22 نومبر کے دن میکسیکو سٹی میں موجودلیون ٹراٹسکی میوزیم کے ہال میں پر ایلن وڈز نے انگلستان کے انقلاب پر لیکچر دیا۔ گفتگوکا آغاز کرتے ہوئے ایلن نے کہا کہ پوسٹ ماڈرنسٹ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تاریخ کے کوئی قوانین نہیں ہوا کرتے اور اسے سمجھنا نا ممکن ہے۔ لیکن ہمیں صدیوں کے دوران بار بار دہرائے جانے والے واقعات اور یہاں تک کہ جانے پہچانے کردار بھی نظر آتے ہیں۔ ملتے جلتے مادی حالات سے ایسے تاریخی واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
[Source]
چارلس اوّل اور اس کی فرانسیسی بیوی، فرانس کے سولہویں بادشاہ لوئس اور اس کی آسٹرین بیوی، مشہور زمانہ میری اینٹونیٹ، اور زار روس، 1917ء میں جس کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، اور اسکی جرمن بیوی میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ افراد ملتے جلتے کردار کے حامل تھے جو محض ایک اتفاق نہیں ہو سکتا۔
ایلن وڈز نے اس بات کی نشاندہی کی کہ برطانوی، فرانسیسی اور روسی انقلابات کے طبقاتی کردار بہت مختلف تھے مگر پھر بھی وہ ایک جیسے مراحل سے گزرے تھے۔ ایک فرق یہ ہے کہ برطانوی انقلاب میں مذہب نے آج کی نسبت بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہر کوئی خدا وشیطان پر یقین رکھتا تھا، مگر مختلف مذہبی رجحانات کا وہی کردار تھا جو آج کل سیاسی جماعتوں کا ہے۔ ایلن نے وضاحت کی کہ یہ انقلاب جاگیردارانہ نظام کے انہدام کے دوران آیا۔ کلیسا رجعت کے غلبے کی نمائندگی کرتا تھا اور سرمایہ دار طبقے کو تاریخ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اس دیوہیکل مذہبی مخالف کا سامنا کرنا تھا۔
ایلن نے ایک ایک کر کے انقلاب کے دوران ابھرنے والے تمام رجحانات کی وضاحت کی، جو مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے تھے۔ کیتھولزم سے لے کر اینگلیکن ازم تک جو دائیں بازو کی نمائیندگی کرتے تھے، پرسبیٹرین ( سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ جماعت جس کی پارلیمان میں اکثریت تھی) سے لے کر انڈیپینڈنٹس ،مرکز کی جماعت جو درمیانے طبقے کی نمائندہ تھی (جس میں کرامویل بھی شامل تھا) اور لاتعداد مذہبی فرقے جو پیورٹن ازم (ترکِ رسومات) کی سب سے انقلابی حصے کی نمائیندگی کرتے تھے، جن کی بنیاد اکثریتی طبقے پر تھی۔ انتہائی بائیں بازو پر لیولر (Levellers) اور ڈیگر (Diggers) تھے جو (آخر الذکر) ابتدائی کمیونسٹ اور ہمارے آباؤ اجداد تھے۔
دوہرا اقتدار اور عوام کا کردار
ایلن نے انقلاب کے دوران ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کی وضاحت کی جن کا آغاز سکاٹ لینڈ میں ہونے والی بغاوت سے ہوا۔ خانہ جنگی کے آغاز میں ہمیں اس شے کا پہلا اظہار نظر آیا جسے مارکسسٹ دوہرا اقتدار (dual power ) کا نام دیتے ہیں، ایک طرف پارلیمان تھا جو سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کر رہا تھا اور دوسری طرف بادشاہت۔ قوم مخالف قوتوں کے درمیان بٹ کر رہ گئی تھی۔
ایلن نے انگلستان کے انقلاب میں عوام کے فیصلہ کن کردار کی وضاحت کی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے عام طور پر بورژوا تاریخ دان نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خانہ جنگی اس وقت تک شروع نہیں ہوئی جب تک باقی تمام حربے آزما نہیں لیے گئے۔ سرمایہ دار طبقہ چونکہ عوام سے خوفزدہ تھا لہٰذا اس نے بادشاہ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
سچ تو یہ ہے کہ برطانوی انقلاب تب ہی کامیاب ہوا جب جدوجہد کی رہنمائی پارلیمان میں موجود سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں سے درمیانے طبقے کے انقلابیوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لی، جن کی سربراہی اولیور کرامویل کر رہا تھا۔ ایلن نے کرامویل کی نیو ماڈل آرمی کو بالشویک پارٹی، سوویتوں اور سرخ فوج کے مجموعے سے تشبیہ دی۔ یہ جمہوری تھی اور اس میں کافی اہم بحثیں موجود تھیں، جن میں اشتراکی خیالات سمیت بہت سے انقلابی خیالات پیش کیے گئے۔
Nesby کی جنگ میں بادشاہ کی شکست کے بعد پارلیمان اور کرامویل کی فوج کے درمیان دوہری طاقت ابھر کر سامنے آئی۔ سرمایہ دار طبقہ خوفزدہ ہوگیا اور نجی ملکیت کے دفاع کی خاطر بادشاہ کے ساتھ سمجھوتے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے فوج کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش کی جس سے کھلی مسابقت کی فضا پیدا ہو گئی۔
فوج میں اوپر سے لے کر نیچے تک بائیں بازو کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھنے لگا۔ فوجی بادشاہ کو بھی مارنا چاہتے تھے اور پارلیمنٹ کا بھی خاتمہ چاہتے تھے، جسے وہ انقلاب کی جیت کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ لیولرز کو عام سپاہیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن ان خیالات کو کرامویل اور اس کے بہت سے افسران ایک خطرے کے طور پر دیکھتے تھے۔
برطانوی انقلاب مکمل کرو!
کرامویل ایک انقلابی تھا، مگر ایک بورژوا انقلابی۔ اس نے بائیں بازو کی جانب جھکتے ہوئے بادشاہ کو شکست دی لیکن اس کا عوام کو اقتدار منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بالآخر اس نے لیولرز کا خاتمہ کر دیا جس سے حقیقی جمہوری انقلاب کی تمام امیدیں ختم ہو گئیں۔
بائیں بازو کو شکست دینے کے بعد کرامویل نے دائیں بازو کو شکست دینے کے لیے فوج پر انحصار کیا۔ اس نے پارلیمان کوختم کر دیا، بادشاہ پر مقدمہ چلایا اور بالآخر اس کی گردن اڑا دی۔
اولیور کرامویل ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے باقی تمام عمر ایک آمر کے طور پر گزاری۔ برطانوی انقلاب کامیاب ہو گیا، جس سے برطانیہ میں سرمایہ داری کی ترقی کی بنیاد قائم ہوئی۔ لیکن جب کرامویل مرا تو انقلاب کی’’زیادتی‘‘ سے خوفزدہ بورژوازی (سرمایہ داروں) نے بادشاہ کے بیٹے چارلس دوّم کو انگلستان واپس آنے کی دعوت دے دی۔ وہ بادشاہت کو نجی ملکیت کی فصیل اور ایک نئے انقلاب سے تحفظ کی ضمانت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
آج بے شک برطانیہ میں جمہوریت کی روایت موجود ہے، جیسا کہ ایلن نے نشاندہی کی، لیکن ابھی تک وہاں بادشاہت اور ایک غیر منتخب شدہ ایوان موجود ہے۔ جاگیرداری کی بربریت پر مبنی ان باقیات کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے ابھی انقلاب کی ایک اور قسط درکار ہے، جس سے محنت کشوں کی حقیقی جمہوریت اور اشتراکیت کی راہ ہموار ہو گی۔ بہت پہلے ہمارے حقیقی آباؤ اجداد، برطانوی انقلاب میں شامل ڈیگرز، نے جس کا خواب دیکھا تھا۔
ایلن کی تقریر کو گرم جوشی سے سراہا گیا اور اس کے بعد سوالات اور مزید گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بحث نے ایک ایسے موضوع سے متعلق لوگوں کی دلچسپی کو ابھارا جس سے میکسیکو کے لوگ زیادہ آشنا نہیں ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حاضرین میں اٹانومس میٹروپولٹن یونیورسٹی کے طالب علم اور ان کے استاد ڈاکٹر الیجنڈرو کالسینو بھی موجود تھے۔ ایلن ووڈز کے ساتھ لیون ٹراٹسکی کے نواسے استبان والکوف اورلیون ٹراٹسکی میوزیم کی موجودہ ڈائریکٹر گیبریلا پریز نوریجیا بھی موجود تھیں جنہوں نے کانفرس کے اختتام پر انتہائی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حاضرین کو میوزیم کے باغ میں ضیافت کے لیے مدعو کیا۔