کل 2 جولائی کو عوام نے بہت بڑی تعداد میں میکسیکو کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ جس میں 18,229 عوامی نشستوں کا فیصلہ ہونا تھا، لیکن ان میں سے سب سے اہم صدارت کی نشست تھی۔ میسر معلومات کے مطابق 8 کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے یہ میکسیکو کی تاریخ کی سب سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی شرح تھی۔
MORENA پارٹی کے آندریز مینوئل لوپیز اوبراڈور (AMLO) کی جیت کی شکل میں ایک سماجی اور سیاسی زلزلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اشرافیہ اور سامراج، جو ہمیشہ سے صرف حکم چلانے اور منوانے کے ہی عادی رہے ہیں، کا سامنا اب ایک ایسی حکومت سے ہے جو انہیں چیلنج کرتی ہے، ایک ایسی حکومت جو کہتی ہے کہ وہ معاشی اور سیاسی طاقت کو علیحدہ کرے گی اور غریبوں کو ترجیح دے گی۔
انتخابات تک کا سفر
انتخابات تک کا سفر انتہائی بے رحم رہا ہے۔ قومی اشرافیہ نے اس بات کا واضح اظہار کیا کہ وہ AMLO پر بھروسہ نہیں کرتے۔ انہوں نے میڈیا مہم چلائی جس میں ویڈیوز، عوام سے اپیلیں اور اخبارات میں آرٹیکل شامل تھے جن میں کہا گیا تھا کہ MORENA کو ووٹ دینا میکسیکو کو وینزویلا بنانے کے مترادف ہوگا۔
اس کے علاوہ انتخابات سے پہلے 130 سیاستدانوں کو قتل کر دیا گیا اور انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات علیحدہ ہیں جن میں مسلح گروہوں کی جانب سے ووٹ لوٹنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ہم نے ’’تحائف‘‘ دے کر ووٹ خریدے جانے کے واقعات بھی دیکھے جن میں گھریلو استعمال کی چیزیں اور تعمیراتی سامان دے کر ووٹ خریدنے کی کوشش کی جاتی رہی اور لاکھوں لوگوں کو ان کی رائے تبدیل کرنے کی غرض سے خطوط بھی بھیجے گئے۔ یہ مقابلہ کوئی ’’مہذب عمل‘‘ نہیں تھا جیسا کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نمائندوں نے اسے پیش کرنے کی کوشش کی، بلکہ جمہوری عمل کا ایک سوانگ تھا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت (چند سالوں بعد ان لوگوں کو چننا جو آپ کو لوٹ سکیں اور آپ پر حکومت کر سکیں) اپنے اصل میں ہی محدود ہے اور دولت مندوں کی آمریت کے لیے ایک مکھوٹے کا کام کرتی ہے۔
اس کے باوجود اگر سرمایہ دار طبقہ اپنے مفادات کے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو وہ اپنے ہی بنائے ہوئے ان اصولوں کو توڑنے اور اپنے ’’جمہوری‘‘ عمل کو روکنے سے کبھی نہیں کتراتا۔
اس صورتحال کی اصل وجہ خوفناک معاشی، سیاسی، سماجی اور سیکورٹی کا بحران ہے جسے اشرافیہ کی جماعتوں اور سامراجیت نے جنم دیا ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں تین لاکھ سے زیادہ لوگ قتل ہوئے، لاپتہ افراد، خواتین کے ساتھ بے رحمی، مسلح جھگڑوں اور ناقابل برداشت اذیت کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی ہجرت اس کے علاوہ ہیں۔ یہ دور محنت کش طبقے، نوجوانوں، خواتین اور غریب کسانوں کے لیے انتہائی تلخ تجربہ ثابت ہوا۔ اس کے نتیجے میں بدترین الزام تراشی اور کردار کشی کی مہم سے AMLO کے ووٹوں میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا اور ان ڈاکوؤں کے سنکی پن نے لوگوں کو انہیں مسترد کرنے پر اکسایا۔
ایک سیاسی زلزلہ
اس میں کوئی شک نہیں کے AMLO کی جیت حقیقی معنوں میں ایک سیاسی زلزلہ ہے۔ MORENA نے پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات میں ایک پارٹی کے طور پر حصہ لیا اور 9 بڑے شہروں میں سے 5 میں وہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے (میکسیکو سٹی، ویراکروز، موریلوس، چیاپاس اور ٹباسکو)اور مزید دو میں قریبی مقابلہ ہوا (پیوبلا اور جالسکو)۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سینیٹ اور پارلیمنٹ دونوں میں MORENA کی قیادت میں بننے والے اتحاد ’’ہم مل کر تاریخ لکھیں گے‘‘ کے امیدواروں کی اکثریت ہوگی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ روایتی سرمایہ دارانہ پارٹیوں کا ڈرامائی زوال دیکھنے میں آیا ہے: PAN، PRIاور PRD۔ PRI کو اس کی تاریخ میں سب سے کم ووٹ ملے ہیں۔ سب سے پہلے PRI نے ہی اپنی شکست تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ان نتائج کی وجہ سے PRI کا تمام ڈھانچہ ہل کر کر رہ جائے گا اور ممکن ہے کے یہ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہو جائے۔
PAN بھی بہت بڑے سیاسی بحران سے گزر رہی ہے۔ انتخابات سے ایک روز قبل انہوں نے اپنے دو سیاسی رہنماؤں کو اپنے صدارتی امیدوار ریکارڈو انایا کی کرپشن پر تنقید کرنے کی پاداش میں پارٹی سے نکال دیا۔ یہ تو اصل بحران کا محض ایک چھوٹا سا اظہار ہے۔ بحران اور بھی گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو مزید برطرفیوں کا باعث بنے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انایا کو جیل جانا پڑے۔
AMLO کی جیت کے اثرات پورے ملک کی سیاسی اور سماجی تنظیموں میں محسوس کیے جائیں گے۔ ان میں سے اکثریت میں ہمیں نئی حکومت کے ساتھ اپنی پوزیشن واضح کرنے کی غرض سے مباحث، از سر نو ترتیب اور ٹوٹ پھوٹ نظر آئے گی۔ صرف بائیں بازو کی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری کے نمائندے بھی نئی حکومت کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔
طبقاتی جدوجہد کا راستہ
AMLO کے لئے ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پورے ملک میں بائیں بازو کے امیدواروں کے لیے بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالا گیا۔ انتخابی اندازوں کے مطابق زون 1 (باجا کیلیفورنیا، سونورا، سنالوا، دورانگو اور زیکٹیکس) میں بائیں بازو کیلئے ووٹ 61.2 فیصد تھا، زون 2 (یوکاٹان، کوینٹانا رو، ٹباسکو، ویراکروز، کمپیچے، اوخاکا اور پیوبلا) میں 77.4 فیصد، زون 3 (چہواہوا، کواہوئیلا، دورانگو، ٹمالیپاس اور نیووو لیون) میں 48.6 فیصد، زون 4 (جالیسکو، گوانجواتو، آگوسکالینٹس، میچواکان اور سان لوئی پوٹوسی) میں 51.5 فیصد، زون 5 (کیوریٹارو، ایسٹاڈو ڈی میکسیکو، موریلوس اور گوریرو) میں 61.3 فیصد، زون 6 (ہیڈالگو، تلاکسکالا، پیوبلا اور سیوڈاڈ ڈی میکسیکو) میں 72 فیصد۔
یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ کہ جنوبی اور جنوب مشرقی علاقوں میں AMALO کو سب سے زیادہ حمایت ملی، یہ وہ علاقے ہیں جن کی مسلح جدوجہد کی ایک لمبی روایت رہی ہے۔ دوسرے نمبر پر AMALO کو سب سے زیادہ حمایت وسطی علاقوں میں ملی، جس میں میکسیکو سٹی بھی شامل ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے جدوجہد کا ایک مرکز بنا ہوا ہے۔ وہ علاقے جہاں پہلے دائیں بازو کی مضبوط گرفت تھی، یہاں تک کہ منشیات کے دھندے والے علاقوں میں بھی، AMALO نے ان کا صفایا کردیا۔ یہ بہت سا اعتماد اور سیاسی سرمایہ ہے جو آنے والے وقت کے لیے AMALO کے ہاتھوں میں اکٹھا ہو گیا ہے۔
اس سیاسی سرمائے کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ عمل کی گنجائش بہت کم ہے۔ ایک طرف تو اس حمایت کو ایک عوامی تحریک میں بدلتے ہوئے پورے ملک کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کیا جا سکتا ہے (اس کا AMALO نے وعدہ بھی کیا ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر حوالے سے میکسیکو کا امریکی سامراج اور حریص اشرافیہ پر سے انحصار ختم کردیا جائے جس کے قبضہ میں ملک کے تمام تجارتی اور قدرتی وسائل ہیں، جس نے بلا کسی جھجک کے محنت کش طبقے کا استحصال کیا ہے اور جس نے ماضی میں حاصل کی گئی تمام حاصلات چھین لی ہیں۔ دوسری طرف AMALO اپنی اس حمایت کو عوامی تحریک کو دبانے اور اس استحصالی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے جو کہ ابھی موجود ہے۔
AMLO نے کہا ہے کہ اس کی جنگ کرپشن کیخلاف ہے اور اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے اور ریاستی کٹوتیاں (بڑے افسروں اور حکومت کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کرتے ہوئے اساتذہ، نرسوں، ڈاکٹروں اور دیگر کی تنخواہوں میں اضافہ) کرتے ہوئے حکومت کے پاس سماجی منصوبوں میں لگانے کے لیے کافی رقم موجود ہوگی۔ ہم عمر رسیدہ افراد کے لیے معاشی امداد، نوجوانوں کے لیے تعلیم، سکالرشپس، سوشل سیکیورٹی اور اس طرح کے دوسرے منصوبوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک میں بھی جہاں ’’جمہوری‘‘ اور اصلاح پسند حکومتیں قائم ہوئیں، سامراجی طاقتوں اور اشرافیہ نے چھوٹی چھوٹی اصلاحات بھی نہیں ہونے دیں۔ یہ بنیادی تضاد ہے جس کی وجہ سے ایک منظم عوامی تحریک ناگزیر ہے۔
اس جدوجہد کے دوران کروڑوں لوگ حکومت کے اصلاحی پروگرام کو آزمائیں گے جس سے انقلابی رجحانات کے امکانات پیدا ہوں گے۔ اس میں رتی بھر بھی شک نہیں ہے کہ AMALO کی جیت نے ہمارے ملک میں طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز کردیا ہے۔ انتخابات پہلا مرحلہ تھے جس میں جمہور فتح مند ہوئے۔ لیکن کھیل یہاں ختم نہیں ہوتا، یہ تو بس آغاز تھا۔