آئن سٹائن نے کہا تھا ، ’’ایک ہی کام کو بار بار دہرائے جانا اور سمجھنا کہ اس سے نتائج مختلف نکلیں گے، احمقانہ پن ہوتا ہے۔‘‘ تو پھر مارکسسٹ آخر سوشلزم کی جدوجہدکو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں، جب کہ یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنا ضروری ہے کہ سوویت یونین اور دیگر ایسے ممالک جو خود کو ’’سوشلسٹ‘‘ کہا کرتے تھے ان کے ساتھ کیا بیتی۔
1917ء میں روس کے محنت کش طبقے کو ایک بڑی انقلابی تحریک کی وجہ سے اقتدار حاصل ہوا تھا۔ معیشت کو سرمایہ داروں ا ور جاگیرداروں سے چھین کرمحنت کشوں اور غریب کسانوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور وہ اسے محنت کش کونسلوں (سوویتوں یاپنچائتوں) کے ذریعے جمہوری انداز سے چلا رہے تھے۔ یہ اقدامات سرمایہ داری سے سوشلزم کی جانب تبدیلی کے آغاز کااظہار تھے۔
تاہم لینن، ٹراٹسکی، اور باقی بالشویکوں نے کبھی اس طرح نہیں سوچا تھا کہ ’’ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر‘‘ ممکن ہے بلکہ وہ روسی انقلاب کو عالمی انقلاب کی ابتدا سمجھتے تھے۔ جیسے سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے بالکل اسی طرح سوشلزم کوبھی عالمی نظام بننا ہو گا۔
یہ جلد ہی عمل میں ثابت بھی ہو گیا جب انقلابات یا انقلابی صورتحال پورے یو رپ میں جیسا کہ جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی، فرانس، اسپین اور یہاں تک کہ برطانیہ میں نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔
ان تمام ممالک میں محنت کش اپنی قوت ارادی کی کمزوری کی وجہ سے اقتدار حاصل کرنے میں ناکام نہیں رہے بلکہ وجہ ایک انقلابی پارٹی کی کمی تھی،جو عوام کی تمام توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اس طرح روسی انقلاب ایک ملک تک محدود ہی رہا۔ روس کے بے پناہ وسائل کو یورپ کی ترقی یافتہ صنعت سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے روسی معیشت جنگ کے بعد بکھر کر رہ گئی ۔
بطورمارکسسٹ ہم سمجھتے ہیں کہ غربت، بے روزگاری، بھوک اور ایسے دیگر عذابوں سے آزاد ایک معاشرہ تخلیق کرنے کا دارومدار پیداواری قوتوں (صنعت، زراعت، سائنس اور تیکنیک) کے معیار اور ساتھ ہی اس کی ملکیت اوران کے کنٹرول پر ہے۔
مارکس نے خود کہا تھا،
’’پیداواری قوتوں کی بڑھوتری (سوشلزم کی) لازمی ترین عملی بنیادہے، کیونکہ اس (پیداواری قوتوں کی بڑھوتری) کے بغیرضرورت ایک عمومی حقیقت بن جاتی ہے،اور ضرورت کی موجودگی میں اشیائے لازمیہ کے حصول کی جدوجہد دوبارہ سے شروع ہوجاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہی تمام پرانی ہاؤ ہو پھر سے شروع ہو جائے۔‘‘
کئی سالوں کی جنگ کے بعد 1920ء کی دہائی کے آغاز میں روس کو صنعتی اور زرعی شعبوں میں تباہی کا سامنا تھا۔ ضرورت یقینی طور عمومی حقیقت بن چکی تھی۔ ایسی کیفیت جب یا تو لاکھوں محنت کشوں مارے جا چکے تھے یا وہ سالوں کی مسلسل جدوجہدسے تھک چکے تھے، سوویتوں میں شمولیت میں کمی آتی گئی اور ایک مراعات یافتہ بیوروکریٹ پرت نے اپنے پر پھیلانے شروع کر دیئے۔
1920ء کے بعد بھی حکومت کے عہدہ داروں اوربیوروکریٹس کی تعداد لگ بھگ ساٹھ لاکھ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر زار کے عہد کی مراعات یافتہ پرتوں سے آئے تھے اور یہی وہ پرت تھی جن کی نمائندگی میں سٹالن اقتدار میں آیا۔
بیوروکریسی کے اقتدار کو برقرار رکھنے اور اکتوبر انقلاب کی حقیقی روایات سے منسلک تمام رشتوں کو تباہ کرنے کے لئے یہ جابر آمریت ضروری تھی۔ ایسے ہی پرانے بالشویکوں کے قتل عام کے ذریعے محنت کشوں کی جمہوریت کی تمام تر شکلیں مٹا دی گئیں۔
سماج کو چلانے اور اس کی منصوبہ بندی میں محنت کش طبقے کی جمہوری شرکت کے بغیر سوویت معیشت بیوروکریٹک بدانتظامی اور ضیاع کے باعث خوفناک صورتحال کا شکار ہونے لگی۔
سوویت معیشت کے جمودکے باعث 1990ء میں بیوروکریسی کی ایک بڑی پرت سرمایہ داری کی واپسی کا سبب بنی( جو کہ اب خود ارب پتی ہو چکے تھے)، جیسا کہ ٹر اٹسکی نے دہائیوں قبل ،’’انقلاب سے غداری‘‘میں پیش گوئی کی تھی۔ سٹالن کے دورکے تمام تر جرائم کے باوجود،حقیقی مارکسسٹوں نے جس کی کبھی حمایت نہیں کی، سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی محنت کش طبقے کے لیے ایک سانحہ تھی۔
آج کے محنت کشوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سٹالن کے دور کی کسی مسخ شدہ شکل کی بجائے حقیقی سوشلزم کے لئے جدوجہد کریں۔وہ سوشلزم نہیں بلکہ سٹالنزم ہے جو کہ ناکام ہوا۔
مارکسیوں کے لیے محنت کشوں کی جمہوریت ایک سوشلسٹ سماج کی اساس ہے۔یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ صرف ایک ملک میں سوشلزم ممکن نہیں ہے۔ یہی ہمارے انٹرنیشنلسٹ ہونے کی وجہ ہے ، اسی وجہ سے تو ہم سوشلزم کے لیے نہ صرف برطانیہ میں بلکہ پوری دنیا میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم ایسے سوشلزم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو دور جدید کی اصل ناکامی ، سرمایہ داری، کا جڑ سے خاتمہ کر دے۔