخل یا خارجہ کسی بھی پالیسی پر آزادانہ جمہوری فیصلوں کا تناسب اس جمہوری فتح کے دوران تاریخ میں سب سے کم رہا۔ ایک ہاتھ سے تو اس جمہوریت نے بھوک، افلاس اور بیماری سے لوگوں میں موت تقسیم کی، تو دوسرے ہاتھ سے دہشت گردی کے ذریعے انسانی جسموں کے چیتھڑے چار سو اس طرح بکھیرے جیسے کوئی بہت مالدار سخی بھکاریوں پر سکے نچھاور کر رہا ہو۔ قوم، نسل، زبان، مذہب، فرقہ کونسا تعصب تھا جس کو پروان نہیں چڑھایا گیا۔
لیکن اسی ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ایک ہی قوم، نسل، زبان، مذہب اور خدا ہے، اور وہ ہے سرمایہ۔ اس خدا کے پجاریوں نے اس جمہوریت میں لوٹ مار کی انتہا کردی اور ان کے تعیش میں مسلسل اضافہ ہوتارہا اور وہ لاشوں کے ڈھیر پر منافعوں کے شادیانے نجاتے رہے۔ خاص طور پر بینکوں کے منافع جات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ اس وقت سرمایہ داری کا ایک عالمی منظر نامہ ہے کہ تاریخ کے بدترین بحران میں بھی بینکوں نے تاریخی منافع کمایا ہے۔ 2012ء میں منافعوں کی شرح 2007ء یعنی عروج کے دور سے بھی زیادہ ہے۔ گزشتہ برس کے دوسرے کوارٹر میں FDIC کی رپورٹ کے مطابق بینکوں کے منافع 34.5 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے تھے۔ پاکستان کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ 2012ء کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان میں بینکوں نے مجموعی طور پر 93.7 ارب روپے کا منا فع کمایا جبکہ 2011ء کے اسی دوارنیے میں کل منافع 75.5 ارب روپے تھا۔ یعنی گزشتہ برس اس میں 24 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ایسی کیفیت میں جب ریلوے، پاکستان سٹیل، واپڈا، PIA سمیت دیگر تمام ادارے برباد ہو چکے ہوں تو مٹھی بھر لوگوں کے پاس اتنی دولت کا جمع ہو جانا ہی سرمایہ داری کا اصل تضاد ہے۔ جسے میر تقی میر دو سو سال پہلے ہی جان گیا تھا جب اس نے کہا تھا ’’امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر، کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے۔‘‘
اب یہ مجتمع شدہ سرمایہ انہی تباہ حال اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے کے لیے بے چین ہے تاکہ عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑا جا سکے اور ان کو توقع ہے کہ اگر جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا تو وہ ضرور اس کاوش میں سرفراز ہوں گے۔ کیونکہ یہ جمہوریت تو آمریت سے بھی زیادہ ان کی باندی ہے۔ یہ ہے جمہوریت کا اصل چہرہ، طبقاتی جمہوریت، جمہور کش جمہوریت۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام میں صرف سرمایہ داروں کی جمہوریت ہی ہو سکتی ہے اور عوام کی اس جمہوریت میں خوش فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں ایک غلیظ اور مکروہ جرم ہے جو میڈیا کے نامور دانشور بڑے تفاخر سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
خانہ جنگیوں سے لے کرانتخابات تک پاکستان میں ہونے والے تمام واقعات، ان کی وجوہات اور نتائج کو صرف طبقاتی بنیادوں پر ہی سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ملک میں بجلی کا بحران ہے تو ایسے محل بھی تو ہیں جہاں کبھی بجلی نہیں گئی۔ اگر اندرونِ ملک سفر کرنا بھی ایک عذاب بن چکا ہے تو ایسے لوگ بھی تو ہیں جو دنیا بھر کی سیر کرتے پھرتے ہیں۔ اگر عوام علاج نہیں کرا سکتے تو ایسے خواتین و حضرات بھی تو ہیں جن کو چھینک بھی آجائے تو وہ بیرونِ ملک علاج کرانے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ اس سماج کی وہ طبقاتی بنیادیں ہیں جو اب بہت کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ بہت سارے لوگ یہ شورو غل کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو اس لیے قتل کیا گیا تھا کہ وہ امریکہ کی ایجنٹ تھی اور دہشت گردی کے خلاف دوغلی جنگ کی ریاستی پالیسی کے خلاف ایجنڈا لے کر آئی تھی۔ لیکن اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عالمی چیمپئین پرویز مشرف کو کوئی کیوں نہیں قتل کرتا۔ 18 اکتوبر 2007ء کی طرح 24 مارچ 2013ء میں کراچی ائر پورٹ پر خود کش حملہ کیوں نہیں ہوا۔ فرق محنت کش طبقے کی امنگوں اور اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا ہے جس پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ فرق طبقاتی کشمکش اور اس کی مختلف سطحوں اور معیارات کا ہے اور عالمی معیشت اور سیاست کے اس پر اثرات کا ہے۔ بے نظیر کو قتل نہیں کیا گیا تھا، ان محنت کشوں اور مفلوک الحال لوگوں کے خوابوں اور آر زؤں کو قتل کیا گیا تھا، جو بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک کے طول و عرض سے کراچی ایئر پورٹ پہنچ گئے تھے۔ وہ ایئر پورٹ سے کہیں بھی جا سکتے تھے۔ جمہور کے خوابوں کو قتل کر کے لائی جانے والی جمہوریت میں حکمرانوں کو اپنے بہیمانہ کھلواڑ کا بھر پور موقع ملا۔ وہ تحریک آج بھی گھائل ہے اور جب تک وہ دوبارا نمودار ہو کر فتح یاب نہیں ہوتی، کوئی بھی حکومت آ جائے یہ کھلواڑ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔
انتخابات کا جتنا شور ہے، اور ان کو شفاف بنانے کے لیے جتنی بھی اصلاحات کا ناٹک رچایا جا رہا ہے، یہ انتخابات اتنے ہی مکروہ اور جعلی نتائج بر آمد کریں گے۔ عوام کی اکثریت کا پارلیمانیت سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔ وہ ووٹ یا تو دیں گے ہی نہیں یا بیچ دیں گے۔ خریدے ہوئے ووٹوں سے ہونے والے انتخابات کیسے شفاف ہو سکتے ہیں۔ عبوری وزیرِ اعظم کھوسو کی جگہ عشرت حسین بھی آ جاتاتو فیصلوں اور پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں آنا تھا۔ بحران کی شدت میں انتخابات کے نتائج کو تشکیل دینا اسٹیبلشمنٹ اور سامراجیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ پہلے سے بھی زیادہ کمزور اور ہنگ پارلیمنٹ بنے گی جو پہلے سے زیادہ عالمی مالیاتی اداروں اور ریاستی خداؤں کی غلام ہو گی۔ نواز شریف اور عمران خان دونوں کو متحارب قوتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت وزیرِ اعظم بنانا چاہتی ہیں لیکن دونوں قوتوں کے داخلی تضادات ان کو لاحق ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ان دونوں کو ملا کر حکومت بنانی پڑ جائے۔ پیپلز پارٹی بھی ہر قیمت پر اقتدار کے ساتھ بندھی رہنا چاہتی ہے۔ عمران خان کووسیع تر ’قومی مفاد‘ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحادکرنا پڑ سکتا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پہلے بھی اتحادی رہے ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم اقتدار سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مذہبی پارٹیوں میں شدید تضادات ہیں جن کو حل کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ فضل الرحمان کی ان تھک کاوشوں کے باوجود جماعتِ اسلامی ن لیگ کے بجائے عمران خان کے ساتھ انتخابی اتحاد کا حصہ بن چکی ہے۔ چوہدری شجاعت بھی عمران خان کو تہہِ دل سے لاہور والے جلسے کی مبارکباد دیتے تھک نہیں رہے۔ ساری قسم کی مسلم لیگیں اور قوم پرست پارٹیوں کا مرکزی دفتر GHQ میں ہے۔ ان کو جب جہاں جانے کا کہا جاتا ہے وہ چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر اپنی اصل یعنی جماعتِ اسلامی کی بغل میں جلو ہ افروز ہو چکے ہیں۔ شیخ رشید کی بکواس بھی رواں دواں ہے۔ طاہر القادری بھی پھر نئے سٹریٹ تھیٹر کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ پرویز مشرف کا سیاسی مجرا بھی کوئی زیادہ دلفریب دکھائی نہیں دے رہا۔ اس ساری سیاسی غلاظت کے امتزاج پر مبنی انتخابات کو تبدیلی کا آغاز قرار دینے والے سرکس کے بندر وں سے بھی زیادہ کٹھ پتلیاں ہیں اور ان سے عوام اور محنت کش طبقے کو کئی سروکار نہیں۔
حکومت جس کی بھی بنے گی کسی بھی قسم کا سیاسی استحکام اس نظام میں ممکن نہیں رہا۔ IMF پر انحصار اور ان کی پالیسیوں پر عملدرآمد سے غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ فرقہ واریت اور خونریزی بڑھتی چلی جائے گی۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سامراجی آشیر باد پر قتل و غارتگری میں اضافہ ہو گا۔ کراچی میں سیاسی بنیادوں پر کلنگ مزید بڑھے گی۔ لیاری گینگ وار بھی ارشد پپو کے قتل کے بعد کم ہونے کی بجائے مشتعل ہو گی۔ طالبان سے مذاکرات ہوتے رہیں گے لیکن کشیدگی بڑھتی رہے گی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خلفشار نہ صرف بڑھے گا بلکہ ملک کے دیگر خطوں تک پھیلے گا۔ بھارت کے ساتھ امن بِکتا رہے گا اور سرحدوں پر وقفے وقفے سے لاشیں گرتی رہیں گی۔ لیکن پھر ایک دم یہ منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ لاغر، کمزور، گھائل، شکست خوردہ اور مایوس محنت کش طبقہ نئے عزم، جرات اور شکتی کے ساتھ سیاسی افق پر نمودار ہو گا۔ یہ اگلے کئی عشروں میں نہیں چند سالوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی گلی سڑی سیاسی روایت پیپلز پارٹی کا طوق گلے سے اتار پھینکے گا۔ اس کا جوش، ولولہ اور حملہ دیدنی ہو گا۔ اس وقت کے پاکستان کو کوئی پہچان بھی نہیں پائے گا۔ محنت کش طبقہ ان تمام جھوٹے متبادلوں اور سیاسی بتوں کو روندتا ہوا تاریخ کے میدان میں داخل ہو گا۔ ہیرو زیرو اور زیرو ہیرو بن جائیں گے۔ مڈل کلاس کے شاونسٹ دانشوروں کی انگلیاں ان کے منہ میں ہوں گی۔ وہ فرطِ حیرت سے پاگل ہو جائیں گے۔ ہر نسل، قوم، زبان، مذہب اور فرقے کے محنت کرنے والے ہاتھ کام روک کر سماج کو بند کردیں گے۔ سب سیاسی پارٹیاں فروعی اور لاتعلق ہوں گی۔ صرف جدلیاتی سائنس سے بہرہ ور پہلے سے ان واقعات کا تناظر بنانے والی تنظیم ایک نئی سیاسی اٹھان کے ساتھ طبقے سے توانائی لیتے ہوئے اور اس کی رہنمائی کرتے ہوئے حقیقی سماجی تبدیلی کا آغاز کرے گی۔
Source: The Struggle (Pakistan)