8مارچ، خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عالمی مارکسی رحجان(IMT) کا اعلامیہ
خواتین پر جبر دنیا بھر میں ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، کئی ممالک میں ہڑتال کی کال دی گئی ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے، مارچ اوراجلاس منعقد ہونے کی طرف جارہے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں ہمیں خواتین کے حقوق کے لیے بڑی تحریکیں، جیسا کہ ٹرمپ کی حلف برداری کے وقت، پولینڈ میں اسقاطِ حمل کے قوانین سخت کئے جانے کے خلاف، ارجنٹینا، میکسکو و دیگر ممالک میں خواتین پر ہونے والے تشددکے خلاف، دیکھنے کو ملی ہیں۔ ہم جنسوں کی شادی کے سوال پر آئر لینڈ میں کیتھو لک چرچ کے رجعتی نظریات کی شکست بھی دیکھنے کو ملی۔ معاشرے میں عمومی ریڈیکلائزیشن کی تمام علامات موجود ہیں۔ مزدوروں اور خاص کر نوجوانوں نے اپنی زندگیوں کو بدلنے اور ہر طرح کے جبر اور استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔
سرمایہ داری کے بحران نے خواتین کے حالاتِ زندگی پر بھیانک اثرات مرتب کئے ہیں۔ تمام ممالک کی حکومتوں نے سماجی خدمات کے شعبہ جات، جیسا کہ چائلڈ کئیر اور نرسنگ ہومز وغیرہ، میں بتدریج کٹوتیاں کی ہیں، اس طرح انہوں نے ان خواتین پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے جو کہ روایتی طور پر بچوں، بزرگان اور کمزوروں کی دیکھ بھال کے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ اجرتوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جو کہ پہلے ہی مردوں سے کم ہیں۔ برطرفیاں، غیر محفوظ نوکریاں اور اس طرح کے دیگر اقدامات نے محنت کشوں کے معیارِ زندگی میں گراوٹ اور عدم تحفظ کو تقویت دی ہے، جس سے متاثرہونے والوں میں خواتین محنت کشوں کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں خواتین کے لیے مالی آزادی کا حصول اور ہتک آمیز رشتوں سے نجات مزید مشکل ہو گئی ہے۔
خواتین کو درپیش مسائل ’’محض ‘‘ مادی نوعیت کا معاملہ نہیں ہے۔ عدالتی نظام کے خمیر میں جبر موجود ہے جہاں پر عورتوں کو اسقاطِ حمل کے خلاف امتیازی قوانین کا سامنا ہے اور جہاں عموماً خواتین اور جبر کے شکار دیگر لوگوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جاتا ۔
حکمران طبقات اپنے نظریات، ذرائع ابلاغ، نظامِ تعلیم وغیرہ کے ذریعے خواتین پر جبر کو مسلط کئے رکھتے ہیں۔
یہ خواتین پر تشدد اور جنسی طور ہر ہراساں کرنے کا سوال بھی ہے۔ پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ ریپ اور خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں ہر چھ میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ریپ کی کوشش یا ریپ کا شکار ہوتی ہے، جبکہ ننانوے فیصد ریپ کے ملزمان آزاد گھومتے ہیں۔
یہ وہ مسائل ہیں جن کا خواتین کو سامنا ہے اور جن کے خلاف وہ بر سرِ پیکار ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین اور مرد بھی، جبر، تعصب اور جنسی امتیاز کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور عوامی بیداری اور ریڈیکلائزیشن کی غمازی کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جبر اور نا برابری کے خلاف لڑنے کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟
عالمی مارکسی رحجان برابری کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔ ہم خواتین اور دیگر پر جبر کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ تاہم، ہمارے لیے خواتین کی آزادی کی جدوجہد، سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے علیحدہ نہیں ہوسکتی کیونکہ جبر طبقاتی سماج کے خمیر میں موجود ہے اوراسی لیے اس کے خلاف عمومی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے۔ سوشلسٹ انٹر نیشنل نے ہی 1910ء میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن اور محنت کش خواتین کے مطالبات کا دن قرار دیا تھا۔ اس وقت خواتین کے لیے ووٹ کا حق اہم مطالبات میں سے ایک تھا ۔ اس وقت تحریک کی قیادت پر براجمان حکمران اور درمیانے طبقے کی خواتین، تحریک کو ووٹ کے حق کے حصول تک ہی محدود سمجھ رہی تھیں، جبکہ مزدور تحریک کے لئے یہ خواتین کے لیے حقیقی برابری اور آزادی کے حصول کا ایک ذریعہ تھا۔ اس لیے خواتین کے عالمی دن کا اعلان کرنے والوں نے اسے محنت کش خواتین کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ حکمران طبقے کی خواتین کے نزدیک برابری کا مطلب اپنے طبقے کے مردوں، وکلاء، ڈاکٹر، وزراء اور سی ای اوز کی مراعات میں حصہ داری تھا۔ ہاں ہم خواتین کے لیے ان تمام چیزوں کے حق کا دفاع کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم جانتے ہیں کہ خواتین کی بھاری اکثریت کے لیے ان چیزوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ برطانیہ میں تھیچر اور جرمنی میں انجلا مارکل نے خواتین کے لیے کچھ بھی بہتر کرنے کی بجائے اس کے الٹ ہی کیا ہے۔ ایسے ہی امریکہ میں اگر ہیلری کلنٹن صدر بن بھی جاتی تو امریکہ اور اس کی سامراجی مداخلت کا شکار ممالک کی خواتین کے لیے کوئی بھی بہتری نہیں آنے والی تھی۔ خواتین سیاست دانوں، سی ای اوز اور پیشہ ور دانشوروں کی کامیابی کی بنیاد ، صفائی، کھانا بنانے اوران کے بچوں کی نگہداشت کرنے والی خواتین کی کم اجرتی کام پر مبنی ہے۔ سماج کے بالا طبقے کی خواتین برابری کی جدوجہد میں اس وقت تک ہیں جب تک آپ اِن کے کیرئیر کی کامیابی کو یقینی بنانے والی خواتین کی اجرتوں اور معیار زندگی میں اضافے کا مطالبہ نہیں کرتے۔
1910ء میں خواتین کے پہلے عالمی دن سے لے کر اب تک بہت کچھ حاصل کیا جا چکا ہے۔ بہت سے ممالک میں خواتین ووٹ، تعلیم، خواتین پر جبر کے خلاف قوانین جیت چکی ہیں اور بہت سے ممالک میں خواتین کے لیے برابر اجرت کا قانون بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم حقیقی مساوات سے بہت دور ہیں۔حتیٰ کہ قانونی برابری والے ممالک میں بھی خواتین پر جبر اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے۔ رسمی برابری بنیادی مسئلے کی جڑ کو نہیں چھیڑتی اور اسی لیے یہ مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کر سکے گی۔ جبر کی بنیادیں نارواسلوک، تشدد، جنسی امتیاز اور تعصب کی طرح سماج کی طبقاتی تقسیم میں پیوست ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام محنت کش طبقے کے استحصال پر قائم ہے۔ سماج کی ایک چھوٹی سی بالائی پرت محنت کش طبقے کی غیر ادا شدہ محنت کے استحصال سے ہی امیر بنتی ہے۔ ان کے لیے طاقت میں رہنے کا واحد طریقہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی ہے، وہ محنت کشوں کو قوم، مذہب، جنسی رحجان، صنف اور دیگر تمام ممکنہ بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے تعصب اور شاونزم پھیلانے کے لیے وہ سبھی حربے استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے لڑنے کا واحد ذریعہ محنت کش طبقے کا اتحاد اور محنت کش طبقے کے طریقے یعنی مظاہرے، ہڑتالیں اور عوامی احتجاج ہیں۔
سرمایہ داری ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے۔ یہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی داد رسی نہیں کر سکتی۔ آج دنیا کی آدھی دولت محض آٹھ افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوچکی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ آٹھ امیر ترین لوگ مرد ہیں بلکہ مسئلہ یہ نظام ہے جو دولت کو چند سے چند ہاتھوں میں مرتکز کرتا اور اکثریت کی زندگی بد سے بد ترین بناتا چلا جاتا ہے۔
سماج کی یہ تنزلی عوام کی وسیع تر پرتوں میں غصے اور ابال کا باعث بن رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں ہم محنت کشوں اور نوجوانوں کو سڑکوں پر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان احتجاجوں کا کردار ماضی سے یکسر مختلف ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عروج کے دنوں میں نظام میں اصلاحات کی گنجائش تھی۔ آج سرمایہ داری میں مثبت اصلاحات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ لوگوں کے لیے نیا سویرا ہے، لیکن اس کے خدوخال واضح ہونے کی بجائے اس عمومی تاثرمیں پنہاں ہیں کہ موجودہ سماج کی حدود میں زندہ رہنا ممکن نہیں رہا۔ حالیہ احتجاج نہ صرف ٹھوس مطالبات کے گرد ہیں بلکہ انسانی عظمت اور وقار کے حصول کے لیے بھی ہیں، جیسا کہ ہم نے عرب بہار میں بھی دیکھا جہاں خواتین نے حسنی مبارک کی آمریت کا تختہ الٹنے کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مرد اور عورت کے مابین تعلق کے کردار کو ہی بدل کر رکھ دیا۔
یہ واضح علامت ہے کہ چیزیں اب بدل رہی ہیں کیونکہ معاشرے میں سب سے زیادہ جبر کا شکار، خواتین نے بھی آواز بلند کرنا اور تحریکوں میں ہر اول کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ بحران نے پرانے استحکام کا شیرازہ بکھیر دیا ہے ، سماج متزلزل ہے اور اس کے ساتھ ہی ثقافت بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ حکمران طبقات اقتدار سے چپکے رہنے کی ہوس میں جنسی امتیاز، نسل پرستی اور دیگر تمام تقسیم کرنے والے زہریلے عناصر پر زیادہ سے زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ لیکن سرمایہ داری خود بخود ختم نہیں ہو گی۔ اسے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنا ہوگا ۔
سوشلسٹ انقلاب ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت متعارف کروائے گا جو عدم مساوات اور جبر کے خاتمے کی مادی بنیادی استوار کرے گی۔ منصوبہ بند معیشت میں پیداکردہ دولت چند لوگوں کی بجائے اکثریت کے لیے استعمال میں لائی جائے گی۔ کام کے اوقات فوری طور پر کم کر دیے جائیں گے تاکہ ہر کوئی سماج کے نظم و نسق کو چلانے کے عمل کا حصہ بن سکے۔ فلاح و بہبود کے لیے ضروری وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور گھریلو مشقت کے خاتمے کے لیے تحقیق اور فنڈنگ کا آغاز ہوگا جن سے بچوں کی نگہداشت کے ادارے، تعلیم، علاج، اعلیٰ معیار کے سستے عوامی باورچی خانے، صفائی اور دیگر خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔
اس سے وہ مادی بنیادیں استوار ہوں گی جو خواتین اور مردوں کو بغیر کسی مادی رکاوٹ کے بطور انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کریں گی۔ جب عدم مساوات اور جبر کی مادی بنیادیں ختم ہو جائیں گی تو شاونزم اور جنسی امتیاز رفتہ رفتہ مٹنا شروع ہوں گے اور بالآخر نا پید ہو جائیں گے۔
خواتین کے حقوق کی لڑائی، برابری کے لیے لڑائی، تمام بنی نوع انسان کی آزادی کی اور ایک سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی ہے !