صدیوں سے حکمران روس کے ظالم اور جابر بادشاہوں کی سرزمین پر جنہیں زار کہا جاتا تھا اکتوبر 1917ء کا انقلاب انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ تھا۔ پہلی دفعہ محنت کش، محروم اور صدیوں سے ظلم اور استحصال کا شکار اکثریت نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا اور ایک مزدور ریاست تشکیل دی۔ عوام کے لیے روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات کا مسئلہ حل ہوا اورانسان تسخیر کائنات کی راہ پر گامزن ہوا جس میں پہلی دفعہ کوئی شخص اس کرہ ارض کی حدود سے باہر نکل کر خلا میں داخل ہوا۔
’’1917ء میں آٹھ ما ہ کے عرصے میں دو تاریخی تبدیلیوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا۔ فروری کی تبدیلی جو ماضی کی جدوجہد کی گونج تھی جو گزشتہ صدیوں میں ہالینڈ، انگلینڈ، فرانس اور تقریباً تمام یورپ میں بورژوا انقلاب کے دوران سلسلہ وار ہو چکی تھیں۔ اکتوبر انقلاب نے پرولتاریہ کی فتح کا اعلان کیا۔ عالمی سرمایہ داری کو پہلی عظیم شکست روس کی سرزمین پر ہوئی۔ زنجیر اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹ گئی۔ لیکن یہاں صرف کڑی نہیں ٹوٹی تھی بلکہ زنجیر ٹوٹی تھی۔‘‘ (ٹراٹسکی، اکتوبر کے دفاع میں، 1932ء)
اس عظیم انقلاب کے بعد مزدور ریاست قائم ہوئی اور کسی مخصوص اقلیت کی پر تعیش زندگی اور مال و دولت کے لیے نہیں بلکہ سماج کی بہتری اور تہذیب کی ترقی کے لیے اقدامات کیے گئے۔ لیکن حکمران طبقات کبھی بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ پہلے دن سے ہی اس انقلاب کے خلاف زہر اگلا گیا اور اس کے خاتمے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں۔
’’زار کے ایک جنرل نے تبدیلی کے کچھ دیر بعد انتہائی نفرت سے لکھاکہ کون یقین کرے گاکہ ایک قلی یا ایک چوکیدار اچانک چیف جسٹس بن گئے، ہسپتال کا معمولی ملازم وہاں کا ڈائریکٹر بن گیا، ایک نائی دفتر میں پہنچ گیا، ایک سپاہی کمانڈر انچیف بن گیا، ایک مزدور مئیر بن گیا، ایک تالے بنانے والا کارخانے کا ڈائریکٹر بن گیا؟ کون یقین کرے گا؟
لیکن یہ یقین کرنا پڑا۔ وہ سوائے یقین کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے تھے جب سپاہیوں نے جرنیلوں کو شکست دی، جب ایک مئیر، جو پہلے ایک دیہاڑی دار مزدور تھا، نے پرانی افسر شاہی کا رستہ روکا، ویگنوں کی صفائی کرنے والے نے ذرائع آمدو رفت کا نظام درست کر دیا۔ کون یقین کرے گا؟ کوئی بھی کوشش کر لے اس پر نہ یقین کرنے کی۔‘‘(ٹراٹسکی، اکتوبر کے دفاع میں، 1932ء)
یہ محنت کش طبقے کی وہ فتح تھی جسے سرمایہ دار حکمران تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔ انقلاب کے بعد سوویت روس پر 21ممالک کی فوجوں نے جارحیت کر دی تا کہ محنت کشوں کی حکمرانوں کے خلاف اس سرکشی کو کچلا جا سکے اور پوری دنیا میں پھیلتی ہوئی اس روشنی کو دبا کر تاریکیاں دوبارہ مسلط کر دی جائیں۔ سوویت روس کے اندر جاری خانہ جنگی نے بھی نومولود مزدور ریاست کے لیے خوفناک مسائل پیدا کئے۔ رد انقلابی قوتوں کی کوشش تھی کہ عوام کا اس نئے نظام سے اعتماد اٹھ جائے اور وہ اپنے آپ کو پرانے نظام کی زنجیروں میں جکڑنا پسند کریں۔ لیکن روس کی تمام تر پسماندگی اور انسانیت کے دشمنوں کی پیدا کردہ ان مشکلات کے باوجود سوویت روس نے ترقی کی ان دیکھی منازل طے کیں۔ ٹراٹسکی اپنے مضمون’’اکتوبر کے دفاع میں‘‘ لکھتا ہے:
’’گہرے ترین، معروضی اور غیر جانبدارانہ طریقے کے مطابق ترقی کومعاشرے کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے حوالے سے ماپا جا سکتا ہے۔ اس انداز سے اکتوبر انقلاب کا مواخذہ تجربے کی بنیاد پر کیا جا چکا ہے۔ سوشلسٹ سماج کے اصولوں پر تاریخ میں پہلی دفعہ پیداوار میں ایسے نتائج دیکھنے میں آئے ہیں جو اتنے کم وقت میں پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ روس کی صنعتی ترقی کا گراف اعداد و شمار میں کچھ یوں ہے۔ 1913ء یعنی جنگ سے پہلے کے آخری سال میں 100۔ 1920ء میں، جب خانہ جنگی عروج پر تھی یہ صنعت کا نچلا ترین مقام تھا یعنی صرف25۔ یعنی پچھلی پیداوار کا ایک چوتھائی۔ 1925ء میں یہ 75 تک پہنچ گیا، یعنی جنگ سے پہلے والی کا تین چوتھائی۔ 1929ء میں 200اور 1932ء میں 300یعنی جنگ سے پہلے والی صنعت کا تین گنا۔ اگر اس کو عالمی اعداد و شمار کے مقابلے میں دیکھیں تو تصویر اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے۔ 1925ء سے لے کر 1932ء تک جرمنی کی صنعتی پیداوار ڈیڑھ گنا کم ہو گئی ہے، امریکہ کی دو گناجبکہ سوویت یونین میں یہ چار گنا بڑھی ہے۔ یہ اعداد وشمار خود اپنی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شاندار ترقی اور کامیابیوں کے بعد پھر یہ انقلاب زوال پذیر کیوں ہوا اور پھر 1991ء میں سوویت یونین کا ٹوٹنا سوشلزم کا خاتمہ نہیں؟ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ حکمران طبقے کے بغیر کوئی سماج نہیں چلایا جا سکتا اور امیر اور غریب کافرق ازل سے قائم ہے جو ابد تک رہے گا۔ اس سوال کا تفصیلی جواب ٹیڈ گرانٹ کی شاندار تصنیف ’’روس انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘‘ میں دیا گیا ہے لیکن یہاں یہ بیان کرنا مناسب ہو گا کہ درست سماجی سائنس کے علم کے بغیر سماج کا تجزیہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کشش ثقل کے قانون کو سمجھے بغیر راکٹ بنانے کی کوشش کرنا۔ سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی حکمرانی اورپر تعیش زندگیوں کو خاتمہ ہو۔ حکمران یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد حکمرانی کرتی رہے اور یہ نجی ملکیت کا نظام مسلسل آبادی کی وسیع اکثریت کو محروم رکھتے ہوئے ان کی نسلوں کی آسائش کا سامان مہیا کرتا رہے۔ اس کے لیے وہ اور ان کی پروردہ ریاست محنت کشوں کی ہر تحریک، ہر بغاوت اور ہر انقلاب کو خون میں ڈبونے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ محنت کشوں کی ہر کامیابی کو تاریخ کے صفحات سے مٹا نے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہی کچھ اکتوبر انقلاب اور سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ کیا گیا۔
سب سے پہلے توعظیم اکتوبر انقلاب کو ایک سازش قرار دینے کی کوشش کی گئی اور بالشویک پارٹی کو سازشی عناصر پر مبنی پارٹی۔ اس کے بعد سوویت یونین کے اندر ہونے والی سٹالنسٹ زوال پذیری اور جرائم کو محنت کشوں کی عظیم کامیابیوں کا لازمی نتیجہ قرار دے کر ایسی کسی بھی کوشش کو ہمیشہ کے لیے رد کرنے کے جواز تراشے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کی وجہ وہ بیوروکریسی تھی جو انقلاب کے ایک ملک میں مقید رہ جانے کی وجہ سے سماج میں ابھر کر بالائی پرت کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ لینن نے جمہوریت کو سوشلزم کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا لیکن سٹالن نے جنگ کے دنوں کی لینن کی پالیسیوں کی آڑ لے کر سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت میں جمہوریت کا خاتمہ کر کے ایک مطلق العنان کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ ان تمام خطرات کی پیش گوئی لینن نے پہلے کر دی تھی اور کہا تھا کہ اگر جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب نہیں پھیلتا تو روس کا انقلاب ختم ہو جائے گا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی کے انقلاب کی کامیابی کے لیے روس کے انقلاب کو قربان بھی کیا جا سکتا ہے۔ فرد کی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے بھی لینن نے جمہوری مرکزیت کا اصول وضع کیا تھا اور اسی بنیاد پر بالشویک پارٹی کی تعمیر کی تھی۔ اس پارٹی میں اداروں کے اندر فیصلے ہوتے تھے اور لینن کو بھی کوئی فیصلہ کروانے کے لیے مرکزی کمیٹی کو قائل کرناپڑتا تھا۔ سوویت یونین میں بھی اسی طرز پر جمہوری مرکزیت کا اصول لاگو کیا گیا تا کہ کسی فرد کی اجارہ داری قائم نہ ہو سکے۔ لینن اور ٹراٹسکی نے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لیے تیسری انٹرنیشنل بھی تشکیل دی جسے کومنٹرن بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس سٹالن نے نہ صرف مارکسزم کے عالمگیر نظریات کو رد کر کے ایک ملک میں سوشلزم کا غلط نظریہ اپنایا بلکہ اس کے مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظر یے اور حکمت عملی کی بدولت 1925-26ء کا چین اور دیگر ممالک کے اہم انقلابات کامیاب نہ ہو سکے اور سوویت بیوروکریسی کو منصوبہ بند معیشت پر گرفت مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ منصوبہ بند معیشت نے منڈی کی معیشت پر اپنی برتری تو جلد ہی ثابت کر دی جس کی مثال پہلے دی جا چکی ہے۔ خاص طور پر دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کی فوجی طاقت کو شکست دینے میں منصوبہ بند معیشت کا کلیدی کردار ابھر کر سامنے آیا۔ اسی کامیابی کے باعث سٹالن اور سوویت بیوروکریسی کو ابھار حاصل ہوا اور پوری دنیا میں ٹراٹسکی اور لینن کے درست نظریات ایک پورے عہد کے لیے پس پشت چلے گئے۔ لیکن جمہوریت نہ ہونے کے باعث منصوبہ بند معیشت کا گلا گھٹتا رہا جو بالآخر سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوا۔ اس کی پیش گوئی بھی انقلاب کے قائدین پہلے کر چکے تھے۔ ٹراٹسکی کی کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘ اس کا واضح ثبو ت ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ انقلابات کے ساتھ آئندہ بھی ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا اور غیر طبقاتی سماج کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سماج کی پہلی کوشش پیرس میں 1871ء میں کی گئی تھی جسے ’پیرس کمیون‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس وقت کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز برطانیہ میں تھے اور محنت کشوں کی عالمی تنظیم پہلی انٹرنیشنل کی سربراہی کر رہے تھے۔ ان عظیم انقلابیوں کی موجودگی کے باوجود وہ انقلاب 70دن سے زیادہ نہیں چل سکا۔ لیکن اس تجربے نے مارکس، اینگلز اور آنے والی نسلوں کے دیگر بہت سے انقلابیوں کو مایوس نہیں کیا بلکہ ان کا انسانیت کے روشن مستقبل پر یقین مزید پختہ ہو گیا۔ اسی یقین کے ساتھ لینن نے بالشویک پارٹی کی تعمیر کی جس نے روس میں اکتوبر انقلاب کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے انہدام نے بھی سرمایہ داروں کے زہریلے پراپیگنڈے کے باوجود انقلابیوں کو مایوس نہیں کیا اور وہ اس کی سائنسی بنیادوں پر وجوہات کو سمجھتے ہوئے پہلے سے بھی بہترانداز میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کہنا کہ عوام کو ہمیشہ ایک حکمران طبقے کی ضرورت رہے گی تاریخ سے سراسر ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ گو کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت آج گل سڑ چکی ہے اور اس کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی لیکن اپنے آغاز میں وہ مطلق العنان بادشاہت کے طرز حکومت سے آگے کا قدم تھی۔ اس جمہوری طرز حکومت کو لانے کے لیے بھی جاگیردارانہ نظام کو انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنا پڑا جس میں یورپ کے مختلف ممالک میں محنت کشوں نے عظیم قربانیاں دیں اور کئی انقلابات برپا کئے۔ ان انقلابات کے نتیجے میں امیر اور غریب کا فرق تو نہیں مٹ سکا لیکن انسانی سماج ایک ایسے عہد میں داخل ہو گیا جہاں ایسی مشین اور تکنیک حاصل کی جائے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام افراد کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ آج وہ بنیادیں موجود ہیں کہ سرمایہ داری سے بہتر نظام اور جعلی اور جھوٹی جمہوریت کی جگہ حقیقی جمہوریت کا طرز حکومت قائم کیا جا سکتا ہے۔ سوویت یونین میں سٹالنزم کے انہدام سے تبدیلی اور بہتری کو ہی رد کردینا انسان کے انقلابات سے بھرے ہوئے شاندار ماضی سے انحراف اور روشن مستقبل سے مایوسی کی علامت ہے۔ درحقیقت سٹالنزم کا انہدام مارکسزم کے نظریات کی جیت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اکٹھا ہو کر عالمی سوشلسٹ انقلاب تک جدوجہد کو جاری رکھنا ہو گا۔ ان عالمگیر نظریات سے انحراف کا نتیجہ ناکامی ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کا جشن منانے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ انسانی سماج میں آج یقیناًوہ مرحلہ آ چکا ہے کہ موجودہ وسائل کو بروئے کار لا کر تمام افراد کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ پیداوار کی بہتات کی جا سکتی ہے۔ اس بہتات سے انسانی سماج میں موجود قلت کی وجہ سے پیدا کردہ لالچ، ہوس، حرص، فریب، دھوکہ، بغض اور دیگر تمام غلاظتوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایساکرنے کے لیے ایک ایسا سماجی نظام ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں ذرائع پیداوار کو ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے نکالا جائے جو اپنی ذات سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ اس سماجی نظام کو غیر طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ انسان اپنی لاکھوں سال کی تاریخ میں مختلف سماجی نظام ترتیب دیتا آیا ہے تا کہ انسانی تہذیب کا سفر آگے کی جانب رواں دواں رہے۔ رجعتی سوچ کے حامل افراد ہمیشہ پرانے نظاموں سے چمٹے رہتے ہیں اور نئی سوچوں اور خیالات پر تازیانے لگاتے رہے ہیں۔ آئینِ نو سے ڈرنے اورطرزِ کہن پر اَڑنے کی ریت بھی پرانی ہے اور ان تاریک قوتوں کے خلاف لڑنے اور انقلابات کے ذریعے ان کو پاش پاش کرنے کا رواج بھی نیا نہیں۔ لیکن آج کے عہد کا فرق یہ ہے کہ اب آنے والا انقلاب طبقاتی نظام کو یعنی امیر اور غریب کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ ایسے سماج کا خواب تو انسان ہر دور میں دیکھتا آیا ہے لیکن اس کی سائنسی طرز پرنظریاتی بنیادیں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے رکھیں جبکہ اس کی مادی بنیادیں سرمایہ داری خود فراہم کر رہی ہے۔ 1917ء کا بالشویک انقلاب سوشلزم کے سائنسی نظریات کی درستگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ مارکس کٹھن ترین حالات میں محنت کشوں کے انقلابی نظریات کا دفاع کرتا رہا تا کہ جھوٹے، متذبذب اور کنفیوز نظریات کے ذریعے محنت کشوں کی آزادی کے سفر کومنزل سے دور نہ کیا جا سکے۔ اسی کے ساتھ وہ محنت کشوں کی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں بھی سرگرم رہاتاکہ ان نظریات کو حتمی طور پرعملی جامہ پہنایا جا سکے۔ لینن اور ٹراٹسکی انقلاب سے پہلے ایک لمبے عرصے تک انقلاب کے کردار، مزدور ریاست کی تعمیر اور دیگر اہم موضوعات پر بحثیں کرتے رہے۔ اسی دوران بالشویک پارٹی کی تعمیر بھی جاری رہی جس نے حتمی طور پر دیگر تمام نظریات کے کھوکھلے پن کو تاریخ کے سامنے عیاں کیا اور محنت کشوں کی عظیم فتح کا اعلان کیا۔ انقلاب کی زوال پذیری کے بعد ٹراٹسکی مارکسزم کے نظریات کا دفاع کرتا رہا جس کے لیے اسے سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اسے قتل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد ٹیڈ گرانٹ نے سوویت روس کی ریاست کے کردار کا درست تجزیہ پیش کیا۔ جہاں ایک جانب سٹالنسٹ سوویت روس کو کمیونسٹ سماج کہہ رہے تھے جبکہ فرقہ پرور اسے ریاستی سرمایہ داری قرار دے رہے تھے ٹیڈ نے اسے درست طور پر’مسخ شدہ مزدور ریاست ‘قرار دیا۔
تاریخ نے ان تمام تجزیوں اور نظریات کی درستگی پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ بالشویک انقلاب کی عظیم میراث کو زندہ رکھنا ہر انقلابی کا فریضہ ہے۔ صدیوں کی ذلتوں کے مارے لوگوں نے جبتختگرائے تھے اور تاج اچھالے تھے وہ لمحات انسانی تاریخ کے سنہرے لمحات تھے۔ ہم آج پھر ایسے ہی انقلاب کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تاریکی روشنی کا رستہ نہیں روک سکتی۔ اندھیرے جتنے گہرے ہوں گے روشنی کا سفر اتنا ہی آسان ہو گا۔ ہمیں مارکسزم کے نظریات اور ان کی درستگی پر یقین ہے اور 1917ء کا سوشلسٹ انقلاب اس یقین کو ہمیشہ تقویت بخشتا رہے گا۔ ہمیں انسانیت کے غیر طبقاتی سماج پر مبنی مستقبل پر بھی کامل یقین ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بالشویک انقلاب کا سورج دوبارہ طلوع ہو گا اور اپنی روشنی سے نسل انسان کے ماتھے سے محرومی، بھوک، بیماری اور غربت کے تمام داغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا دے گا۔