گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونیوالی احتجاجی تحریک اپنے فوری مطالبات سے آگے بڑھ کرسول نافرمانی اور انقلابی بغاوت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ گلگت کے گڑی باغ چوک اور سکردو کے یادگار چوک (جسے مظاہرین نے تحریر اسکوائر کا نام دیا ہے) میں ہزاروں افراد گزشتہ دو ہفتوں سے گندم کی سبسڈی میں خاتمے کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، ریاستی جبر اور استحصال کے خلاف دھرنا دئیے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ اس دھرنے میں شامل ہورہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام نے تمام تر فرقہ وارانہ اور لسانی اختلافات کو بھلا کر اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لئے طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر پورے ملک کے عوام کے لئے سنہری مثال قائم کی ہے۔ پرویز مشرف کے سر درد اور چھینک سے کر ”مذاق راتی“ کمیٹیوں کی آنیوں جانیوں جیسے نان ایشوز پر دن رات بریکنگ نیوز شائع کرنے والے کارپوریٹ میڈیا نے اتنے بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں پر مجرمانہ خاموشی اور مکمل بلیک آﺅٹ کر کے اپنا حقیقی چہرہ ایک بار پھر خود بے نقاب کر دیا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کو ذمہ دار قررار دے کر دانستہ طور پر معاملے کو لٹکا رہی ہیں کیونکہ عوام کے کسی بنیادی مسئلے کا حل حکمرانوں کے پاس موجود ہے نہ ہی وہ یہ مسئلے حل کرنے کے لئے اقتدار میں آئے ہیں۔ مظاہرے شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد 22 اپریل کو وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے رسمی طور پر ایک کمیٹی بنائی تھی۔ 24اپریل کی پریس کانفرنس میںبرجیس طاہر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ” آزادکشمیر میں سبسڈی ختم کی جارہی ہے اور گلگت بلتستان میں بھی آٹے کی قیمتوں پر سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔“
گلگت بلتستان میں گندم میں سبسڈی دینے کا آغاز پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ریاست پاکستان متنازعہ علاقوں کے عوام کو سبسڈی دینے کی پابند تھی۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور حکومت تک جاری رہا مگر 2008ء میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی حکومت نے اپنے بنیادی منشور اور ”روٹی، کپڑا، مکان“ کے نعرے کو فراموش کرتے ہوئے سبسڈی میںبتدریج کمی کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ فی من گندم کی قیمت جو مشرف دور میں 850 روپے تھی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 1100 روپے تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ سبسڈی کی مد میں مختص کی جانے والی رقم کا بڑا حصہ ریاستی افسرشاہی اور حکومتی عہدہ داروں کی لوٹ مار کی نذر بھی ہوتا رہا۔ نواز لیگ نے برسر اقتدار آتے ہی آئی ایم ایف کے حکم پر نیو لبرل معاشی پالیسیاں نافذ کرنے کا عمل تیز کر دیا اور رہی سہی سبسڈی بھی ختم کی جانے لگی جس کی وجہ سے گندم کی قیمت 1400 روپے فی من سے تجاوز کر گئی۔ گلگت بلتستان میں عوام دشمن معاشی پالیسیاں نافذ کرنے میں نواز لیگ حکومت کو پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ مہدی شاہ کی بھرپور معاونت حاصل رہی ہے۔
اس معاشی جارحیت کے رد عمل میں اس سال کے آغاز میں 20 سے زائد مذہبی، قوم پرست اور دوسری سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اور سماجی کارکنان پر مشتمل ”عوامی ایکشن کمیٹی“ وجود میں آئی اور مہنگائی میں مسلسل اضافے کو گلگت بلتستان کے عوام نے مسترد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ 27 فروری کو گلگت، دیامر، غذر، سکردو، استور، ہنزہ نگر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی۔ مظاہرین نے آٹے اور ہوائی سفر پرسے سبسڈی کے خاتمے کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے، وفاق میں گلگت بلتستان کے عوام کی نمائندگی، علاج کی مفت فراہمی، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے سرحدی تنازعات کو ختم کرنے، ڈیموں کی رائلٹی دینے، حکمرانوں کےلئے بجلی کی فراہمی کےلئے قائم کی گئی خصوصی برقی لائن اور گلگت بلتستان کی معدنیات کے ذخائر کی لوٹ مار کے خاتمے کے مطالبات حکومت کے سامنے رکھتے ہوئے دس مارچ تک کی ڈیڈ لائن دی۔ مطالبات ماننے کی بجائے حکومت نے علاقے میںدفعہ 144 نافذ کردی۔ دس مارچ کو عوام نے دفعہ144 کو پیروں تلے روندتے ہوئے ایک بار پھر بڑے مظاہرے کئے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ رویہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ مطالبات منظور نہ کئے جانے پر پندرہ اپریل سے گلگت، دیامر، غذر، استور، ہنزہ نگر اور سکردو میں بیک وقت احتجاجی دھرنوں کا آغاز کر دیا گیا جو دو ہفتے سے مسلسل جاری ہیں۔ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے علاوہ پچھلے کئی ہفتے سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گلگت بلتستان سے شائع ہونیوالے معروف اخبار ”کے ٹو “ نے چوبیس اپریل کو شائع ہونیوالے اداریئے میں لکھا ہے کہ ”احتجاجی مظاہروں کے دسویں روز میں داخل ہونے کے باوجود جوش و خروش میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو رہا ہے، حکومت گلگت بلتستان کی تاریخ کے اس طویل ترین احتجاج کو معمول کا احتجاج تصور کر رہی ہے، مذاکرات میں بھی سنجیدگی نظر نہیں آئی، حکومت کی نگاہیں وفاق کی جانب مرکوز ہیں اور وہ کسی معجزے کی منتظر نظر آرہی ہے۔“ گلگت بلتستان کے ایک مقامی جریدے میں چھپنے والے ایک تجزئے کے مطابق ”کئی دہائیوں بعد گلگت بلتستان کے عوام تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر سڑکوں پر آئے ہیں، اب عوام کا مسئلہ گندم نہیں بلکہ وہ حکمرانوں اور انکے نظام سے عاجز آچکے ہیں۔“ تجزیہ نگار نے مزید لکھتا ہے کہ ”فرقہ واریت کے تعصبات سے عبارت کئے جانیوالے اس خطے میں گزشتہ دس دنوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ ۔ ۔ کئی عشروں کے بعدشیعہ اور سنی ایک جگہ پر اکٹھے ہیں، منگل کے روز احتجاجی دھرنے میں کئی بزرگ شہریوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور وہ کہہ رہے تھے کہ ایسے مناظر دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی تھیں۔ ۔ ۔“ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک سینئر عہدہ دار اعجاز الحق نے بائیں بازو کی ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اگر حکومت سبسڈی بحال نہیں کرتی تو ہم اس کٹھ پتلی اسمبلی کو مسترد کر کے عوامی اسمبلی تشکیل دیں گے۔ یہ کٹھ پتلی وزیر ہمیں راست قدم اٹھانے پر مجبور کررہے ہیں۔“
حکمران طبقہ فرقہ وارانہ منافرت کا روایتی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اکیس اپریل کو شیعہ علماءکونسل کے رہنما اور گلگت بلتستان کے وزیر پانی و بجلی دیدار علی شاہ اور متحدہ قومی موومنٹ کے وزیر ترقیات و منصوبہ بندی راجہ اعظم خان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ”شیعہ مسلک اور متحدہ قومی موومنٹ کا عوامی ایکشن کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ان احتجاجی دھرنوں میں شریک نہیں ہو گا۔“ منگل کے روز شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے دھرنے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اسٹیج سے وزرا کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کی شدید مذمت بھی کی۔ لوگوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے کے لئے کئی دوسرے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔ اخبارات میں حکومتی اشتہار شائع کروا کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ دھرنوں میں شریک کئی سرکاری ملازمین کی معطلی کے نوٹس بھی جاری کئے گئے ہیں۔ ملازمین نے ریاستی دھمکیوں اور برطرفیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر یہ عمل بند نہ کیا گیا تو نتائج کے ذمہ دار حکمران خود ہوں گے۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں واپڈا کے محنت کشوں نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر پورے بلتستان میں گرڈ سٹیشنوں سے بجلی کی فراہمی منقطع کرکے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا۔
تحریک کا کردار واضح طور پر طبقاتی اور اس کی قیادت تاحال عوام کے اجتماعی کنٹرول میں ہے۔ تحریک کے دباﺅ کے تحت حکمران طبقے کی کئی پارٹیاں اورنمائندے اپنی ساکھ بچانے کےلئے مظاہرین کے ساتھ ”اظہاریکجہتی“ کرنے پر مجبور ہیں اور ماضی میں مخالف فرقے کے خلاف قتل کے فتوے جاری کرنے والے ملا بھی فی الوقت خاموش ہو کر تحریک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میںحکمران طبقات جھوٹے وعدوں اور اعلانات کے ذریعے عوامی ایکشن کمیٹی کو احتجاجی دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرینگے۔ اس کے علاوہ ایکشن کمیٹی میں شریک مختلف جماعتوں کے ساتھ ساز باز کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ یہ تحریک کے لئے کڑی آزمائش کا وقت ہوگا۔ گلگت بلتستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی قیادت خود تراشنی ہوگی۔ اس مقصد کے لئے ہر علاقے میں عوامی کمیٹیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں طلبہ، سرکاری اداروں کے عام ملازمین اور محنت کشوں کی خصوصی نمائندگی موجود ہو۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی بالائی قیادت ان ذیلی کمیٹیوں سے منتخب کی جائے۔
ریاست، حکمران اور تحریک میں شامل ان کے ایجنٹ معاملے کو طول دےنے کی کوشش کریں گے تاکہ سڑکوں پر موجود عوام تھک ہار کر گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ گلگت بلتستان کے محنت کش عوام کو اپنی تحریک کو پاکستان بھر کے استحصال زدہ عوام اور مظلوم قومیتیوں کی جدوجہد کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑنا ہوگا اور اس صورتحال میں ملک بھر کے بائیں بازو کے انقلابی کارکنوں کا یہ تاریخی فریضہ ہے کہ وہ اس جڑت کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر اس تحریک کو ایک انقلابی قیادت اور ٹھوس لائحہ عمل میسر آتا ہے تو ہمالیہ کی گود سے پھوٹنے والے بغاوت کی یہ چنگاری پورے خطے میں انقلاب کاشعلہ بھڑکا سکتی ہے!