ڈونلڈ ٹرمپ اور آج کی دنیا

لینن نے ایک مرتبہ ’’عالمی سیاست میں آتشیں مواد‘‘ کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ لیکن آج کی عالمی صورتحال میں جتنا آتشیں مواد موجود ہے اس کا شاید اس بالشویک قائد نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جہاں نظر دوڑائیں عدم استحکام، شورش اور بربادی موجود ہے: روس اور یوکرائن تنازعہ؛ شام کی خونریز خانہ جنگی؛ ایران، اسرائیل اور سعودی عرب تنازعہ؛ فلسطین کا سلگتا سوال؛ اور افغانستان میں تاحال جاری طویل ناقابل حل جنگ۔

[Source]

ان دھماکہ خیز حالات میں ڈونلڈ ٹرمپ نمودار ہوتا ہے۔ اس کے اقتدار میں آنے پر امریکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سیاستدانوں نے صف ماتم بچھا دی۔ ہر کون ومکاں سے اس پر پوری دنیا کو سیاسی اور معاشی بحران میں مزید دھکیلنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ حقیقت میں یہ الزامات ضرورت سے زیادہ ہی مبالغہ آرائی ہیں۔ جس بحران میں اس وقت ہم ڈوبے ہوئے ہیں وہ کسی فرد یا مسٹر ٹرمپ کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسے نظام کا نامیاتی بحران ہے جو اپنی تاریخی معیاد پوری کرنے کے بعد اب ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔

لیکن مارکسزم نے کبھی بھی تاریخ میں فرد کے کردار سے انکار نہیں کیا۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ اس بحران کا موجب نہیں لیکن وہ اپنی حرکتوں سے اسے اور زیادہ گہرا کرنے کا باعث بن رہا ہے جس وجہ سے بحران اور زیادہ خوفناک، غیر متوقع اور تیز و تند کردار اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس نے عالمی نظم کو برباد کر دیا ہے اور ان معاہدوں کو پھاڑ پھینکا ہے جنہیں دہائیوں میں عالمی بورژوازی نے بڑی محنت سے بنایا تھا تاکہ حالات کے معمول پر ہونے کا سوانگ رچایا جا سکے۔

یورو ایشیا گروپ کے صدر ایان بریمر کا کہنا ہے کہ: ’’اندرون ملک پالیسیوں پر صدر کے کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ ’دلدل‘ (افسر شاہی اور کانگریس) نے بڑی شدومد سے اس کی مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے ہی باقی دنیا امریکی قیادت میں استوار نظم سے پرے ہٹ رہی تھی۔ لیکن ایک پتھر جو پہلے ہی ڈھلان پر سرک رہا تھا، ٹرمپ اسے اور زیادہ تیزی کے ساتھ لڑھکانے کا موجب بن رہا ہے‘‘۔
ظاہر ہے ٹرمپ کی نظر میں ایسا نہیں ہے۔ اپنی حالیہ تقریروں میں اس نے اپنی عالمی پالیسیوں کے حوالے سے بڑی شیخیاں ماری ہیں: ’’ہم امریکہ کے حوالے سے کسی سے معذرت نہیں کریں گے۔۔ہم امریکہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بس! اب اور معذرت نہیں۔ وہ دوبارہ سے ہماری عزت کر رہے ہیں۔ ہاں! امریکہ اب واپس آ گیا ہے‘‘۔

ٹرمپ جب امریکہ کی بات کر تا ہے تو حقیقت میں وہ اپنی بات کر رہا ہوتا ہے۔ اسے ہمیشہ جیتنا ہے: سب سے بڑا، سب سے امیر، سب سے طاقتور اور بہتر۔۔جس ملک کا وہ لیڈر ہے، اسے بھی ایسا ہی ہونا پڑے گا۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اس نے اناپولس سٹیڈیم میں کیڈٹس سے کہا تھا: ’’جیتنے میں کتنا مزا ہے، ہے نا؟ جیتنے جیسا کچھ بھی نہیں۔ تمہیں ہر صورت جیتنا ہے‘‘۔ کوئی بھی شخص یا مسئلہ اگر اس کے راستے میں کھڑا ہے تو اسے ہر صورت بے رحمی سے کچل دیا جائے گا، جیسے وہ کاروبار میں اپنے مخالفین کو کچل دیتا ہے۔

لیکن امریکہ کے جیتنے کا مطلب ہے کہ دیگر کو ہارنا پڑے گا۔ اس نے ان خیالات کا واشگاف الفاظ میں اظہار تو نہیں کیا لیکن وہ جو کچھ بھی کہتا اور کرتا ہے، اس کے پسِ پردہ یہی سوچ ہے۔ ٹرمپ کو اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ اس کی نظر میں اس کے آزاد عمل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی ہٹ دھرم پالیسی کی وجہ سے دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر آج امریکہ پچھلی نصف صدی میں سب سے زیادہ تنہائی کا شکار ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا مطلب ہے

ٹرمپ کے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نظریئے کی ماضی کے تنہائی پسند صدور سے کافی مماثلت ہے۔ لیکن کم از کم انہوں نے اس ننگی پالیسی کو جمہوریت کے لبادے میں چھپانے کی کوشش ضرور کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی لبادوں، عزت اور جمہوریت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ راڈریگو دتیرتے، عبدالفتح السیسی یہاں تک کہ ولادیمر پیوٹن جیسے آمروں کے لئے اپنی پسندیدگی کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے۔ وہ خفیہ طور پر ان کے آزاد عمل پر رشک کرتا ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بورژوا جمہوریت کیوں مستقل اس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہے۔


ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام امریکی سامراجی جارحیت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ بے شرمی سے روایتی اتحادیوں سمیت دیگر ممالک پر دھونس جما کر انہیں ڈراتا ہے ۔ وہ امریکی سامراج کی لامحدود قوت کے حوالے سے ہر وقت شیخیاں مارتا رہتا ہے اور اس حوالے سے امریکہ کے بہترین دوستوں کو بے عزت کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ وہ کھلم کھلا وہ باتیں کرتا ہے جن کا ذکر وائیٹ ہاؤس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کے تاریک کونوں میں صرف سرگوشیوں میں کیا جاتا تھا۔یہی اس کا سب سے بڑا گناہ ہے جسے واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کبھی معاف نہیں کر سکتی۔لیکن، بہرحال ٹرمپ کے بورژوا مخالفین اپنی تنقید میں مکاری سے کام لے رہے ہیں۔ کیا ٹرمپ کی پالیسی اور ماضی میں ٹرومین، آئزن ہاور، کینیڈی، نکسن، ریگن یا بش کی پالیسیوں میں کوئی فرق ہے؟یہاں تک کہ کیا یہ پالیسی معیاری طور پر اوبامہ کی پالیسیوں سے مختلف ہے؟ اگر ہم امریکی سامراج کی ویتنام، گوئٹے مالا، چلی، نیکاراگوا، انڈونیشیا، کیوبا اور عراق میں مجرمانہ پالیسیوں پر نظر ثانی کریں تو ہمیں فوراً ادراک ہو گا کہ تشدد، دھوکہ اوربربریت ہمیشہ امریکی سامراجی پالیسی کا خاصہ رہے ہیں۔

بس فرق یہ ہے کہ ماضی کے مکار صدور کی بجائے آج ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی زیادہ کھلے عام اور منہ زور (کچھ اسے شاید دیانت دار بھی کہیں)ہے۔ جیسے

شیکسپئیر کے ڈرامے ہنری ششم میں گلوسیسٹر کہتا ہے:

ہاں، میں مسکرا سکتا ہوں ’’

اور مسکراتے ہوئے قتل کر سکتا ہوں
اور دل دکھانے والے ہر واقعے کو ’خوش آمدید‘ کہتا ہوں
اور ٹسوؤں سے اپنے گال بھگو لیتا ہوں
اور ہر موقع کی مناسبت سے اپنا چہرہ سجا لیتا ہوں‘‘۔

یہ موقع نہیں ہے کہ گہرے نفسیاتی تجزیئے کیے جائیں۔۔ایک ایسا شعبہ جس میں راقم ماہر بھی نہیں ہے۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ طاقت کے اندھے حصول کے پیچھے ایک غیر متوازن نفسیات کارفرما ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سیاست دان اور ڈونلڈ ٹرمپ پراپرٹی ڈیلر کے درمیان مماثلت پر بے پناہ تبصرے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے، ٹرمپ کی یہ نفسیات سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت کے اصولوں کی پیداوار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت، نفسیات اور جبلت اپنے مخصوص انداز میں اپنے طبقے کی حقیقی فطرت کا اظہار کر رہی ہے۔

منڈی کی معیشت ایک ایسا خونخوار جنگل ہے جس میں بھوکے بھیڑیئے ہر لمحہ ایک دوسرے پر حملہ آور رہتے ہیں۔ یہاں سوال سب سے موزوں کی بقا کا ہے۔ اخلاقیات اور جذبات کے لئے کوئی جگہ موجود نہیں۔ اپنے حریف کی طرف رحمدلی کمزوری ہے۔ اور جنگل میں کمزوری کا مطلب موت ہے۔
اگر یہ پاگل پن ہے تو اس پاگل پن کی بنیاد ایک وحشی معاشی و سماجی نظام ہے۔ امریکی سرمایہ داری اور سامراجیت کے حقیقی مکروہ چہرے سے جمہوریت کا خوشنما نقاب اتر چکا ہے۔ یہ وہ مدرسہ ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ابتدائی سالوں میں پلا بڑھا ہے اور جہاں زندگی، سیاست اور دنیا کے حوالے سے اس کا عمومی رویہ ایک بدنما سانچے میں ڈھلا ہے۔ کامیابی کے لئے ایک نہ ختم ہونے والی پیاس، جس نے اسے منڈی میں کامیاب کیا اب سیاسی طاقت کے حصول کے لئے اندھی خواہش بن چکی ہے۔

منڈی کے بنیادی اصول اس کے لاشعور کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور اس کی ہر سوچ اور ہر عمل کے اظہار میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھدا، جاہل، تنگ نظر، حریص، خود غرض اور دوسروں کی زندگی پر اپنے اعمال کے اثرات سے مکمل بے نیاز: وہ سرمایہ داری کے جوہر کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نظام کی غیر اخلاقی، جابر اور پر تشدد جبلت کا اجماع ہے۔ وہ واقعی اس نظام کا سب سے شفاف اور حقیقی اظہار ہے۔

اصولوں اور نظریات سے بے نیاز ٹرمپ تاریخ اور عالمی معاملات سے تقریباً نابلد ہے۔ دنیا کی طرف اس کا ہر رویہ صرف صدارتی قوت پر منحصر ہے۔ یہ پاگل انسان سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، نیشنل سیکورٹی کونسل اور انٹیلی جنس کمیونٹی میں موجود خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ پر بالکل اعتماد نہیں کرتا۔ اس حوالے سے اس میں اور رچرڈ نکسن میں کافی مماثلت ہے۔ وہ اس وجہ سے انہیں مسترد کر چکا ہے کیونکہ صدر منتخب ہونے سے پہلے انہوں نے اسے ’’غیر اہم ‘‘ تصور کیا اور اب منتخب ہونے کے بعد سے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔

یہ صورتحال اس کی انا کے لئے قابل قبول نہیں۔اس لئے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ’’ماہرین‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کو ٹرمپ ٹاور سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اپنے مداحوں کے سامنے ایک حالیہ تقریر کے دوران صدر نے اس غیر منصفانہ رد عمل پر مایوسی کا اظہار کیا۔ مینی سوٹا میں وہ اپنی دولت اور دانائی کے حوالے سے شیخیاں مارتا رہا اور سوال کرتا رہا کہ اسے پراپرٹی کے وسیع کاروبار کے باوجود ’’اشرافیہ‘‘ میں کیوں نہیں گردانا جاتا:’’وہ ہمیشہ دوسروں کو ’اشرافیہ‘ کہتے ہیں۔ وہ کیوں اشرافیہ ہیں؟ میرے پاس ان سے زیادہ بہتر اپارٹمنٹ ہے۔ میں ان سے زیادہ عقل مند ہوں ۔ میں ان سے زیادہ امیر ہوں۔ میں صدر بن گیا اور وہ نہیں بن سکے۔ اور میں دنیا کے سب سے بہتر، سب سے عقل مند، سب سے زیادہ وفادار اور سب سے بہترین لوگوں کا نمائندہ ہوں۔۔قابل رحم (لوگ)، یاد ہے؟‘‘

یہ ایک کڑھتے نو دولتیے کے دل کی آواز ہے جسے ایک خصوصی کلب کے دروازے سے واپس موڑ دیا گیا ہے۔ ’’واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے لیے اس کی نفرت کی اصل وجہ حسد اور دل آزاری ہے۔ وہ انہی طبقاتی مفادات کی ترجمانی کر رہا ہے ،مگر اس کے خیال میں وہ یہ کام ڈیموکریٹک پارٹی کے کمزور لبرلوں اور ریپبلیکن پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ نوازوں سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں کر رہا ہے۔ مگر پھر بھی اس کی اس غیر معمولی ذہانت کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہو رہی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر منتخب ہونے کے باوجود اس کے اس کلب میں داخلے پر پابندی کیوں ہے۔

ایران معاہدہ

ٹرمپ دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اس کی بہترین مثال 2015ء کا ایران معاہدہ ہے جسے اس نے پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ دو سال کی شدید سفارت کاری کے بعد یورپ، امریکہ، چین اور روس؛ تہران سے قابل ذکر رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے تھے۔ تہران نے بھی معاہدے پر انتہائی مستعدی اور نیک نیتی سے عمل درآمد کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو وہ ایرانیوں نے نہیں بلکہ امریکیوں نے کی جس کا آغاز اوباما کی حکومت میں ہو گیا تھا۔

معاہدے کے متعلق کہا گیا کہ گزشتہ پچیس سالوں میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے یہ سب سے اہم معاہد ہ ہے۔صدر اوباما کی نظر میں یہ معاہدہ ایک ’’تاریخی سمجھوتا‘‘ تھا جس میں ایران پر پابندیوں کو اس شرط پر ختم کیا گیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک، ’’میں نے اپنی زندگی میں اس سے بدترین معاہدہ نہیں دیکھا‘‘۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ اس معاہدے کو ختم کرنا اس کی ’’اولین ترجیح‘‘ ہے لیکن اس نے کبھی یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔

مارلن برانڈو نے دی گاڈ فادر فلم میں یہ مشہور زمانہ الفاظ کہے تھے: ’’میں اسے ایسی پیشکش کروں گا کہ وہ انکار نہیں کر سکتا‘‘۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو ایک ناقابل قبول پیشکش کی۔ نہ صرف اس نے تہران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا جھوٹا الزام لگایا بلکہ اس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر شامی جنگ میں اپنی سرگرمیوں کو محدود کرے۔ ان سوالات کو دانستہ طور پر اصلی معاہدے سے دور رکھا گیا تھا کیونکہ تمام فریقین جانتے تھے کہ ان کی موجودگی میں کوئی بھی معاہدہ طے پانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ڈونلڈ ٹرمپ واضح طور پر مشرق وسطی کی سب سے زیادہ رجعتی ریاستوں سعودی عرب اور اسرائیل کی حمایت میں ایران کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔ اس کی یہ حرکت پورے خطے میں آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جن یورپی قائدین نے شدید مشکلات کے باوجود یہ معاہدہ ممکن بنایا، اس وقت وہ صرف ہاتھ مل رہے ہیں۔

معاہدے کو ختم کرنے سے پہلے صدر ٹرمپ نے ننگی وارننگ جاری کی۔ ایران ’’وہ قیمت ادا کرے گا جو شاید ہی کسی ملک کا مقدر بنی ہو‘‘۔ ایرانی قائد آیت اللہ علی خا مینائی نے اسی انداز میں جواب دیا:’’اگر وہ معاہدہ پھاڑ دیں گے تو ہم اسے جلا دیں گے‘‘۔ سردست دونوں ممالک اس وقت کھلم کھلا لڑائی پر اتر آئے ہیں جس کے اثرات کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔ لیکن نتائج جو بھی ہوں، ایک بات یقینی ہے کہ ان کے پرامن ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

مشرق وسطیٰ

ٹرمپ کے ذہن میں ایک مکمل خاکہ موجود ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کے لئے یہ اقدام بیل کو لال جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔ عالمی سفارت کاروں کی نظر میں مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے یہ پہلا نہیں بلکہ آخری قدم تھا۔

اگرعمومی سفارت کاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس اقدام کو اسرائیلیوں سے رعایتیں حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ کم از کم یہ تو منوایا جا سکتا تھا کہ فلسطینی زمینوں پر یہودی آبادی کے پھیلاؤ کی اشتعال انگیز پالیسی کو فوری طور پر ترک کیا جائے۔ لیکن’ماہر معاہدہ ساز‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے بنیامین نیتن یاہو سے کوئی رعایت نہیں مانگی، اور جو مانگتا نہیں اسے کچھ ملتا بھی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیلی اور زیادہ پراعتماد ہو کر اپنی اشتعال انگیز پالیسیوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں فلسطینی اور زیادہ مشتعل ہو رہے ہیں اور یہ ساری صورتحال خطے میں عدم استحکام کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہی ہے۔

صدر اوباما کو عراق اور افغانستان میں امریکی جنگیں ختم کرنے کے وعدے پر عوام نے منتخب کیا تھا اور وہ مشرق وسطی میں کوئی بھی نئی جنگ چھیڑنے کے حوالے سے شدید ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ اسی وجہ سے اس نے شام میں براہ راست فوجی مداخلت کی مخالفت کی۔ اس کے بجائے اوباما حکومت نے ’’اعتدال پسند شامی باغیوں‘‘ کو ہتھیاروں سے لیس کرنے، مالی امداد دینے اور سفارت کاری کے ذریعے صدربشار الاسد کو اقتدار سے بیدخل کرنے کی کوششوں پر اکتفا کیا ۔

شروع میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شام میں فوجی مداخلت کا مخالف تھا اورا س کی زیادہ تر توجہ ملک کی داخلی پالیسیوں پر تھی۔ 2013ء میں اس نے ٹویٹ کیا تھا: ’’شام کو بھول جاؤ اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ!‘‘ ۔اس کے باوجود، اس سال اپریل میں شامی حکومت کی جانب سے کئے گئے ایک نام نہاد کیمیائی حملے کے الزام کے نتیجے میں اس نے ایک شامی حکومتی ائر بیس پر میزائل حملہ کر دیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ:’’بچوں پر اس حملے کے مجھ پر شدید اثرات پڑے‘‘۔

شامی جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جس میں امریکہ نے براہ راست شامی حکومت پر حملہ کیا ہے۔ عالمی تنہائی پسند لیڈر کی پالیسی میں یہ حیران کن تبدیلی تھی۔ چند دن بعد ٹرمپ حکومت نے ایک بار پھر افغانستان میں داعش پر’’بموں کی ماں‘‘ یا MOAB گرا کراپنی طاقت کا اظہار کیا، ایک ایسا ہتھیار جسے امریکہ نے پہلے کبھی استعمال نہیں کیا۔

دفاعی اخراجات میں مزید اضافے کے ارادے کے ساتھ فی الحال ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ بیرونی جنگوں میں زیادہ جارحانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ابھی تک ٹرمپ افغانستان، عراق اور شام میں 6 ہزار 162 فوجی بھیج چکا ہے۔ یہ ساری صورتحال ڈونلڈ ٹرمپ کی مشہور زمانہ تنہائی پسند پالیسی سے کیسے مطابقت رکھتی ہے؟ اس کا سادہ جواب ہے۔ نہیں رکھتی۔ اور نظر آ رہا ہے کہ ٹرمپ اس تضاد کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی کنجی اس کا روس کی جانب عجیب و غریب رویہ ہے جس پر اب ہم بات کریں گے۔

ٹرمپ، نیٹو اور روس

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO)ایک جارحانہ سامراجی اکٹھ ہے جس نے امریکی خارجہ پالیسی میں 60 سال سے زیادہ عرصہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس اکٹھ کا بنیادی اصول سابق سوویت یونین کے خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام سے پہلے رونلڈ ریگن اور میخائل گورباچوف میں معاملات طے ہو گئے تھے کہ ماسکو وارسا پیکٹ کو ختم کرے گا جس کے بعد مغرب بتدریج نیٹو کو ختم کر دے گا۔

وارسا پیکٹ تو ختم ہو گیا مگر نیٹو وہیں کھڑی رہی۔ لیکن مغرب نے کئی مرتبہ روس کو دلاسا دیا کہ نیٹو کبھی بھی مشرق کی جانب بڑھتے ہوئے سابق وارسا پیکٹ ممالک، جیسے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں پر قبضہ نہیں کرے گی۔ نیٹو نے دلاسوں کے برعکس کام کیا۔ پھر اس کی کوشش رہی کہ سابق سوویت جمہوریاؤں کو ساتھ ملاتے ہوئے روس کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے جس کے نتیجے میں پہلے روس اور جارجیا کے درمیان فوجی جھڑپ ہوئی اور پھر بعد میں یوکرائن کا مسئلہ بھی بنا۔
اس ساری صورتحال میں روس کا رویہ مدافعانہ جبکہ امریکہ اور نیٹو کا رویہ جارحانہ تھا۔ لیکن مغربی میڈیا نے سچائی کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ’’روسی جارحیت‘‘ کے خلاف کھل کر پروپیگنڈہ کیا۔

تنہائی پسند اور قومی حدود سے بالاتر اداروں پر شدید عدم اعتماد کی نفسیات کا شکار ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو کے حوالے سے بھی بہت مشکوک ہے اور انتخابی مہم کے دوران اس پر ’’فرسودہ‘‘ ہونے کے الزامات لگا کر کہتا رہا ہے کہ اس کے ممبران غیر مشکور اتحادی ہیں جو صرف امریکی سخاوت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سیکرٹری دفاع جیمز ماٹیس نے دھمکی دی کہ واشنگٹن ’’اپنی امداد میں کمی کر دے گا‘‘ اگر ممبران نے اس کے مالک کی بات مانتے ہوئے اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2 فیصد کے برابر نہ کیا۔

مسٹر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس کے سخت رویے کی وجہ سے ’’پیسہ آ رہا ہے‘‘ جبکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2014ء کے ایک معاہدے کے تحت ممبر ممالک پہلے ہی اخراجات میں اپنا حصہ بڑھا رہے تھے۔ لیکن ایک ایسے وقت میں جب یورپی اتحادی 2008ء کے مالیاتی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیو ہیکل خساروں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مزید معاشی قربانیوں کا مطالبہ کرنا زخموں پر نمک چھڑکنا ہے۔

اپریل کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں نیٹو چیف جینس ستولتین برگ امریکی صدر کے سامنے ناک رگڑ رگڑ کر اس معاملے پرتوجہ دلانے کے لئے شکریہ ادا کرتا رہا:’’ہم سب اس الائنس کا بوجھ اٹھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے حوالے سے آپ کی بھرپور توجہ کے (مثبت)اثرات دیکھ رہے ہیں‘‘۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کسی شخص کے منہ پر تھوکا جائے اور وہ اپنا منہ صاف کر کے آپ کا شکریہ ادا کرے۔

ولادیمر پیوٹن اور کریملن کے خلاف جارحانہ لفاظی کے حوالے سے مسٹر ستولتین برگ کافی مشہور ہیں حالانکہ عملی فوجی حوالے سے اس نے کبھی کچھ نہیں کیا۔ اور بحر اوقیانوس پار آئے مالک کے سامنے ذلت آمیز تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی دھواں دھار تقریروں کی طرح وہ میدان جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھانے کے قابل نہیں۔

اس دوران مسٹر ٹرمپ کا دل تھوڑا نرم ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نیٹو’’اب فرسودہ نہیں رہا‘‘۔ کیوں؟ ٹرمپ کا غیر متوقع رویہ مشہور ہے لیکن اس معاملے میں اچانک پلٹی کھانا ناقابل فہم ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خطرے نے اس الائنس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ لیکن یہ خطرہ تو بہت پہلے سے موجود تھا اور ظاہر ہے کہ سوچ میں اس یکدم پلٹ کی وجہ نہیں ہو سکتا۔

زیادہ اہم یہ تھا کہ صدر نے نیٹو ممبران کو عراقی اور افغانی ’’اتحادیوں‘‘ کی اور زیادہ فعال مدد کرنے کے لئے کہا ہے۔ اب معاملات کچھ کچھ واضح ہو رہے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹرمپ عراق، افغانستان اور شام سے نکلنا چاہتا ہے۔ لیکن ان ممالک میں مہنگی اور خون ریز جنگیں مسلسل درد سر بنی ہوئی ہیں۔

اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ بہت آسان ہے۔ جس طرح نیٹو ممبران سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکلوائے جا رہے ہیں، اسی طرح مشرق وسطیٰ کے ریگستانوں اور وسطی ایشیا میں اب انہیں اپنے نوجوان مردوں اور عورتوں کو مرنے کے لئے بھجوانے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ امریکی نوجوان مردوں اور عورتوں کو اس عذاب سے نجات دلائی جا سکے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھی الجھے ہوئے ذہن کو سمجھ آ گئی ہے کہ نیٹو اتنا برا ادارہ نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی ٹرمپ نے نیٹو کو سانس لینے کا موقع دیا، اس نے پھر روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ ایک میٹنگ کا اعلان کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ امریکی انتخابی مہم کے دوران مسٹر ٹرمپ نے پیوٹن کی بطور ایک مضبوط قائد بھرپور تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ اس کی خواہش ہے کہ ان کے آپسی تعلقات خوشگوار ہوں۔ یہ اس وقت کی کیفیت تھی جب تک امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے روس پر امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے ٹرمپ کو ہراساں کرنا شروع نہیں کیا تھا۔

روس پر امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام ہو سکتا ہے کہ سچ ہو، ہو سکتا ہے کہ جھوٹ ہو۔ لیکن کئی ممالک، جن میں خود امریکہ بھی شامل ہے، ہر وقت دوسرے ممالک کی ہیکنگ، فون ٹیپنگ اور مداخلت میں پیش پیش رہتے ہیں، جیسا کہ اینجلا مرکل کو تکلیف دہ واقعات کے ذریعے پتہ چلا۔ لیکن یہ کہنا کہ کریملن لاکھوں کروڑوں امریکی ووٹروں پر اثر انداز ہوا، انتہائی بچگانہ سوچ ہے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک امریکی صدر پوری دنیا کے سامنے CIA اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ دست و گریباں ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کا کام ہی خفیہ رہنا ہے اور وہ ایک بورژوا ریاست کا دل ہوتی ہیں۔ ایجنسیوں کا کھلے عام ایک صدر کے ساتھ جارحانہ تصادم تاکہ صدر کو کمزور کر کے صدارت سے ہٹایا جا سکے، ایسا مظہر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

ٹرمپ کو مسلسل روس کے ساتھ ساز باز کے الزامات کی بوچھاڑ میں اپنا طریقہ کار تبدیل کرنا پڑا ہے۔ اب وہ یہ کہتا ہے کہ وہ صدر پیوٹن پر اعتماد کرنا چاہتا تھا لیکن ’’اب شاید ایسا ممکن نہ ہو‘‘۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکہ کے ’’روس کے ساتھ تعلقات تاریخ میں بدترین سطح پر کھڑے ہیں‘‘۔ اس نے کہا کہ یہ ’’شاندار‘‘ ہو گا اگر دونوں اقوام کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف جائیں لیکن ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ ’’شاید معاملات اس کے الٹ ہوں‘‘۔

تمام توقعات کے برعکس ’’الٹ معاملات‘‘ کرنا اس شخص کی سرشت میں ہے۔ سالیسبری میں ایک سابق روسی ایجنٹ کو مبینہ طور پر زہر دے کر قتل کرنے پر اٹھنے والے روس مخالف شور شرابے میں مجبوراً ٹرمپ کو شامل ہونا پڑا۔ اس شور شرابے کے پیچھے CIA اور برطانیہ میں موجود ان کی پالتو MI5 کا ہاتھ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پیوٹن کے ساتھ یاری کا معاملہ اب کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ لیکن جو نظر آتا ہے، وہ اکثر فریب ہوتا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں تو عام طور پر ایسا ہی ہے۔

اس موقع پر ایک مضمون میں ہم نے لکھا تھا کہ سالیسبری واقعے میں روس کا ملوث ہونا بہت مشکل ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ مستقبل قریب میں ٹرمپ یو ٹرن لے گا اور پیوٹن سے ملاقات کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ہمارے تجزیئے کو درست ثابت کیا ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ بورس جانسن اور روس مخالف لابی کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی اور یہ سچ ثابت ہوا۔ آج ہم پھر یہی بات دہرا رہے ہیں۔

اگر روس کے ساتھ کسی ڈیل کے حوالے سے دیکھاجائے تو یہ امریکی سامراج کے لئے بہت مفید ہو گا۔اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو اور امریکی سی آئی اے کے ہیجانی پروپیگنڈے سے زیادہ ان مفادات کی ترجمانی کر رہی ہے۔ ٹرمپ کی سوچ تنہائی پسند ہے۔ اس لئے وہ امریکی افواج کو شام سے نکالنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ روس کے ساتھ کوئی مفاہمت کی جائے۔ پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے فیصلے میں اس ضرورت کا کلیدی کردار ہے۔

یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمر پیوٹن امریکی اور روسی اشرافیہ کے مفادات کے نمائندے ہیں۔ ان دونوں سے کسی ترقی پسند اقدام کی کوئی امید نہیں۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ میں سرد جنگ کے پرانے کھلاڑیوں کی پرزورروس مخالف کیمپیئن بھی اتنی ہی رجعتی ہے۔

محنت کش طبقے کو اپنے طبقاتی نکتہ نظر سے ڈونلڈ ٹرمپ کی شدید مخالفت کرنی چاہیئے۔ امریکی بائیں بازو کو کسی صورت ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد میں نہیں جانا چاہیئے کیونکہ وہ ٹرمپ کی مخالفت اپنے سفاک مفادات کے لئے کر رہے ہیں اور حتمی تجزیئے میں سرمایہ داری اور سامراجیت کا دفاع کر رہے ہیں۔ آخری تجزیئے میں وہ اسی طبقے کے نمائندے ہیں۔ ان کا ٹرمپ کے ساتھ مسئلہ ہی یہ ہے کہ ان کی بجائے ٹرمپ یہ رجعتی پالیسی لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کا اصل مقصد سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی موجودہ صدر سے زیادہ بہتر خدمت کرنا ہے۔ یہ کوئی ایسا نصب العین نہیں ہے جس کے لئے محنت کش طبقے میں کسی قسم کی بھی ہمدردی موجود ہو۔

یورپ کے ساتھ تنازعہ

برونو ماسایس نے ٹرمپ ڈاکٹرائن کے حوالے سے اپنی کتاب دی امیریکن انٹریسٹ میں لکھا ہے:’’یورپ کے حوالے سے ٹرمپ کی سوچ کا راز یہ ہے۔۔وہ کسی صورت امریکہ کو یورپ کے ساتھ ڈوبنے نہیں دے گا، چاہے اس کا مطلب بحر اوقیانوس کے آر پار الائنس میں نئی دراڑیں ڈالنا ہو‘‘۔ 1950ء کی دہائی سے اب تک یورپی ہم آہنگی امریکی خارجہ پالیسی کا ایک کلیدی ستون رہی ہے۔ لیکن جس طرح ٹرمپ ڈبلیو ٹی اور نیٹو پر یقین نہیں رکھتا، اسی طرح اس کے لئے یورپی ہم آہنگی کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ اس نے اپنا پورا زور لگا کر یورپی قوتوں کے مابین تضادات کو اور زیادہ ہوا دینے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کی بڑھتی ہوئی آپسی لڑائی میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس نے تجویز دی کہ ہو سکتا ہے برطانیہ کی طرح اور ممالک بھی یورپی یونین چھوڑنا چاہیں گے۔ لیکن اس کو سب سے زیادہ نفرت جرمنی اور اینجلا مرکل سے ہے۔۔کچھ تو اس وجہ سے کیونکہ امریکہ کے ساتھ تجارت میں جرمنی زیادہ فائدے میں ہے لیکن شاید بنیادی وجہ جرمن چانسلر کا یورپ میں سربراہانہ کردار ہے۔

ایران معاہدے کی دھجیاں اڑاتے وقت اس نے خاص طور پر دیرینہ یورپی اتحادیوں کی پرزور التجاؤں کو مکمل نظر انداز کیا۔ کئی کلیدی سیاست دانوں نے قطار میں کھڑے ہو کر اس کی منت سماجت کی کہ وہ یہ قدم نہ اٹھائے۔ صدر میکرون نے پوری کوشش کی کہ وائیٹ ہاؤس کے ایک اچھے معاون اور دیرینہ دوست کا ڈھونگ رچا سکے۔ برطانیہ کا بورس جانسن تو بالکل ہی مالک کا کتا بن گیا، یہاں تک کہ اس نے اشارہ بھی دیا کہ اگر ٹرمپ یہ رعایت دے تو اسے نوبل انعام سے بھی نوازا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر ترکیب بے فائدہ رہی۔ سفارتی حوالے سے امریکی صدر نے ان سب پر پیشاب کر دیا۔

ٹرمپ کوئی حکمت عملی بنانے والا انسان نہیں ، یہاں تک کہ ایک اچھا چالباز بھی نہیں ہے۔ وہ دھمکیوں، بدتمیزی اور ڈراوے کے ذریعے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انہونے مطالبات کے ساتھ بات شروع کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ بے پناہ امریکی معاشی اور فوجی طاقت کو بار بار باور کرا کر اپنی بات منوا لے ۔ کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ گھاٹے کی پالیسی ہے۔ وہ اس طریقہ کار کوجتنا زیادہ استعمال کرے گا، اتنا ہی زیادہ یہ غیر مؤثر ہوتا چلا جائے گا۔ ڈر اور خوف کے بجائے دیگر ممالک متنفر ہو رہے ہیں اور جلد ہی وہ جواب بھی دینا شروع کر دیں گے۔

اس حکمت عملی کی سب سے خطرناک کمزوری یہ ہے کہ وہ امریکی مرضی مسلط کرنے کی صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے ، چاہے صورتحال کچھ بھی ہو ۔ ساتھ ہی وہ اس بدمعاشی کا مقابلہ کرنے کی دیگر ممالک کی صلاحیت کو ہمیشہ کم تر سمجھتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی ’’سب کچھ یا کچھ بھی نہیں‘‘ والی پالیسی حتمی تجزیئے میں ناکام ہے کیونکہ اس پالیسی میں کبھی بھی عالمی سطح پرطاقتوں کے حقیقی توازن کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔

جلد یا بدیر اس پالیسی کے نتیجے میں امریکہ کو مایوسیوں اور شکستوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کی عالمی قوت، عزت اور اثرورسوخ بڑھانے کی بجائے یہ پالیسی امریکی سامراج کی حدود اور کمزوریوں کو عریاں کر دے گی۔ دیگر سامراجی قوتیں، خاص طور پر چین اور روس، اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

ٹرمپ اور ایشیا

انتخابی مہم کے دوران تائیوان پر صدر ٹرمپ کے تبصروں نے چین کو حیران پریشان کر کے رکھ دیا۔ ا س کے پہلے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے جنوبی چینی سمندر میں چین کے بنائے گئے مصنوعی جزیروں تک چین کی رسائی پر پابندی لگانے کی بات کی جس پر ایک ریاستی چینی اخبار نے ’’عسکری تصادم‘‘ کی دھمکی دی۔

شمالی کوریا کے حوالے سے صدر اوباما کی پالیسی لاگو کردہ پابندیوں میں اضافے، چین سمیت دیگر ریاستوں کو اس پر عملدرآمد کی تلقین اور نتائج کے انتظار پر مبنی تھی۔ اس کو ’’صبر کی حکمت عملی‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کوئی حکمت عملی ہی نہیں اور صبر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا کہ’’ تمام تر آپشن مدنظر ہیں‘‘ اور ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ ایک امریکی جنگی بیڑہ جزیرہ نما کوریا بھیج رہا ہے جس کی وجہ سے فوجی جھڑپ کے خدشات بڑھ گئے۔شمالی کوریا نے انتہائی جارحانہ جواب دیتے ہوئے ’’مکمل جنگ‘‘ کے لئے خبردار کر دیا۔

مکمل جنگ کی بجائے مکمل کنفیوژن رہا جس میں دس دنوں بعد پتہ چلا کہ جس امریکی بحری بیڑے کا اعلان مسٹر ٹرمپ نے کیا تھا وہ کسی اور ہی سمت محو سفر ہے۔ جس وقت وائیٹ ہاؤس اس بیڑے کی بحری پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے اصرار کر رہا تھا کہ بیڑہ اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے، اسی دوران مسٹر ٹرمپ اپنے ذہن میں کم جونگ ان (شمالی کوریا کا صدر) کے ساتھ ملاقات کے تصور سے محظوظ ہورہے تھے۔

’’انتہائی شاندار ملاقات‘‘

’’ہماری ملاقات انتہائی شاندار رہی۔ بے پناہ پیش رفت ہوئی۔ واقعی ، انتہائی مثبت، میرا خیال ہے کہ کسی کے تصور سے بھی زیادہ شاندار۔ بہترین۔ انتہائی شاندار‘‘۔
12جون 2018ء کے دن سنگاپور میں ٹرمپ نے کم جونگ ان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا ان فاتحانہ الفاظ میں جشن منایا۔ صد افسوس، مسٹر ٹرمپ کے معاملے میں یہ اٹل سچ ہے کہ الفاظ کا حقیقت کے ساتھ تعلق کم ہی ہوتا ہے۔

یہاں لفظ شاندار صرف اپنے لفظی معنی میں ہی مناسب ہے۔ اپنے ذہن اور تخیلات پر بڑا زور ڈال کر یاد کرنا پڑتا ہے کہ محض پچھلے سال، امریکی صدر اپنے شمالی کوریائی ہم منصب کو ’’ٹھگنا راکٹ مین‘‘ کہہ کر لتاڑ تے ہوئے اس کے ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ اس اثنا میں کم جونگ ان ڈونلڈ ٹرمپ کو ’’پاگل امریکی بڈھا‘‘ کہتے ہوئے ’’آگ سے ٹھنڈا‘‘ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔

وائیٹ ہاؤس کے روزویلٹ روم سے صدر نے خوفناک نتائج کی دھمکی دی:’’میں نے جنرل میٹس ، جوائنٹ چیف آف سٹاف اور اپنی افواج سے بات کر لی ہے۔۔جو کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور حال ہی میں ان کی صلاحیتوں میں قابل ذکر اضافہ کیا گیا ہے، جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں۔۔ضرورت پڑنے پر وہ متحرک ہونے کے لئے تیار ہیں‘‘۔

پھر ایسے جیسے جادو بھرے لمحے میں سب کچھ شیر و شکر اور پر امن ہو گیا۔ ملاقات کے اختتام پر پاگل بڈھے اور ٹھگنے راکٹ مین نے ایک اعلامیے پر دستخط کئے جس میں ’’جزیرہ نما کوریا میں ایک بھرپور، پائیداراور مستحکم پر امن ماحول کے قیام‘‘ کا اعلان کیا گیا۔مسٹر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ شمالی کوریا کو ’’ سیکورٹی گارنٹی‘‘ فراہم کریں گے؛ اس کے بدلے میں مسٹر کم نے اعلان کیا کہ وہ ’’سنجیدہ اور غیر متزلزل عہد کرتے ہیں کہ جزیرہ نما کوریا سے جوہری ہتھیاروں کا مکمل صفایا کیا جائے گا‘‘۔

امریکی صدر کے دعوے کے برعکس یہ میٹنگ وہ تاریخی پیش رفت نہیں تھی جس کی امید کی جا رہی تھی۔ اگر اور زیادہ باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ شرم ناک حقیقت واضح ہو تی ہے کہ اس میٹنگ میں نہ تو کوئی خاص بات کی گئی اور نہ ہی کوئی ٹھوس اقدامات کئے گئے۔ شاید اسی وجہ سے دونوں قائدین نے اعلان کیا کہ ’’جتنی جلدی ممکن ہو سکے‘‘، مختلف ذیلی سطحوں پر دیگر میٹنگوں کو منعقد کر کے اعلامیے کی سوکھی ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھانے کی کوششیں کی جائیں گی۔

یہ اجلاس ایک سفارتی کامیابی تو نہیں لیکن ایک شاندار اور فاتحانہ عوامی تشہیر ی مہم ضرور تھی۔ لیکن سوال یہ ہے: فتح کس کے لئے؟ مسٹر کم یقیناً انتہائی مطمئن ہو کر پیونگ یانگ پہنچیں گے۔ اس نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے جس کی اس کے باپ اور دادا کو شدید تمنا تھی لیکن وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے: ایک امریکی صدر کے ساتھ ملاقات۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ شمالی کوریا ،چین یا روس نہیں ہے۔ یہ ایشیا کا ایک چھوٹا، بھوکا ننگا ملک ہے۔ لیکن اب اسے دنیا کے طاقت ور ترین ملک کاہم پلہ تصور کیا جا رہا ہے۔صرف چند مہینوں کے عرصے میں کِم نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ نفرت زدہ اور خوفناک قائدسے ایک عظیم مدبر اور پر امن انسان میں تبدیل کر لیا ہے۔

یہ دیو مالائی تبدیلی صرف ایک شخص کی وجہ سے ممکن ہوئی: ڈونلڈ ٹرمپ۔ کم جونگ ان کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد۔۔ایک ایسا شخص جسے ماضی قریب میں ٹرمپ نے اس کی قوم سمیت تباہ و برباد کرنے کی دھمکی دی تھی۔۔مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ شمالی کوریا کے قائد کے ساتھ بیٹھنا ’’اعزاز‘‘ تھا۔ یہ ایک شاندار پروپیگنڈہ فتح تھی۔

اعلامیے پر دستخط کے بعد ایک پریس کانفرنس میں مسٹر ٹرمپ اور بھی زیادہ آگے بڑھ گئے۔ اس نے اعلان کیا کہ امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ دوران مذاکرات تمام جنگی مشقیں روک دے گا۔ اس نے کہا کہ اس کی وجہ سے امریکہ کو کچھ مالیاتی بچت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ گوام میں موجود امریکی ائر بیس سے جنوبی کوریا تک بمبار طیارے اڑانا ’’بہت مہنگا‘‘ ہے۔ ٹرمپ نے ایک دن جزیرہ نما کوریا سے امریکی فوجیں واپس بلا نے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

مسٹر ٹرمپ نے جاپان اور جنوبی کوریا پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اپنے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کا انہیں فائدہ ہو سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایشیا میں ہتھیاروں کے حصول کی ایک خوفناک اور تباہ کن دوڑ شروع ہو جائے گی۔

سفاک طاقتوں کی سفارت کاری کا ایک سنہری اصول ہے: کبھی بھی کوئی مراعت مفت میں نہیں دی جاتی۔ لیکن یہاں سب پر واضح ہے کہ صرف ایک طرف یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سب کچھ دان کر دیا گیا ہے۔ یہ شمالی کوریا کے لئے دیو ہیکل، یہاں تک کہ نا قابل یقین مراعتیں ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کو اس کے بدلے میں کیا ملا؟ دوسری جانب سے صرف خوبصورت لفاظی کی گئی اور ہم سب جانتے ہیں کہ لفاظی کی کوئی اوقات نہیں۔

ٹرمپ اور عالمی تجارت

ٹرمپ ایک طویل عرصے سے امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کیمپیئن کر رہا ہے جس کا منطقی ہدف چین ہے۔2017ء میں امریکہ کا تجارتی خسارہ 811 ارب ڈالر تھا۔۔ 2016ء کے مقابلے میں 59 ارب ڈالر زیادہ۔ اس میں سے 376 ارب ڈالر چین کے ساتھ ہونے والی تجارت کی وجہ سے ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تناؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 1333 چینی مصنوعات پر محصولات لاگو کرنے کے اعلان کے صرف گیارہ گھنٹے بعد بیجنگ نے اعلان کیا کہ وہ106 امریکی مصنوعات پر مساوی 25 فیصد محصول لگا رہا ہے جن میں سویا بین اور دیگر زرعی مصنوعات، کیمیکلز اور کچھ ہوائی جہازشامل ہیں۔ آخر الذکر کی 2017ء میں مالیت 50 ارب ڈالر تھی، تقریباً اتنی ہی مالیت جتنے کی چینی مصنوعات امریکی محصولات کی زد میں آئی ہے۔سویا بین پر محصولات امریکی کاشتکاروں کے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ امریکی کاشتکاروں کے لئے چین سویا بین کی سب سے بڑی منڈی ہے، دوسرے بڑے خریدار میکسیکو سے آٹھ گنا زیادہ بڑی ۔ پچھلے سال 22 ارب ڈالر کی سویا بین برآمدات میں سے 56فیصد چین بھیجی گئی تھیں۔ جلد ہی اسٹیل اور ایلومینیم کے علاوہ مسٹرٹرمپ چین سے درآمد شدہ مصنوعات پر ٹیکس کی مد میں 34 ارب ڈالر اکٹھاکرنا شروع کر دیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے موجودہ آزاد تجارت کے مختلف معاہدوں کو ختم کر نے کی دھمکی دی ہے جن میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے مابین شمالی امریکی آزاد تجار تی معاہدہ (NAFTA) شامل ہے جو اس کے مطابق امریکی ملازمتوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔اس نے عالمی تجارتی آرگنائزیشن (WTO) سے امریکہ کے انخلا کی تجویز بھی دی ہے۔ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا مقصد امریکہ میں نئی نوکریاں پیدا کرنا، تجارتی خسارے کو ختم کرنا اور امریکیوں کے لئے ’’اچھی ڈیل‘‘ حاصل کرنا ہے۔
ٹرمپ نے مطالبہ کیا ہے کہ میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ تین دہائیوں پہلے کیے گئے نافٹا معاہدے پر از سر نو مذاکرات کیے جائیں۔ نافٹا کا مستقبل اب خطرےمیں ہے۔ اس نے بین البحرالکاہل شراکت داری معاہدے ٹی پی پی کو ختم کر دیا ہے جو کہ عالمی تجارت کے تقریباً چالیس فیصد پر مشتمل تھا۔ عالمی سرمایہ داری کی نظر میں اس سے بھی زیادہ سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اس نے نئی عالمی محصولات لاگو کر دی ہیں جن کے زیر اثر عالمگیریت کا کمزور پردہ چاک ہو سکتا ہے۔

کیوبیک میں گروپ آف سیون (G7) اجلاس میں شدید بغض اور شک کی فضا میں بڑی مشکلوں کے ساتھ بالآخر ایک مشترکہ اعلامیے پر اتفاق ہو ا۔ مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ وہ خوش ہیں، یہاں تک کہ اجلاس کو شاندار کہتے ہوئے دیگر عالمی قائدین کے ساتھ اپنے تعلقات کو پورے 10 نمبر بھی دیئے! لیکن سرکاری اعلامیے کے جاری ہونے کے محض دس منٹ بعد اس کے خیالات بدل گئے۔کم جونگ ان کے ساتھ ’’امن مشن‘‘ کے لئے بحر اوقیانوس کے اوپر محو پرواز اس نے ایک ٹویٹ کیا کہ اس نے اپنے نمائندوں کو احکامات جاری کر دیئے ہیں کہ اس اعلامیے کی حمایت نہ کی جائے کیونکہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی اختتامی پریس کانفرنس میں ’’غلط بیانات‘‘ (یعنی جھوٹے) دیئے ہیں اور ساتھ ہی دوبارہ دھمکی دی کہ وہ ان تمام گاڑیوں پر محصولات لگا دے گا جو اس وقت ’’امریکی منڈی میں کھچا کھچ بھری پڑی ہیں!‘‘۔ٹرمپ کا یقین کامل ہے کہ پوری دنیا امریکہ کے ساتھ نا انصافی کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’یہ ٹوپی ڈرامہ اب ختم ہوچکا ہے‘‘۔

امریکی قومی سلامتی کے نام پر ٹرمپ نے کینیڈا، میکسیکو اور یورپی یونین کے سٹیل اور ایلومینیم پر محصولات لگا دیں۔ جواب میں کینیڈا نے 16.6ارب کینیڈین ڈالر (12.8ارب امریکی ڈالر) مالیت کی امریکی اشیاء پر محصولات لگا دی ہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ امریکی محصولات ’’ناقابل قبول‘‘ ہیں۔ ان اقدامات کی بتائی گئی وجہ امریکی قومی سلامتی کے حوالے سے اس کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ محصولات دیرینہ امریکی اور کینیڈین سیکورٹی شراکت داری کی توہین ہیں اور خاص طور پر ان ہزاروں کینیڈین شہریوں کی توہین ہیں جو اپنے امریکی بھائیوں کے ہمراہ لڑے اور مرے ہیں‘‘۔

نئے NAFTA معاہدے کے مذاکرات فی الحال ہوا میں معلق ہیں۔ اگر کینیڈا اور میکسیکو اپنی تحفظاتی پالیسیاں متعارف کرواتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اس تجارتی بلاک سے ہی باہر نکل جائیں۔میکسیکو کا کہنا ہے کہ وہ امریکی درآمدات جیسے سور کا گوشت، سیب، انگور ، پنیر اورا سٹیل کی شیٹوں پر محصولات متعارف کرائے گا۔ امریکی اعلان سے پہلے کینیڈین وزیر خارجہ کریسٹا فریلینڈ کا کہنا تھا کہ: ’’حکومت مکمل تیار ہے اور ہر صورت کینیڈین صنعت اور نوکریوں کا تحفظ کرے گی۔ ہم مناسب جواب دیں گے‘‘۔

ٹرمپ عوامی جلسوں اور نجی محفلوں میں تجارتی عدم توازن پر اپنا غصہ نکالتا رہتا ہے، خاص طور پر جرمنی کی امریکہ کو گاڑیوں کی دیو ہیکل فروخت اس کو شدید مشتعل کر رہی ہے۔ دولوتھ میں ایک انتخابی ریلی کے دوران اس نے کہا: ’’یورپی یونین کو دیکھو۔۔ان کی کئی رکاوٹوں کی وجہ سے ہم فورڈ کی مصنوعات وہاں نہیں بیچ سکتے لیکن وہ اپنی مرسیڈیز اور BMW بیچ رہے ہیں، ان گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ہم ان پر کوئی قابل ذکر ٹیکس نہیں لگاتے۔وہ ہماری گاڑیاں نہیں خریدتے۔ اور اگر وہ خریدتے ہیں تو ان پر دیو ہیکل ٹیکس ہیں۔۔تو بنیادی طور پر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم تمہیں لاکھوں گاڑیاں فروخت کریں گے۔ہاں، لیکن تم ہمیں کوئی گاڑی فروخت نہیں کرو گے‘۔لوگو! اب ایسے نہیں چلے گا۔ اب ایسے نہیں چلے گا‘‘۔

گاڑیوں پر نئے محصولات لگانے کے لئے کوئی موزوں بہانہ تلاش کرنے کی کوشش میں ٹرمپ نے اپنے کامرس ڈیپارٹمنٹ کو احکامات دیئے ہیں کہ وہ ایک ’’قومی سلامتی تحقیق‘‘ کا آغاز کریں۔ برلن یا برسلز کو اس دلیل پر قائل کرنا کہ BMW گاڑیاں کسی بھی حوالے سے امریکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں، ناممکن ہی لگتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر کی تحفظاتی محصولات کی پالیسی جرمن قومی معیشت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اور جس طرح عسکری اقدامات کے جواب میں عسکری اقدامات ہی کئے جاتے ہیں، اسی طرح ایک ملک کی تحفظاتی پالیسیوں کے جواب میں تحفظاتی پالیسیاں ہی لاگو کی جائیں گی۔

یو کے اسٹیل کے گاریتھ سٹیس کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات نے ’’ایک تباہ کن تجارتی جنگ شروع کر دی ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا ہے: ’’یہ اخذ کرنا بڑا مشکل ہے کہ ان محصولات کے کیا اچھے نتائج ہوں گے۔ امریکی اسٹیل صارفین ابھی سے قیمتوں میں اضافے اور سپلائی چین میں مسائل کی رپورٹ دے رہے ہیں اور برطانیہ کی پچھلے سال امریکہ کو 500 ملین ڈالر کی ا سٹیل برآمدات کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں اسٹیل کی پیداوار کرنے والوں کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔ جیسا کہ پہلے بھی کئی مرتبہ کہا جا چکا ہے، مسئلے کی اصل جڑ،ا سٹیل کی عالمی زائد پیداوار کا واحد حل عالمی سطح پر قائم کردہ چینلز کے ذریعے باہمی مذاکرات سے ہی ممکن ہے‘‘۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیرس معاہدے سے انخلا اور ایران ڈیل پر پانی پھرنے کے بعد پیدا ہونے والا امریکی -یورپی یونین تناؤ ، اسٹیل اور ایلومینیم محصولات کی وجہ سے اور بھی زیادہ شدید ہو گیا ہے۔ یورپی یونین نے بھی امریکی درآمدات پر مساوی 3 ارب ڈالر کے محصولات لگا دیے ہیں (جسے وہ ’’توازن کو برقرار‘‘ رکھنا کہہ رہے ہیں) جن میں روایتی امریکی مصنوعات جیسے موٹر سائیکل، مالٹے کا جوس، شراب، پینٹ بٹر اور جینز شامل ہیں۔

ان اقدامات کے جواب میں ٹرمپ نے یورپی گاڑیوں پر نئے محصولات لگانے کی دھمکی دے دی ہے۔ اس نے ٹوئٹر پر لکھا کہ: ’’امریکہ کی عظیم کمپنیوں اور محنت کشوں پر یورپی یونین نے ایک طویل عرصے سے محصولات اور تجارتی رکاوٹیں لاگو کی ہوئی ہیں، اگر ان محصولات اور تجارتی رکاوٹوں کو جلد ختم نہیں کیا گیا تو پھر ہم امریکہ میں آنے والی تمام گاڑیوں پر 20فیصد محصول عائد کر دیں گے‘‘۔ اس ٹویٹ کی وجہ سے تمام یورپی کار ساز کمپنیوں، بشمول بی ایم ڈبلیو اور واکس ویگن کے شیئر ز کی مالیت میں گراوٹ دیکھنے میں آئی۔

ہمیں یاد رہنا چاہیئے کہ 1929ء کے مالیاتی بحران کے بعد یہ تحفظاتی پالیسیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے 1930ء کی دہائی کی کسادبازاری رونما ہوئی۔ اگر تحفظاتی پالیسیوں کی روش مستقل طور پر اختیار کر لی جاتی ہے تو عالمی تجارت کا پورا نحیف ڈھانچہ دھڑام سے گر جائے گا جس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

’’ایک مختلف اور زیادہ خطرناک دنیا‘‘

ان تمام وجوہات کی وجہ سے ٹرمپ کی خارجہ پالیسی عالمی سرمایہ داری کے عمومی بحران میں اور زیادہ عدم استحکام کا باعث بننے والا جزو بنتی جا رہی ہے۔ سرمائے کے سنجیدہ حکمت کار اس تماشے کو سراسیمگی سے دیکھے جا رہے ہیں۔ دی اکانومسٹ جریدے نے 7 جون کو حیران کن عنوان کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا: ’’حال کی تباہی۔۔ڈونلڈ ٹرمپ اصولوں کے تحت وضع کردہ ورلڈآرڈر کو برباد کر رہا ہے‘‘۔ مضمون کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے: ’’امریکہ کو مختصر عرصے میں شاید کچھ کامیابیاں حاصل ہوں لیکن دنیا کو ایک لمبے عرصے تک اس کا نقصان پہنچتا رہے گا‘‘۔

واشنگٹن کا ایک قدامت پسند تبصرہ نگار رابرٹ کیگن لکھتا ہے: ’’1930ء کی دہائی دوبارہ اس طرح رونما نہیں ہو گی۔۔ہم ابھی اس نکتے تک نہیں پہنچے۔ لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا آرڈر ایک انہونی ہے۔ یہ امریکہ کا مرہون منت تھا۔ ٹرمپ کی زیر قیادت ہم دوبارہ کثیر القطبی دنیا میں واپس جا رہے ہیں۔ جس دنیا میں ہم پروان چڑھے ہیں، وہ دنیا اس سے بہت مختلف اور خطرناک ہے‘‘۔

پچیس مئی کو دی نیو یارکر جریدے نے ’’ٹرمپ کا برباد ہوتا ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے ایک مضمون شائع کیا۔ اس میں کہا گیا کہ ٹرمپ کی ’’سب کچھ یا پھر کچھ بھی نہیں ،سفارت کاری کی وجہ سے تصادم کے خطرات کا بڑھنا ناگزیر ہے‘‘۔ اور پھر مایوس کن نتیجہ اخذ کرتاہے: ’’ٹرمپ کے پندرہ مہینوں کی صدارت میں ہم نے دہائیوں پرانی امریکی روایات کی حیران کن تباہی دیکھی ہے۔۔امریکی قیادت میں ورلڈ آرڈر، کلیدی اتحاد، تجارتی معاہدے، عدم پھیلاؤ(جوہری ہتھیار وں کا) کے اصول، عالمگیریت کے طریقے، عالمی ادارے اور سب سے زیادہ، امریکی اثرورسوخ۔۔ تاریخی طور پرکسی بھی براعظم کے اتحادیوں میں امریکہ کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی ہے لیکن ٹرمپ اس سے بھی آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ وہ اوچھی حرکتوں اور تذلیل آمیز رویئے کے ذریعے اولین پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صدر ایمانویل ماکرون کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ نے فرانسیسی قائد کی تذلیل کرتے ہوئے ٹی وی کیمروں کے سامنے اس کے سوٹ سے خشکی صاف کی۔ برنکلی کے مطابق ’یہ واحد عالمی قائد ہے جو ٹرمپ کو سمجھنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ عالمی قائدین اب اس کی ذاتی اورپالیسی سازی کی نرگسیت سے گھبراتے ہیں‘‘‘۔

ٹرمپ کی صدارت کا ایک سال گزر جانے کے بعد گیلپ نے 134 ممالک میں رائے شماری کرائی جس کے مطابق امریکہ کی عالمی قیادت پر اعتماد 48 فیصد سے گر کر 30فیصد رہ گیا ہے۔ گیلپ کے تجزیئے کے مطابق، ’’امریکی قیادت پر تاریخ کے کم ترین اعتماد کے بعد، اس حوالے سے امریکہ چین کے مساوی آ کھڑا ہوا ہے اور یہ ناپسندیدگی کا ایک نیا معیار بن چکا ہے‘‘۔

حقیقت میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے بھونڈے اعلان کے ساتھ ہی یہ عمل شروع ہو گیا تھا۔ 2003ء میں عراق پر فوج کشی نے اس عمل کو ایک معیاری جست دی۔ لیکن ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد جارحانہ خارجہ پالیسی میں حیران کن تیزی آئی ہے اور اس کے پوری دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سرمایہ داری میں صحت مند بڑھوتری کا ایک دور آیا۔ یہ وہ معروضی بنیاد تھی جس کی وجہ سے طبقات کے درمیان اور قومی ریاستوں کے باہمی تعلقات میں قدرے استحکام تھا۔ معاشی بڑھوتری کا طویل عرصہ۔۔جس میں امریکی سامراج اور سوویت یونین کے درمیان دنیا کی بندر بانٹ بھی شامل تھی۔۔کی وجہ سے عالمی تعلقات میں قدرے استحکام موجود تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد پچاس سال کے اس طویل عرصے میں نام نہاد امن اور استحکام، طاقتور سٹالنسٹ روس اور امریکی سامراج کے درمیان خوف کے توازن کی وجہ سے تھا۔ دو متضاد سماجی نظاموں کے درمیان ’’سرد جنگ‘‘ کے نام پر کشمکش نے پوری دنیا کو بظاہر بلاکوں اور حلقہ اثرورسوخ میں بانٹ دیا تھا۔

لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا میں صرف ایک ہی سپر پاور رہ گئی تھی۔۔ریاست متحدہ امریکہ۔ دیو ہیکل طاقت کے ساتھ دیو ہیکل غرور نے بھی جنم لیا۔ بش ڈاکٹرائن نے عراق پر فوج کشی میں اپنا اظہار کیا۔ اس سے بھی پہلے، امریکی سامراج نے اپنے جارحانہ کردار کا اظہار سابق یوگوسلاویہ میں مداخلت کے ذریعے کیا۔ ان اقدامات نے سابقہ ورلڈ آرڈر کو تباہ کر کے رکھ دیا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کا خاصہ شدید عدم استحکام، فساد اور بکھرتا نظام ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ جن اداروں، نظریات، معاہدوں اور تعلقات کو تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے ان کا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کوئی متبادل ممکن نہیں۔ کولگیٹ یونیورسٹی کی خارجہ تعلقات کونسل کے صدر رچرڈ ہاس نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ، ’’آج جس دنیا میں آپ داخل ہو رہے ہیں وہ غیر یقینی اور پر خطر ہے۔میرے تجربے کے مطابق، اس وقت امریکہ اور دنیا کو جن معیاری اور مقداری مشکلات کا سامنا ہے ، وہ بے مثال ہیں‘‘۔

پرانے بھروسے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ ہر سطح پر عمومی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے: معاشی، مالیاتی، سیاسی، سماجی، عسکری اور سفارتی۔ ایک امریکی تجزیہ نگار کے مطابق، امریکہ نے ابھی تک، ’’ٹرمپ کا پہلا ایکٹ دیکھا ہے۔ ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس کے بعد کیا ہو گا‘‘۔

Join us

If you want more information about joining the RCI, fill in this form. We will get back to you as soon as possible.