وزیرستان میں موجود کامریڈز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی جیت بڑے پیمانے پر دھاندلی کا نتیجہ تھی۔ 11مئی کو الیکشن نتائج آنے کے فوراً بعد سے ہی کامریڈ علی وزیر کی فتح کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں تھی۔ 8مئی کو کامریڈ علی وزیر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 30000 ہزار افراد پر مشتمل ریلی کی قیادت کی تھی۔ اس شاندار ریلی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مقامی لوگوں میں کتنے مقبول ہیں۔ سماجی دباؤ کی وجہ سے خواتین کی بہت بڑی تعداد اگرچہ اس ریلی میں شریک نہیں ہو سکی لیکن انتخابات کے دن بے شمار خواتین نے کامریڈ علی وزیر کو ووٹ دیا۔
کامریڈ علی وزیر کے جلسوں کی تصاویر ان کی مقبولیت کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہیں، لیکن سرکاری نتائج کے مطابق انہیں 8000 سے بھی کم ووٹ پڑے۔ انتخابی نتائج ریاست کی طرف سے کئے گئے بیہودہ فراڈ کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تشدد کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوکر کچھ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالے ہوں گے، لیکن 8مئی کی ریلی اور ڈلنے والے ووٹوں کا فرق دھاندلی کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔
آخری لمحے تک نتائج شک و شبہ سے بالاتر نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے مقرر کیا گیا ریٹرننگ آفیسر آخری لمحے تک فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی فتح کا اعلان کرنے کے لئے کتنے ووٹ درکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ کو ملنے والی انتہائی قلیل ’’اکثریت‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ کامریڈ علی وزیر الیکشن جیت چکے تھے اور دھاندلی کرنے والوں نے انتہائی احتیاط سے کام لیا۔
آخری نتائج کے مطابق کامریڈ علی وزیر، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار غالب خان سے صرف 302 ووٹوں سے الیکشن ’’ہار‘‘ گئے۔ ’’فاتح‘‘ امیدوار کو 7950جبکہ علی وزیر کو 7648 ووٹ پڑے۔ اس بات کی وضاحت کیونکر کی جاسکتی ہے کہ ایک امیدوار جو جو 5000 ہزار ووٹ لے کر الیکشن جیت چکا تھا بعد ازاں تقریباً 8000 ووٹ لے کر ہار گیا؟ ایسے تخلیقی اعداد و شمارجھوٹی پاکستانی جمہوریت کی عکاسی کرتے ہیں جس کی تعریف کے پل آج کل عالمی صحافت میں باندھے جا رہے ہیں۔
ان جعلی انتخابات کا انعقاد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تشدد کی دھمکیوں اور حقیقی تشدد پر مبنی خوف کے ماحول میں کروایا گیا تھا۔ 11 مئی کو علی وزیر کے کئی ہامیوں کو طالبان نے سزا کے طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ طالبان کے گڑھ میں علی وزیر کو نہ صرف تشدد بلکہ جان سے مار دینے کی دھمکیاں بار بار دی گئیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کامریڈ علی وزیر کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ انہوں نے ہر موقع پر انقلابی نظریات کا دفاع کیا۔
اس میں رتی بھر شک کی گنجائش نہیں ہے کہ کامریڈ علی وزیر الیکشن جیت چکے تھے اور دھوکہ اور بے شرمانہ دھاندلی کے ذریعے انہیں اس نشست پر ہروایا گیا۔ ہزاروں ووٹ یا تو ضائع کر دئے گئے یا پھر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے کھاتے میں ڈال دئے گئے۔ سرکاری نتیجے کا اتنا قریبی (300 سے بھی کم ووٹوں کا فرق) اس حقیقت کا تقریباً اعتراف ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی ’’فتح‘‘ جعلی تھی۔
وزریرستان میں ایسا دوسری بار ہو رہا ہے کہ ریاست نے الیکشن میں دھاندلی کروا کے علی وزیر کی فتح کو شکست میں تبدیل کیا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں بھی انہوں نے بالکل ایسا ہی کیا تھا۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ علی وزیر کی شاندار انتخابی مہم نے آنے والے وقت کے لئے حالات کو تیار کیا ہے۔ ایک باب ختم ہوا ہے، لیکن ایک اور بات شروع ہوا ہے جو کہیں زیادہ اہم ہے۔
جنگ جاری رہے گی!
پاکستان میں ’’جمہوریت کی فتح‘‘ کے بارے میں کی جانے والی تمام تر بکواس گھٹیا پروپیگنڈا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے جعلی انتخابات کی طرح تمام تر جمہوریت ایک فراڈ ہے۔ چور اور ڈاکو، ’’منتخب‘‘ ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں جو پاکستان میں چوروں کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ محنت کش طبقے کے نمائندوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے جمہوری حقوق کے استعمال سے روکا جاتا ہے۔
پاکستان کا نیا وزیر اعظم اور مسلم لیگ کا سربراہ، نواز شریف پاکستان کا امیر ترین آدمی ہے۔ غیر ملکی رہنما ان ’’جمہوری‘‘ انتخابات میں کامیابی پر اس پر مبارکبادوں کی بارش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کا کاروبار کرنے والے، ملا، چور، فراڈئے، سیاسی طوائفیں اور بڑے زمیندار لاہور میں اس کی رہائش گاہ کے باہر اپنی اپنی نوکریوں کے لئے قطار بنائے کھڑے ہیں۔
نواز شریف ایسے محلات میں رہتا ہے جن میں ذاتی کرکٹ کے میدان، خوبصورت مور سے بھرے چڑیا گھر اور اچھلتے کودتے ہرنوں سے مزین باغات موجود ہیں۔ اسے بجلی یا پانی کی کوئی قلت نہیں ہے۔ اکانومسٹ کے الفاظ میں ’’وکٹورین طرز کے سڑکوں کو روشن کرنے والے کھمبے، تراشی ہوئی خوبصورت سبزہ زاریں اور پھولوں کی کیاریاں جن کے سامنے سسکس کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جائے۔ ‘‘
’’اس کے وسیع و عریض گھر میں دیو قامت فانوس، مخملی پردے، دیواروں جتنے بڑے آئینے، مختلف انواع و اقسام کی تلواریں، قیمتی گلدان اور چاکلیٹ سے بھرے تابوت جتنے ڈبے (غالباً الیکشن میں جیت پر ملنے والا تحفہ)موجود ہیں۔ فرنیچر غالباً انقلاب سے پہلے فرانسیسی محلات سے کم نہ ہو گا۔ ‘‘
لیکن لاہور کی کچی آبادیوں، تنگ و تاریک گلیوں اوربجلی کے بغیر جہنم کی سی گرمی برداشت کرنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ انہیں نئی حکومت سے مزید جبر، ذلت، ڈاکہ زنی اور استحصال کے علاوی کوئی امید نہیں ہے۔ نواز شریف نے غیر ملکی صحافیوں کو’’کبابوں، مختلف اقسام کے شوربہ دار سالنوں م بریانی کے ڈھیر اور گرما گرم روٹیوں‘‘ سے بھرے ہوئے کھانے کے میز پر مدعو کیا۔ کروڑوں غریب پاکستانیوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔
ہمارے بہادر کامریڈ علی وزیر نے پاکستان کے مزدوروں اور کسانوں کے پرانے انقلابی نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے گرد انتخابی مہم چلائی۔ انسانی زندگی کی یہ بنیادی ترین ضروریات ابھی تک پاکستان کی اکثریتی عوام کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ہر رات کروڑوں بچے بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں جبکہ امیر جونکیں لوگوں کا خون چوس پر اور بھی موٹی ہو جاتی ہیں۔
یہ نام نہاد جمہوریت کس کام کی ہے؟ یہ تو امیروں کی غریبوں پر آمریت کا دوسرا نام ہے۔ ہر کچھ سالوں کے بعد لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کیا مقصد ہے جب ان کے سامنے چوروں کے مختلف گروہ ہی موجود ہیں جن میں سے انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے؟مزدور اور کسان خود نتائج اخذ کریں گے۔ لٹیروں کا نیا گروہ جلد ہی بے نقاب ہو جائے گا جب لوگ اپنے بنیادی حقوق روٹی، کپڑا اور مکان کا مطالبہ کریں گے۔ انہیں یہ حقوق قومی اسمبلی نہیں دے پائے گی تو وہ خود کسی دوسرے طریقے سے انہیں حاصل کرنے کی طرف بڑھیں گے۔
محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد نہ تو انتخابات کے ساتھ شروع ہوتی ہے نہ ختم۔ حقیقی جنگ قومی اسمبلی کے ایوانوں میں نہیں بلکہ سڑکوں، فیکٹریوں، دیہاتوں، کھیتوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑی جائے گی۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں پاکستان کے مارکس وادی ابھر کر سامنے آئیں گے۔
یہ حکمران کامریڈ علی وزیرکو انتخابات میں ہروانے کے لئے دھوکہ بازی کے تمام تر طریقے استعمال کر سکتے ہیں، لیکن وہ علی وزیر اور ان جیسے دوسرے انقلابیوں کو طبقاتی جدوجہد میں عوام کی قیادت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ جدوجہد کی تیاری پہلے سے جاری ہے۔ وقت آرہا ہے۔ یہ ناگزیر ہے۔ آخری فتح کا دورومدار ہر چیز سے بڑھ کر قیادت کے معیار پر ہوگا۔
مزدور اور کسان بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کس پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلام آباد میں بیٹھے ذہنی طور پر بیمار اور دھوکہ باز حکمران ا نہیں بلکہ وہ دیانتدار انقلابی ان کے نمائندے ہیں جو ہر لمحے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ صرف یہی انقلابی فتح کی طرف عوام کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔