4اگست کوشام 5:41پر صدر ماڈورو پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ ایک فوجی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔اس حملے میں صدر ماڈورو محفوظ رہے جبکہ نیشنل گارڈ کے سات ا ہلکارزخمی ہوئے ۔حملے کے بعد ٹی وی پر اپنے خطاب میں ماڈورو نے اس حملے کی ذمہ داری کولمبیا کے صدر یوان مینوئل سانتوز پر ڈال دی جو خطے میں امریکی سامراج کا گماشتہ ہے۔اس کے بعد ’ وینزویلا کی’ٹی شرٹ میں سپاہی‘‘ نامی ایک انتہائی دائیں بازو کی دہشت گرد تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔اس حملے سے واضح ہو گیا ہے کہ سامراجی طاقتیں کھل کر وینزویلا کی حکومت کیخلاف سازشیں کر رہی ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتی ہیں ۔ اس عمل کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ دوسری جانب خود حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث بحران بڑھتا جا رہا ہے اور معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ادھورے انقلاب کے یہی نتائج نکلتے ہیں جس میں سرمایہ دار ی کو مکمل طور پر اکھاڑ کر مزدور ریاست نہیں قائم کی گئی اور ابھی تک حکومت سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو لاگو کر رہی ہے۔
معاشی بحران کی سنگینی کی بدولت وینزویلا کے محنت کش عوام کی زندگی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ تنخواہوں کی قوت خرید میں زبردست گراوٹ کے ساتھ ضروریات زندگی کے بنیادی ڈھانچوں (پانی، بجلی اور عوامی ذرائع آمدورفت) کا زوال دیکھنے میں آرہا ہے۔ مختلف شعبوں کے محنت کشوں نے منظم ہو کر تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے پر احتجاج کا آغاز کر دیا ہے اور دیہی علاقوں میں کسان شاویز کے زرعی انقلاب کو تباہ کرنے کی کوششوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
پچھلے پندرہ سالوں سے میں ہر سال وینزویلا کا چکر لگا رہا ہوں اور جون میں اپنے حالیہ دورے کے دوران میں نے معیار زندگی میں شدید اور اچانک گراوٹ دیکھی ہے۔ونیزویلا کا معاشی بحران اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکا ہے اور کم ہونے کی بجائے شدید ہوتا جا رہا ہے۔ افراط زر میں بے تحاشا اضافے سے تنخواہوں کی قوت خرید میں اس قدر کمی آ چکی ہے کہ کم از کم اجرت، جسے حکومت نے جون میں بڑھاکر ماہانہ 50 لاکھ بولیوار کیا ہے، اس سے محض ایک کلو گوشت ایک مرغی یا 30 انڈوں سے کچھ زیادہ کا ڈبہ ہی خریدا جا سکتا ہے۔
بینک نوٹوں کی کمی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو آمدورفت کا کرایہ دینے کیلئے نوٹوں کے حصول کی خاطر بینکوں اور کیش پوائنٹس پر گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ مستقل روٹس پر چلنے والی بسوں کے مالکان بڑھتی ہوئی سپیئر پارٹس، ٹائروں، موٹر آئل اور دیگر سازوسامان کی بڑھتی قیمتوں کے باعث کرایوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے کچھ اضافے کی منظوری دی ہے مگر اسے بس مالکان ناکافی سمجھ رہے ہیں اور کام کرنے سے انکار کر رہے ہیں یا ’’قزاق‘‘ بن گئے ہیں: باقاعدہ سٹاپ پر کھڑے رہتے ہیں اور صارفین سے بہت زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں۔ ٹرکوں کے مالکان نے ذرائع آمدرفت کے طور پر بسوں کی جگہ لینا شروع کر دی ہے۔ یہ کھلے ٹرک سفر کے لیے غیر محفوظ ہیں اور بہت سے حادثوں کا بھی باعث بن چکے ہیں۔
بنیادی ڈھانچوں کی تباہی
کسی بھی طرح کے ذرائع آمدورفت کے حصول کے لیے لوگوں کو گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ دارالحکومت کیراکاس کی پہاڑیوں پر جھونپڑ پٹی کے علاقوں میں تو کسی قسم کے بھی ذرائع آمدورفت موجود نہیں، لوگوں کو قریبی میٹرو سٹیشن تک پہنچنے کے لیے عمودی ڈھلوانوں پر سے پیدل گزرنا پڑتا ہے۔ میٹرو آمدورفت کا واحد ذریعہ ہے جو کام کرتا ہے اور پچھلے سال اگست سے مفت ہے، کیونکہ ٹکٹ چھاپنے کے لیے درکار رقم ٹکٹ کی قیمت سے زیادہ تھی اور کرایوں کی مالیت کے سکے اور نوٹ بھی موجود نہیں تھے (جن میں افراط زر کے حساب سے اضافہ نہیں ہوا)۔
بہرحال میٹرو کو اب ان مسافروں کا بھی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا جو کیش نہ ہونے کی وجہ سے یا بسیں نہ چلنے کی وجہ سے بس میں سفر نہیں کرسکتے۔ میٹرو سسٹم کو دیکھ بھال کی کمی، سپیئر پارٹس کی کمی اور ملازمین کی غیر حاضری جیسے دوسرے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ٹرینیں بہت کم آتی ہیں اور ہر سٹیشن پر زیادہ دیر کے لیے رکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ بہت زیادہ پر ہجوم ہوتی ہیں۔
دارالحکومت کیراکاس سمیت ملک کے بڑے حصوں میں اب پانی کی بندش معمول بن چکی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ پانی آتا ہے اور کبھی کبھار تو دس دنوں میں ایک مرتبہ۔ بجلی کی بندش بھی بہت زیادہ ہے اور ماراکیبیو جیسے علاقوں میں لوگ حتجاج کے لیے گلیوں میں بھی نکل آئے جو گرمی اور فریزر میں رکھی ہوئی کھانے پینے کی اشیاکے خراب ہونے سے تنگ آچکے تھے۔ بنیادی ڈھانچوں کی بربادی کی سب سے بڑی وجوہات میں کرپشن ،خراب مینجمنٹ، دیکھ بھال، وسائل اور ملازمین کی کمی شامل ہیں۔
افراط زر میں شدید اضافہ معیشت کے جمود کا بھی باعث بن رہا ہے۔ بہت سے محنت کش ابھی بھی ایسی فیکٹریوں میں ملازم ہیں جہاں کچھ بھی نہیں بن رہا۔ وہ کبھی کبھار کام پر جاتے ہیں تا کہ آمدنی کو برقرار رکھا جا سکے، لیکن بس کچھ ہی گھنٹوں کے لیے، باقی وقت وہ کیش اور کھانے پینے کی اشیا کا پیچھا کرتے گزارتے ہیں، یا پھر وہ غیر رسمی شعبے کے ساتھ کچھ معاہدے کر لیتے ہیں کیونکہ ان کی تنخواہیں خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
ایک کامریڈ جو ایک پرنٹنگ کمپنی میں کام کرتا ہے اس نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس پچھلے چھ ماہ سے کوئی آرڈر نہیں آیا۔ کارابوبو میں موجود کاروں کے پرزے جوڑنے والے پلانٹس نے دسمبر 2016ء سے ایک بھی کار نہیں جوڑی۔ کمپنیوں نے محنت کشوں کو کام چھوڑنے کے عوض رقم کی پیشکش کی ہے جسے مجبوری کے باعث بہت سے محنت کشوں نے قبول کرلیا ہے، باوجود اس کے کہ بولیوار کرنسی میں ملنے والی رقم چند ماہ میں ہی اپنی حیثیت کھو دیتی ہے۔
ان حالات میں بہت سے لوگ ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔ اعداد وشمار پر اختلاف موجود ہے لیکن ہم لاکھوں کی بات کر رہے ہیں (شاید 20 سے 40 لاکھ) جنہوں نے پچھلے کچھ سال کے دوران وینزویلا کو خیر باد کہا ہے۔ یہ مظہر جو پہلے درمیانے طبقے اور پیشہ ورانہ پرتوں میں موجود تھا اب محنت کش خاندانوں میں بھی نظر آرہا ہے، جو اپنی تمام اشیا خاندان کے ایک یا ایک سے زیادہ افراد کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے بیچ دیتے ہیں تا کہ وہ وہاں جا کر روزی کمائیں اور کچھ ڈالر انہیں بھی بھیج دیں۔ درمیانے طبقے کے افراد تو ہوائی جہازوں کے ذریعے یورپ، امریکہ اور ارجنٹائن کا رخ کر رہے ہیں، لیکن محنت کش کوچ پر بیٹھ کر کولمبیا سے پیرو، بولیویا یا چلی کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں وہ بدترین استحصالی حالات کا سامنا کرتے ہیں مگر کم از کم وہ شاید 50 ڈالر گھر بھیجنے کے قابل ہوتے ہیں جو ان حالات میں حوصلہ بخش ثابت ہوتے ہیں جہاں کم از کم اجرت کالی منڈی میں 1.5 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
محنت کشوں کے بڑی تعداد میں باہر جانے سے کئی سرکاری اداروں پر برے اثرات پڑ رہے ہیں جن میں کارپوایلیک (بجلی)، CANTV (ٹیلی کام)، MovilNet (موبائل فون اور انٹرنیٹ) وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے بنیادی ڈھانچے کی تباہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہیروئنز ڈی آراگوا ٹیکسٹائل فیکٹری جو محنت کشوں کے قبضے میں ہے اور ان کے کنٹرول میں چلتی ہے، کے پچاس سے بھی کم ملازمین میں سے تین ملک چھوڑ گئے ہیں۔
معاشی بحران انقلاب کی فتوحات میں سے ایک مفت یونیورسٹی تعلیم کو بھی تباہ کر رہا ہے۔ اساتذہ اور طالب علم دونوں بڑی تعداد میں یونیورسٹیاں چھوڑ رہے ہیں کیونکہ تنخواہوں کی قوت خرید گر چکی ہے اور طالب علم اپنے خاندان کو سہارا دینے کے لیے نوکریاں کرنے یا بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں۔ کالیجیو یونیورسٹی کیراکاس میں کامریڈوں نے بتایا کے تقریبا 80 فیصد طالب علموں نے تعلیمی سال ختم ہونے سے قبل اپنے کورسز چھوڑ دیے ہیں۔ یہ اس کے باوجود ہے کی یونیورسٹی طالب علموں کو دن میں تین مرتبہ مفت کھانا مہیا کرتی ہے۔ پھر بھی بہت سے طالب علم جن کا تعلق لاس ویلیس ڈیل ٹائی کے محنت کش طبقے کے خاندانوں سے ہے وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے پاس آنے جانے کے کرائے کے لیے کیش ہی موجود نہیں ہوتا۔ UCV میں ایک کامریڈ نے بتایا کہ اس سمسٹر میں صرف اس کی فیکلٹی میں 1500 طالب علموں نے اپنی کورسز چھوڑے ہیں۔ UNEFA ،UBV اور دیگر بولیوارین اداروں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔
تارکین وطن کی جانب سے ترسیلات زر فرار کا ایک راستہ ہے جس نے ابھی تک سماجی دھماکے کو روکا ہوا ہے۔ حساب لگایا گیا ہے کہ ترسیلات زر کی کل رقم پچھلے سال 2 بلین ڈالر تھی وہ اس سال بڑھ کر 6 بلین ڈالر ہو جائے گی۔
فرار کا ایک اور راستہ CLAP (حکومت کی طرف سے رعایتی قیمت پر بیچے جانے والے کھانے پینے کی اشیا کے پارسل) ہے۔ یہ مہینے میں ایک مرتبہ، یا کچھ علاقوں میں ہر پندرہ یا بیس دنوں بعد مہیا کیے جاتے ہیں اور ان میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاموجود ہوتی ہیں (چاول پاستا، مکئی کا آٹا، تیل اور دوسری اشیا )۔ CLAP ڈبوں میں موجود اشیا درآمد کی جاتی ہیں (میکسیکو، کولمبیا، ترکی وغیرہ سے) جس سے حکومت کے زر مبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی آتی ہے۔ حکومت نے بونس دینے کی پالیسی کا بھی اطلاق کیا ہے جو لاکھوں خاندانوں کو ان کی ناکافی اجرت کے علاوہ دیا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے بھی پیسے چھاپے جاتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ بولیوارین انقلاب نے ’میشن ویوینڈا‘ کے تحت محنت کش طبقے کے افراد کو 30 لاکھ گھر مہیا کیے تھے جو بنیادی طور پر کوئی کرایہ ادا نہیں کرتے۔تنخواہوں کا کھانے پر خرچ ہونے والا حصہ تقریباً 100 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے’’عیش و آرام‘‘ کے کام جیسے کہ نئے کپڑے خریدنا، جوتے خریدنا یا ڈرنک کے لیے باہر جانا تقریبا ترک کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ جب محنت کشوں کو تنخواہ ملتی ہے تو انہیں فوری طور پر ساری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے، عموماً کھانے پینے کی اشیا پر، کیوں کہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں ہی یہ رقم اپنی قدر کھو دیتی ہے۔
ان سب مشکلات سے بڑھ کر ادویات اور طبی سہولیات کا نظام بحران سے شدید متاثر ہوا ہے۔ ادویات کا ملنا بہت مشکل ہے اور اگر مل بھی جائیں تو بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ اگر آپ بدقسمتی سے ہسپتال پہنچ جائیں تو آپ کو اپنی ادویات اور بہت سے موقعوں پر برتنوں اور دیگر اشیاکی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ بحران نے صرف ہسپتالوں کو ہی نہیں بلکہ’’میشن بریو ایڈنٹرو کلینکس‘‘ کو بھی متاثر کیا ہے جو انقلاب کی حاصلات میں سے ایک ہے۔
دیہی علاقوں میں طبقاتی جدوجہد
دیہی علاقوں میں شاویز کے دور میں کی گئی زرعی اصلاحات، جس میں بڑی بڑی زمینیں تحویل میں لے کر کسانوں کے کمیونز کے حوالے کر دی گئی تھیں، کے خلاف مل جل کر حملے کیے جارہے ہیں۔ زمینوں کے نجی سرمایہ دار مالک مقامی ججوں، اہلکاروں، زمینی اصلاحات کے ادارے(INTI) اور نیشنل گارڈ آفیسرز کو خرید کر کسانوں سے پر تشدد انداز میں زمینیں چھیننے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں INTI نے خود قانونی طور پر دی تھیں۔ کچھ موقعوں پر کسانوں کو نیشنل گارڈ نے گرفتار کر لیا، کچھ اور موقعوں پر انہیں زمین مالکان کے غنڈوں کی مدد سے ڈرا دھمکایا اور قتل بھی کیا گیا، کچھ معاملات میں جن کا تعلق حکومتی افسر شاہی یا رجعتی حزبِ اختلاف سے جڑتا ہے۔
ان جوابی حملوں کی سب سے بدترین شکل جسے انقلابی کسان کارکن’’لاتی فندیو کی بحالی‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں، ماراکیبو ندی کے جنوب میں واقع علاقوں میں نظر آ رہی ہے۔ لیکن بارینس، اپیور، یاراکوئی، پورچوگیزا وغیرہ میں بھی کچھ مثالیں ملتی ہیں۔ یہ سب انتخابی مہم کے دوران صدر ماڈورو کے حلفیہ وعدوں کے باوجود ہے کہ کسانوں کی واپس لی گئی زمینوں پر ہونے والے حملے بند ہو جائیں گے، مگر یہ جاری رہے۔
المیزل کمیون کے خلاف جاری کم شدت کی جنگ بھی انہی جوابی حملوں کا حصہ ہے۔ حال ہی میں ریاستی ملکیت میں موجود ایگروپیٹریا (جسے فوجی افسر چلاتے ہیں) کی نوکر شاہی نے انہیں ان کی کھیتی باڑی کے لیے ضروری بیج اور کھاد مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ جب انہوں نے کالی منڈی سے یہ چیزیں لینے کی کوشش کی (جو براہ راست ایگروپیٹریا سے ہی مہیا کی جاتی ہیں) تو انہیں غیر قانونی خرید و فروخت کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ کسان تحریک نے اس کے جواب میں معاملات حل کرنے کے مطالبے کے ساتھ ایگروپیٹریا کی حدود پر قبضہ کر لیا۔
لارا میں موجود پورکینوس ڈیل ایلبا پگ فارم ایک اور مثال ہے کہ کس طرح بیوروکریسی کی بدعنوانی اور بد انتظامی انقلاب کی حاصلات کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ریاست کی طرف سے مقرر کردہ مینیجر نے فارم بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا اوروہاں جانور مر رہے تھے۔ حال ہی میں المیزل کمیون کے نمائندوں نے اسے اپنی تحویل میں لے کر خود چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ردعمل
یہ تمام حالات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ پچھلے سال قانون ساز اسمبلی کے انتخاب سے پہلے حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ معاشی جنگ سے نمٹ لیں گے، مگر کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ماڈورو نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ 20 مئی کے صدارتی انتخابات جیت گیا تو’’معاشی خوشحالی‘‘بحال کرے گا لیکن ایک مرتبہ پھر کچھ نہیں ہوا اور محنت کش عوام کے لیے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے سرمایہ داروں کے ساتھ 50 بنیادی کھانے پینے کی اشیاکی قیمتوں سے متعلق بات چیت کا خیال پیش کیا تھا۔ ایک اعلان کا وعدہ کیا گیا مگر وہ نہیں ہوا۔ یہ واضح ہے کے اشیا بنانے والے بدترین افراط کی موجودگی میں کسی قسم کے پرائس کنٹرول پر راضی نہیں ہوں گے۔ اس میں ان کا کوئی کاروباری فائدہ نہیں ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران بڑھتی ہوئی تعداد میں بائیں بازو کے شاویزی دانشوروں نے تنقیدی مضامین شائع کیے جن میں انہوں نے حکومت کو معیشت کے شعبے میں کچھ نہ کرنے پر برا بھلا کہا اور ساتھ ہی بولیوارین عوام کے اندر جمع ہوتے ہوئے غصے سے بھی خبردار کیا۔محنت کش اور کسان تیزی سے بے چینی کا شکار ہوتے ہوئے سڑکوں کا رخ کر رہے ہیں۔’’کسانوں کی جدوجہد‘‘ کے پلیٹ فارم نے’’شاویز کی زرعی وراثت کے دفاع میں‘‘ اور’’سکاریاتو (کسان کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ) کے خلاف کسانوں کا قابل تعریف مارچ‘‘کے نام سے دارالحکومت تک ننگے پیر مارچ منظم کیا ہے۔
پورے ملک کے ہسپتالوں میں کئی ہفتوں سے نرسیں احتجاج کر رہی ہیں، ان میں سے کچھ ہڑتال پر ہیں اور باقی ہسپتالوں کے باہر دھرنے دے کر بیٹھی ہیں۔ ان کے مطالبات کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے: ’’ہمیں ایک مناسب تنخواہ چاہیے، ہم بیرون ملک نہیں جانا چاہتیں‘‘۔ جب حکومت کے اہلکاروں نے انہیں زیادہ باقاعدگی سے CLAP ڈبے مہیا کرنے کی پیشکش کی اور قربانی دینے کا کہا تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں بھیک نہیں چاہیے بلکہ اتنی تنخواہ چاہیے جس پر وہ گزارہ کر سکیں اور وہ قربانی صرف اسی صورت میں دیں گی اگر وہ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں اور وزیروں کو بھی تنخواہوں، آمدورفت وغیرہ کے انہی حالات سے گزرتا دیکھیں جن سے عام لوگ گزر رہے ہیں۔یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر نرسوں کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کش بڑی تعداد میں مستعفی ہو جائیں گے، جس سے نظام کا انہدام مکمل ہو جائے گا۔
CANT، موولنیٹ، سیمنٹ کمپنیوں، کیراکاس میٹرو اور بجلی کی کمپنی کے محنت کشوں نے احتجاجی مظاہرےکیے ہیں اور ہڑتال کی دھمکی دی ہے۔ حالات سماجی دھماکے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسی ہفتے CANT کے محنت کشوں کے مظاہرے ہوئے اور وہ اس سب سے کہیں زیادہ تھے جس کی ٹریڈیونین لیڈران نے کال دی تھی۔ لیڈر انتظامیہ کو ایک خط پہنچانے کے لیے ایک مظاہرہ چاہتے تھے جو قابو میں رہے، مگر محنت کشوں نے کمپنی کے مرکزی دفتر پر قبضہ کر لیا اور باہر والی سڑک بلاک کر دی۔
کارپوایلیک کے محنت کشوں کی فیڈریشن فیٹرایلیک نے 23 جولائی کو پورے ملک میں ہڑتال کی ہے۔ حالات یوں دکھائی دے رہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں CANT، موولنیٹ اور دوسری کمپنیوں کے محنت کش اس عمل میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ محنت کشوں کی جانب سے ایک حقیقی تحریک کا آغاز خوش آئند ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ ہم مایوسی ناامیدی اور تنہائی کے حالات سے نکل کر ایسے حالات میں داخل ہو رہے ہیں جہاں محنت کش اپنے مسائل سلجھانے کی کوشش میں اکٹھے ہو کر عمل میں آ رہے ہیں۔
معاشی پالیسی
بہرحال یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ رقم کہاں سے آئے گی جس سے محنت کشوں کا ضروری اور منصفانہ اجرت کا مطالبہ پورا کیا جا سکے؟ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ بولیوارین تحریک کے مختلف رجحانات میں یہ گرما گرم بحث کا موضوع ہے کہ اس بحران کی وجوہات کیا ہیں اور اس سے لڑنے کے لیے کونسی معاشی پالیسیاں اختیار کرنی چاہیں۔ سابق وزیر جیزس فاریاس کی طرح کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ فارن ایکسچینج پر کنٹرول مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے، اس کی دلیل کے مطابق جس نے کام نہیں کیا۔ سابق وزیر لوئس سالاس اور معیشت دان پیسکوالینا کرزیو کی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کرنسی کے گرنے کی’’شروعات‘‘ بولیوار پر مرکوز حملے سے ہوئی جو بلیک مارکیٹ کی قیمت تبادلہ بتانے والی ویب سائٹس (ڈالر ٹوڈے اور دیگر) کی مدد سے کیا گیا۔
یہ غلط ہے کیونکہ اس میں علامت کو وجہ سمجھا جا رہا ہے۔ ڈالروں کے لیے بلیک مارکیٹ کے وجود کی وجہ ایک ویب سائٹ کا موجود ہونا نہیں ہے جو کہتی ہے کہ ڈالروں کی قیمت 35 لاکھ بولیوار ہے۔ اس کے برعکس طلب کے مقابلے میں ڈالروں کی قلت ہے جو قیمت میں اضافہ کا باعث ہے۔ سرمایہ دار اس لیے سرمایہ نکالنے میں مصروف ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مقامی منڈی میں بولیوار کی شکل میں سرمایہ کاری انہیں وہ نتائج دے گی جنہیں وہ ایک اچھا منافع تصور کرتے ہیں۔ درحقیقت اس سب کی جڑ میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کے وینزویلا میں ایک انقلاب آیا جس نے محنت کشوں کو باقی سب کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں پر بھی قبضے کے لیے اکسایا۔ ماضی میں بھی حکومتی تحویل میں لیے جانے کا عمل موجود تھا۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی ہوش مند سرمایہ دار سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔
اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت فارن ایکسچینج پر کنٹرول لاگو کر کے درآمدات کے لیے رعایتی قیمت پر ڈالر مختص کرتی رہی ہے۔ وینزویلا کی معیشت جو تیل کی پیداوار کی وجہ سے بے ترتیبی کا شکار ہے، بڑے پیمانے پر درآمدات پر انحصار کرتی ہے۔ رعایتی قیمت پر ڈالروں کا نظام تیل سے حاصل ہونے والی رقم کی نجی شعبے میں منتقلی کے لیے ایک نالی کا کام کرنے لگا۔ جن کمپنیوں نے اشیا درآمد کرنا ہوتی ہیں (یا نہیں کرنا ہوتیں) وہ رعایتی قیمت پر ڈالروں کی درخواست کرتی ہیں، جنہیں وہ بلیک مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں۔ اس طرح وہ بنا کچھ بنائے یا درآمد کیے بہت بڑا منافع حاصل کر لیتی ہیں۔ اس طریقے سے تیل سے حاصل ہونے والے سینکڑوں ارب ڈالر سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں تھما دیے گئے۔
وینزویلا کا معاشی بحران 2013ء میں تیل کی قیمتیں گرنے سے شروع ہوا، لیکن بحران نے جو چیز مکمل طور پر واضح کر دی وہ یہ تھی کہ سرمایہ داری کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ قیمتیں کنٹرول کر کے، فارن ایکسچینج کنٹرول کر کے، مزدوروں کے تحفظ کے مضبوط قوانین نافذ کر کے وغیرہ، ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو آپکو سرمائے کی دستبرداری اور سرمایہ کاری کی ہڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔یقیناًوینزویلا کا معاشی بحران کرپشن، بدانتظامی، سامراجی پابندیوں اور دانستہ معاشی خرابیاں پیدا کرنے کی کوششوں سے مزید خراب ہوا ہے۔ لیکن یہ بڑھاوا دینے والے عوامل ہیں، بحران کی بنیادی وجہ نہیں۔
فاریاس اور دیگر نے کنٹرول کے مسائل کی جزوی شناخت کی ہے۔ وہ یہ حل پیش کرتے ہیں کہ تمام کنٹرول ہٹا کر سرمایہ داری کو’’معمول‘‘ کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔ یہ بحران سے نکلنے کا ایک راستہ ہے، ایک ایسا راستہ جس میں محنت کشوں کو قیمت ادا کرنا ہوگی۔ اگر آپ معیشت سے تمام کنٹرول ہٹا لیتے ہیں اور سرمایہ داری کو اس کے اپنے طریقوں سے بحران سے نکلنے کی اجازت دیتے ہیں، تو ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ محنت کشوں کو بڑے پیمانے پر کام سے نکالا جائے گا، فیکٹریاں بند ہوں گی، ریاستی ملکیت میں موجود کمپنیوں کی نجکاری ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
تاہم لوئس سالاس اور پاسکوالینا کرزیو کے گرد معیشت دانوں کے گروہ نے جو حل پیش کیے ہیں وہ بھی کوئی حل نہیں ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ازسرنو کنٹرول ترتیب دینے کی بات کر رہے ہیں اور یہ پالیسی پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے۔ کرزیو نے کرنسی کی قیمت گرنے کا حل (جس کی وجہ وہ ایک ویب سائٹ کا نقصان دہ کردار سمجھتی ہے) یہ بتایا ہے ایک نئی کرنسی جاری کی جائے جو مرکزی بینک میں موجود سونے کی بنیاد پر ہو۔ اس سے ایک مسئلہ یقیناًحل ہو جائے گا۔ بولیوار ایک مضبوط کرنسی ہوگی جو سرمایہ داروں کو تحفظ دے گی۔ درحقیقت، سونے کی قیمت کا عالمی مارکیٹ میں ڈالر سے موازنہ ہوتا ہے، کرزیو یہ مشورہ دے رہی ہے کہ کرنسی کو ایک خاص قیمت تبادلہ سے ڈالر کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس مشورے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے، لگتا ہے جسے کرزیو سمجھ نہیں پا رہی، کہ حکومت مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لئے نوٹ چھاپنے کے قابل نہیں ہو گی، جو ابھی GDP کا تقریبا 20 فیصد ہے۔ اس کا نتیجہ عوامی اخراجات میں بہت بڑی کٹوتی ہوگا۔ کرزیو ہرگز اس کی حمایت نہیں کرتی، مگر یہ اس پالیسی کا لازمی نتیجہ ہوگا جس کی وہ حمایت کرتی ہے۔ دوسری جانب اگر حکومت سونے کی اسی مقدار کے ساتھ نوٹ چھاپے گی تو اس سے لازمی طور پر دوبارہ افراط زر میں اضافہ ہوگا اور وہی صورتحال ہو جائے گی جو اب ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان دونوں کے درمیان کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جو کہتے ہیں کہ کنٹرول جاری رکھا جائے اور جو کہتے ہیں کہ ہٹادیا جائے۔ مثال کے طور پر حکومت کرنسی کو کنٹرول میں رہتے ہوئے بلیک مارکیٹ کی قیمت کے برابر گرنے کی ویسے ہی جگہ دے رہی ہے۔ قیمتوں کے کنٹرول کا وجود ختم ہو چکا ہے کیونکہ 50 تسلیم شدہ قیمتوں کا اجراء ہی نہیں کیا گیا۔ حکومت نجی سرمایہ داروں سے اپیل پر اپیل کر رہی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کریں، جس پر وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ (قیمتوں، فارن ایکسچینج اور محنت کی منڈی سے متعلق) پوری آزادی دی جائے۔ اب حکومت ترکی کے سرمایہ داروں سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کریں۔ وینزویلا میں نہایت کم حقیقی اجرتوں کو دیکھ کر ان میں سے شاید کچھ للچائیں بھی۔ یہ کوئی حقیقی حل نہیں ہے، اور کسی بھی صورت وینزویلا کے محنت کشوں کے حق میں نہیں ہے جو موجودہ سطح کی تنخواہوں پر گزارا نہیں کر سکتے۔موجودہ صورتحال کے تسلسل سے پہلے ہی ایک بہت بڑا سمجھوتے کا منصوبہ دکھائی دے رہا ہے، جس کی قیمت محنت کش اپنی تنخواہوں کی قوت خرید کی تباہی سے چکا رہے ہیں۔
تو پھر حل کیا ہے؟ اس بحران کا واحد حل جس سے وینزویلا کے محنت کش عوام کو فائدہ ہو گا، وہ سرمایہ داروں، بینکاروں اور بڑے زمینداروں کے اثاثے تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں ایک منصوبہ بند معیشت قائم کرنا ہے۔ پچھلے 15 سالوں میں وینزویلا نے ایسی بہت سی مثالیں دی ہیں جن میں ہمیں نظر آتا ہے کہ سرکاری شعبے میں محنت کشوں کا کنٹرول نجی سرمایہ داری اور افسر شاہانہ انتظامیہ، دونوں سے کہیں برتر ہے۔ تاہم ریاستی افسر شاہی اور حکومت نے محنت کشوں کے کنٹرول کا دم گھوٹ دیا ہے اور اب وہ اپنی نیچی ترین سطح پر ہے۔
اپنے پچھلے دورے پر مجھے میریڈا میں الینا فوڈز جانے کا شرف حاصل ہوا، جو ایک ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں بنانے والی فیکٹری ہے اور پچھلے دو سالوں سے محنت کشوں کے کنٹرول میں چل رہی ہے۔ جب مالکان (رعایتی قیمت پر ملنے والے درآمدی ڈالر سے بہت سا پیسہ بنانے کے بعد) بھاگ گئے تو محنت کشوں نے سازوسامان کا دفاع کیا اور بعد میں خود اپنے کنٹرول میں پیداوار کرنے لگے۔ انہیں ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سابق ’’بولیوارین‘‘ گورنر، نائب وزیروں، فوجی افسروں، ریاستی ملکیت میں موجود کمپنیوں کے ذمہ داروں، وغیرہ کی طرف سے کھلے وار بھی شامل تھے۔ انہوں نے نہ صرف پیداوار کو برقرار رکھا بلکہ اب انہوں نے اپنے ساتھ 30 محنت کشوں کی ایک نئی شفٹ بھی شامل کر لی ہے۔ یہ ایک قابل تقلید مثال ہے۔
ماڈورو کی حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ بولیوارین انقلاب کے خلاف ایک معاشی جنگ چل رہی ہے۔ تو وہ ان لوگوں سے عوام کی ضروریات پوری کرنے کی اپیل کیوں کر رہی ہے جو ان کا راستہ بدلنے کے لیے جنگ کر رہے ہیں؟ صرف یہی نہیں وہ دشمن کو جنگ لڑنے کے لیے رعایتی قیمت پر ڈالر بھی مہیا کر رہی ہے۔ اس طریقہ کار کی کسی بھی طرح کوئی منطق نہیں بنتی اور یہ پالیسی پہلے بھی استعمال کی جا چکی ہے جو اس حالیہ بربادی کا باعث بنی ہے، جس کا شکار (حکومتی وزیر، فوجی افسر یا بیوروکریٹ نہیں) محنت کش عوام ہو رہے ہیں۔
سامراجی جارحیت اور فوجی بغاوت
معاشی بحران واضح طور پر بولیوارین انقلاب کے لیے سب سے فوری خطرہ ہے، یا زیادہ درست انداز میں کہا جائے تو بولیوارین انقلاب کا جو کچھ بچ چکا ہے، کسان پنچایتیں، محنت کشوں کے کنٹرول میں فیکٹریوں، شہروں میں خوراک مہیا کرنے والی کمیونٹیز، اور سرکاری شعبے میں تمام مشکلات کے باوجود کام کی جگہیں۔
تاہم سامراج اس انقلابی سفر کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوششوں سے باز نہیں آیا۔ یہ بات اب سامنے آئی ہے کہ پچھلے سال اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں سے وینزویلا پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے کو کہا۔ اس نے ثبوت کے طور پر پانامہ اور گریناڈا کی مثالیں پیش کیں کہ یہ منصوبہ کارگر ہو سکتا ہے۔ اس کے اتحادیوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ کوئی اچھا منصوبہ نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ غیر جمہوری ہو گا۔ نہیں! اس بات سے امریکی سامراج کبھی پریشان نہیں ہوا! انہوں نے اس کی مخالفت اس لیے کی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس کا ردعمل آئے گا۔ اور وہ درست ہیں۔ وینزویلا میں امریکہ کی فوجی مداخلت کی کسی بھی کوشش سے فوری طور پر سامراج مخالف مسلح جدوجہد شروع ہو جائے گی، جس میں لاکھوں لوگ حصہ لیں گے اور اس کے پورے براعظم اور اس سے آگے بھی اثرات ہوں گے۔
اس بات سے ٹرمپ چار لاطینی امریکی صدور سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھانے سے باز نہیں آیا۔ ہم اس بات پر شرط لگا سکتے ہیں کہ وہ کولمبیا، میکسیکو، برازیل اور ارجنٹائن کے صدور تھے۔ ان سب کی ایک ہی رائے تھی اور وہ حملے کے خلاف تھے۔ جو بھی ہو اس کا مطلب یہ ہے کے فوجی حملے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا تھا۔ جو بذات خود ایک گھناؤنا اسکینڈل ہے۔ ذرا تصور تو کریں کہ دنیا کا کوئی اور ملک اس لیے امریکہ پر حملہ کرنے پر غور کرے کیونکہ انہیں امریکہ کا صدر پسند نہیں!
درحقیقت سب سے چالاک امریکی سامراجی یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ امریکہ اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کی جانب سے پابندیاں بڑھانے کا لائحہ عمل اپنانا چاہیے تا کہ معاشی طور پر دم گھوٹتے ہوئے وینزویلا میں ’’حکومت کی تبدیلی‘‘ عمل میں لائی جا سکے۔ یہ بھی سامراجی جارحیت ہی ہے، مختلف ہتھکنڈوں کے استعمال کے ساتھ۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک وینزویلا کی فوج میں سے اٹھنے والی بغاوت کے منصوبوں کے حالیہ انکشافات ہیں۔ بلومبرگ (Bloomberg) کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فوجی افسروں کے ایک گروپ (جس میں آرمی کے چاروں حصوں سے کیپٹن، کرنل اور جرنیل شامل تھے) نے ایک سال پہلے اس وقت فوجی بغاوت کا منصوبہ بنایا جب حزب اختلاف کی جانب سے گوارمبا فسادات کیے جارہے تھے۔ بغاوت، جس کا خفیہ نام آپریشن آئین(Operation Constitution) تھا، میں میرافلورس صدارتی محل اور فیورٹی ٹیونا (فوجی ہیڈ کوارٹرز) پر قبضہ کرنے اور ماڈورو پر مقدمہ چلانے کے منصوبے شامل تھے۔ اسی دوران ایک اور منصوبہ بھی عمل میں تھا جس کا خفیہ نام آپریشن آرمگیڈن (Operation Armageddon) رکھا گیا تھا، جس کے مطابق صدر ماڈورو کو ایک فوجی پریڈ کے دوران قتل کیا جانا تھا۔ جس کی بعد ازاں ناکام کوشش کی بھی گئی۔
یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہوگئے کیونکہ فوج نے ایک علیحدہ بغاوت کا منصوبہ تیار کر لیا۔ اس بغاوت میں ملوث فوجی افسران نے منصوبے کی عملدرآمد کو اس سال 20 مئی کو ہونے والے انتخابات تک روکنے کا فیصلہ کیا۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ملوث فوجی افسران نے کولمبیا میں اپنی کچھ خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ یقیناًکولمبیا اور امریکہ کے خفیہ ادارے بغاوت کرنے والوں کے منصوبوں سے آگاہ تھے۔ انہوں نے کھلی حمایت تو نہیں کی مگر اس پر آنکھیں بند کر لیں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس رپورٹ میں امریکہ اور کولمبیا کے خفیہ اداروں کے کردار کو کم کرکے پیش کیا گیا ہے۔ کوئی بھی دائیں بازو کی فوجی بغاوت امریکہ اور کولمبیا کی رائے لے کر ہی آغاز ہو گی۔
ان رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ فوج میں بے چینی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا حکومت بتاتی ہے۔ ماڈورو حکومت فوجی قیادت کی وفاداریاں اپنے ساتھ رکھنے کے حوالے سے کافی محتاط ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کو معیشت میں حصہ دیا گیا ہے ( CAMIMPEG اور AfgroFANB جیسی کمپنیوں کے ذریعے)، ریاستی ملکیت میں موجود کمپنیوں کو چلانے کے لیے آرمی افسروں کو تعینات کرکے (PDVSA سے لے کر آئی ایسیٹیز ڈائنا تک) جہاں وہ بدنامی کی حد تک غیر موثر اور بدعنوان ثابت ہوئے ہیں۔ اور حال ہی میں اس مقصد کے لیے بڑے افسروں کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
تاہم اگر معاشی بحران کی صورتحال جاری رہتی ہے اور اس کے ساتھ محنت کشوں اور کسانوں کے احتجاج بھی جاری رہتے ہیں تو ممکن ہے کہ فوج کا ایک حصہ مداخلت کرتے ہوئے ’’سختی سے معاشی افراتفری سے نمٹنے‘‘ کے بہانے کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچے۔ایک فوجی بغاوت محنت کشوں کے لیے بربادی ہو گی، کیونکہ اسے براہ راست یا ایک’’ٹیکنوکریٹ عبوری حکومت‘‘ کے ذریعے ضروری تبدیلیاں کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا جن کی وینزویلا کے حکمران طبقے کو ضرورت ہے۔اس وجہ سے وینزویلا کی صورتحال نازک ہے۔ کم از کم محنت کشوں اور کسانوں نے اٹھنا شروع کردیا ہے، جس سے آگے بڑھنے کے ایک منظم راستے کی جھلک نظر آئی ہے۔ صرف وینزویلا کے محنت کش عوام حالیہ بحران سے نکلنے کا راستہ مہیا کر سکتے ہیں۔