قطر میں طالبان کے دفتر کے ’’افتتاح‘‘ اور مذاکرات کے امکانات کے بارے میں گرما گرم خبریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ قطر کے رجعتی حکمرانوں نے جو محل نما دفتر طالبا ن کو دیا ہے اس سے سعودی اور خلیجی بادشاہتوں کی طرف سے طالبان کے کچھ گروہوں کی پشت پناہی اور اس خطے میں اپنی اجارہ داری داری قائم رکھنے کی پالیسی پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ طالبان نے اپنا پرچم لہرا کر اس دفتر کو ’’اسلامی امارات‘‘ کے مرکز کا درجہ دیا ہے جس پر حامد کرزئی بہت برہم ہے۔ اس نے القاعدہ سے ناطے توڑنے اور موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی قبل از مذاکرات شرائط کو رد کر کے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا ہے کہ ’’مذاکرات اپنے آغاز سے پہلے ہی ناکام ہوسکتے ہیں۔‘‘ امریکی کٹھ پتلی حکومت کے صدر حامد کرزئی کا اپنے آقاؤں سے ایسا ترش رویہ امریکہ سامراج کے زوال کو عیاں کردیا ہے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں شکست اور بڑھتے ہوئے داخلی تضادات کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی فوجی، تکنیکی اور اقتصادی سلطنت کی کمزوری اور لاچارگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیون ٹراٹسکی کا آج سے اسی سال قبل امریکی سامراج کے بارے کیا گیا تجزیہ کہ ’’امریکی سامراج وہ دیو ہے جس کے پاؤں مٹی سے بنے ہوئے ہیں‘‘ آج درست ثابت ہورہا ہے۔
ان مذاکرات کے بارے میں پاکستان، امریکہ اور دوسرے کئی ممالک کے حکمران بہت شور مچا رہے ہیں۔ اس نظام کے دانشور ان مذاکرات کے ذریعے اس خطے میں قیام امن کی’ پیشگی خوشخبریاں‘ سنا رہے ہیں۔ ماضی کی طرح یہ خوش فہمیاں بھی سراب ثابت ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر براجمان ’’دانشوروں‘‘ کے تمام تر تجزیوں کے برعکس طالبان نہ تو کوئی سیاسی، نظریاتی یا تنظیمی اکائی ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی مشترکہ یا اجتماعی نمائندگی موجود ہے۔ ملا عمر سے لے کر جلال الدین حقانی اور اختر محمد منصور سے لے کر عبدالقیوم ذاکر تک، مولوی نذیر گروپ سے لے کر ملا داد اللہ اور گلبدین حکمت یار سے لے کر حکیم اللہ محسود تک۔ ۔ ۔ مذہبی جنونیت اور کالے دھن پر مبنی ایسے درجنوں دہشت گرد گروہ موجود ہیں جن کی وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں۔ یہ گروہ جہاں نیٹو افواج اور افغان مرکزی حکومت سے برسر پیکار ہیں وہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھی خوفناک اور خونی تصادموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب یہ کیسے متعین کیا جائے گا کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات طالبان کے کونسے دھڑے یا دھڑوں کے ساتھ کئے جارہے ہیں؟ طالبان کے جن گروہوں کی قیمت ان ’’مذاکرات‘‘ میں نہیں لگائی جائے گی کیا وہ خاموشی سے بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں گے؟ چیزیں اتنی سادہ نہیں ہیں!
کی جدید تاریخ ’’گریٹ گیمز‘‘ کی خون ریزی اور بربادیوں کی المناک داستان ہے۔ پچھلے کئی سو سال سے یہ خطہ عالمی اور علاقائی سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ یہ سامراجی قوتیں آج بھی افغانستان کی معدنی دولت اور جغرافیائی اہمیت کے مد نظر اپنا غلبہ قائم رکھنے کی تگ و دو میں خون کی ہولی کھیل اور کھلوا رہی ہیں۔ برطانوی جارح ٹی ای لارنس نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’سرکشیوں کے خلاف جنگ، چاقو سے شوربا پینے جیسا گھمبیر اور سست رفتار عمل ہوتا ہے۔‘‘ افغانستان کی جدید تاریخ میں ترقی کا صرف ایک قلیل دور گزرا ہے جس کا آغاز فروری 1978ء میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں برپا ہونے والے ثور انقلاب سے ہوا تھا۔ اپریل 1978ء سے دسمبر 1979ء تک کے اٹھارہ ماہ میں جہاں سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کیا گیا وہیں سماجی، ثقافتی اور معاشی شعبوں میں محنت کش عوام کے لئے ایسی ریڈیکل اصلاحات کی گئیں جن کی مثال اس خطے میں نہیں ملتی۔ فرسودہ رسموں اور روایات کے نام پر ہونے والی خواتین کی خرید و فروخت کو ایک سنگین جرم قرار دیا گیا۔ افغانستان کے دیہی علاقوں کی 80 فیصد آبادی نسلوں سے سود خوروں اور خوانین کے قرضوں میں جکڑی ہوئی تھی، ان تمام تر قرضوں کو فوری طور پر منسوخ کر دیا گیا۔ تین لاکھ خاندانوں میں زمینیں تقسیم کر کے جاگیر داری کا خاتمہ کیا گیا۔ صنعتکاری کے عمل کے آغاز کے ساتھ ساتھ تعلیم، علاج اور دوسری بنیادی ضروریات کی تمام انسانوں تک مفت فراہمی کا اعادہ کیا گیا۔
ثور انقلاب کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوئے۔ خاص طور پر پاکستان اور ایران کے عوام کے لئے یہ عظیم تبدیلی بہت پر کشش تھی۔ امریکی سامراج کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ انہیں پورے خطے میں سرمایہ دارانہ استحصال سے وابستہ اپنے سامراجی مفادات خطرے میں نظر آرہے تھے۔ چنانچہ نوزائیدہ افغان انقلاب کو کچلنے کے لئے رد انقلابی ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا۔ ضیاالحق کی بنیاد پرست اور سفاک آمریت نے اپنے امریکی اور سعودی آقاؤں کا نمک خوب حلال کیا۔ پاکستانی ریاست اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مذہبی جنونیت کو پروان چڑھایا گیا۔ اسامہ بن لادن کو سی آئی اے نے ہی 1978ء میں افغان جہاد میں ’ بھرتی‘ کیا تھا۔ دائیں بازو کے تجزیہ نگار افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت پر تو بہت شور مچاتے ہیں لیکن اس حقیقت کا تذکرہ نہیں کیا جاتا کہ سی آئی اے کی افغانستان میں مداخلت (آپریشن سائیکلون) سوویت فوجوں کی آمد سے چھ ماہ پہلے شروع ہو چکی تھی۔ آپریشن سائیکلون کا آغاز 3 جولائی 1979ء کو ہوا تھا جبکہ سوویت فوجیں 24 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔
ستمبر 1996ء میں کابل پر طالبان کا کنٹرول مستحکم کروانے میں امریکہ کے سابق نائب وزیرخارجہ اور تیل کی بڑی اجارہ داریوں میں سے ایک ’یونوکول‘ کے مشیر رابرٹ اوکلے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے اپنا اقتدار مستحکم کرنے بعد طالبان نے امریکہ سے بھی ’ہاتھ‘ کر دیا جس کے بعد دوطرفہ تعلقات میں تلخیوں کا آغاز ہوا۔ وسطی ایشیا سے براستہ افغانستان گزرنے والی گیس پائپ لائن کے معاہدے کے لئے طالبان نے یونو کول کے ہیڈ کوارٹر (جو کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈالاس میں واقع تھا) کے ساتھ ساتھ بیونس ایریز میں واقع ارجنٹائن کی ملٹی نیشنل کمپنی بریڈاس کے دفتر میں بھی اپنا وفد بھیج دیا۔
امریکی سی آئی اے نے رد انقلابی خانہ جنگی کی مالیاتی ضروریات کوپورا کرنے کے لئے ڈالر جہاد میں مصروف مذہبی جنونیوں کومنشیات کی پیداوار اور سمگلنگ کے منافع بخش کاروبار سے بھی روشناس کروایا تھا۔ یہ سی آئی اے کی پرانی روایت ہے اور امریکی سامراج فنڈنگ کے اس طریقہ کار کو ویت نام، ہانڈوراس، نکاراگوا سمیت کئی جگہوں پر استعمال کر چکا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیروئن بنانے کی تکنیک اور لبارٹریاں سی آئی اے نے ہی فراہم کی تھیں۔ آج مختلف عرب حکومتوں سے ملنے والی مالی امدادکے ساتھ ساتھ طالبان منشیات کی سمگلنگ کے مختلف روٹوں پر تحفظ فراہم کرکے سالانہ 200 ملین ڈالر کماتے ہیں۔ پوپی کی کاشت، افغانستان میں 500 سے زائد لیبارٹریوں میں ہیروئن کی تیاری اور اس کی سمگلنگ کے نیٹ ورک کا زیادہ تر حصہ طالبان کے مختلف گروہوں کے کنٹرول میں ہے۔ دوسری طرف کرزئی حکومت اور سابقہ شمالی اتحاد کے مختلف حصے بھی اس کاروبار میں حصہ دار ہیں۔ اربوں ڈالر کے اس کالے دھن کی تقسیم اور حصہ داری پر پیدا ہوانے والے اختلافات اور تضادات ہی افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہونے والی خون ریزی اور خانہ جنگی کی اصل وجہ ہیں۔
2014ء کے اواخر تک افغانستان سے امریکی فوج کے بڑے حصے کے انخلا کے بعد بھی تشدد اور خونریزی میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہو گی۔ پیسے کی حوس اور جرائم کے جنون اور وحشت بن جانے سے ابھرنے والے مسائل، مذاکرات سے حل نہیں ہوا کرتے۔ لیکن ان مذاکرات نے طالبان سے نام نہاد ’’سامراج دشمن‘‘ ہونے کا جعلی تاثر ٹوٹ کے بکھر گیا ہے۔ افغانستان میں ایک نئی نسل تباہی کی اس آگ میں تپ کے فولاد ہوچکی ہے۔ افغان نوجوانوں پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ امریکی سامراج اور طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں کی قوتِ محرکہ سرمائے کی حوس ہے۔ 1978ء کا ثور انقلاب افغان عوام کے شعور پر ایک تابناک یاد کے طور پر نقش ہے۔ قیادت کی غلطیوں اور سامراجی مداخلت کی وجہ سے یہ انقلابی ابھار پسپا توہو گیا لیکن اس دوران قلیل عرصے میں افغان عوام کی بہتری کے لئے کی جانے والی اصلاحات، افغانستان کے مستقبل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ 1978ء کی نسبت آج حالات کہیں زیادہ پیچیدہ اور صورتحال سنگین ہے۔ ثور انقلاب کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مارکسی بین الاقوامیت کے نظریات کی بنیاد پر ایک نیا سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے سوا، نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔