منگل کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والی نیوکلیئر ڈیل سے امریکہ کی دستبرداری کے فیصلے کا اعلان کیا۔ اپنی جھوٹ، غلط بیانی اور منافقت سے بھرپور تقریر میں اس نے اعلان کیا کہ اس کی حکومت پھر سے ایران پر ’’بد ترین معاشی پابندیاں‘‘ لاگو کرے گی۔
خطے میں ایران کے عزائم اور رویے سے متعلق دروغ گوئی کے انبار لگاتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’’(۔۔۔) مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس بوسیدہ اور گلے سڑے معاہدے سے ایران کو ایٹمی بم بنانے سے نہیں روک سکتے۔ یہ معاہدہ اپنی بنیاد میں ہی ناقص ہے۔ اگر ہم اس سے متعلق کچھ نہیں کرتے تو ہم جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ بہت کم وقت میں دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کی معاون ریاست سب سے مہلک ہتھیار حاصل کرنے کے قریب ہو گی۔ اس لیے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ امریکہ ایران نیوکلیئر ڈیل سے دستبردار ہو جائے گا۔‘‘
دوبارہ لگائی جانے والی پابندیوں کے مطابق بدیسی کمپنیوں کے پاس ایران میں اپنی سرگرمیاں روکنے کے لیے90 سے 180 دن کا وقت ہو گا، بصورت دیگر ان کمپنیوں کو امریکہ میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایرانی معیشت پر کاری ضرب ثابت ہو گی جو کہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ اور یقیناً اس کا تمام دباؤ ایرانی عوام پر پڑے گا جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری سے تنگ ہیں۔
جارحیت پسند کون ہیں؟
ایران کی بطور ایک شیطان دہشت گرد ریاست تصویر کشی کرتے ہوئے ٹرمپ نے دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ ایران کو ’’دہشت کی سب سے بڑی معاون ریاست‘‘ بھی قرار دیا جو القاعدہ اور طالبان کی حمایتی ہے اور شام، یمن اور پوری دنیا میں مختلف جگہوں پر اپنی ’’مکروہ سرگرمیاں‘‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ حقائق کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں۔ عراق پر مجرمانہ حملے، شام میں مغربی مداخلت اور قذافی حکومت پر حملے سے پہلے ان ممالک میں سے کسی میں بھی اسلامی انتہا پسندی موجود نہیں تھی۔ مشرق وسطیٰ میں مغربی مداخلت نے لاکھوں لوگوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں عدم استحکام پیدا کیا اور ہر جگہ جہادی بربریت کے عفریت کو بھی پروان چڑھایا۔
صرف عراق میں ہی امریکی قبضے کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی رپورٹس موجود ہیں۔ 2003ء میں امریکی مداخلت کے بعد عراقی ریاست کی تباہی اور فرقہ وارانہ سیاست کے فروغ کے وجہ سے اسلامی بنیاد پرستی کو سر اٹھانے کا موقع ملا، جس کی سعودی عرب ’’اتفاقاً‘‘ حمایت کر رہا تھا تاکہ ملک میں ایران کے اثر و رسوخ کا رستہ روکا جاسکے۔
شام میں، یہ مغربی مداخلت ہی تھی جس کی وجہ سے القاعدہ سمیت دیگر جہادی قوتوں نے زور پکڑا، اور اس کام میں سعودی عرب، خلیجی ممالک اور ترکی بھی برابر کے شریک تھے۔ نام نہاد ’’معتدل باغیوں‘‘ کا اعتدال سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، جن کی مغرب نے شامی انقلاب کا گلا گھونٹنے اور اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے حمایت کی تھی۔
یمن میں امریکہ اور برطانیہ سعودی جنگ میں ملوث ہیں جس نے لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھک مری کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ان کا جھکاؤ القاعدہ کی جانب بھی ہے جس نے طاقت کے خلاء کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی یمن کے بڑے حصوں پر قبضہ جما لیا ہے۔
افغانستان، جہاں امریکہ نے القاعدہ کے پیش روؤں کی حکومت میں آنے میں مدد کی، سے لے کر شام ، جہاں سی آئی اے اور امریکہ کے اتحادیوں نے شامی انقلاب کو ہائی جیک کرنے کے لئے جہادی تنظیموں کا ساتھ دیا، تک امریکی سامراج ہمیشہ جہادیوں کی افزائش میں پیش پیش رہا ہے۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا:
’’ایران نے پابندیاں اٹھائے جانے سے ہونے والے معاشی فوائد خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں استعمال کیے، خاص طور پر بیلسٹک میزائل بنا کر اور خطے میں موجود دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر کے۔‘‘
یہ الفاظ سے منافقت سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ یہ گلی سڑی وحشی سعودی سلطنت، جو انہی نظریات پر قائم ہے جو القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے ہیں، پوری دنیا میں اسلامی بنیاد پرستی کی سب سے بڑی معاون ہے۔ سعودی عرب سے ملنے والے اربوں ڈالر کے بغیر القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں ایک دن بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔
اسرائیل میں نیتن یاہو بھی ٹرمپ کے بیان کے بعد کافی پر مسرت دکھائی دے رہا ہے، اس نے کہا:
’’اسرائیل نے پہلے دن ہی سے اس نیوکلیئر معاہدے کی مخالفت کی تھی کیونکہ ہمارا موقف تھا کہ یہ ڈیل ایران کو بم بنانے سے روکنے کی بجائے کچھ سالوں میں ہی اسے بڑی تعداد میں نیوکلیئر بموں سے لیس کر دے گی۔‘‘
وہ بڑی سہولت سے یہ بھول گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیار صرف اسرائیل اور امریکہ کے پاس ہیں (جو اس نے ترکی میں نصب کر رکھے ہیں)۔ ایران کے برعکس اسرائیل دوسرے ممالک پر مسلسل حملے کرتا رہا ہے جن میں لبنان، شام، مصر، اور فلسطینی علاقے شامل ہیں جو فلسطینیوں کے قید خانے بن کر رہ گئے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی کے آغاز ہی سے اسرائیل شام کے مختلف مقامات پر بم برساتا رہا ہے اور اس نے اپنی سرحدوں پر بھی حزب اللہ کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کا ساتھ دیا۔ نیتن یاہو ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے کے لیے پر عزم ہے تاکہ کرپشن کیسز اور اپنے لیے بڑھتی مخالفت سے توجہ مبذول کروا سکے۔
پابندیوں کا دوبارہ اطلاق ایران اور اس کے عوام کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے جنہیں اس کے شدید نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ مغربی سامراج اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے برعکس ایران نے حالیہ دور میں کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ دوسری جانب دوسری عالمی جنگ سے لے کر اب تک امریکی سامراج خطے میں سب سے زیادہ رجعتی اور رد انقلابی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ریاض اور یروشلم میں موجود اپنی کٹھ پتلیوں سمیت امریکہ مشرق وسطیٰ کے عوام کے خلاف رجعت کا گڑھ بنا رہا ہے۔
2003ء کی عراق جنگ کے بعد صدام حکومت کے خاتمے کی وجہ سے خطے میں ایران کے اثر ور سوخ میں بہرحال اضافہ ہوا۔ عراق اور افغانستان میں شکست، جہاں امریکہ کو ایک کھرب ڈالر کے نقصان کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑا اور ساتھ ہی اپنی عوام کی جانب سے شدید مخالفت بھی مول لینا پڑی، کی وجہ سے امریکہ براہ راست زمینی جنگ لڑنے کی آپشن استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا اظہار شام میں امریکی سامراج کی شکست کی صورت میں ہوا جہاں اب ایرانی حمایت یافتہ گروہ سب سے طاقتور زمینی قوت کے طور پر موجود ہیں۔
انہی بنیادوں پر 2015ء میں ایران نیوکلیئر معاہدہ کیا گیا۔ طاقتوں کا بدلتا توازن دیکھتے ہوئے امریکہ کو خطے میں استحکام لانے کے لیے ایران کی مدد درکار تھی۔ لیکن یہی وہ حقیقت ہے جسے ٹرمپ تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ قومی سلامتی کے نئے مشیر جان بولٹن، جو ایک ایران مخالف دیوانہ ہے، اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے درمیان گھرا ہوا ٹرمپ گھڑی کو الٹا گھما کر اس دور میں لے جانے کے درپے ہے جس میں امریکہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک میں جب چاہتا جیسے چاہتا چڑھ دوڑتا تھا۔
نیتن یاہو اور محمد بن سلمان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جب وہ ایران کے ’’جارحانہ رویے‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایران دوسرے ممالک پر حملہ کر رہا ہے، بلکہ ایران کی موجودگی انہیں ان کی مرضی کے مطابق کسی بھی ملک پر حملہ آور ہونے یا مداخلت کرنے سے باز رکھتی ہے۔ لیکن پابندیوں کے ایک نئے دور سے اس صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اس کے برعکس ایران کے خلاف معاشی جنگ کا اعلان مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا اور شاید امریکہ اس میں فتح نہ حاصل کر پائے۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ شمالی کوریا کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ طریقہ کار آمد ہے، مگر حقیقت اس سے الٹ ہے۔ امریکہ نے شمالی کوریا کو مذاکرات کی ٹیبل پرآنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ایک چھوٹے اور غریب ملک شمالی کوریا نے جوہری بم بنا کر دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک امریکہ کو دہائیوں کی پابندیوں اور جارحیت کے بعد گفت و شنید کے لیے مجبور کیا ہے۔ اگر اس سب میں ایرانی حکومت کے لیے کوئی سبق موجود ہے تو وہ یہ ہے کہ جلدی جلدی جوہری بم بنا لیا جائے۔ تہران میں موجود سخت گیر افراد بھی یہی دلیل دے رہے ہوں گے۔
امریکہ بمقابلہ یورپ
ٹرمپ کا بیان یورپی ممالک کے لیے شدید مایوسی کا باعث تھا، جنہوں نے ایران میں کافی اہم سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کی طرف سے تیل کے بڑے معاہدوں کے علاوہ یورپ کی کمپنیوں ائیربس اور ATR نے 22 ارب ڈالر کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ یورپی طاقتیں ایران کی بڑی اور ان چھوئی منڈیوں پر نظریں گاڑے ہوئے تھیں۔ فرانس کے صدر میکرون نے ٹویٹ کیا:
فرانس، جرمنی اور برطانیہ کو امریکہ کے JCPOA چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس ہے۔ جوہری ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ داؤ پر لگا ہے۔‘‘
جرمن چانسلر انجیلا مرکل، برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور میکرون نے ٹرمپ کے بیان کے ردعمل میں تین طرفہ فون کال کے بعد مشترکہ بیان میں کہاکہ یہ تینوں ممالک ’’بھرپور کوشش کریں گے کہ یہ معاہدہ قائم رہے‘‘ اور ’’یہ بات یقینی بنائیں گے کہ ایرانی لوگوں کو اس معاہدے سے جڑے معاشی فوائد حاصل ہوتے رہیں۔‘‘
امریکی سامراج کے برطانوی ’’وفادار کتوں‘‘ اورمیکرون، جس نے پچھلا مہینہ ٹرمپ کے بوٹ چاٹنے میں گزارا ہے، پر یہ بیان بجلی بن کر گرا ہے۔ بہرحال یورپی اس معاہدے کا حصہ رہنے کی جتنی مرضی کوشش کر لیں، امریکی پابندیوں کی ساخت ایسی ہے کہ ان کے لیے ایران نیوکلیئر ڈیل قائم رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ اس سے امریکہ اور پورپ کے درمیان چپقلش میں اضافہ ہو گا۔ اور ناگزیر طور پر یہ تقسیم مغرب کو کمزور کرتے ہوئے ایران کی پوزیشن مضبوط کرے گی۔
ایران
ٹرمپ کی تقریر میں مکاری کی انتہا تب نظر آئی جب اس نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’امریکہ کے لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ لیکن ایک بات ایران میں ہر مرد، عورت اور بچے پر واضح ہے کہ امریکی حکومت پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کی تقریر کے فوری بعد ان جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بیان جاری کیا:
’’ایران وہ ملک ہے جو اپنی زبان پر قائم رہتا ہے۔ اور امریکہ وہ ملک ہے جو ہمیشہ اپنی بات سے پھر جاتا ہے۔ ہماری 40 سالہ تاریخ اور اس سے قبل کے حالات بھی یہی بتاتے ہیں کہ اس خطے اور ایران کے لوگوں کی جانب امریکہ کا رویہ ہمیشہ تحقیر آمیز ہی رہا ہے۔‘‘
نئی پابندیوں کے ایرانی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جو کہ پہلے ہی انتہائی ابتر حالت میں ہے۔ جنوری سے اب تک ایرانی کرنسی کی قیمت میں تاریخی کمی آئی ہے۔ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 65ہزار ریال تک گر گئی ہے جو اپریل میں 57,500ریال تھی تھی اور 2017ء کے آخر میں 42,890 تھی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایرانی کرنسی کی قیمت ایک ڈالر کے مقابلے میں 110,000 ریال تک بھی گر سکتی ہے جس سے افراط زر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو غریب ترین عوام کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا۔
اس سب کے نتیجے میں حکومت کا سخت گیر دھڑا مضبوط ہو گا اور وہ یہ کہہ سکیں گے کہ ’’دیکھا! ہم نہ کہتے تھے؟‘‘ اسی دوران یہ صورتحال حکومت مخالف تحریک، جو جنوری سے سڑکوں پر ہے، کو بھی کمزور کرے گی کیونکہ لوگ امریکی سامراج کے خلاف حکومت کا ساتھ دیں گے۔
بند گلی
درحقیقت نیوکلیئر معاہدے کے متبادل کوئی منصوبہ یا حقیقی تجویز موجود نہیں۔ اس بات کی نشاندہی نہ صرف امریکہ بلکہ اسرائیل میں بھی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے کی ہے۔ امریکہ کے وزیر دفاع جیمز میٹس (جس نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی کے تین بڑے مسائل ہیں: ’’ایران، ایران اور ایران‘‘) نے کہا کہ اس کے خیال میں یہ معاہدہ ’’کافی مضبوط‘‘ ہے۔
اسی دوران، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ ’’ایران اپنی JCPOA کی شرائط پوری کر رہا ہے‘‘ اور امریکہ کے معاہدہ ختم کرنے سے ’’دوسرے ممالک معاہدوں پر دستخط کرنے سے ہچکچائیں گے‘‘۔ اسی طرح کے سینکڑوں مزید بیانات امریکہ کی سیاسی، انٹیلی جنس اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں شامل لوگوں کی جانب سے آئے ہیں۔ درحقیقت معاہدہ توڑنے کی مخالفت ہی جنرل ایچ آر میک ماسٹر اور ریکس ٹیلرسن کو ٹرمپ کے قریبی حلقے سے نکال باہر کرنے کی ایک اہم وجہ تھی۔
ایک جانب نیتن یاہو ’’ہزاروں خفیہ نیوکلیئر فائلز‘‘ کی بات کرتے ہوئے یہ بتا رہا تھا کہ ایران معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا تھا، اس دوران اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل گاڈی ایسنکوٹ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ’’اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود کام کر رہا ہے‘‘۔ اسی طرح کے بیانات اسرائیل کے درجنوں اہلکاروں نے دیے ہیں جن میں سابق وزیر اعظم ایحد باراک بھی شامل ہے، جس نے کہا کہ معاہدہ چھوڑنا غلطی ثابت ہو گا۔
لیکن ٹرمپ اور نیتن یاہو کے لیے یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے اقدامات کا تعین انتہائی تنگ نظر محرکات سے ہوتا ہے۔ نیتن یاہو اپنی سیاسی بقاء کی لڑائی لڑ رہا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ایران کے ساتھ جنگ میں جانے کو تیار ہے۔ لیکن اس راہ پر بڑھتے ہوئے وہ نہ صرف شام، عراق اور لبنان میں پہلے سے اٹھنے والی آگ کی لپٹوں پر تیل چھڑک رہا ہے بلکہ اسرائیل کو بھی کچھ حد تک عدم استحکام کا نشانہ بنا رہا ہے۔ مزید یہ کہ ایران دہائیوں سے زیر عتاب بھوکی غزہ کی پٹی نہیں ہے۔ ایران ایک نسبتاً مضبوط فوجی اور صنعتی ملک ہے جو دوبدو فوجی لڑائی میں اسرائیل کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
ٹرمپ اندر سے ایک بدمعاش اور جواری ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ایران پر دباؤ ڈال کے اسے ایک اور معاہدے پر راضی کر لے گا، مگر بالکل اسرائیلیوں کی طرح اسے بھی حیرانی ہو گی۔ امریکہ، اسرائیل یا سعودی عرب کے برعکس، جن کے پاس خطے میں زمین پر اتارنے کے لیے کافی تعداد میں فوج موجود نہیں ہے، ایران کے پاس لاکھوں کی تعداد میں جنگ کا تجربہ رکھنے والے جانثار جنگجو موجود ہیں جو خلیج فارس سے بحیرہ روم تک پھیلے ہوئے ہیں۔ حتمی تجزیے میں ان کا فیصلہ کن کردار ہو گا اور امریکہ کو ایک مرتبہ پھر گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے۔ اس دوران ٹرمپ کے کرتوت مشرق وسطیٰ کے لیے مزید عدم استحکام کا باعث بنیں گے اور یہاں کے عام لوگوں کی زندگی مزید اجیرن ہو گی۔