اس برس ہونے والے عام انتخابات کے لیے امید واروں کی جانچ پڑتال کا سارا عمل ایک منافقانہ تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ ظالم فوجی آمر ضیا الحق کی جانب سے آئین میں شامل کیے جانے والے آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد کروانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہلکاروں کی جنونی کوششوں کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ مفلوج معیشت، سلگتے سماج اور سیاست میں عمومی زوال کا اظہار موجودہ عہد میں اس تباہ حال سماج کی اقدار، اخلاقیات، رویوں اور اطوار میں میں گراوٹ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ متوقع امیدواروں سے پوچھے جانے والے شرمناک سوالات اور جمہوریت کے علمبرداروں کے گھٹیا جوابات کسی بے معنی اور بیہودہ ناٹک کی مانند ہیں اور یہ تمام تر ڈرامہ اس ناکام ریاست کے اہلکاروں اور حکمران طبقات کی بیمار ذہنیت کی درست عکاسی کرتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق’مجلسِ شورہ‘ کا رکن بننے کے لیے درکار ’قابلیتیں‘ ایک متذبذب سوچ کی علامات ہیں اور زمینی و مادی حقائق سے بے خبر ریاستی بیوروکریسی کی خیال پرستی اور جاہلیت کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔ شق 62(d-1) کے مطابق امیدوار کے ضروری ہے کہ وہ ’’اچھے کردارکا مالک ہو اور لوگوں میں شعارِ اسلامی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے نہ جانا جاتاہو۔‘‘ شِق (1-e) کے مطابق وہ’’اسلامی تعلیمات کا کافی عمل رکھتا ہو، اسلام کے فرائض پر عمل کرے اور بڑے گناہوں سے اجتناب کرے۔‘‘ شِق (f) کے مطابق امید وار’’داناء، نیک، پرہیز گار، صادق اور امین ہو اور کسی عدالت نے اسے ان شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ٹھہرایا ہو۔‘‘ یہ سب کچھ کتنا ناقابلِ یقین اور مبہم ہے! ’اچھے کردار‘ کا تعین کون کرے گا اور اس کا معیار کیا ہے؟ لوگ کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے؟ ’اسلامی اشعار‘ کی تشریح کے لئے کس فرقے اور کس عہد کی تعلیمات مد نظر رکھی جائیں گی؟
اسی طرح ’اسلامی تعلیمات کے کافی علم‘ سے کیا مراد ہے اور کون سا نصاب کس درجے تک پڑھ کر ’کافی علم‘ حاصل ہو جائے گا؟ وہ کون سے ’چھوٹے گناہ‘ ہیں جنہیں کرنے پر امید وار نا اہل نہیں ہو گا؟ بڑے گناہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور چھوٹے اور بڑے گناہوں میں فرق کون کرے گا؟ اور پھر کسی فرد کی سچائی، دانائی، پرہیز گاری اور ایمان داری ناپنے کے لئے کون سا پیمانہ استعمال کیا جائے گا؟ بلا شبہ یہ اختیار امیر طبقات سے تعلق رکھنے والے آقاؤں کو ہی حاصل ہے جو استحصال سے لوٹے ہوئے مال کو خدا کی دین، اپنی بیہودہ عیاشیوں کو پارسائی کا صلہ اور اپنی طاقت اور مظالم کو کفر اور گناہ کے خلاف جہاد بنا کر پیش کرتے ہیں!
در حقیقت یہ گھناؤنے قوانین اس جابر حکومت کا عکس ہیں جو بنیادی حقوق کے حصول کی خاطر بار بار بغاوت کرنے والے عوام کو کچل کر محکوم رکھنا چاہتی تھی۔ مذہب کے نام پر لوگوں کی نجی زندگیوں میں بے دردی سے مداخلت کی گئی۔ حکمرانوں نے اس ظالم جرنیل کی معاون جماعتِ اسلامی کے بدمعاش مخبروں کا کام سر انجام دیا، لوگوں اور خصوصاً بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو بدنام کرنے کے لیے ان پر گناہ کاری اور توہین رسالت وغیرہ جیسے الزامات لگائے جاتے رہے۔ ریاستی پشت پناہی کے ساتھ انہوں نے بائیں بازو کے کارکنان اور ان کے خاندانوں کے خلاف وحشیانہ حملے کیے جن کا مقصد اسلامی آمریت کے خلاف بغاوت کو روکنا تھا۔ خواتین بنیاد پرست حکومت کی جانب سے نافظ کیے جانے والے کئی اور قوانین کا خاص طور پر نشانہ بنیں۔
افسوس کہ ضیا آمریت کے بعد آنے والی سرمایہ دارانہ جمہوری حکومتوں نے ان ظالمانہ اور وحشیانہ قوانین کو جاری رکھا۔ یہ ’لبرل اور سیکولر حکومتیں‘ عام عوام کی زندگیوں میں بے جا مداخلت، در اندازی اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے والے وحشیانہ قوانین کو ختم کرنے سے گریزاں رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لبرل اور سیکولر حکومتیں اپنے ناکام اقتدار کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور طبقاتی جدوجہد کی جڑت کو توڑنے کے لیے خود مذہب کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ اس کے بعد امریکی سامراج کی مسلط کردہ مفاہمت کی پالیسی آئی۔ اس کا مقصد اس نظام کے نافظ کردہ سیاسی افق سے دائیں اور بائیں بازو کی تمیز کا خاتمہ تھا۔ لیکن جب تک طبقاتی سماج موجود ہے طبقاتی جدوجہد جاری رہے گی، گو اس میں نشیب و فراز آتے رہیں گے مگر دائیں اور بائیں بازو کی لڑائی اس طبقاتی جنگ کا اظہارکرتی رہے گی۔
ایسے وقت پر جب ملک ایک تباہ کن معاشی و سماجی بحران کی لپیٹ میں ہے، سیاسی اور ریاستی طاقت کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کے پاگل پن میں حکمران اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات پھٹ کر سامنے آرہے ہیں۔ سماج میں نچلی سطح پر کسی حد تک سیاسی جمود اور بے حسی موجود ہے۔ متحارب حکمران اشرافیہ کے شدید ٹکراؤ کی کیفیت میں ریاست ایک ثالث کا کردار ادا کرنے اوراپنی طاقت کو زیادہ شدت کے ساتھ منوا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن حکمرانوں اور سیاست کے مختلف دھڑوں کی اس آپسی لڑائی میں آئین کے منافقانہ آرٹیکلز کو استعمال کرتے ہوئے مختلف سیاستدانوں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے والی عدلیہ کے مختلف درجے خود بے نقاب ہو رہے ہیں۔ قدامت پرستی، ماضی پسندی اور مذہبی تعصب پر مبنی نفسیات اور اس کے پیش نظر ایسے گھٹیا اور ذاتیات پر مبنی سوالات ریاستی افسر شاہی کے اصل کردار کو عیاں کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس گلی سڑی ریاست کے رجعتی کردار کو بھی واضح کرتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ اگر پارلیمان کے ذریعے ان رجعتی قوانین کو ختم بھی کر دیا جائے تو مذہبی تعصب قائم رہے گا اور سماج کے مجبور حصوں کے خلاف ریاست کی جانب سے اس رجعتی پالیسی کا استعمال کسی نہ کسی طریقے سے جاری رہے گا۔ نتیجتاً سماجی گھٹن میں عوام کا سانس بند ہو جائے گا اور ان کی زندگیاں مزید المناک ہو ں گی۔ متروک سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھنے کے لیے ریاست اور اشرافیہ مذہب کو اپنی مرضی سے جبر کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس نظام کا بحران مزید گہرا ہو گااور معاشی بربادی مزید بڑھے گی، ان حالات میں اس آلے کا استعمال بھی بڑھے گا۔
شائد ہی کوئی ایک بھی امید وار ان شرائط پر پورا اترسکے۔ اس لیے سب کے سب جھوٹ بولیں گے، جھوٹے حلف ا ٹھائیں گے اور ایسی منافقت ہو گی جس کی مثال نہیں ملتی۔ حکمرانوں کی جانب سے مسلط کردہ جھوٹی اخلاقیات اور بھی زیادہ گل سڑ جائیں گی۔ ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ’’نام نہاد ’سماجی طور پر تسلیم شدہ‘ اخلاقی اقدار بنیادی طور پر مبہم کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ محض اس حقیقت کا اظہار ہوتی ہیں کہ انسان اپنے انفرادی کردار میں کچھ مشترکہ قوائد کا پابند ہوتا ہے جو اس پر سماج کا رکن ہونے کی وجہ سے لاگو ہوتے ہیں۔‘‘ لیکن ان اقدار کا تعین اور نفاذ سماج کی حکمران پرتیں کرتی ہیں جو خود سفاک، کرپٹ، دھوکہ باز، بے رحم، غدار اور منافق ہیں۔ بنیادی اخلاقی اقدار بھی مجروح ہوچکی ہیں۔ دھوکہ دہی، بہتان تراشی، رشوت خوری، خود فروشی، استبداد اور خونریزی انتہاؤں تک جا پہنچی ہیں۔ یہ سرمایہ داری کے گل سڑ جانے کی علامات ہیں جس کا اظہار موجودہ سماج، اسکے قوانین اور اخلاقیات کی گراوٹ کی شکل میں ہو رہا ہے۔ حکمران طبقات کرپشن، لوٹ مار، استحصال اور چوری سے کمائی گئی دولت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ مجبور اور محکوم طبقات کے لوگ بھی روز مرہ کی تگ و دواوراپنی بقا کی جنگ میں جھوٹ بولنے پر مجبور ہیں۔
باقائدگی سے مذہبی رسوم ادا کرنے والے اکثر زخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی، چوری اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں ملوث ہوتے ہیں جس کا مقصد اپنی شرحِ منافع کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ سلگتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل پر بات کرنے کی بجائے میڈیا، سیاست دان اور مذہبی پیشوا ہمیشہ افراد، عادات اور کردار پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ سماجی جمود کی اس کیفیت میں مذہبی بحثیں زیادہ عام ہو جاتی ہیں۔ اور کیا بحث کی جاتی ہے؟ کسی کی شلوار ٹخنوں سے اوپر یا نیچے تھی، وضو کے دوران کہنی تک پانی ڈالا گیا یا نہیں، برقع مکمل تھا یا آدھا وغیرہ وغیرہ۔ کیا سماج کو درپیش حقیقی مسائل یہ ہیں؟ عورتوں کے متعلق گفتگو زیادہ تر جنسی غبار نکالنے کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ ان کو سماج میں مساوی مقام دینے کی خاطر۔ بہت نیک و پرہیزگار بننے والے اکثر انتہاہی گھناؤنے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن بے پناہ دولت کمانے کے بعد پیسے کا پجاری میڈیا اورسماج کے مالکان انہیں پوِتر اور پارسا بنا دیتے ہیں۔
سماجی اور اخلاقی بحران سماج اور ریاست کو لاحق شدید مرض کو عیاں کر رہے ہیں۔ اس سے اٹھتا ہوا تعفن سے اس رجعت کو برداشت کرنے پر مجبور عام عوام کادم گھٹ رہا ہے۔ یہ اس سماج کو جکڑے ہوئے نظام کی تاریخی، سماجی اور معاشی متروکیت کا اظہار بھی ہے۔ آخر کسی نہ کسی کو تو انتخابات کے اس سرکس میں شریک ہونے کا اہل بھی قرار دینا ہے۔ لیکن دولت مند طبقات کے یہ افراد جھوٹ، دھوکہ بازی اور منافقت کے ذریعے امیروں اور طاقتورں کی پارلیمان میں جانے کے بعد وہی پالیسیاں نافظ کریں گے جن کے ہاتھوں محنت کش عوام برباد اور اس دھرتی کے باسی اذیت ناک تکالیف اور مصائب کا شکار ہوئے ہیں۔ تاہم آنے والی سماجی و معاشی تباہی اور اس کے رد عمل میں اٹھنے والے انقلابی طوفانوں کے ذریعے اس نظام کا مقدر ایک مکمل انہدام کے علاوہ کچھ نہیں ہے!
Source: آرٹیکل 62،63 کی منافقت