13 جولائی، 2018ء کے منحوس دن برطانیہ میں 2003ء کے عراق جنگ مخالف احتجاجوں کے بعد منظم ہونے والے سب سے بڑے احتجاجوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کیا۔ اس احتجاج کا دیو ہیکل حجم ہی برطانوی سماج میں موجود بے پناہ غم و غصے اور بغاوت کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے۔
سوشلسٹ اپیل کے سرگرم کارکنان نے ہزاروں مظاہرین کے ساتھ مل کر لندن میں ٹرمپ کے دورے کی مخالفت اور اس کے رجعتی نظریات اور پالیسیوں کی ملامت کرنے کے لئے مارچ کیا۔ احتجاج کا حجم اور اس میں موجود مختلف رنگ و نسل کے شرکاء کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات کتنے شدید رجعتی ہیں اور ان کی مخالفت میں پھیلا غم و غصہ کتنا وسیع ہے۔
’’خاص تعلقات‘‘ مردہ باد!
ٹومی رابنسن کی رہائی کے لئے 15 ہزار لوگوں کے لندن میں احتجاج کے بعد پچھلے چند ہفتوں سے بائیں بازو کے کچھ لوگ پریشان تھے کہ انتہائی دائیں بازو کا برطانیہ میں ممکنہ ابھار ہو رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے خلاف اس تاریخی دیو ہیکل اکٹھ نے ثابت کر دیا کہ حقیقی سماجی قوتوں کا توازن کیا ہے۔ احتجاج کا نکتہ آغاز بی بی سی کے دفاتر کے سامنے پورٹ لینڈ پلیس تھا اور لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جب مارچ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو آخری سرا ریجنٹس پارک کو چھو رہاتھا۔ مارچ سنٹرل لندن سے ہوتا ہوا ٹریفلگر چوک پہنچا جہاں پر کام سے چھٹی کے بعد اور بھی زیادہ لوگ شامل ہو گئے۔ ریلی مقررین میں لیبر پارٹی کے قائد جیرمی کوربن، ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ لیمی اور ریلی کے مرکزی منتظمین میں سے اوین جونز شامل تھے۔ خاص طور پر کوربن کی تقریر کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس کا مجتمع عوام کے لئے یکجہتی پیغام، تھریسا مئے اور اس کے اسٹیبلشمنٹ چمچوں کی طرف سے بیہودہ امریکی صدر کا شاندار استقبال، چاپلوسی اور سجدہ ریزی سے یکسر مختلف تھا۔ چند ہی دن پہلے مئے نے اپنی پارٹی میں جس بھونڈے انداز سے بریگزٹ مذاکرات کا معاملہ نپٹانے کی کوشش کی ہے، اس کے بعد احتجاج میں ٹوری مخالف موڈ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ ایک ہی دن میں نہیں ہو گیا بلکہ اس کے پیچھے ٹوری پارٹی کی کئی سالوں کی جبری کٹوتیوں کی پالیسی ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں، نوجوانوں اور غریبوں کا معیار زندگی تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
احتجاج کے کئی شرکاء درست طور پر مشتعل تھے کہ وزیر اعظم نے امریکی ہم منصب سے ملاقات کرنے کی حامی ہی کیوں بھری جبکہ اس کی پالیسی تارکین وطن خاندانوں کو علیحدہ کرکے بچوں کو پنجروں میں بند کرناہے۔ لیکن اس طرح کی سنگدلی اور بے حسی مئے کے لئے کوئی نئی بات نہیں جس نے بطور سربراہ محکمہ داخلہ خود اس طرح کی کئی پالیسیاں لاگو کیں۔
برطانوی حکمران طبقے اور اس کے نمائندوں کے لئے ’’خاص تعلقات‘‘ کا یہ اصل مطلب ہے،اپنی سابقہ کالونی اور موجودہ آقا کے سب سے رجعتی عناصر کی بھونڈی نقالی۔
لبرل فریب
ریلی کے تمام شرکاء وائٹ ہاؤس کے موجودہ رہائشی کی نفرت میں متحد تھے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد کے لئے کوئی واضح پروگرام ترتیب نہیں دیا جا سکا۔ اس کے بجائے ریلی کے شرکاء میں بس ٹرمپ مخالف جذبات کے ساتھ ہی واپس پلٹے۔احتجاج میں رنگ برنگ نعرے اور اشتہار کسی ٹھوس متبادل کی عدم موجودگی کا واضح اظہار تھے۔ کئی لوگوں نے ہیلری کلنٹن، باراک اوبامہ، یہاں تک کہ اوپرا وینفرے جیسے لبرل اسٹیبلشمنٹ ڈیموکریٹس کی حمایت میں اشتہار اٹھا رکھے تھے۔ کچھ ٹرمپ کی مخالفت کو بریگزٹ کی مخالفت سے جوڑ رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماحولیاتی بربادی یا مشرق وسطیٰ کے بحران جیسے اہم مسائل کو اجاگر کیا۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے ابھی تک یہ سراب موجود ہے کہ عالمی سطح پر جو مسائل اور تباہی و بربادی ہے، وہ صرف ایک مکروہ انسان کی وجہ سے ہے۔ اگر کلنٹن یا اوبامہ کی طرح کوئی ’’اچھا‘‘ شخص اوپر بیٹھا ہوتا؛ اگر ہم یورپی یونین کا حصہ ہوتے؛ اگر ہمارے سروں پر وحشت ناک ٹوری سوار نہ ہوتے: نسل پرستی، جنسی تعصب، ماحولیاتی تباہی، جنگ و جدل اور جبری کٹوتیوں جیسی مہلک آزمائشوں کا وجود ہی نہ ہوتا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ (اور بریگزٹ) نام نہاد ’’درمیانی راستے‘‘ اور ان کی نیولبرل پالیسیوں کی دہائیوں پرانی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ وہ پالیسیاں جن پر اوبامہ اور کلنٹن (امریکہ) اور لبرل ڈیموکریٹ اور بلئیرائٹ (برطانیہ) کاربند رہے ہیں۔ لبرل اسٹیبلشمنٹ کے ان چوٹی کے سربراہان اور نمائندوں کے پاس موجودہ سرمایہ دارانہ بحران اور اس سے پیدا ہونے والی عدم مساوات کا کوئی جواب موجود نہیں؛ نہ ہی جنسی تعصب، نسل پرستی اور استحصال کاکوئی جواب ہے۔ ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ ’’Black Lives Matter‘‘ تحریک اوبامہ کی صدارت میں ہی پھٹی تھی۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ اور ماحولیاتی تباہی کے مسائل کا جنم اسی سامراجی، سرمایہ دارانہ نظام سے ہوا ہے جس کے حامی اور پیروکار کلنٹن اور اوبامہ جیسی لبرل شخصیات ہیں۔ یہ صرف ایک شخص کی اخلاقیات اور خود غرضی کا نتیجہ نہیں ہے(اگرچہ ٹرمپ کا کانچ کی دکان میں سانڈ طرز کا رویہ سرمایہ داری کے عدم استحکام اور انتشار کو اور زیادہ تقویت دے رہا ہے۔)
پرانے نظام کو اکھاڑ پھینکو!
یہ وہ ساری صورتحال ہے جس کی وجہ سے سوشلسٹ اپیل جریدے کے سرورق پر لگا نعرہ ’’ٹرمپ سے مقابلہ، سرمایہ داری سے مقابلہ‘‘ درست ہے۔ جیسے کہ احتجاج میں موجود سرگرم انقلابی کارکنوں کا اشتہار درست تھا: ’’ٹرمپ ایک علامت ہے، سرمایہ داری بیماری ہے، سوشلزم علاج ہے‘‘۔اس لئے ان تمام مسائل کا حل صرف ایک ’’اچھے‘‘ شخص کو اقتدار کی مسند پر بٹھانا نہیں ہے بلکہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس گلے سڑے نظام کو اکھاڑ پھینک کر اقتدار پر براہ راست قبضہ کرنا ہو گا۔
ٹرمپ سے جان چھڑا لینے کے باوجود اس جیسے مستقبل میں بھی اقتدار پر قبضہ کرتے رہیں گے اور امریکہ اور برطانیہ کی عوام اس بربریت زدہ نظام کے بوجھ تلے پستی رہے گی۔ صرف ایک انقلابی نصب العین کے حصول پر،سرمایہ داری کا خاتمہ جو ہمیں بانٹ کر ہمارا استحصال کرتا ہے، ہی محنت کشوں کو منظم کر کے اس انتشار، نسل پرستی، جنسی تعصب اور رجعتی سیاست سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے جس کا ٹرمپ نگہبان اور داعی ہے۔