برسوں بیت گئے پاکستان کے عوام کی سماعتوں نے کچھ اچھا نہیں سنا۔ آنکھیں ہیں کہ ہر روز کسی نئے صدمے سے پھٹی ہی چلی جا رہی ہیں۔ احساس شل ہو چکے ہیں اور حق بولنے والوں کی زبان گونگی ہوتی جا رہی ہے اور میڈیا ہے کہ گولی، بارود، موت، جرائم، دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ جیسی لفاظی کا اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ کہنا کچھ بھی چاہ رہا ہو اصطلاحات یہی استعمال کرتا ہے۔
کتنے نوجوان ہیں جنہوں نے جوانی روزگار کی تلاش میں لٹا دی۔ کتنی ماؤں نے اپنے لخت جگردہشتگردی کی نظر کر دئیے۔ یہ سماج جہاں عمومی طور پہ انسانیت کو روندتا ہی چلا جا رہا ہے جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی تنزلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ وہاں عورت جسے پہلے ہی انسانی درجہ حاصل نہیں تھا اسکی حالت مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ماں جو خاندان کو جوڑے رکھنے کا واحد مرکزی نقطہ تھا وہ خود منتشر ہو چکا ہے۔ یہ سماج خواتین کو غیر انسانی زندگی جینے پر مجبور کر رہا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی نا گفتہ بے حالت کا اندازہ ہم ان اعداد و شمار سے لگا سکتے ہیں۔ اپریل 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکا ر ہوتی ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں خواتین کے لئے تیسرا بڑا خطرناک ملک بن چکا ہے۔ اور یہی نہیں 20 مارچ 2013 میں ’’دی نیشن‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق زچکی کے دوران مختلف پیچیدگیوں کے باعث 150,000خواتین مر جاتی ہیں اور ہر دن 1000 خواتین بچے کو جنم دیتے وقت دم توڑ جاتی ہیں۔ یہ تو محض رپورٹ کئے جانے والے کیس ہیں لیکن حقیقت اس سے زیادہ بھیانک ہے۔ ورکنگ فیلڈ کے اندر بھی خواتین کو نہ صرف مردوں کی نسبت کم اجرت دی جاتی ہے بلکہ بد ترین مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جنسی تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ سال میں ہی میڈیا پر کتنی معصوم بچیوں کے کیس سامنے آئے۔ اکثریتی خواتین اس سماج کے اندر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ سماجی عدم اعتماد اور اضطراب میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لیکن ظلم کی ان داستانوں میں ایک ذکر بغاوتوں کا بھی ہے۔ جب عمومی طور پر سماج کی سب سے غیر سیاسی سمجھی جانیوالی پرت نے یہ ثابت کر دکھایا تھا کہ وہ ظلم و جبر برداشت ہی نہیں کرتیں بلکہ نا مساعد حالات کے خلاف سینہ سپر ہو کر لڑ بھی سکتی ہیں۔ جب پہلی بار امریکہ کی محنت کش خواتین نے 8 مارچ 1857ء کو نیو یارک میں گارمنٹس کی صنعت سے وابستہ خواتین نے تنخواہوں میں اضافے، اوقات کار میں کمی اور ووٹ کے حق کے لئے مظاہرے کئے۔ اس کے بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے ان خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے خواتین کے دن کی بنیاد رکھی۔ 1890ء میں دوسری انٹرنیشنل کے ایک اجلاس میں محنت کش خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا۔ پھر دوسری انٹرنیشنل نے 19 مارچ 1911ء کو اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا۔ دس لاکھ لوگوں نے آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں یہ دن منایا۔ 19 مارچ کا یہ دن اسکی تاریخی اہمیت کے پیش نظر رکھا گیا۔ کیونکہ 19 مارچ 1848ء جرمنی کا انقلابی سال تھااور محنت کش طبقے کا ابھا ر تھا۔ محنت کش خواتین کی لڑاکا طاقت کا یہ پہلا بڑا اظہار تھا۔ جب مرد محنت کش بچوں کے ساتھ گھروں میں رہتے اور خواتین اس دن کو منظم کرنے کے حوالے سے میٹنگز کرتیں۔ اس دوران ریاستی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن خواتین نے بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسکے باوجود مظاہرے منظم کئے۔
اس دن کی تقریبا ت سے بے شمار حاصلات بھی ہوئیں۔ محنت کش خواتین میں سیاسی شعور بیدار ہوااور انہوں نے سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ یہ پمفلٹ اور پوسٹر تقسیم کرتیں، مظاہروں کے متعلق شعور دیتیں، یہاں تک کہ سیاسی طور پر پسماندہ خواتین بھی اس دن میں دلچسپی لیتی اور کہتیں کہ یہ ہمارا دن ہے۔ ۔ محنت کش خواتین کا تہوار۔
ہر 8 مارچ کے بعد محنت کش خواتین کے شعور میں اضافہ ہوتا اور وہ بڑی تعداد میں سوشلسٹ پارٹیوں میں شامل ہوتیں۔ ہر خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کامریڈز مختلف ممالک میں جاتے اور اس دن کے حوالے سے تقاریر کرتے۔ اسطرح مختلف ممالک کے محنت کش طبقہ میں ایک ہم آہنگی اور اتحاد بنتا اور جو مجموعی طورپر پرولتاریہ کی طاقت میں اضافے کا باعث بنتا۔
اسی طرح روس کی محنت کش خواتین نے اس دن کو منانے کے حوالے سے 1913ء میں اس میں حصہ لیا۔ جس میں کامریڈز کی انتھک محنت ہے۔ کامریڈ نتاشا اور چند قابل ذکر نام ہیں جنہوں نے اس دن کو منانے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔ کیونکہ یہ زار کی رجعتیت کا عہد تھا۔ انکے لئے کھلے عام مظاہرے منظم کرنا انتہائی مشکل تھا۔ لیکن اسوقت محنت کش طبقے کے جو دو بڑے اخبا ر نکلتے تھے، ایک بالشویک پراودا اور منشویک لوچ (Looch)۔ ان میں اس دن کے حوالے سے خصوصی تحریریں لکھی جاتیں۔ اور ان ڈور میٹنگز کی جاتیں جن میں اکثریت شرکت کرتی اور اس دن کو حمایت ملتی۔ پھر 1917ء کا عظیم سال آیا، بھوک، بیماری اور جبر نے محنت کش خواتین کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا۔ جس کے خلاف خواتین 8 مارچ 1917ء کو پیٹروگراڈ کی گلیوں میں نکل آئیں جہاں اس یادگار دن، اس عظیم دن کا آغاز ہوا۔ 1917ء کے انقلاب کی فتح یابی نے جو حاصلات خواتین کو دیں انکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ پہلی بار عورت کو حقیقی معنوں میں مرد کے مساوی حقوق ملے۔ طلاق کے عمل کو آسان بنایا اور روزگار کے مواقعے پیدا کئے۔ اجتماعی ریستوران اور اجتماعی دھوبی گھاٹ بنائے گئے۔ زچکی سے پہلے اور بعد تنخواہوں سمیت رخصت دی جاتی۔ بقول لینن کے ’ہم نے ان قابل مذمت قوانین کی ایک بھی اینٹ کھڑی نہیں رہنے دی جو عورت کو مرد کے مقابلے میں کم تر سمجھتے ہیں۔ ‘
مگر سٹالنزم نے ان تمام تر مراعات کو چھین کر ایک بار پھر عورت کی زندگی کو ناسور بنا دیا۔ اور آج پھر اس نظام میں عورت کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ یہ دن محض خواتین کے لئے اہمیت کا حامل نہیں بلکہ تاریخی طور پر یہ مر د و عورت کے لیے مشترکہ اہمیت کا حامل دن ہے۔ تاریخ میں عظیم انقلاب کا آغاز اس دن سے ہوا۔ لیکن روس کے انقلاب کے تجربے کے بعد یہ بہت واضح ہے کہ پرولتاریہ کے برا ہ راست اقتدار میں آنے سے ہی محنت کش مرد و خواتین کامیا ب ہو سکتے ہیں۔
آج بھی سماج کی سب سے زیادہ پسنے والی اس پرت کے لہو میں جدوجہد کی تڑ پ موجود ہے۔ عمومی حالات میں محنت کش طبقہ رائج الوقت حالات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ بھلے معمول کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو لیکن جب تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے تو پھر محنت کش طبقہ اپنے بچاو کے لئے میدان عمل میں اترتا ہے۔ اور محنت کش خواتین اس جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ بحیثیت طبقہ لڑتی ہیں۔ جس طرح انہوں نے عرب انقلاب کے دوران بھی ثابت کیا۔ آج جب حالات اتنے تلخ ہو چکے ہیں تو محنت کش طبقہ بلند پیمانے پر حرکت میں آئے گا اور سب کچھ یکسر بدلتے ہوئے اس ادھورے مشن کی تکمیل کرے گا۔ ایک بار پھر مرد و زن تاریخ کا دھارا بدلنے کے لئے گلیوں، چوکوں اور چوراہوں کا رخ کریں گے اور اس نظام کو للکارتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھے گا جو ان کی نجات کی واحد ضمانت ہے۔