4 اگست کو شام 5 بج کر 41 منٹ پر اس روسٹرم کے قریب ایک زوردار دھماکا سنا گیا جہاں سے وینزویلا کا صدر نکولس ماڈورو کاراکاس میں بولیوار ایونیو کے مقام پر بولیوارین نیشنل گارڈ کی اکیاسیویں سالگرہ کے موقع پر ایک پریڈ سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر ماڈورو اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے مگر نیشنل گارڈ کے 7 ارکان زخمی ہو گئے۔
ٹی وی پر اپنے خطاب میں وینزویلا کے صدر نے کولمبیا کے رخصت ہونے والے صدر جون مینیول سینتوس کو اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ انتہائی دائیں بازو کی حزب اختلاف کی حامی (میامی میں مقیم) پیٹریشیا پولیو نے بعد میں سولدادوس دی فرانیلس (’’ٹی شرٹس میں ملبوس فوجی‘‘)، جو فوجیوں اور عام لوگوں پر مشتمل دائیں بازو کا ایک دہشت گرد گروہ ہے، کی جانب سے دیا جانے والا ایک بیان جاری کیا جس میں حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔
واقعہ کی کچھ تفصیلات ابھی بھی غیر واضح ہیں مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دو ڈرون تھے جو C4 دھماکہ خیز مواد سے لیس تھے اور ان کا ہدف پریڈ کا صدارتی روسٹرم تھا۔ ویڈیو فوٹیج سے ڈرونز کی شناخت کی گئی ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ چھ پروں والے جدید پیشہ ورانہ DJM600 تھے جو سات پاؤنڈ کا وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک ہوا میں ہی پھٹ گیا جسے شاید صدر کے محافظوں نے گولی سے اڑا دیا تھا، دوسرا ہوا میں لہراتا ہوا قریبی رہائشی عمارت سے جا ٹکرایا۔
دوسرے دھماکے کی وجہ سے کچھ عالمی صحافتی اداروں نے اس خیال کو تقویت دی کہ دھماکہ ماڈورو پر حملہ نہیں تھا بلکہ ایک عمارت میں گیس کا سلنڈر پھٹنے سے ہوا۔ اس کے باوجود کہ سرمایہ دار میڈیا مسلسل فوجی سرکشی کے ذریعے وینزویلا کے صدر کو ہٹانے کی حمایت کرتا رہا ہے، جب اسی مقصد کے لیے ایک دہشت گرد حملہ ہوا تو انہوں نے یہ بات جھٹلانے کی کوشش کی کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ ابھی بھی کچھ سرخیوں سے شک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ واقعہ اصلی تھا یا نہیں۔ CNN کی سرخی تھی کہ’’ماڈورو پر مبینہ قاتلانہ حملہ‘‘، واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا ’’ماڈورو پر ظاہری ڈرون حملہ‘‘ جبکہ El Pais نے اہانت آمیز انداز میں بیان کیا کہ ’’سیاسی مخالفین پر حملہ تیز کرنے کے لیے ماڈورو کی جانب سے ’حملے‘کا استعمال‘‘۔
رجعتی حزب اختلاف کی دہشت گردی
امریکی حکومت کا ردعمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ انہوں نے حملے کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا اور خود کو محض یہ کہنے تک محدود رکھا کہ،’’اس میں امریکی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘‘۔ مزید یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ ہو سکتا ہے یہ حملہ وینزویلا کی حکومت نے خود ترتیب دیا ہو!
دنیا کے سرمایہ دارانہ میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ تسلیم کر لیں کہ ایک دہشت گرد تنظیم نے ماڈورو پر حملہ کیا ہے تو ان کی’’پرامن جمہوری حزب اختلاف‘‘ کی کہانیاں بے بنیاد ہو جائیں گی۔ انہوں نے 2014ء اور 2017ء میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بھی یہی اوصاف بیان کیے تھے جو حزب اختلاف کی جانب سے پر تشدد ہنگاموں اور دہشت گردی کی کارروائیوں پر مشتمل تھے۔ درحقیقت اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا ان واقعات میں شامل افراد سے تعلق ہے۔ وینزویلا کے حکام نے اعلان کیا ہے کے صدر پر قاتلانہ حملوں میں ملوث چھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ کا حکومت مخالف مظاہروں کے دوران دائیں بازو کی دہشت گردی میں ملوث افراد اور (مرحوم) پولیس آفیسر آسکر پیریز سے تعلق معلوم ہوتا ہے جس نے پچھلے سال ایک پولیس ہیلی کاپٹر پر قبضہ کر کے کاراکاس پر حملہ کر دیا تھا۔
آنے والے دنوں میں مزید تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ بیس سال پہلے بولیوارین انقلاب کے آغاز سے ہی مسلح افواج میں موجود رجعتی قوتیں منتخب شدہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے اور ہتھیاروں کے ذریعے انقلابی تحریک کو کچلنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں۔ وینزویلا کی رجعتی اور طفیلی اشرافیہ کبھی یہ قبول نہیں کر پائی کہ اب اس کا حکومت پر براہ راست کنٹرول نہیں رہا، ہم صرف اپریل 2002ء کی مختصر بغاوت (جسے عوام کی طرف سے شکست دے دی گئی تھی) کی ہی بات نہیں کر رہے بلکہ اُسی سال دسمبر میں التامیرا اسکوئر کے فوجی افسروں کا فتویٰ، 2004ء میں کولمبیا کے نیم فوجی استعمال کرتے ہوئے ہوگو شاویز کے قتل کی کوشش اور ایسے درجنوں دیگر منصوبے بھی ہیں جو نسبتاً کم جانے جاتے ہیں۔ ان تمام سازشوں میں، جو کہ بہت ساری ہیں، ایک چیز مشترک ہے، اور وہ یہ کہ انہیں کسی نہ کسی طرح امریکی سامراج اور اس کی چمچہ گیر کولمبیا کی اشرفیہ کی مدد اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔
سامراجی سازشیں
یہ حملہ میڈیا کی ان مصدقہ خبروں کے سامنے آنے کے بعد عمل میں آیا ہے جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ پچھلے سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینزویلا پر فوجی حملہ کرنے کے بارے میں کھل کر بحث کی تھی۔ ان خبروں کے ساتھ ساتھ بلومبرگ (Bloomberg) نے پچھلے سال بنائے جانے والے فوجی بغاوت کے منصوبے کی بھی خبر دی تھی جس کا ایک متبادل یہ بھی تھا کے ماڈورو کو ایک فوجی پریڈ کے دوران قتل کر دیا جائے۔ بلومبرگ کے مطابق بغاوت کے یہ منصوبے کولمبیا اور امریکہ کے سکیورٹی اداروں کے پورے علم میں اور خاموش رضامندی کے ساتھ تیار کیے جا رہے تھے۔
جس طریقے سے یہ قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ بجائے کسی غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی ایک منظم سازش کے یہ ایک چھوٹے مقامی دہشت گرد گروہ کا کام ہے۔ تاہم خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان دہشت گرد گروہوں کو واضح طور پر مالی امداد، دھماکہ خیز مواد اور فوج اور پولیس میں روابط میسر ہیں، جیسا کہ آسکر پیریز کے معاملے میں نظر آیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وینزویلا کی رجعتی حزب اختلاف کا ایک دھڑا ایسا بھی ہے جو ایسے ہتھکنڈوں کے لیے اپنی حمایت نہیں چھپاتا، چاہے وہ فوجی بغاوتیں ہوں یا ریاست کے سربراہ پر دہشت گردی کے حملے۔
بلاشبہ ان میں سے بہت سے دہشت گرد گروہوں اور منصوبہ بندی کرنے والے فوج کے افسران کے بارے میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کو علم ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا کیوبا کے جلاوطن میامی مافیا سے قریبی تعلقات ہیں، جس کا ریپبلکن پارٹی پر اچھا خاصا دباؤ ہے۔ فی الحال واشنگٹن معاشی پابندیوں کے ذریعے اپنے عزائم حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے امید ہے کہ اس کے نتیجے میں فوج کا ایک دھڑا بغاوت کی طرف جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ماڈورو کو قتل کرنے سے کسی کو روکیں گے اور ہم یہ بات تقریباً یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کو اس حملے کا پہلے سے ہی علم تھا۔
وینزویلا سے دور رہو!
وینزویلا کا انقلاب کافی مشکلات سے دوچار ہے۔ ہم ماڈورو حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ تباہ کن ہیں اور اشرافیہ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران ماڈورو نے معاشی پالیسی سے متعلق کئی ایسے اعلانات کیے ہیں جن میں سرمایہ داروں کو مزید رعایت دی گئی ہے۔ مگر یہ بات بالکل واضح ہے کہ فوجی بغاوت کی کامیابی کا مطلب بولیوارین انقلاب کا خاتمہ ہو گا، معاشی بحران کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کے لیے ظالمانہ کٹوتیوں کے منصوبے لاگو کیے جائیں گے اور انقلاب کی بچی کھچی حاصلات بھی چھین لی جائیں گی۔ یہ سب کچھ جمہوری حقوق غصب کرتے ہوئے کیا جائے گا، جس کا مقصد وینزویلا کے محنت کشوں، کسانوں اور غریبوں کی تنظیموں کو کچلنا ہو گا تا کہ کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پوری دنیا میں کہیں بھی موجود کوئی بھی انقلابی کارکن اس کی حمایت نہیں کرسکتا، اسی وجہ سے ہم 4 اگست کو ماڈورو پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
ماڈورو پر قاتلانہ حملے سے وینزویلا کی موجودہ صورتحال سے متعلق کافی دلچسپ حقائق کا علم ہوتا ہے۔ سب سے پہلی بات کہ حملے سے متعلق جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے کچھ کا اگست 2017ء میں ویلنشیا میں فارمیسی بیرکوں پر ہونے والے حملے سے بھی تعلق ہے، جو مسلح افواج اور بولیوارین نیشنل گارڈ کے حاضر سروس اہلکاروں کی جانب سے کیا گیا تھا۔ یہ حقیقت کہ بیس سال بعد بھی فوج میں اتنے رجعتی افسران موجود ہیں، اس بات کی واضح نشان دہی کرتی ہے کہ ریاستی مشینری، جو کہ کمزور اور جزوی طور پر حکمران طبقے سے چھینی جا چکی ہے، ابھی بھی ایک بورژوا ریاستی مشینری ہے۔ صدر ہوگو شاویز نے اپنی آخری تقریروں میں اس بات کی اچھے طریقے سے وضاحت کی تھی، جب وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ ’’بورژوا ریاستی مشینری کو اکھاڑنا ہو گا‘‘۔ یہ خیال غلط ہے کہ وینزویلا کی فوج معیاری طور پر لاطینی امریکہ کی باقی فوجوں سے مختلف ہے یا پوری فوج بولیوارین انقلاب کے ساتھ وفادار ہے۔
بلاشبہ وینزویلا کی فوج انقلاب کے زیر اثر آئی ہے۔ تاہم اس سے اس کی ساخت اور اختیارات کے نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکی۔ فوج کسی بڑے معیاری تغیر سے نہیں گزری۔ عام فوجیوں اور نان کمیشنڈ افسران میں جتنا نیچے جائیں گے اتنا ہی گہرا بولیوارین انقلاب کی حمایت کا ذخیرہ ملے گا۔ جتنا اوپر آئیں گے اتنے ہی زیادہ وہ افسر ملیں گے جن کی’’وفاداریاں‘‘ریاستی افسر شاہی میں ان کے مقام سے ملنے والی سہولیات، بدعنوانی اور مراعات کے ہاتھوں بک چکی ہیں۔
دوسرا یہ ہے کہ سرکاری ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں سے کچھ پہلے بھی 2014ء میں حزب اختلاف کی جانب سے کیے جانے والے فسادات میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے جیل جا چکے ہیں۔ انہیں حال ہی میں 20 مئی کے صدارتی انتخابات کے بعد ماڈورو کی جانب سے حزب اختلاف کے ساتھ صلح کی کوشش میں رہا کیا گیا تھا۔ ان اقدامات سے عام شاویزی کارکنوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی کیونکہ رہا ہونے والوں میں سے کسی نے بھی اپنی حرکات پر پچھتاوے یا معذرت کا اظہار نہیں کیا، جن سے جانی نقصان ہوا تھا۔ اب بھی انہوں نے اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری رکھا ہے۔ وینزویلا میں یہ سلسلہ 2002ء سے چلتا آ رہا ہے۔ نرمی اور ’’قومی مفاہمت‘‘ کی اپیلوں کا جواب ہمیشہ رجعتی حزب اختلاف کی جانب سے بغاوت کے نئے منصوبوں اور مزید دہشت گردی کی صورت میں ملا ہے۔ ان سے کچھ نہیں سیکھا گیا۔
بولیوارین انقلاب کا دفاع کرو!
حزب اختلاف کی جانب سے مسلسل سازشوں کی وجہ ان کے شدید رجعتی کردار اور بولیوارین انقلاب سے خوف میں ڈھونڈی جاسکتی ہے۔ محنت کشوں اور غریبوں کو یہ احساس ہوا کہ وہ اقتدار میں ہیں اور حکومت کر سکتے ہیں۔ ان کے دلوں سے یہ احساس نکلے گا تو ہی حکمران طبقہ اپنے آپ کو دوبارہ مضبوطی اور حفاظت سے مسند پر براجمان دیکھ پائے گا۔ حکومت اگر حزب اختلاف سے مفاہمت چاہتی ہے تو اسے یہ کام کرنا پڑے گا۔ اس سے کم کچھ بھی ہوا تو منصوبے جاری رہیں گے۔
مزید یہ کہ اگر یہ معاشی زوال جاری رہے اور مزید گہرا ہوتا جائے (ابھی تک بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے) تو اس سے مزید وسیع احتجاج جنم لیں گے اور بنیادی ڈھانچے عمومی زوال کا شکار ہوں گے۔ یہ بذات خود فوجی افسران کو بغاوت کی طرف لے جانے والا محرک ثابت ہو گا، کیونکہ انہیں اس بات اندازہ ہو گا کہ موجودہ حالات میں ان کی مراعات محفوظ نہیں ہیں۔ ایک بغاوت ابھر سکتی ہے، حتیٰ کہ ان کی طرف سے بھی جو خود کو’’بولیوارین وفا پرست‘‘کہتے ہیں، ’’معیشت سے نمٹنے کے لیے مضبوط ہاتھ‘‘ کے مکھوٹے میں، جو بحران سے نمٹنے کے لیے اقتدار’’ٹیکنوکریٹ حکومت‘‘ کو سونپ سکتے ہیں۔
یقیناًاس صورتحال سے ہمیشہ کہ لیے نمٹنے کا ایک راستہ موجود ہے، یا کم از کم ایک ایسا راستہ جس سے بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے اور رجعت پسند کمزور پڑ جائیں گے۔ انقلاب مکمل کرنا ہو گا، سرمایہ داروں، بینکاروں اور زمینداروں کے اثاثے تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں ایک منصوبہ بند معیشت قائم کرنا ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی پرانی سرمایہ دارانہ ریاست (جو ابھی بھی کمزور شکل میں موجود ہے) کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ محنت کشوں کی کمیٹیوں، مزدوروں اور کسانوں کی دفاعی تنظیموں اور بولیوارین ملیشیا کی شکل میں محنت کشوں کا اقتدار قائم کرنا ہو گا۔ انہیں ایک مرکزی مسلح افواج کی طابع قوتوں سے انقلابی فوج کی ریڑھ کی ہڈی میں تبدیل کرنا ہو گا۔
ماڈورو حکومت نے بار بار یہ دکھایا ہے کہ اس کی پالیسی ان اقدامات سے بالکل الٹ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسی متبادل انقلابی قوت تعمیر کی جائے جس کی بائیں بازو کے عام شاویزی کارکنان میں جڑیں موجود ہوں، جس کی بنیاد سرمایہ داری کو ختم کرنے کے ایک واضح انقلابی سوشلسٹ پروگرام پر رکھی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ اور پوری دنیا کے غریبوں سے یہ اپیل کی جائے کہ وہ بھی اسی مثال پر چلیں۔