ایک سو ستائیس سال پہلے 1886ء میں شکاگو کے صنعتی علاقوں میں مزدوروں کے لمبے اوقات کار کے خلاف چلنے والی تحریک کو ریاستی دھشت گردی کے ذریعے خون میں ڈبو دیا گیا اورمزدوروں کے قتل عام کا مقدمہ بھی مزدور راہنماؤں پر درج کرکے بالآخر ان کو موت کی سزا دے دی
ایک سو ستائیس سال پہلے 1886ء میں شکاگو کے صنعتی علاقوں میں مزدوروں کے لمبے اوقات کار کے خلاف چلنے والی تحریک کو ریاستی دھشت گردی کے ذریعے خون میں ڈبو دیا گیا اورمزدوروں کے قتل عام کا مقدمہ بھی مزدور راہنماؤں پر درج کرکے بالآخر ان کو موت کی سزا دے دی گئی۔ محنت کشوں سے 12گھنٹے یا اس سے بھی زائد وقت کام کرانے کے خلاف اور 8گھنٹے کے کام کے دن کے مطالبے پر مبنی تحریک کا آغاز تو براعظم آسٹریلیا میں 1820ء میں ہوا تھا مگر 66 سال بعد شکاگو کے خونی واقعات نے وقت کو تیز کردیا اور مزدور تحریک تیزی سے مارکس اور اینگلز کی بین الاقوامیت پر مبنی انقلابی تحریک کے دھاروں میں شامل ہوتی گی۔ تین سال بعد 1889ء میں اگرچہ مزدوروں کے’’آٹھ گھنٹے کا دن‘‘ کا مطالبہ دنیا بھر میں تسلیم کرلیا گیا مگراگلے 28 سالوں میں مزدوروں کی بین الاقوامیت پر مبنی تحریک مزدوروں کی منزل کو راہ گم گشتہ پر ڈالنے والے تمام واہموں، نظریات اور پروگراموں کے خلاف ایک مشکل مگر کامیاب جدوجہد کرتے ہوئے بالآخرلینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں 1917ء میں روس میں مزدور راج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مزدوروں کے حالات کار، حقوق اور مراعات کے حوالے سے یہ ایک سنگ میل تھا جب بالشویک انقلاب کے اثرات اور مزدور راج کے خواب کی عملی تعبیر نے دنیا بھر کو بدل کر رکھ دیا۔ تمام براعظموں میں مزدور تحریکوں نے سیاسی تحریکوں کے مقابلے میں نمایاں مقام حاصل کرنا شروع کردیا۔ بات ٹریڈ یونین ازم کے محدود مطالبات پر مبنی ایجنڈے سے نکل کر وسیع معاشی اور سیاسی مطالبات‘ قومی آزادی کی تحریکوں اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد تک پہنچنا شروع ہوگئی۔ سرمایہ داری مجبور ہوگئی کہ سینکڑوں سالوں کی اجرتی غلامی کے جبر اور شدید استحصال میں کمی کرکے مزدوروں کی مانگیں تسلیم کرنا شروع کردے۔ چین، ہنگری، جرمنی، برطانیہ، ہندوستان سمیت دنیا بھر میں انقلابات اور تحریکوں کے وسیع ریلوں کے پیچھے نظریاتی کمک کے تانے بانے 1886ء کی اسی مزدور تحریک سے جا ملتے ہیں جن کا آغاز اجرتی غلامی کے اوقات کار کم کرنے سے ہوا تھا۔
مزدور تحریک کا آغازصنعتی انقلابات کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، مزدوروں کے سینکڑوں کی تعداد میں ایک جگہ اور ایک جیسے مسائل میں کام کرنے کے عمل نے ان کو ایک وحدت اور جڑت میں اکھٹا کردیا تھا۔ جدید طریقہ پیداوار، اسمبلی لائین، مشینوں کی تیزی اور جدت نے جہاں پیداوار اور منافعوں میں اضافہ کیا وہاں مزدوروں کے استحصال اور محنت کی لوٹ مار میں بھی تیزی آگئی۔ اس لوٹ مار کے خلاف مزدور انجمنوں کا قیام اور پھر ان کے لمبے عرصے میں ارتقاء نے فیصلہ کن صورت تب اختیار کی جب سرمایہ دارانہ نظریات، خیالات، قوانین اور بندشوں کے برعکس مزدورطبقے کے اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’’مزدوروں کی پہلی عالمی انجمن‘‘ کے قیام نے اعلان کردیا کہ مزدور طبقے کے مفادات کا تحفظ ’’مقامی سطح‘‘، ’’ملکی حدود‘‘ اور علاقائی بنیادوں کی بجائے عالمی مزدور تحریک کی صورت میں کیا جاسکتا ہے اور لازمی طور پر اس تحریک کی بنیاد اور جلاء ایسے انقلابی نظریات سے ہی ممکن ہے جو نہ صرف ماضی کے پسماندہ اور محدود بندھنوں کو توڑ کر ’’دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک ہوجاؤ‘‘ کے نعرے کے گرد اکھٹا کرسکے بلکہ اس مزدور تحریک کے پاس ایسے سائنٹیفک نظریات ہوں جو سرمایہ دارانہ استحصال کی ظاہری اور چھپی ہوئی تمام صورتوں کو بے نقاب کرکے ان کے مقابلے میں اکثریتی محنت کش طبقے کی نجات اور بالآخرحکمرانی دلانے والے پروگرام کو آگے بڑھا سکے۔ اس تحریک نے پیرس کمیون، شکاگو اور بالشویک انقلابات جیسے عظیم الشان واقعات کو جنم دیا اور مزدور تحریک اور اسکے پروگرام کو ناقابل فراموش حیثیت دلوادی۔ ان کامیابیوں کی بنیادی وجہ ’’سادہ اور خالص‘‘ ٹریڈ یونین کے سرمایہ دارانہ خیالات کی بجائے محنت کش طبقے کے نظریاتی مفادات کو تقویت دینے والے 1848ء کے کیمونسٹ مینی فسٹوکے خیالات کا محنت کش طبقے کا نظریہ قراردیا جانا تھا، جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ مزدور کی نجات کا واحد راستہ سرمایہ دارنہ نظام کا خاتمہ ہے‘ اور اس سیارے پرمزدور راج کے قیام کے بغیر استحصال اور طبقاتی جبر کا خاتمہ ناممکن ہے۔
سرمایہ داری نظام نے جہاں محنت کش طبقے کی بے پناہ جدوجہد اور انقلابات کے خوف سے اپنے عروج میں مزدوروں کو کچھ حقوق اور مراعات دیں تو وہاں اپنے زوال کے موجودہ عہد میں مزدوروں سے واپس چھیننا شروع کردیا۔ اس کی بدترین شکل ٹھیکے داری نظام ہے جس میں مزدوروں کو ان تمام مراعات اور حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے جن کو لینے کے لئے پچھلے سو سال میں مزدوروں کی کئی نسلوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ مستقل ملازمت کی بجائے ڈیلی ویجز، ورک چارج، کنٹریکٹ سسٹم جیسی اصطلاحوں کے استعمال سے سرمایہ دار‘ نظام کے بحران کے باوجود ماضی سے لاکھوں گنا زیادہ منافع کمارہا ہے۔ اسی طرح ماضی میں مزدور کو ادا کی جانے والی اجرت یا ان کے علاج معالجے، بچوں کی تعلیم، گریجویٹی، اوور ٹائم، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں پر خرچ کی جانے والی رقم اب براہ راست سرمایہ داری کی تجوری میں پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ مارکس نے بتایا تھا کہ مزدوراپنے کام کے دوران دن کے ابتدائی حصے میں اپنی ضرورت زندگی کے برابرمحنت بروئے کار لانے کے بعد باقی سارا دن سرمایہ دار کے لوٹنے کے لئے قدر زائد پیدا کرتا رہتا ہے مگر اب یہ عمل کئی گنا زیادہ ہوچکا ہے۔ جدید مشین، کمپیوٹرکے استعمال، استعدا کار اور پیدواری صلاحیت میں اضافے سے براہ راست زک مزدور کو پہنچ رہی ہے۔ یہ قدر زائد لوٹنے کا جدید طریقہ کار ہے۔ اگر بیس سال پہلے مزدور اپنی اجرت کے برابر محنت 8 گھنٹوں کے دن میں ابتدائی 2 گھنٹوں میں خرچ کرلیتا تھا تو اب اس محنت کو جدت اور تیزی کے موجودہ عہد میں کام کے 8 گھنٹوں میں 30 منٹ میں ہی صرف کرا لیا جاتا ہے اور یوں اب مزدور باقی ساڑھے سات گھنٹے بیگار کرکے سرمایہ دار کے لئے قدر زائد پیدا کرتا ہے۔ مارکس کے دور کے حوالے سے دیکھا جائے تو اب مزدور کا 8گھنٹوں کا دن بیس گھنٹوں کے برابر ہوجاتا ہے۔ استحصال کی یہ شدت محض اس لئے ممکن ہوسکی کہ 1886ء کی تحریک کو آگے نہیں بڑھایا جاسکا۔ بالشویک انقلاب کو صرف روس تک محدود کردیے جانے اور دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں ’’کو قومی جمہوری انقلاب ‘‘اور ’’عوامی جمہوری انقلاب ‘‘ کی ردانقلابی ترکیبوں کے بھینٹ چڑھادینے سے دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک کرنے کی بجائے ’’قومی‘‘ اور ’’علاقائی‘‘ حدوں میں محصور کردیا گیا۔ دوسری طرف سرمایہ داری نظام کے ماہرین نے محنت کو لوٹنے کا کوئی حربہ نہیں جانے دیا۔ بالخصوص سرمایہ داری نظام کے نحیف اور نڈھال ہونے پر وہ زیادہ وحشی ہوکر مزدور دشمن قوانین اور طریقوں سے محنت کا استحصال کرنا شروع ہوگئے۔ منڈی کی معیشت کی موجودہ زوال پزیری کے دوران کٹس اکانومی کے فارمولوں جن میں نج کاری، ری سٹرکچرنگ، لبرل لائیزیشن، ڈی ریگولیشن وغیرہ کی ترکیبوں سے اجارہ داریوں کے لئے صنعتوں اور منڈیوں پر قبضہ، مزدوروں کی چھانٹیوں اور حقوق میں دمزید کمی جیسے مجرمانہ اقدام کئے جارہے ہیں نے محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے اورسماجوں کو اور زیادہ بدحال اور ناقابل قبول بنادیا ہے۔
ٍ محنت کش طبقے کی تمام تاریخ، کامیاب اور ناکام تحریکیں، انقلابات اور انکے عروج و زوال کی وضاحت‘بس اسی نقطے کی تشریح ہےکہ سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی مختلف ترکیبوں کا تاثر محنت کی لوٹ مار اور ’’قدر زائد‘‘ پر قبضہ کے فلسفے پر قائم ہے اور اسکا خاتمہ کرنے کے لئے ٹریڈ یونین سے لیکر انقلابی پارٹی تک کے پروگرام کو مارکسزم اور لینن ازم کے بین الاقوامیت پر مبنی طبقاتی جدوجہد کے نظریات پر استوار کرنا لازم ہے۔ مزدوروں کی طبقاتی اکثریت کی بالادستی اور چھوٹی سے چھوٹی سطح پرجمہوری اداروں کا قیام، ملک ملت، گروہی، لسانی وقومی، مذہبی فرقہ ورانہ اور نسلی لسانی تقسیم کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد اور عالمی مزدور تحریک کی تعمیرکا نصب العین جو کسی بھی ملک میں ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کی راہنمائی کرتے ہوئے اس کو عالمی سوشلسٹ سماج کی منزل تک پہنچاسکے۔ یوم مئی کا سبق بس اتنا ہی ہے کہ ٹریڈ یونینز اور مزدوروں کی دیگر تنظیموں کو مزدور نظریات اور انقلابی خیالات سے مزین کیا جائے تاکہ استحصال کے موجودہ نظام کا خاتمہ کرکے پیداوار کو معرض وجود میں لانے والے محنت کش طبقے کا پیداوار پر کنٹرول اور حق تسلیم کرایا جاسکے۔
Source: یوم مئی 2013ء اور مزدور تحریک (The Struggle, Pakistan)