بجلی، پٹرولیم اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد شاید کوئی کسر باقی رہ گئی تھی کہ اب دوا ساز کمپنیوں کی ’’پرزور فرمائش‘‘ پر ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے پہلے ہی باہر ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کررہی ہے۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے منافعے اور اثاثے تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ محنت کشوں کی اجرتیں اور غریب عوام کی آمدن میں اضافے کی بجائے کمی ہورہی ہے۔
حالیہ حکومت کے اپنے سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ اگر افراط زرکی بات کی جائے تو بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے پیش نظر بیلٹ پیپر چھاپنے سے پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کی معذرت صورتحال کو واضح کر دیتی ہے۔ کم از کم اجرت کا قانون کسی بھی جمہوری یا فوجی دور حکومت میں عملی طور پر نافذ نہیں ہو پایا ہے۔ آٹھ ہزار کی کم از کم اجرت کا پول اسی وقت کھل گیا تھا جب علی انٹر پرائزز میں تین سو محنت کشوں کو جھلسا کر ہلاک کردینے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔ میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق اس فیکٹری میں سینکڑوں محنت کش، خصوصاً خواتین، تین ہزار روپے ماہوار پر کام کررہے تھے۔ بڑے پیمانے کی بیروزگاری (پاکستان اکانومک واچ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 50 فیصد ہے) کے پیش نظر لاکھوں کروڑوں محنت کش روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے کم ترین قیمت پر اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں اس نظام کے بحران سے پھیلنے والی غربت، بیروزگاری اور محرومی کا سلسلہ کبھی رکے گا؟ کبھی کوئی بہتری آئے گی؟ ان سماجوں کے عوام کبھی خوشحال ہو پائیں گے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی طور پرمتروک ہوجانے والے اس نظام کے زیر اثران تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ جو نظام ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں عوام کا معیار زندگی تیزی سے گراتا چلا جارہا ہے اس سے تیسری دنیا میں کسی بہتری کی امید محض خود فریبی ہے۔ سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے۔ معیشت کی طرح اس نظام کی سیاست بھی عالمگیر کردار اختیار کر چکی ہے۔ مختلف ریاستیں اس عالمگیر نظام میں چھوٹے چھوٹے معاشی سیاسی یونٹوں یا اکائیوں کا درجہ اختیار کرچکی ہیں چنانچہ ان یونٹوں کو عالمی منڈی میں یکجا کرنے والے نظام کا بحران بھی عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ 2008ء میں امریکہ اور یورپ سے شروع ہونے والے عالمی معیشت کے کریش سے سرمایہ دارانہ نظام ابھی تک نکل نہیں پایا اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی موجود نہیں۔ سرمایہ داری کے دانشور اور معیشت دان اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کروگمین نے حال ہی میں انتہائی خوفناک تناظر پیش کیا ہے۔ 17 نومبر کے نیویارک ٹائمر میں کروگمین لکھتا ہے کہ ’’یہ پچھلے پانچ سال میں نیا معمول اختیار کر چکی ہے۔ یہ معاشی و اقتصادی تنزلی ایک دو سال کی بجائے دہائیوں تک جاری رہے گی۔‘‘
سرمایہ داری کی تنزلی کی وجہ اس کا بطور نظام تاریخی طور پر متروک ہوجانا ہے۔ منڈی کو مصنوعی طور پر سرگرم رکھنے کے لئے پچھلی تین دہائیوں میں قرضوں اور ادھار کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ یہ نظام کے موضوعی تضادات کا اظہا رہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر مبنی اس نظام میں پیداوار کا مقصدصرف اور صرف منافع ہے اور منافع مزدور کی نہ ادا کی جانے والی اجرت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرح منافع میں اضافہ کے لئے کم سے کم اجرت پر کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا لازمی ہے۔ تضاد یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرت ہی منڈی میں اپنا اظہار قوت خرید کی شکل میں کرتی ہے۔ کم اجرت کا مطلب قوت خرید اور آخری تجزئے میں شرح منافع میں کمی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس نامیاتی تضاد پر کبھی قابو نہیں پاسکتاچنانچہ مصنوعی طور پر منڈی میں کھپت کو برقرار رکھنے کے لئے قرضوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرض کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے لامتناہی طور پر بڑھایا نہیں جاسکتا اور واپس کرنا پڑتا ہے۔ جب قرضوں کا یہ بلبلہ پھٹتا ہے تو 2008ء جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ بینک دیوالیہ ہوجاتے ہیں جنہیں بیل آؤٹ کرنے کے لئے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاستیں جب میدان میں آتی ہیں تو ان کا اپنا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ اس عمل کو Soverign Default کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ایسے بحرانوں میں سرمایہ دارانہ معیشت دان شرح سود کو کم رکھ کے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن اس بار یہ طریقہ بحران کو ٹالنے کے لئے پہلے ہی استعمال کیا جاچکا تھا، بحران سے پہلے ہی شرح سود صفر تھی۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمائے کے پہاڑوں پر سانپ بن کے بیٹھی ہوئی ہیں لیکن کم شرح منافع کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کرر ہی ہیں۔ برطانیہ میں 700 ارب پونڈ، امریکہ میں 2 ہزار ارب ڈالر اور یورپی ممالک میں 2 ہزار ارب یورو کارپوریٹ اجارہ داریوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ اتنی دولت ہے کہ اس سے چند سالوں میں کرہ ارض پر سے غربت اور بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے لیکن منافع اور شرح منافع کی ہوس راستے میں حائل ہے۔
بحران سے نکلنے کا دوسرا طریقہ سماج میں ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے سرمائے کا پھیلاؤ ہے جس سے نئے روزگار پیدا ہوتے ہیں، قوت خرید بڑھتی ہے اور سرمایہ داری کچھ عرصے کے لئے پھر سے سرگرم ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ بھی آج ناقابل عمل ہے کیونکہ ریاستیں اپنے اثاثوں اور وسائل کی قیمت سے کہیں زیادہ مقروض ہیں۔ اس قرضے میں کمی لانے کے لئے وہ فلاحی سہولیات میں کمی کے ذریعے اخراجات میں مسلسل کٹوتیاں کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی بحران سیاسی اور سماجی عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے۔ تیسرا طریقہ نوٹ چھاپنے کا ہے جسے Quantitative Easing کہا جاتا ہے۔ لیکن نوٹ چھاپنے سے افراط زر بڑھتا ہے، قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، مہنگائی میں اضافے سے قوت خرید مزید کم ہوجاتی ہے، منڈی سکڑ جاتی ہے اور صنعتیں بند ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً بحران مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ یوں بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ سرمایہ داری کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام کی تاریخی متروکیت کے باعث کوئی نیا طریقہ ایجاد ہو سکتا ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق یورپ میں ہر روز 1000 نوجوان بیروزگاروں کی بھیڑ میں شامل ہو رہے ہیں، پچھلے 4 سال میں یورپ میں ایک کروڑ مزید افرادبے روزگار ہوئے ہیں۔ بیروزگاری دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ خاندانی آمدن میں 40 فیصد کمی آئی ہے اور کٹوتیوں کی وجہ سے مزید کمی آتی جارہی ہے۔ فلاحی ریاست کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ریڈ کراس کے مطابق ’’یورپ میں 12کروڑ افراد انتہائی تلخ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یورپ کا سہانا سپنا ایک بھیانک خواب بن گیا ہے۔ ‘‘
ترقی یافتہ ممالک کی اس صورتحال کے تناظر میں بھلا پاکستان جیسے ممالک میں کسی بہتری کی امیدکیسے کی جاسکتی ہے۔ اس ملک کی معیشت کا 67سے 74فیصد حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔ اس کالے دھن کی معیشت میں ریاست مفلوج ہے، عوام سسک رہے ہیں۔ جرائم، بدعنوانی، انتشار اور دہشتگری کے کاروبار میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ نظام ایک نیم بوسیدہ مردہ لاش بن کر پورے سماج میں تعفن پھیلا رہا ہے۔ اس بوسیدہ سرمایہ داری میں ’’کڑوی گولی‘‘ کے ذریعے اصلاحات اور بہتری کی باتیں کرنے والے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ سماج کی سطح فی الوقت پرسکوت ہے لیکن گہرائی میں خلفشار اور ہلچل موجود ہے۔ علامہ اقبال کی یہ آرزو آج بھی تکمیل کے لئے سلگ رہی ہے کہ
کب ڈوبے کا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظر روز مقافات