اگرچہ گزشتہ چند مہینوں میں برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے بطور رقاصہ مضحکہ خیز ثابت ہوئی ہے لیکن ایک معاملے میں اس کی ماہرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو کام کل کیا جا سکتا ہے اسے پرسوں پر ڈال دو! یقیناًاس کی معاونت ماہر اساتذہ نے ہی کی ہے یعنی یورپی قائدین، جو پچھلی ایک دہائی سے سیاسی کھچڑی پکانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ لیکن مے اور اس کے مذاکراتی شریک جتنے مرضی پینترے بدل لیں، وہ حتمی نتائج سے بچ نہیں سکتے۔ آئیں بائیں شائیں کرنے کے باوجود برطانیہ اور یورپ ایک لرزہ خیز دھماکے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بس سوال ہے کہ آخر کب تک!
[Source]
بریگزٹ کا مطلب؟
وزیر اعظم کی امید تھی کہ وہ برسلز میں موجود اپنے ہم منصبوں کو قائل کر لے گی کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے معاملے پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔ لیکن EU27 کے درمیان حتمی اتفاق اس نتیجے پر ہوا کہ کوئی بھی نتیجہ اخذ نہیں ہوا! نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اگلے ماہ منعقد ہونے والے بریگزٹ سربراہی اجلاس کو منسوخ کر دیا گیا ہے جسے بجا طور پر یورپی قائدین وقت کے ضیاع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
آئرش سرحد کے مستقل اور ناقابل حل مسئلے کے سامنے بے بس مے خاموشی سے صرف عبوری دور میں توسیع کی تجویز کے ساتھ خالی ہاتھ واپس جانے پر مجبور ہو گئی(عبوری دور دسمبر 2020ء میں ختم ہو جائے گا)۔ اب ٹوری قائد نے تجویز دی ہے کہ توسیع ’’صرف چند مہینوں‘‘ کی بات ہے تاکہ ہر لمحہ حقیقت بنتے بغیر کسی سودے کے ہولناک بریگزٹ سے بچا جا سکے۔
توقعات کے عین مطابق ٹوری پارٹی کے نمک حلالوں کے لئے یہ تجویز ناقابل برداشت تھی۔ بریگزٹ کے حامیوں نے فوراًایک نئے دھوکے کا واویلا مچانا شروع کر دیا؛ برطانیہ کو ایک ’’باج گزار ریاست‘‘ بنانے کی جانب ایک اور قدم۔
اخراج کے حامیوں کو یہ خوف ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے وعدہ کردہ یروشلم نہیں پہنچ پائیں گے اور برطانیہ ہمیشہ کے لئے ’’BRINO‘‘ کی جہنم میں پھنس کر رہ جائے گا: یعنی برائے نام بریگزٹ۔۔ سرکاری طور پر یورپی یونین سے اخراج لیکن مستقل یونین کو مالی ادائیگی اور قوانین کی پیروی جبکہ کسی بھی فیصلے میں ووٹ ڈالنے کے حق سے محرومی۔
اور ان کے خدشات بجا ہیں کیونکہ بینکار، مالکان، کاروبار اور بلیئر ائٹس کی ہر لمحہ بڑھتی تعداد 2016ء کے یورپی ریفرنڈم کے نتائج کو یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’’عوامی ووٹ‘‘ یعنی ایک نئے ریفرنڈم کا شور شرابا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے ہی تو ریس موگ اور ٹولہ لڑنے مرنے کو تیار نہیں، ان کو اپنا محبوب بریگزٹ ہتھیلی میں ریت کی طرح پھسلتا نظر آرہا ہے۔
برطانیہ کے بڑے کاروباریوں کی جانب سے مے کی تجویز کے پر جوش استقبال نے ان کے شک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیا ہے جو کسی بھی طرح یورپی منڈی تک رسائی کو طوالت دینا چاہتے ہیں۔ مثلاً، مالکان کی یونین CBI نے سب سے زیادہ گرم جوشی سے وزیر اعظم کی نئی تجویز کا خیر مقدم کیا۔
سیاسی گھن چکر
تھیریسا مے کی کسی قسم کے معاہدے تک پہنچنے کی ہر کوشش ناکام ہو رہی ہے۔ اس کے پارلیمانی اتحادی رجعتی DUP نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایک ایسا معاہدہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے درمیان تجارتی معاہدوں میں الحاق ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں سرحد ملک کو درمیان سے چیرنے کے بجائے آئرش سمندر سے جا لگے گی تو وہ ٹوری پارٹی کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کر دیں گے۔ بریگزٹ مخالف پہلے ہی ایک نئے ریفرنڈم کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اور کوربن کی لیبر پارٹی اعلان کر چکی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے کسی بھی معاہدے کے خلاف ووٹ ڈالیں گے تاکہ نئے انتخابات کے نتیجے میں ٹوریوں کے پچھواڑے پر لات ماری جا سکے۔
اس ساری صورتحال میں بریگزٹ کے حامی سمجھتے ہیں کہ ترپ کی چال ان کے پاس ہے یعنی اپنی پارٹی قائد کو فارغ کرنے کی اہلیت۔
مے کے سر پر لٹکتی یہ تلوار کسی بھی وقت اس کا سر تن سے جدا کر سکتی ہے۔ سابق وزرا بورس جانسن اور ڈیوڈ ڈیوس ان یورپ مخالفین میں شامل ہیں جنہوں نے برسلز میں پیدا ہونے والی صورتحال کے خلاف ایک کھلا خط لکھا ہے جس کے مطابق برطانوی عوام مے کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی اگر بریگزٹ ’’منظم کردہ مزاحمتی دکھاوے کے بعد تسلیمِ شکست‘‘ بن کر رہ جائے گا۔
پینترے بازی، ریا کاری
وزیر اعظم کے پاس اب ایک ہی امید باقی رہ گئی ہے: کسی طرح توازن قائم کیا جائے۔ وہ یورپی قائدین کی رعایتوں کے لئے منتیں کر رہی ہے کہ اگر اس کا تجویز کردہ معاہدہ قبول نہیں کیا گیا تو بریگزٹ میں خوفناک مسائل ہو سکتے ہیں۔ اپنی پارٹی میں موجود بریگزٹ مخالف ممبران پارلیمنٹ سے وہ متشدد بریگزٹ حامیوں کے خلاف حمایت کی اپیلیں کر رہی ہے۔ اور بریگزٹ حامیوں کو باور کرا رہی ہے کہ اگر انہوں نے اسے برطرف کر دیا تو فوری انتخابات کے نتیجے میں جیرمی کوربن جیت جائے گا اور ان کا بریگزٹ خواب ہمیشہ کے لئے چکنا چور ہو جائے گا۔
لیکن مے قیامت تک یہ پینترے بازی، یہ ریا کاری برقرار نہیں رکھ سکتی۔ حتمی طور پر وزیر اعظم کو فیصلہ کرنا پڑے گا: اپنی پارٹی کے دباؤ کا شکار ہو کر برسلز میں موجود ’’جابروں‘‘ کے خلاف کھڑے ہو کر ملک کو کسی معاہدے کے بغیر یورپ سے باہر لے جانا ہے یا پھر یورپی یونین کے آگے سر نگوں ہو کر ماضی میں اعلان کردہ تمام ’’سرخ لکیروں‘‘ سے پسپائی اختیار کرنی ہے۔
اگر پہلے آپشن پر عمل کیا جاتا ہے تو برطانیہ انجان کیفیت میں ڈوب جائے گا، بڑے کاروبار اپنی سب سے بڑی منڈی سے کٹ جائیں گے ا ورپہلے ہی شدید عدم استحکام کا شکار یورپی اور عالمی معیشت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ بریگزٹ کے حامیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ رومن تاریخ دان ٹیسی ٹس کے الفاظ میں: اس کو سلطنت ہونے کا غلط نام دیتے ہیں اور جہاں یہ تباہی و بربادی کرتے ہیں، اسے فتح قرار دے دیتے ہیں۔
دوسری آپشن کا مطلب تھیریسا مے کی سیاسی خودکشی ہے۔ مالکان اور بینکار یورپی مارکیٹ تک رسائی برقرار رکھیں گے، لیکن اس کی قیمت کیا ہو گی؟
پہلے تو یہی واضح نہیں کہ وہ بچ پائے گی بھی کہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تھیریسا کے لئے یورپی یونین کے مطالبات ناقابل قبول ہوں۔ حتمی طور پر وزیر اعظم کو اس کی اپنی ہی پارٹی برطرف کر دے گی جس کے بعد کوئی نیا، ناقابل اعتبار اور زیادہ سخت گیر بریگزٹ حامی سامنے آ سکتا ہے۔
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ نتیجے میں کوربن کی لیبر حکومت اقتدار میں آ جائے گی، پراعتماد، دلیر اور ریڈیکل۔ ایک ایسی صورتحال جس نے لندن سٹی کی اتنی ہی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں جتنی ایک بغیر معاہدے کے بریگزٹ کے خیال نے۔
سوشلسٹ یورپ کی منزل
جلد یا بدیر، تھیریسا مے کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور کوربن کی لیبر پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملے گا۔ اس وقت برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کو فیصلہ کرنا پڑے گا: منڈی کی قوتوں کے سامنے سرنگوں ہو جاؤ یا پھر مالکان کے یورپ اور سرمایہ دارانہ نظام سے ناطہ توڑ دو۔
کوربن تحریک کو اب ہر صورت اپنے آپ کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ اور اس کا یقینی مطلب سماج کی انقلابی تبدیلی ہے ،سوشلسٹ ریاستہائے متحدہ یورپ۔