مصر ی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مظاہرے تادم تحریر جاری ہیں۔ مصری وزارتِ داخلہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ پورے ملک میں سڑکوں پر موجود ہیں۔ بعض عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ’’تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی مظاہرے‘‘ ہیں اور مظاہرین کی تعداد تین کروڑ تک بتائی جارہی ہے۔ یہ تحریک 2011ء سے کئی گنا بڑی ہے۔ مظاہرین نے قاہرہ میں واقع اخوان امسلمون کے مرکزی دفتر کو نذر آتش کر دیا ہے۔ پورے مصر میں اخوان المسلمون کا شائد ہی کوئی دفترایسا ہو جسے عوام نے اپنے قہر کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ ریاست ہوا میں معلق ہے۔ مصری حکام کے مطابق اب تک پانچ وزراء محمد مورسی کی کابینہ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ فوج نے مورسی حکومت کو مظاہرین کے مطالبات پورے کرنے کے لئے 48 گھنٹے کہ مہلت دی ہے۔ تشدد کے مختلف واقعات میں اب تک 16 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک مزید شدت اختیار کرے گی۔
اتوار 30 جون کو شروع ہونے والے مظاہروں سے پیشتر صدر مورسی کے خلاف ایک پٹیشن پر 2 کروڑ 20 لاکھ لوگ دستخط کر چکے تھے۔ اس پیٹیشن میں اخوان المسلمون کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 2012ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے سرکاری نتائج کے مطابق مورسی نے ایک کروڑ 30 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ یوں ٹھیک ایک سال بعد اس پیٹیشن کے ذریعے انتخابات کے مقابلے میں 90 لاکھ اضافی لوگوں نے مورسی کے خلاف ووٹ دیا۔
مشہوربرطانوی صحافی رابرٹ فسک نے 2012ء کے صدارتی انتخابات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مصر کی ناصرآئٹ سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار حمد ین صباحی کو دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا تھا۔ رابرٹ فسک کے مطابق آخری مرحلے میں فوج کا امیدوار احمد شفیق واضح طور پر الیکشن جیت چکا تھا لیکن امریکی دباؤ کے تحت مصری فوج کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور محمد مورسی الیکشن جیت کر صدر کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ درحقیقت حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کے فوراً بعد اور انتخابات سے کئی ماہ قبل ہی امریکی سامراج کے کئی دانشور ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے برعکس مصالحت پسندی اور ’ری کونسیلیشن‘ کی حکمت عملی کے تحت نئی خارجہ پالیسی کو پروان چڑھانے پر زور دے رہے تھے۔ امریکی سامراج کی ’ری کونسیلیشن‘ پر مبنی خارجہ پالیسی کا آغاز بل کلنٹن کے دور حکومت میں ہوا تھا لیکن جارج بش حکومت نے بھی کسی حد تک اس پالیسی کو جاری رکھا۔
پاکستان، افغانستان اور عرب ممالک میں اس پالیسی کا اطلاق کروانے میں سی آئی اے کے منجھے ہوئے پالیسی ساز اور اوباما کی حالیہ حکومت کے مشیر خاص بروس ریڈل نے اہم کردار ادا کیا۔ حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے کہیں پہلے بروس ریڈل نے امریکی سامراج کے پرانے حلیف مذہبی بنیاد پرستوں سے نئے ناطے استوار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
عرب انقلاب کا آغاز تیونس میں ایک بے روزگار نوجوان بو عزیزی کی خود سوزی سے ہوا تھا۔ بو عزیزی کی خود سوزی نام نہاد ’جمہوریت‘ کے لئے نہیں تھی بلکہ یہ بے روزگاری، غربت، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، محرومی اور ناداری کے خلاف ایک احتجاج تھا۔ تیونس، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں پھٹنے والے انقلابات کی قوت محرکہ معاشی بدحالی اور طبقاتی استحصال ہے۔ لوگ اپنے سلگتے ہوئے معاشی مسائل اور حکومتوں کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔ عرب انقلابی تحریکوں کے اس بنیادی پہلو کو عالمی ذرائع ابلاغ نے چھپانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل کی بجائے ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے تاکہ اس نظام کی تبدیلی کے سوال کو دبایا جاسکے جو یہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ زندگی اور وقت سے ہارے ہوئے سابقہ بائیں بازو کا کردار بھی انتہائی شرمناک تھا۔ سوشلزم سے ’الرجک‘ ان حضرات نے پہلے تو تیونس اور مصر کی عوامی بغاوتوں کو ’سازش‘ قرار دے کر انقلاب ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ تاہم یہ حضرات اس حوالے سے کوئی منطقی دلیل یا توجیح پیش کرنے سے قاصر تھے کہ کروڑوں لوگوں کو ’خرید‘ کر ایک ’سازش‘ کس طرح برپا کی جاسکتی ہے؟ اخوان المسلمون کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان ’دانشوروں‘ نے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ یہ دائیں بازو کی تحریک تھی اور مصر اب ایک بنیاد پرست معاشرے میں تبدیل ہوجائے گا۔ 30 جون کو بنیاد پرست اخوان المسلمون کے خلاف کروڑوں لوگوں کی بغاوت دیکھ کر یہ دانشورشائد کوئی اور بیہودہ توجیح پیش کریں گے۔ بہتر سماج کے لئے جدوجہد کی انسانی جبلت اور انقلاب سے انکاری یہ حضرات اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ بد ترین اندھے وہ ہیں جو دیکھنا ہی نہیں چاہتے!
مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے عوام کے مسائل ختم نہیں ہوئے۔ اخوان المسلون کی حکومت نے جس ڈھٹائی سے عوام دشمن سرمایہ دارانہ پالیسیاں لاگو کی ہیں اس کی توقع شائد حسنی مبارک سے بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اخوان المسلمون کے دور حکومت میں مصری پاؤنڈ کی قیمت میں 29 فیصد کمی واقع ہوئی جس سے مہنگائی نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح معیشت کی شرح نمو 7 فیصد سے گر کر 2 فیصد رہ گئی ہے۔ اپنی استحصالی پالیسیوں کو چھپانے کے لئے مورسی نے مذہبی لفاظی اور بنیاد پرستی کا سہارا لینے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام رہا۔ اسی طرح مورسی کے احمقانہ بیانات نے بھی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کا کردار ادا کیا۔ مثلاً لوڈ شیڈنگ کا حل موصوف نے یہ تجویز فرمایا کہ خواتین شام کی بجائے صبح کے وقت کپڑے دھویا کریں۔ غربت، بھوک، لوڈ شیڈنگ اورعام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہوئی ضروریات زندگی نے ایک نئی اور پہلے سے کہیں بڑے پیمانے کی عوامی بغاوت کو جنم دیاہے جس نے قاہرہ سے لے کر واشنگٹن تک حکمرانوں کے ایوان ہلا کر رکھ دئے ہیں۔ ہم نے آج سے ایک سال پہلے وقتی طورپر تحریک کے تھم جانے پر واضح کیا تھا کہ مصر میں 1959ء کے 52 سال بعد 2011ء میں انقلابی تحریک ابھری ہے، مورسی عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر پائے گا لیکن مورسی کے خلاف عوامی تحریک کو ابھرنے کے لئے مزید 52 سال درکار نہیں ہونگے! مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت بننے پر پاکستان میں جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور اسے ’اسلامی انقلاب‘ سے تعبیر کیا تھا۔ ترکی میں طیب اردگان اورتیونس میں رشید غنوچی کے بارے میں بھی یہی تاثر دیا جاتا رہاہے لیکن دائیں بازو کی یہ تمام تر حکومتیں آج عوام کے غضب کا نشانہ بن رہی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کو جاری رکھنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام، اس کی سیاست اور معیشت، مصر سمیت دنیا بھر میں محنت کش عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نظام متروک ہوچکا ہے جو سماجی مسائل کو پیچیدہ اور انسانی زندگیوں کو تلخ تر کرتا چلا جارہا ہے۔ معاشرے کا سائنسی تجزیہ کرنے والے مارکسسٹوں کے لئے اس نظام کی متروکیت کشش ثقل سے بڑا سچ ہے۔ جب تک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجات کا پیغام عوام کے شعور پر غالب نہیں ہو گا تحریکیں ابھرتی اور بھٹکتی رہیں گی۔ عوام لڑیں گے، تھک کر پسپا ہوں گے، نظام کا بحران انہیں پھر سے لڑنے پر مجبور کرے گا لیکن ان کی حتمی فتح ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ایک موضوعی عنصر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ موضوعی عنصر کا یہ کردار ایک مارکسسٹ لینن اسٹ انقلابی پارٹی ہی ادا کرسکتی ہے۔ مارکسسٹ دنیا بھر میں اس پارٹی کی تعمیر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن مقصد بہت بڑا ہے اور وقت بہت کم!