مشرقِ وسطیٰ کے افق پر ایک نئی جنگ کی تاریکی پھیل رہی ہے۔ جنگی جنون میں بدمست سرمائے کے منصوبہ ساز، شامی صدر بشار الاسد کو نوچ کھانے کے لیے غرا رہے ہیں۔ اکانومسٹ کے تازہ ترین شمارے کے ادارئیے کا عنوان ’’زور سے مارو‘‘ تھا اور سرِ ورق بشار الاسد کے چہرے کو چیرتی ہوئی کفن میں لپٹی لاشوں کی تصویر پر مشتمل تھا۔ اداریے کے اختتامی الفاظ تھے کہ ’’اگر اسد ذاتی طور پر امریکی میزائلوں کا نشانہ بنتا ہے تو بننے دو،وہ اور اس کے حواری خود زمہ دار ہیں۔ ‘‘دوسری جانب صدر اوباما کی ہچکچاہٹ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے جو اب اضطراب میں تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکہ کا دائیں بازو کا پریس ’محدود حملے‘ کی پالیسی پر نالاں ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے ایک آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ ’’ محدود حملوں سے در حقیقت اسد کو فائدہ ہو گا۔ ۔ ۔ اوباما کئی ہفتے قبل اعلان کرکے جس کمزور ردِ عمل کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اس سے اسد کی حکومت کو اپنے اثاثے محفوظ مقامات پر چھپا دینے کا موقع ملاہے،اس منصوبے سے امریکہ کی ساکھ کمزور ہو گی۔ ۔ ۔ اگر اوباما یہ خواہش نہیں رکھتا کہ (صدر جارج بش کے الفاظ میں) دس ڈالر کے خالی خیمے پربیس لاکھ ڈالر کا میزائل چلا کر ایک اونٹ کے پچھواڑے کو نشانہ بنائے تو پھر کانگریس کو شام کے خلاف اس نا تواں اور علامتی حملے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ۔ ۔ اس سے ہمارے دشمن بے باک اور ہماری سکیورٹی کمزور ہوگی اور دنیا بھر میں امریکہ کا تمسخر اڑے گا۔ ‘‘
2008ء میں باراک حسین اوباما نے تمام بیرونی جنگوں کے خاتمے اور عراق اور افغانستان سے فوجوں کے انخلاء کے وعدے پر انتخاب جیتا تھا۔ شام پر حملے کی صورت میں وہ تاریخ میں امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والا پہلا شخص ہوگا جو ایک ہولناک جنگ کا آغاز کرے گا۔ نوبل انعام دینے والوں کے لئے یہ شرمناک ہو گا۔ اوباما نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’مجھے شام میں کسی قسم کے نا مکمل تنازعے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ۔ ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جنگ سے تھکاوٹ کا شکار مجھ سے زیادہ کوئی نہیں۔ ‘‘تاریخ کی سب سے طاقتور سامراجی قوت کے سرغنہ کے اعتماد اور حوصلے میں یہ گراوٹ امریکی سامراج کو لاحق شدید ترین بحران کے نتیجے میں جنم لینے والی پژمردگی کی علامت ہے۔
امریکی عوام کی سماجی و معاشی تکالیف 1929ء کے مالیاتی بحران اور دوسری عالمی جنگ کے بعد اس وقت اپنی انتہا پر ہیں۔ انتہائی امیر ایک فیصد لوگ پچاس فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ پچاس فیصد آبادی کے پاس ملکی دولت کا دس فیصد سے بھی کم ہے۔ امریکیوں کی وسیع اکثریت کے لیے صحت جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی ناممکن ہوتی جا رہی ہیں۔ عراق اور افغانستان میں جنگوں نے ان کا خزانہ خالی کر دیا ہے اور امریکہ سب سے زیادہ قرض دینے والے ملک سے دنیا کے سب سے بڑے مقروض میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک اور تباہ کن اور خون ریز سامراجی جنگ امریکی معیشت اور عوام کے لیے بربادی کا سبب بنے گی۔
تیزی سے بڑھتے ہوئے سماجی خلفشار اور عوام کی جانب سے جنگ مخالف تحریک کے علاوہ امریکی سامراج کوپہلے کبھی نہ دیکھی گئی بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ہے۔ اس کے اتحادی پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندر فوغ راسموسن نے کہا ہے کہ ’’میں شامی حکومت کے خلاف بین الاقوامی ردِ عمل میں نیٹو کا کوئی کردار نہیں دیکھ رہا۔‘‘ برطانوی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے پیش کی جانے والی قراردادِ جنگ کی ناکامی، اوباما کے جنگی منصوبوں پر ایک کاری ضرب تھی جس نے در حقیقت اس کا اعتماد اور رعونت خاک میں ملا دی ہے۔ جرمن محنت کشوں اور نوجوانوں کے ردِ عمل کے خوف سے چانسلر انجلا مرکل نے آغاز سے ہی جنگ میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ عرب لیگ، جو ایک ڈھیلا ڈھالا اور غیر سنجیدہ گروپ ہے، نے بھی اپنے اجلاس میں ’’اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بغیر‘‘ شام پر کسی حملے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا انتہائی قریبی اتحادی اردن کا شاہ عبداللہ بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ روس اور چین اس حملے کے کھلے مخالف ہیں اور پیوٹین نے کہا ہے کہ اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت اور اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ ’’ننگی جارحیت‘‘ ہو گا۔
پیچھے صرف فرانس بچا ہے۔ خود کو ’’سوشلسٹ‘‘ کہنے والے فرانس کے صدرفرانسوا اولاند نے پہلے تو حملے کی حمایت کی تھی لیکن فرانس کی قومی اسمبلی میں گرما گرم بحث اور فرانس کی آبادی کی وسیع اکثریت کی جانب سے اس ممکنہ جارحیت پر شدید رد عمل کے بعد فرانس کی شراکت بھی مشکوک ہو گئی ہے۔ اگرچہ سعودی، قطری اور خلیج کی دیگر رجعتی بادشاہتیں شامی حزبِ اختلاف میں کرائے کے قاتلوں کو بھرپور معاونت فراہم کرتی رہی ہیں لیکن اس سے النصرہ فرنٹ جیسے القاعدہ کے منسلک گروپوں کو طاقت ملی ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق ’’مسٹر اسد کی حکومت مزید مظبوط ہوئی ہے۔ ۔ ۔ باغیوں کا زیادہ تر انحصار سعودیوں اور قطریوں پر ہے۔ ۔ ۔ (بشار کے خلاف) زیادہ تر لڑائی سب سے انتہا پسند جہادی کر رہے ہیں۔ ایک ظالمانہ حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت نے ایک فرقہ وارانہ خانہ جنگی کو بھڑکا دیا ہے۔‘‘
تاہم شام اور قطر کے حمایت یافتہ اسلامی بنیاد پرست دھڑوں کے درمیان بھی شدید اندرونی جنگ جاری ہے۔ در حقیقت شام ان آمرانہ رجعتی بادشاہتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن چکا ہے جو علاقائی بالادستی، اثر رسوخ اور برتری کے لیے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ سعودی شہزادے بندر بن سلطان السعود نے نیوز ویک میں قطر کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس ان الفاظ میں نکالی ہے کہ ’’قطر کیا ہے؟ 300 لوگ۔ ۔ ۔ اور ایک ٹی وی چینل۔‘‘ قطراور سعودی سامراج کی آپسی لڑائی سے اسد حکومت مضبوط ہوئی ہے اور مذہبی جنونیوں کی رجعت سے خوفزدہ شامی عوام میں بشار الاسد کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ در حقیقت امریکی سامراج کی جانب سے ممکنہ جارحیت کی اصل وجہ بھی خانہ جنگی میں بشارالاسد کی جیت کے بڑھتے ہوئے امکانات ہیں۔
یورپ اور دیگر جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں فلاحی ریاست کے خاتمے کی بنیاد بننے والے خوفناک معاشی بحران کے باوجود جنگیں سامراج کی منافع خوری ضرورت ہیں۔ عراق اور افغانستان میں شکستوں کے بعد شام کی لڑائی میں سامراجیوں کا انجام کہیں زیادہ تباہ کن ہو گا۔ ٹراٹسکی نے کئی دہائیوں قبل لکھا تھا کہ ’’امریکی سامراج وہ دیو ہے جس کے پیر مٹی کے ہیں۔ ‘‘آج یہ پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے عوام میں سامراجی جارحیت کے خلاف غیر معمولی مخالفت پائی جاتی ہے۔ حملے کی صورت میں پھیلنے والی بربادی اس خطے کے عوام کا قتلِ عام کرے گی اور اس کے اثرات بہت دور تک مرتب ہوں گے، لیکن سرمایہ داری کے پاس انسانیت کو دینے کے لئے بس یہی کچھ بچا ہے۔
تاریخ نے کئی مرتبہ ثابت کیا ہے کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کی صورت میں عرب انقلاب ایک بلند پیمانے پر دوبارہ ابھر سکتا ہے اور انقلابی قیادت کی موجودگی میں اس درندہ صفت نظام کو اکھاڑتے ہوئے اس خون ریزی، ذلت اور مظالم کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ یہی تاریخ کا اس بربادیوں کے نظام سے انتقام ہو گا!