>جمعرات کے روز ٹرمپ کے کینیڈا، جاپان، میکسیکو اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کی ڈیڈ لائن گزر گئی۔ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ نے سٹیل اور ایلومینیم پر جن محصولات کی دھمکی دی تھی وہ لاگو ہو گئے ہیں۔ اس اقدام کے ساتھ ٹرمپ نے عالمگیریت کی نفی کا آغاز کر دیا ہے۔ ہفتے کے دن ہونے والی G7 کی میٹنگ میں باقی 6 ملکوں کے وزرائے خزانہ امریکہ کے خلاف متحد ہو گئے اور امریکہ کے فیصلے پر اپنی ’’مشترکہ تشویش اور مایوسی‘‘ کا اظہار کیا۔
فرانس کے وزیر خزانہ (فرانس خاص طور پر ایران کو لے کر امریکہ سے نالاں ہے) نے مذاق سے کہا کہ یہ G6+1 کی میٹنگ ہے (اس پس منظر میں کہ اس سے قبل روس کی شرکت کو G7+1 کہہ کر پکارا جاتا تھا)۔ یہ امریکہ اور اس کے سب سے قریبی اتحادیوں کے بگڑتے تعلقات کی عکاسی ہے۔
ٹرمپ نہ صرف چین اور روس، بلکہ اپنے اہم اتحادیوں کو بھی اشتعال میں لے آیا ہے۔ اوپر سے یہ وضاحت زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتی ہے کہ یہ سب ’’قومی سلامتی‘‘ کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ کینیڈا کے وزیر خزانہ نے نکتہ اٹھایا کہ ’’یہ سوچنا مضحکہ خیز ہے کہ کینیڈا کسی بھی طرح امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے‘‘۔
یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خاص طور پر تشویش کی بات ہے کیونکہ وہ چین اور چین کی صنعتی اور تجارتی پالیسی کو لے کر پریشان ہیں۔ وہ یورپ اور جاپان کو چین کے خلاف ایک ہتھکنڈے کے طور استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کا کافی امکان بھی موجود ہے۔ درحقیقت چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں امریکہ ایک ساتھ دو معاملات اٹھا رہا ہے۔ ٹرمپ چین کو اور زیادہ امریکی مصنوعات خریدنے کا کہہ رہا ہے اور امریکہ کا حکمران طبقہ عمومی طور پر انٹلیکچوئل پراپرٹی اور ٹیکنالوجی کی (جبری) چین منتقلی سے متعلق تشویش کا شکار ہے۔ اس سے ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی حکمران طبقے کے ایک اہم حصے کے درمیان واضح تقسیم نظر آتی ہے۔
ٹرمپ اور باقی سب میں وجہ تنازعہ محض محصولات نہیں بلکہ آزاد تجارت کے عمومی اصول کو لے کر ہے۔ یورپی یونین میں چینی سٹیل پر محصولات عائد ہیں جو دو سال قبل تب عائد کی گئی تھیں جب سٹیل کا بحران عروج پر تھا۔ ٹرمپ چاہتا ہے کہ یورپی یونین صرف ایک آدھ اقدام، جو امریکہ کی کسی کمپنی کو فائدہ پہنچا کر برآمدات میں اضافہ کرے، پر ہی نہیں بلکہ ایک لمبی فہرست پر آمادہ ہو جائے۔ چین کی طرح وہ یورپ اور کینیڈا وغیرہ سے بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی خسارے میں کمی لائیں۔
کسی بھی معاشی نظریے کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ دیوانگی ہے۔ عالمی تجارت کا بنیادی مقصد عالمی مقابلہ بازی کے ذریعے کارکردگی میں بہتری لانا ہے جو پابندیوں کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔ ایڈم سمتھ کے بقول یہ مشہورِ زمانہ ’’غیبی ہاتھ‘‘ ہے جو مارکیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی صورت میں احسن انداز میں وسائل کی تقسیم کرتا ہے۔ حقیقت میں بلاشبہ تجارت اور منڈی کے آزاد چلن کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ مگر پھر بھی یہی وہ عمومی اصول ہے جسے عالمی تعلقات کی پوری تاریخ میں اپنایا گیا ہے۔ اس کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر ہر کوئی تجارتی رکاوٹوں میں کمی کرے تو اس سے ہر کسی کو فائدہ ہو گا۔ ایڈم سمتھ کا یہ اضافہ پہلے سے موجود تجارتی نظام کے متبادل کے طور پر سامنے آیا جس میں محض منافع بخش تجارت کو بڑھوتری دینے کی کوشش کی جاتی تھی۔
آزاد تجارت مقابلے کو فروغ دیتی ہے جس سے پیداواری قوتوں کو ترقی ملتی ہے اور وہ تمام محنت کش، کمپنیاں اور ممالک جو مقابلے کی سکت نہیں رکھتے باہر دھکیلے جاتے ہیں۔ اس طرح سب سے مؤثر پیداوار کی اشکال آگے بڑھتی ہیں۔ ایک تجرید کے طور پر تو شاید یہ اصول درست ہو مگر یہ صرف تب کام کرتا ہے جب کسی نہ کسی حد تک سب کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔ جب پورا سرمایہ دارانہ نظام بحران میں داخل ہوتا ہے تو جو لوگ براہِ راست متاثر ہوتے ہیں، زیادہ تر وہ سرمایہ دار جو بڑی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، عام طور پر غیبی ہاتھ کے اصول کی خاطر اپنے معیار زندگی کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ مقابلہ بازی کی خرابی یہی ہے کہ ایک لمبے عرصہ میں یہ پیداواریت میں اضافہ تو کرتی ہے مگر اس کے لیے کم عرصے میں پیداواری قوتوں کی بربادی لازمی ہوتی ہے، جو کہ ایک منصوبہ بند معاشرے میں بالکل ضروری نہیں ہو گا۔ سرمایہ داری نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی منصوبہ بند، سرمایہ دارانہ نکتۂ نظر سے عالمی تجارت کی ’’تخلیقی تخریب‘‘ ضروری ہے۔
ایک لمبے عرصے تک آزاد تجارت کو سینکڑوں باہمی اور کثیر جہتی معاہدوں میں مقدس مقام حاصل رہا ہے۔ مگر ٹرمپ کو تو شاید تجارتی اصول چھو کر بھی نہیں گزرے۔ وہ ایسے تجارتی معاہدوں کی کوشش کر رہا ہے جو امریکہ کا تجارتی خسارہ کم کریں، امریکی کمپنیوں کی مقابلے کی صلاحیت بڑھا کر (سرمایہ کاری سے) نہیں بلکہ امریکہ کا معاشی اور فوجی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے دوسرے ملکوں کو امریکہ کے ساتھ درآمدات بڑھانے اور برامدات کم کرنے پر مجبور کر کے۔ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس نے بالکل ایسے ہی ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز کے اداریے میں نشاندہی کی گئی ہے: ’’یہ خالصتاً ایک آپسی معاہدہ اور منظم تجارت ہے جو سراسر WTO کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
یورپی یونین اور کینیڈا اس کی مخالفت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ یہ سب جزوی طور پر اپنے مفاد کے لیے بھی کر رہے ہیں تاکہ امریکہ سے تجارت میں ہونے والا فائدہ برقرار رکھا جا سکے مگر یہ عالمی طور پر سرمایہ دار طبقے کی معیشت کو تباہی سے بچانے کی کوشش کا حصہ بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پچھلے 70 سالوں کے دوران قائم ہونے اداروں اور معاہدوں کو بچا لیا جائے۔ اس کام میں امریکی حکمران طبقے کی اکثریت بھی یورپی یونین اور کینیڈا کا ساتھ دے رہی ہے، جو اس معاملے میں ٹرمپ کی مخالف ہے۔ اتفاق سے اوباما نے بریگزیٹ کی مخالفت بھی اسی وجہ سے کی تھی۔
6 ملکوں کا یہ بیان بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ G7 کی میٹنگ ’’مل جل کر آزاد، منصفانہ، قابلِ اعتماد اور باہمی مفاد پر مبنی تجارت کو بحال کرنے کے لیے ہونی چاہیے‘‘ اور ’’دوسرے ارکان کے خلاف تجارتی کاروائیوں سے باہمی اشتراک اور تعاون خطرے میں آ گئے ہیں۔‘‘
ڈرانا دھمکانا ٹرمپ کی خصلت میں شامل ہے: ’’جب کوئی تجارت میں سالانہ 800 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہو تو وہ تجارتی جنگ میں نہیں ہار سکتا!‘‘ اس کی نظر میں عالمی تجارت ایک ایسا کھیل ہے جس میں ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہے۔ درحقیقت بڑی معیشتوں کے درمیان ایک تجارتی جنگ سب کے لیے بڑے نقصانات کا باعث بنے گی۔ کینیڈا کے وزیرِ خارجہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک کو نقصان پہنچا کر فائدہ اٹھانے کی حکمتِ عملی کام نہیں کرتی۔ یہی 1920ء اور 1930ء کی دہائی کا سبق تھا‘‘۔ بلاشبہ تحفظیت(Protectionism) نے ہی 1930ء کی دہائی کی کساد بازاری کو بحران میں تبدیل کیا تھا۔
یہ 6 ممالک امریکہ کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں درخواست دے رہے ہیں لیکن یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ امریکہ کوئی فیصلہ آنے پر باز آئے گا۔ اس نے پہلے ہی WTO کے اسی ٹربیونل میں ججوں کی تعیناتی کو روک کر اس کی توہین کی جس سے اس ادارے کی جھگڑے نمٹانے کی صلاحیت بھی مفلوج ہو گئی۔ ابھی تک تو یہ صرف امریکہ سے جھگڑا ہے، مگر یہ صرف امریکہ کی بات نہیں ہے۔ یہ سوال لازمی اٹھے گا کہ اگر امریکہ WTO کی بات نہیں سنتا تو باقی ممالک کیوں سنیں؟
امریکہ پچھلے 70 سال سے سرمایہ دار دنیا میں آزاد تجارت کا علم بردار اور ضامن رہا ہے۔ اگر وہ یہ کردار ادا نہیں کرتا اور ساتھ ہی اس عمل کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہو جاتا ہے، تو اس کی جگہ یہ ذمہ داری کون نبھائے گا؟ یورپی یونین بہت کمزور ہے اور اٹلی اور برطانیہ کی جانب سے اسی طرح کے دباؤ کا شکار ہے۔ چین نے اپنی تجارتی حدود قائم کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے اس کی ساکھ کے مسائل ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کے علاوہ کوئی بھی ملک یہ کردار ادا نہیں کر سکتا۔ حکمران طبقے کو یہی امید ہے کہ امریکی کانگریس یا کوئی اور طریقہ استعمال کر کے ٹرمپ اور اس کے حمایتیوں کو روک لیں گے۔ اس کے بعد وقت آنے پر اسے کسی طرح معزول کر کے اس کا متبادل لے آئیں گے۔ وہ یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جو حالات ٹرمپ کو لانے کا باعث بنے وہ حالات کبھی بھی امریکی سیاسی نظام کے استحکام کے ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگر وہ ٹرمپ کو ہٹانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کے بعد انہیں من مرضی کا صدر مل جائے گا۔
عالمگیریت اور اس کے ساتھ قرض (کریڈٹ) کے بے تحاشا پھیلاؤ نے سرمایہ دار طبقے کو اس قابل بنایا کہ وہ مابعد جنگ (دوسری عالمی جنگ) معاشی عروج کو اس کی حدود سے بہت آگے لے جائیں۔ اب یہ سب اپنے الٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ عالمی تعلقات میں موجود بحران اور آزاد تجارت کو لاحق خطرات معاشی بحران کا لازمی جزو ہیں۔ جو بھی ہو اب آزاد تجارت کا دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے جو اس سارے نظام کو ایک گہرے بحران کے دور میں کھینچ لے جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب کی امیدیں چکنا چور ہو جائیں گی جو یہ سمجھتے ہیں کہ خوشحالی کا ایک نیا دور ممکن ہے۔ سرمایہ داری محنت کش عوام کو ایک معقول معیار زندگی دینے سے قاصر ہے اور یہ نااہلی ایک کے بعد ایک سیاسی اور سماجی بحران کو جنم دے گی جب تک اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہیں دیا جاتا۔ ٹرمپ اس بات کی علامت ہے کہ اب یہ نظام ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے۔