عالمی سطح پر چینی ”کیمونسٹ پارٹی” (CCP) پہلے سے بڑھ کر پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی چینی محنت کش طبقہ سرمایہ داری کے تلخ حقائق کے خلاف حرکت میں آتا نظر آرہا ہے۔ مئی سے اب تک تین بڑے پیمانے کی ملک گیر ہڑتالیں ہو چکی ہیں جو کرین آپریٹرز اور فاسٹ فوڈ ڈلیوری کرنے والے محنت کشوں سے شروع ہوئیں اور ابھی حال ہی میں ٹرک ڈرائیوروں کی بھی ہڑتال دیکھنے میں آئی ہے۔ محنت کش طبقے کے حجم کے مقابلے میں یہ ہڑتالیں چھوٹی ہیں مگر محنت کشوں کے منظم ہونے کی صلاحیت سے معلوم ہوتا ہے کہ چینی محنت کش طبقے کی ایک پرت جدوجہد کی طرف دھکیلی جا چکی ہے۔
ٹرک ڈرائیور، کھانا ڈلیور کرنے والے اور کرین آپریٹرز
چائینہ لیبر بلیٹن کے مطابق 8 جون جمعہ کے روز شانڈونگ، چونگچنگ، انہوئی، گویزہو، جینگ ژی، شنگھائی، ہوبیری، ہنان اور زہجیانگ میں درجنوں مقامات پر ٹرک ڈرائیوروں نے گروہوں کی صورت میں اپنے ٹرکوں پر بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی کے خلاف نعرے آویزاں کر رکھے تھے۔ وہ ایک آن لائن پلیٹ فارم یون مان مان پر بھی اعتراض اٹھا رہے تھے جو ایک ویب سائیٹ ہے اور ایک ایپ کے ذریعے صارفین کے ڈرائیوروں سے براہ راست رابطے کے بجائے ان کا آپس میں موازنہ کرتی ہے جس سے ڈرائیور ایک دوسرے کے مقابلے میں قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ ملک گیر مظہر پورے چین کے ’’تین کروڑ ٹرک ڈرائیوروں‘‘ کے لیے ہڑتال کرنے کی ایک گمنام اپیل کے بعد سامنے آیا۔ ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر منظم ہونے کی یہ کاوش کایو (”ٹرک والے دوست”) کی آن لائن کمیونٹیز کے ذریعے عمل میں لائی گئی جہاں ٹرک والے آپس میں رابطہ کر سکتے ہیں۔ CCP حکومت کی سوشل میڈیا پر مکمل گرفت کے باوجود کئی شہروں میں ایک ساتھ ہڑتال سے ان ڈرائیوروں کی تن دہی اور جذبے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ابھی تک چین کے سرکاری میڈیا کی طرف سے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا گیا اور اس معاملے پر آن لائن مواد کو بھی تیزی سے ساتھ ساتھ مٹایا جاتا رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ شہروں میں یہ ہڑتالیں CCP کے خلاف کافی جارحانہ ہو چکی ہیں۔ ٹرک والوں کا ایک گروہ خود کو واگانگزہی اتحاد کہہ کر پکارتا ہے جو قدیم چینی سوئی سلطنت کے خاتمے کے دور میں جابر شہنشاہ کے خلاف اٹھنے والے باغی تھے۔ یہاں تک کہ ایک ویڈیو بھی موجود ہے جس میں ڈرائیور ”CCP کو شکست دو” کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ٹرک والوں کی ہڑتال سے پہلے مئی کے شروع میں کھانا ڈلیور کرنے والوں کی ہڑتال ہوئی، جو پورے چین میں کئی شہروں تک پھیلی ہوئی تھی جن میں شانڈانگ، گوانگڈانگ، جیلن، ہنان، گوانگژی اور شانگژی شامل تھے۔ یہ محنت کش کام کے لیے فوڈ ڈیلوری کی بڑی کمپنی میتوان (Meituan) پر انحصار کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے مغرب میں گرب ہب (GrubHub) اور سیملیس (Seamless) ڈلیوری کرنے والوں کو نوکری دیتے ہیں۔ میتوان کی کل مالیت 40 ارب ڈالر ہے اور کھانا ڈلیور کرنے والے محنت کشوں کو انتہائی مشکل اور پریشان کن حالات میں مشقت کرنا پڑتی ہے، انہیں گرتی ہوئی اجرت کے ساتھ ساتھ ایندھن، فون اور سواری کی مرمت کے اخراجات بھی خود ہی برداشت کرنا ہوتے ہیں۔
اگر کھانا ڈلیور کرنے والوں اور ٹرک ڈرائیوروں کی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو ایک مشترک چیز نظر آتی ہے۔ بڑی کمپنیوں اور ایپس کے آنے کی وجہ سے بہت سی ایسی نوکریاں انفرادی کنڑیکٹ میں بدل گئی ہیں جس سے محنت کش کنٹریکٹ اور آمدنی کے حصول کی خاطر اک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں آ گئے ہیں، اسی دوران میتوان اور سواری مہیا کرنی والی کمپنی دی دی (Didi) جیسی کمپنیوں کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ شی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چین محنت کشوں اور کسانوں کے اشتراک سے چلنے والا ایک سوشلسٹ ملک ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ نظام منافعوں کے حصول کی خاطر محنت کشوں کو ابتر حالاتِ زندگی کی طرف دھکیل رہا ہے بالکل اسی انداز سے جس سے مغربی محنت کش طبقہ واقف ہے۔
اسی دوران جب کھانا ڈلیور کرنے والوں کی ہڑتال جاری تھی گوانگژی، جیانگسو، ہنان، جیانگژی اور فوجیان میں تعمیراتی کام کی جگہوں پر کرین آپریٹرز یوم مئی کو ہڑتال پر چلے گئے۔ اپنے لیے بہتر تنخواہ، محفوظ حالات اور 8 گھنٹے اوقاتِ کار کے ساتھ انھوں نے تعمیرات کا کام کرنے والے مزدوروں کے لیے بھی انہی سہولیات کا مطالبہ کیا۔ ہڑتال کے حجم کے پیشِ نظر سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز کو تحریک کی موجودگی کا اعتراف اور اس کے مطالبات کا ذکر کرنا پڑا۔
چینی مزدور تحریک کا ایک نیا مرحلہ؟
یکے بعد دیگرے ملک گیر ہڑتالیں، جن کا پہلے ذکر کیا گیا ہے، چینی مزدور تحریک میں ایک اہم رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں۔ CCP کے زیرِ سایہ سرمایہ داری کی بحالی اور معیشت کی تیز بڑھوتری کے بعد سے ہی چین کو بڑے احتجاجات کا سامنا کرنا پڑا (جو زیادہ تر مقامی تھے)، جیسا کہ 2011ء میں وکان گاؤں کی بغاوت اور 2016ء میں شونگیاشان کے کان کنوں کا احتجاج۔ اس دوران اکثر فیکٹریوں میں انفرادی طور پر ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا اور کبھی کبھار یہ ایک پورے شہر کی حد تک بھی ہوتا تھا۔
جون اور جولائی 2016ء ایک اہم موڑ ثابت ہوئے جب وال مارٹ کے محنت کشوں نے انتظامیہ کی جانب سے لاگو کردہ نئے اوقاتِ کار کے خلاف منظم ہو کر ملک گیر ہڑتال کی۔ اگرچہ ہڑتال کامیاب نہیں ہو سکی، کیونکہ محنت کش اندرونی مسائل اور CCP اور وال مارٹ کی طرف سے مشترکہ دباؤ کے باعث اپنی تنظیم برقرار نہیں رکھ پائے، مگر اب ملک گیر جدوجہد کا خیال مقبول ہوتا نظر آ رہا ہے۔دیو ہیکل زمینی فاصلوں کے باوجود حالیہ تین ہڑتالوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید محنت کشوں نے ان سرگرمیوں کو کڑی حکومتی نگرانی سے بچتے ہوئے آن لائن منظم کرنے کا طریقہ نکال لیا ہے۔
CCP دباؤ محسوس کر رہی ہے
مارکس وادیوں کے لیے چین میں اٹھنے والی محنت کشوں کی تحریکیں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ سرمایہ داری فطری طور پر محنت کش طبقے کے حجم میں اضافہ کرتی ہے اور ایسے حالات پیدا کرتی ہے جو اسے اس نظام کے خلاف لڑنے پر اکساتے ہیں۔ یہاں تک کہ چین میں بھی، جہاں سخت ترین حکومتی نگرانی اور پابندیاں موجود ہیں، طبقاتی جدوجہد سے بچا نہیں جا سکتا۔
CCP ایک خاص حد تک، سٹالنسٹ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے، طبقاتی جدوجہد کی لازمیت کو بھانپتی ہے۔ باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں شدت، نگرانی کرنے کی ٹیکنالوجی میں تیزی سے بہتری، اور شی کی نئے قومی نگرانی کے کمیشن (National Supervision Commission) کے ذریعے حکومت کی ہر سطح پر طاقت کو مرتکز کرنے کی مہم اصل میں حکومت کی تحریکوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ یہ طاقت نہیں خوف کی علامت ہے۔
اس بے چینی کا اظہار 10 اپریل کو آل چائینہ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (ACFTU) کی ممبر سازی کی مہم کی شکل میں نظر آیا۔ ACFTU کو CCP چلاتی اور کنٹرول کرتی ہے۔ اس طرح CCP محنت کشوں کی نمائیندگی کا مکھوٹا پہنے رکھتی ہے اور ساتھ ہی کسی بھی سر اٹھاتی پرت کو قابل قبول دھارے میں لانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔
یونین سازی کے اس عمل کی ستم ظریفی یہ تھی کہ اس کا بنیادی ہدف ٹرک ڈرائیور ہی تھے مگر پھر بھی انھوں نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا ہی مناسب سمجھا۔ سرمایہ داری کے اس عالمی بحران کے دور میں چینی محنت کش طبقے کا یہی مقدر ہے۔ آخر کار جب یہ محنت کش حرکت میں آئے، تو زمین ہلا کر رکھ دیں گے۔