6مارچ 2018ء کو پورے مہاراشٹر سے 35ہزار کسانوں نے ممبئی کی طرف زمینوں کے مالکانہ حقوق، قرضوں کی معافی، پیدا کردہ اجناس کی مناسب قیمت، آدی واسیوں کی عزت و تکریم اور زراعت کے شعبے میں بہتری(ہندوستان کی آدھی مزدور قوت اور معیشت کا 14 فیصد) کے مطالبات کے ساتھ مارچ کیا۔
چھ روزہ مارچ کی قیادت آل انڈیا کسان سبھا (AIKS) نے کی جس میں کسانوں نے ممبئی کے مرکزی علاقوں سے گزرتے ہوئے صوبائی اسمبلی (ودیا بھون) کا گھیراؤ کر لیا۔ 12 مارچ کو کسانوں کے مطالبات منظور کرنے کی حکومتی یقین دہانی پر احتجاجی مظاہرے کا خاتمہ کر دیا گیا۔ مہاراشٹر میں رونما ہونے والے واقعات سے شکتی لیتے ہوئے اتر پردیش کے کسانوں نے 15 مارچ کو لکھنو کی جانب مارچ منظم کیا جس میں ریاستی حکومت سے کسانوں کی دگرگوں حالت کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مطالبات میں قرضوں کی معافی اور زرعی زمینوں سے نجی کمپنیوں کا اخراج شامل تھا۔
ممبئی اور لکھنو میں کسانوں کے جذبے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی کسانوں نے ننگے پیر مارچ کیا، یہاں تک کہ ان کے پیروں سے خون رسنے لگا۔ جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ وہ ننگے پیر کیوں چل رہے ہیں تو کچھ کا جواب یہ تھا کہ وہ سوائے چپلوں کے اور کچھ نہیں خرید سکتے اور یہ چپلیں پہلے چند کلومیٹروں میں ہی جواب دے گئیں۔کوراٹ گاؤں کے ایک کسان نے کہا کہ ’’میری ٹانگیں دکھ رہی ہیں، میرا پورا جسم ٹوٹ رہا ہے۔ میں گھر جا کر اپنے ’کھٹیا‘ پر سونا چاہتا ہوں۔ لیکن میں ہمت کیسے چھوڑ دوں ، جبکہ میں یہ جانتا ہوں کہ جس زمین کو میں نے دہائیوں کاشت کیا ہے وہ میرے نام ہی نہیں؟‘‘
جسمانی تھکان اور گرم موسم کے باوجود کسان اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لئے پر عزم تھے۔ وہ ’’انقلاب زندہ باد!‘‘ اور ’’کسان زندہ باد!‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ مارچ کرنے والے کسانوں کی شہریوں نے ہر ممکن معاونت کی۔
AIKS کے زیر اہتمام لکھنو مارچ (چلو لکھنو!) میں کسانوں نے شہر کی طرف ’’خود کشی اب نہیں! جدوجہد کے لئے اتحاد!‘‘ کے نعروں کے ساتھ مارچ کیا،نعروں کا اشارہ پورے ملک میں کسانوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اجتماعی خود کشیوں کی طرف تھا۔ کسان اور مظاہرین لکشمن میلا میدان کے گرد اکٹھے ہوئے اور حکومت کی کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاج کرتے رہے۔ کچھ کسانوں کا کہنا تھا کہ مودی اپنے آپ کو کسانوں کا دوست کہتا ہے لیکن اس نے بینکوں کو مراعات دینے کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا جس کی وجہ سے کسانوں کے لئے قرضہ لینا اور بھی مشکل ہو چکا ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت کے قرضہ معافی کے وعدے محض ڈھکوسلا ہیں اور درحقیقت معاف شدہ قرضے 10 سے40 روپے تک کے ہیں جبکہ قرضے کروڑوں میں ہیں!
بھارتیا جنتا پارٹی (BJP) مارچ کرنے والے کسانوں کے خلاف حمایت حاصل کرنے کوشش میں اس مارچ کو نکسل باڑیوں کی ایک سازش قرار دے رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ممبئی مارچ کرنے والے کسانوں نے مہاراشٹر حکومت کے وزیر اعلیٰ دیویندرا فدناوس پر دباؤ ڈال کر قبائلی حقوق کو زرعی مالکانہ حقوق میں تبدیل کرنے کا مطالبہ منظور کروا لیا۔ یقیناًیہ سب محض زبانی جمع خرچ ہے اور ابھی تک کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے لیکن یہ منظوری دینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے حکمران طبقہ کتنا شدید خوفزدہ ہے۔
AIKS کے دیگر مطالبات میں ’’مہاراشٹر کا پانی گجرات کو دینے‘‘ پر پابندی، مطالبات کو لاگو کروانے کے لئے چند دنوں میں نگران کمیٹیوں کی تشکیل اور اس اسکیم کا اطلاق جس کے تحت کسانوں کی پیدا کردہ اجناس کی قیمت 70:30 کے تناسب سے طے کی جائے، شامل تھے۔ یہ مطالبات ان احتجاجوں کے متضاد اور متذبذب کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان احتجاجوں کی منتظم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی نظریاتی حدود کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف یہ ہے کہ انتظامیہ نے ’’امیر کارپوریشنوں کو دیئے گئے 2.40لاکھ کروڑ روپے کے قرضہ جات معاف کر دیئے ہیں جبکہ کسانوں سے ایک ایک پائی وصول کی جا رہی ہے۔‘‘ لیکن AIKS کی قیادت بڑے کاروباروں اور انڈیا کے حکمران طبقے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہی۔
یہ حکمت عملی (CPI(M کے عمومی طریقہ کار سے مطابقت رکھتی ہے جو مدت سے حقیقی مارکسزم کو ترک کر چکی ہے اور اب انحطاط پذیر ہو کر پارلیمانی سیاست اور حکمران پارٹیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی گندگی میں جا گری ہے۔ لیکن ہندوستانی کسانوں کی ریڈیکلائزیشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے ہندوستان میں زرعی سوال حل نہیں کیا جا سکتا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں کسان پہلی مرتبہ ان بنیادی مطالبات کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ پچھلے سال نومبر میں کئی دیہاتوں سے ہزاروں کسانوں نے نئی دہلی کی جانب بے پناہ قرضوں اور شدید غربت کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ 184 کسان تنظیموں کے مندوبین اور کسانوں نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ زرعی قرضہ جات کو معطل کیا جائے، اجناس کی مناسب قیمت کو یقینی بنایا جائے اور (سب سے اہم) قرضے معاف کئے جائیں۔ اسی طرح اس سال کے اوائل میں تامل ناڈو کے ہزاروں کسانوں نے جنتر منتر میں خشک سالی کے خلاف احتجاج کیا جس کی وجہ سے کسانوں کی فصل تباہ و برباد ہو گئی تھی۔ نتیجتاً خشک سالی سے مہینوں بعد تک کسان اجتماعی خودکشیاں کرتے رہے جس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے کوئی امدادی فنڈز جاری کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔
1960ء کی دہائی سے اب تک پورے ملک میں لاکھوں کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ ہندوستان کے کئی دیہی علاقوں میں کسانوں کی خود کشیاں اب معمول بن چکی ہیں۔ صرف 1995ء سے اب تک 3 لاکھ سے زائد کسان خودکشیاں کر چکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار تسلسل کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور 2015ء میں 12602 تک جا پہنچے۔ مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں 15-2009ء کے دوران 23 ہزار سے زائد کسانوں نے خودکشیاں کیں جبکہ صرف 2015ء میں 12900 کسانوں نے خودکشیاں کیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی اس خودکشی کی وبا کی روک تھام کے لئے مودی سرکار نے 1.3 ارب ڈالر کی انشورنس اسکیمیں شروع کیں تاکہ کسانوں کو فصلوں کی بربادی سے بچایا جا سکے۔ لیکن ان میں سے بہت ساری اسکیموں نے صرف ’’ایک حد مقرر کر دی ہے جس سے اوپر کسانوں کو فصلوں کی بربادی کے نتیجے میں منڈی کا ریٹ نہیں ملے گا‘‘۔ اور 1.3ارب ڈالر کروڑوں غریب کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حقیقت میںیہ اسکیم ایک ڈرامہ تھا تاکہ مودی کی قوم پرست دائیں بازو کی پارٹی BJP کی ان دو ریاستوں میں انتخابات میں ذلت آمیز ناکامی کے بعد حمایت بحال کی جا سکے۔
خودکشیوں کی سب سے بڑی وجہ دیوالیے، بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں کے قرضہ جات ہیں۔ 2015ء میں خود کشی کرنے والے کسانوں میں سے 72.6فیصد وہ چھوٹے کسان تھے جن کی ملکیت 5 ایکڑ سے کم تھی۔ دیہی ہندوستان کل ملکی آبادی کا 68 فیصد یا تقریباً 80کروڑ بنتا ہے۔ تقریباً آدھی سے زیادہ لیبر فورس زراعت سے منسلک ہے لیکن یہ شعبہ ملکی GDP کا صرف 15 فیصد بنتا ہے۔ اس آبادی میں سے 83 فیصد یا تو بے زمین ہیں یا پھر انتہائی قلیل زمین رکھنے والے کسان ہیں جن کی ملکیت دو ایکڑ سے بھی کم بنتی ہے۔ اوسطاً فی کس قابل کاشت زمین آدھا ایکڑ سے بھی کم بنتی ہے۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ یہ شرح اور بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ شہروں میں نوکریوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگ دیہات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ شدید پولرائزیشن کا عمل جاری ہے جس کے نتیجے میں اس وقت دیہی آبادی کے 0.25 فیصد امیر خاندانوں کے پاس فی کس 25 ایکڑ سے زیادہ زمین ہے۔
زرعی زمین کے چھوٹے ہوتے حجم کو قائم رکھنا ناممکن ہو چکا ہے ۔ یہ مسئلہ فنڈز کی کمی ، بنیادی انفراسٹرکچر اور جدید ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی کی وجہ سے اور بھی زیادہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ 1951-2002ء کے دوران ہندوستان میں زیر آبپاشی زمین کا کل حجم 55.8 ملین ایکڑ سے 143.5 ملین ایکڑ تک ہی بڑھا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2010ء میں پورے ملک کی کل زرعی زمین کا صرف 35فیصدحصہ ہی آبیایا گیا۔ زیادہ تر دیہی علاقوں میں پانی اور بجلی کی ناقص سہولیات کی وجہ سے بنیادی زرعی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور بھی زیادہ مہنگی ہے۔ اسی وجہ سے دو تہائی زرعی زمین فصلوں کے لئے بارش پر انحصار کرتی ہے۔ سرمایہ کاری کی عدم موجودگی کے تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 1970ء کے بعد سے زراعتی پیداواریت میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا۔
زراعت کی پسماندگی کا مطلب یہ ہے کہ جب 2015ء کی طرح قحط سالی ہوتی ہے تو کسان اس کے آگے بالکل مجبور اور بے یارو مددگار ہیں۔ دوسری طرف 2016ء کی طرح اگر فصلیں اچھی ہو جائیں تو قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے کسانوں کی حالت پھر ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔ خوشحال فارم قحط سالی میں کاشتکاری کر سکتے ہیں اور ان کے پاس زخیرہ اندوزی کی سہولیات، فریزر اور ریفریجریٹر موجود ہوتے ہیں تاکہ اچھے سالوں میں گرتی قیمتوں کے نقصان سے بچا جا سکے۔ لہٰذا ،امرا منڈی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے منافع کماتے ہیں جبکہ غریب صرف نقصان اٹھاتے ہیں۔
ریاست نے زرعی اجناس کی خرید کے لئے جس قیمت کی ضمانت دی ہوئی ہے اس سے چھوٹے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتاجن کے پاس نہ تو وہ سہولیات موجود ہیں ا ور نہ ہی ٹرانسپورٹ کے وہ ذرائع جن کے ذریعے وہ اپنی اجناس سرکاری مراکز تک پہنچا سکیں۔ اس وجہ سے غریب کسان مجبور ہے کہ وہ اپنی اجناس آڑھتی دلالوں کو بیچے جنہوں نے کم سے کم قیمت پر اجناس خریدنے کے لئے کارٹیل بنا رکھے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حتمی قیمت فروخت کا صرف 25 فیصد ہی کسان تک پہنچ پاتا ہے جبکہ بقیہ منڈی کو کنٹرول کرنے والی طفیلی اجارہ داریاں ہڑپ کر جاتی ہیں۔
اس وجہ سے غریب کسان خوفناک معاشی بحران کا شکار ہے۔ مودی سرکار کی سبسڈی اصلاحات (جس نے ایندھن اور بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے)کی وجہ سے یہ بحران اور بھی زیادہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ زندہ رہنے کے لئے زراعت سے منسلک 52 فیصد گھرانے، تقریباً 30-40 کروڑ عوام، قرض لینے پر مجبور ہیں، ایک اندازے کے مطابق ہر گھرانے پر اوسطاً 47 ہزار روپے قرضہ ہے۔ کروڑوں کسان اور ان کے خاندان دیوالیہ کے دہانے پر کھڑے ہیں اور ہر سال یہ نظام بے رحمی سے انہیں غربت کی نئی گہرائیوں میں دھکیل رہا ہے۔شہروں میں نوکریوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس بربادی سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔
خود کشیوں کی شرح میں مسلسل اضافے کی اصل وجہ یہ ہے۔ جب بھی قرضوں کی معافی کا معاملہ ہوتا ہے تو ’’صنعت کے ان داتا‘‘، BJP اور کارپوریٹ میڈیا مگرمچھ کے آنسو روتے ہیں۔ حکومت غریب کسانوں کے اربوں روپوں کے قرضہ جات کو معاف کرنے کو تیار نہیں لیکن اسی اثنا میں بڑی نجی کارپوریشنوں کے کھربوں روپے کے قرضہ جات لگاتار معاف کر رہی ہے۔اس دوران کسانوں کی ایک پرت، جو سب کچھ کھو چکی ہے یا کھونے کے قریب ہے، شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہے جہاں وہ کچی آبادیوں کے لمپن پرولتاریہ کا اکثریتی حصہ ہیں۔ یہاں منظم جرائم پیشہ یا فتنہ پرور افراد انہیں اپنے مقاصد کے لئے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
یہ روزانہ کی اس ذلت و رسوائی کا عشروعشیر بھی نہیں جو ہندوستانی دیہی غریب کا مقدر بن چکی ہے۔ لبرل بورژوازی کمال بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسائل کا الزام ماحولیاتی تبدیلیوں پر تھوپ دیتی ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ سرمایہ داری اس وقت خود ماحولیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے، وہ ایک اور سچائی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں: جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانیت فطرت کے رحم وکرم سے آزاد ہو کر اس پر دسترس حاصل کرتی ہے۔ یہی تہذیب اور بربریت کے درمیان امتیازی فرق ہے۔
یہ حقیقت کہ کروڑوں ہندوستانی کسان قدیم پسماندہ سماجی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو خود ہندوستانی سرمایہ دار طبقے کو مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایک قدیم تہذیب کا خون چوستی یہ سماجی جونک ثابت کر چکی ہے کہ یہ سماج کے بنیادی ترین فرائض کو پورا کرنے کی اہل بھی نہیں۔
اسی دوران کسانوں اور دیہاتیوں میں بڑھتے ہوئے غم و غصے اور اس کے گاہے بگاہے اظہار میں بے پناہ انقلابی امکانات پوشیدہ ہیں جنہیں اگر محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو ہمیشہ کے لئے اس گلی سڑی اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
اس کا اظہار مودی سرکار کے ابتدائی دنوں میں ہی ہو گیا تھا جب وہ 1894ء کے لینڈ ایکویزیشن ایکٹ میں ترمیم کی خاطر کسانوں سے ٹکر لے بیٹھا تھا۔ اس ترمیم کے نتیجے میں مقامی میونسپل کارپوریشنوں کے پاس چند دھیلوں کے بدلے کسانوں کی زمینوں پر قبضے کرنے کا اختیار آ جاتا۔ یہاں مودی کو پہلی مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پورے ملک میں عوامی مخالفت کے نتیجے میں سرکار کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
پچھلے سال جون سے ہم کسانوں میں تناؤ کو مسلسل بڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ کسانوں نے قرضوں کی معافی اور اجناس کی مناسب قیمت کے مطالبوں پر ہریانہ، پنجاب، مہاراشٹر اور تامل ناڈو میں ہائی ویز بلاک اور اجناس کو سڑکوں پر ضائع کر کے احتجاجی مظاہرے کئے جن کے نتیجے میں ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ حکومت کو ایک مرتبہ پھر پسپائی اختیار کرنی پڑی اور غریب کسانوں کو کچھ مراعات اور قرضوں کی جزوی معافی کی پیشکش کرنی پڑی۔ یقیناًیہ پیشکش ان قرضہ جات کی معافی کی سہولت کے سامنے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جو امرا اور بڑے کاروباروں کو میسر ہیں۔
مودی نے پورے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نام نہاد ’’اچھے دن‘‘ واپس لانے کے وعدوں پر اقتدار حاصل کیا۔ 2015ء میں اس نے زرعی فارموں کی آمدن 2022ء تک دگنی کرنے اور کسانوں کو پیداواری لاگت کا کم از کم 50 فیصد منافع کی شکل میں واپس ملنے کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا ۔ لیکن ہندوستان کی وسیع آبادی کے لئے مودی سرکار کے وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی تباہی و بربادی میں اضافہ ہی ہوتے دیکھا ہے۔
اس دوران امرا ان دیکھا اور انہونا منافع لوٹ رہے ہیں۔ 2016ء میں کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 1 فیصد آبادی 58.4فیصد سماجی دولت پر قابض ہے۔ 2015ء میں یہ شرح 53 فیصد تھی۔ مشہور معیشت دان تھامس پیکٹی نے ایک نئی شراکتی تحقیق جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت ہندوستانی سماج میں عدم مساوات 1921ء میں برطانوی سامراج کے زیر تسلط موجود عدم مساوات سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گلوبل ہنگر انڈیکس کی فہرست میں 109 ممالک میں سے ہندوستان کا 100واں نمبرہے۔ 16-2015ء کی ایک تحقیق کے مطابق 21 فیصد ہندوستانی بچوں کا وزن اوسط وزن سے کم ہے۔ نا صرف یہ کہ ان اعداوشمار میں پچیس سالوں سے کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ اس کی شرح میں 06-2005ء سے 20 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
ممبئی میں لاکھوں کسانوں کے چھ روزہ مارچ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جبکہ ہندوستانی حکمران طبقہ لرز اٹھا ہے۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ ہندوستانی دیہی عوام سیاسی طور پر بیدار ہو رہی ہے۔ مہاراشٹر کے کسانوں کے مارچ ختم ہونے کے فوراً بعد اتر پردیش کے کسان بہتر معیار زندگی کے مطالبے اور مودی سرکار کی زراعت مخالف خوفناک کٹوتیوں کی پالیسی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
کسانوں کے مطالبات ، جن میں اپنی زمین تک نجی کمپنیوں کی مداخلت کے بغیر رسائی شامل ہے، کا مطلب نجی کمپنیوں اور بینکوں کے ان منافعوں پر حملہ کرنا ہے جو قرضوں کی ادائیگی سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ AIKS کو تمام قرضوں سے چھٹکارے کا مطالبہ کرنا چاہیے جس میں نہ صرف کسانوں کے قرضے معاف کئے جائیں بلکہ انہیں وہ تمام تر درکار وسائل بھی فراہم کئے جائیں جن کے ذریعے وہ اپنی زمینوں تک رسائی حاصل کریں، اپنی اجناس اگائیں اور قحط سالی کے نتیجے میں ان کے نقصان کی تلافی کی جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی انفرسٹرکچر کی تعمیر نو کی جدوجہد بھی انتہائی ضروری ہے: بجلی اور کمیونیکیشن کو مزید پھیلایا جائے، ریلوے، سڑکوں اور ہائی ویز کے ساتھ ساتھ جدید آبپاشی نظام اور آبی نیٹ ورکس تعمیر کئے جائیں جو ملک کے کونے کونے تک پہنچا ئے جائیں۔
لیکن ان تمام تر اقدامات کے لئے ضروری ہے کہ کسان بینکاروں اور تنگ ذہن خون آشام سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو ریاست اور زرخیز زمینوں کی کم سے کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ تباہ کن لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک طرف تو یہ خون آشام بھیڑیئے سماجی دولت میں سے اربوں ڈالر چوس رہے ہیں تو دوسری طرف فیکٹریاں بند کر کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو، جن میں سے کئی یونیورسٹیوں سے ڈگری یافتہ ہیں، بے روزگاری یا کم اجرتی نوکریوں میں گلنے سڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس پوری صورتحال کا صرف ایک ہی حل موجود ہے اور وہ یہ کہ عوام بینکوں اور صنعتوں پر قبضے کرے اور کروڑوں بے روزگاروں کو متحرک کرتے ہوئے ملک کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے اور مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کے تمام تر مسائل حل کرے۔ اس جدوجہد میں کسان صرف اپنے فطری حلیف دیہی اور شہری مزدوروں پر ہی اعتماد کر سکتے ہیں۔
AIKS کی قیادت کو کسانوں کے مطالبات کو ہندوستان میں سوشلزم کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے میں پہل کرنی چاہیے کیونکہ یہی واحد طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ان امنگوں کو پورا کرتے ہوئے اس کربناک استحصال سے آزاد ی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسانوں کے دیو ہیکل احتجاج ہندوستانی محنت کش طبقے کی بے پناہ قوت کی صرف ایک جھلک ہیں! یہ واقعات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب محنت کش طبقہ بھی بیدار ہو رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں باقاعدگی کے ساتھ مسلسل بڑھتی ہوئی سالانہ عام ہڑتالیں اس مظہر کی واضح عکاسی ہیں۔ انقلابی دھماکوں کے لئے ہندوستانی سماج کی تمام پرتیں تیار ہو رہی ہیں اور جب ایک مرتبہ عوام تحریک میں اتریں گے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک پائے گی۔
ہم باوقار اور باعزت زندگی کی جدوجہد کے لئے ہندوستانی کسانوں کی جدوجہد کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں! ان کے اپنے الفاظ میں: ’’انقلاب زندہ باد!‘‘