پیر کے دن ایک طرف یروشلم میں نئے امریکی سفارت خانے کے افتتاح کا تماشا چل رہا تھا جبکہ اسی وقت دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی سنائپرز نے 59 فلسطینی مظاہرین کو قتل اور 2700 سے زائد کو زخمی کر دیا۔ اسرائیلی فوج کے بدترین مظالم کے باوجود، غزہ کے فلسطینیوں کی 1948ء کے فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور 12 سال سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف عوامی تحریک ہرگزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ تحریک کو اور بھی زیادہ مشتعل کرنے کی وجہ بنا ہے۔ یہ اقدام فلسطینی قومی جدوجہد کے بنیادی مطالبات کے خلاف شعوری اشتعال انگیزی تھی۔ منتقلی کی تاریخ بھی دانستہ طور پر ایک ایسے دن رکھی گئی جب اسرائیل کی ریاست کا اعلان ہوئے 70 سال مکمل ہو چکے تھے (1948ء) جس کی وجہ سے 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔۔ایک ایسا دن جسے فلسطینی ’’نکبہ‘‘(تباہی و بربادی) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
جیرڈ کشنر اور ایوانکا ٹرمپ ( بطور سینئر وائٹ ہاؤس مشیر تقریب کی صدارت کر رہے تھے) کی نیتن یاہو اور اسرائیلی حکمران طبقے کے ساتھ دانت نکالتی تصویریں امریکی حکومت کی پوزیشن کا واضح ثبوت تھیں۔ جس وقت غزہ میں درجنوں مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا اس وقت جیرڈ کشنر نے بیان دیا کہ: ’’جو اشتعال انگیزی کر رہے ہیں وہ مسئلے کے حل کا حصہ ہونے کے بجائے مسئلے کی جڑ ہیں‘‘۔ یہ بیان امریکی سامراج کی گلی سڑی سفات کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اب امریکی ریاست کا خاصہ بن چکی ہے۔
جس پیمانے پر فلسطینیوں کو قتل وغارت اور اپاہج کیا گیا ہے اس نے اسرائلی حکومت، امریکی ، برطانوی اور دیگر ذرائع ابلاغ کی دوغلی تصویر کشی کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور وہ تصویر کشی یہ ہے کہ یہ اموات فلسطینیوں کی جارحیت اور سرحد کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہیں جس کی ساری منصوبہ بندی حماس نے کی ہے: ایک ایسی گناہ گار قوت جس نے سرد مہری سے پرامن احتجاج کے بھیس میں دہشت گردوں کی ایک فوج چھپا رکھی ہے۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق، اسرائیلی سنائپرز کی جانب سے جان لیوا قوت کا استعمال اسرائیل کے وجود کو لاحق بنیادی خطرے کے لئے ایک ’’مناسب رد عمل‘‘ ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کے لئے اسرائیلی حکومت کی حقیقی حمایت کا اصلی چہرہ وزیر دفاع آویگدور لائبرمین کے اس بیان نے بے نقاب کر دیا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی ’’معصوم‘‘ نہیں ہے۔
لیکن، 2014ء کے غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد اب تک کا یہ سب سے خونی دن ایک اور ہی داستان پیش کر رہا ہے۔
ہولناک بربریت کے سامنے مظاہرین کا پرامن احتجاج اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ عوامی بنیادوں پر جدوجہد کا عزمِ نو ہی ایک واحد طریقہ کار ہے جس کے ذریعے غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیلی تسلط کے خلاف لڑا جا سکتا ہے۔
پچھلے ایک مہینے کے احتجاجوں میں ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں تھا کہ مظاہرین سرحد پار کر لیں گے، اور ایسا ممکن بھی نہ تھا۔ غزہ کی سرحد کو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے جس کی نگرانی کے لئے چوبیس گھنٹے ایک دیو ہیکل فوج موجودہے۔ تصاویر اور ویڈیوز میں واضح ہے کہ سرحد کے پاس خاندان باربی کیو اور پکنک کرتے ہوئے پرامن احتجاج کر رہے تھے جنہیں آگ اور آنسو گیس کی برسات میں ڈبو دیا گیا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ فلسطینی نوجوان اسرائیلی سنائپرز کے ہاتھوں میں موجود دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ خار دار تاروں کے پار پتنگیں اڑا کر، آنسو گیس شیلوں کو ٹینس ریکٹ سے واپس مارنے کی کوشش کر کے یا صرف یہ دکھا کر کہ وہ گولیوں سے نہیں ڈرتے جبکہ ان کی جانوں کو شدید خطرہ موجود ہے، احتجاج کر رہے ہیں۔
کوئی بھی ایسا شخص جس کا اسرائیلی ریاست کا پروپیگنڈہ پھیلانے میں کوئی ذاتی مفاد نہ ہو، یہ حقیقت جان سکتا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں میں اپنے اوپر مسلط کئے ناقابل برداشت حالات کے خلاف بہادرانہ سرکشی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پچھلے ایک مہینے سے ہر روز سرحد کے پاس مظاہرین پر امن احتجاج کر رہے ہیں چاہے ان پر اسرائیلی فوج نے کتنے ہی مظالم ڈھائے ہوں۔ کسی ایک اسرائیلی شہری یا سپاہی کی موت نہیں ہوئی، جبکہ 30 مارچ سے اب تک پرامن مظاہرین پر گولیوں اور آنسو گیس شیلوں کی بوچھاڑ کے نتیجے میں 100 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 12 ہزار سے زائد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔
ان صحافیوں اور فوٹو گرافروں کو نشانہ بنانا، جو اس قتل عام کو ریکارڈ کر رہے ہیں اور دھماکہ خیز گولیوں۔۔تاکہ زیادہ سے زیادہ بڑے گھاؤ لگیں۔۔ کے استعمال کی شدید مذمت کر رہے ہیںیا ان ڈاکٹروں اور ایمبولینس کے عملے کو نشانہ بنانا جو واضح یونیفارم پہن کر زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خود منہ بولتا ثبوت ہیں۔
فلسطینی قیادت کا بحران اور ’’دو ریاستی حل‘‘
فلسطینی قیادت کے مختلف دھڑوں کے دہائیوں کے مذاکرات اور جھوٹے وعدوں کے بعد لاکھوں فلسطینیوں پر یہ کڑوا سچ عیاں ہو رہا ہے کہ صرف ایک عوامی تحریک ہی ان کے مطالبات کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ اس حقیقت کا سب سے زیادہ ادراک نوجوانوں میں ہے جن کا مستقبل موجودہ ناقابل برداشت مظالم کے زیر تسلط تاریک ہے۔
عباس اور الفتح کے زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی (PA)نے پچھلی دو دہائیوں میں کسی شک و شبے سے بالاتر یہ ثابت کر دیاہے کہ سامراج کے زیر سایہ اوسلو اور میڈرڈمعاہدوں(جن میں معیشت پر تمام تر کنٹرول اسرائیلی حکمران طبقے کو دے دیا گیا) کے نتیجے میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا ڈھکوسلہ صرف ایک رجعتی خام خیالی ہے۔
فلسطینی اشرافیہ کی بنیادوں تک سرایت کرپشن اور فلسطینی عوام پر اسرائیلی ریاست کی معاونت میں مکمل کنٹرول (اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون جسے عباس نے ’’مقدس‘‘ گردانا ہے)،ہر لمحہ تنگ ہوتی معاشی گھٹن ، اسرائیلی ریاست کی حمایت کے ساتھ زمینوں پر مسلسل قبضے اور مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیاں، ان سب وجوہات نے ملکر الفتح کی پالیسیوں اور اخلاقی اور سیاسی اتھارٹی کو مکمل طور پر مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف یہ واضح ہے کہ حماس اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں اسرائیل کے سامنے مزاحمت کرنے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔۔۔ایک ایسا حربہ جسے ماضی میں ان گنت مرتبہ استعمال کیا جاچکا ہے۔ لیکن غزہ کی سرحد پر جاری مظاہرے ایک نئی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں جو حماس کے بالکل کنٹرول میں نہیں۔ یہ ادراک بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ حماس کی قیادت کی جانب سے دیو ہیکل اسرائیلی قوتوں کے خلاف غیر متوازی فوجی جنگ لڑنے سے حالات خراب سے خراب تر ہی ہوئے ہیں اور صرف ایک عوامی تحریک ہی غزہ کی 12 سالہ پرانی ناکہ بندی کو توڑ سکتی ہے۔
الفتح اور حماس، دونوں نے فلسطینی آزادی کی جدوجہد کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی مر دوں، عورتوں اور بچوں کی عوامی مزاحمت اسرائیلی ریاست کی بربریت کو بے نقاب کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دیو ہیکل رکاوٹوں کی موجودگی میں فلسطینی عوام کی جدوجہد کے نئے مواقع کھل رہے ہیں۔ یہ عالمی محنت کش تحریک کا فرض ہے کہ اس جدوجہد کے ساتھ بھرپور یکجہتی کی جائے۔