رجائیت اور امید کی ایک لہر پچھلے بدھ سے جنوبی افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، جب سے جیکب زوما صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوا ہے۔ زوما کی صدارت کا 9 سالہ بدعنوانی سے عبارت دور بالآخر ختم ہونے پر سب نے سکون کا سانس لیا۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ’’صبحِ نو‘‘ طلوع ہونے کی نوید سنا رہے ہیں۔ لیکن مارکس وادیوں نے کئی مرتبہ وضاحت کی ہے کہ جنوبی افریقہ کو درپیش بحران کا تعلق کسی ایک شخص، پارٹی یا حکمران طبقے کے کسی ایک ٹولے سے نہیں ہے۔ سیاسی بحران مجموعی طور پر سرمایہ داری کے بحران کا محض ایک اظہار ہے۔ اور جب تک یہ نظام باقی ہے، صرف چہرے تبدیل کرنے سے کسی قسم کی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔
’’چیزیں جتنی تبدیل ہوتی ہیں، اتنی ہی وہ پہلے جیسی بھی رہتی ہیں۔‘‘ جین بپتستا الفونس کر
بڑے بڑے سرمایہ دار خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ سیرل رامافوزا نے جیکب زوما کی جگہ لے لی ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ رامافوزا بڑے سرمایہ داروں کا قابلِ بھروسہ نمائندہ ہے۔ وہ گزشتہ 30 سالوں سے ANC اور مزدور تحریک میں سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ صرف یہی بات محنت کش طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجانے کے لیے کافی ہے۔ رامافوزا کو لے کر پیٹی بورژوا خوش فہمیوں کی رو میں بہنے کی بجائے محنت کش طبقے کے لیڈروں کو لڑائی لڑنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ جیسا کہ مارکس اور لینن کئی مرتبہ وضاحت کی کہ سرمایہ دار اور محنت کش طبقے کے مفادات کبھی یکساں نہیں ہو سکتے۔
مزدور لیڈر سے کان کن سرمایہ دار بننے تک کا سفر
رامفوزا کان کن محنت کشوں کی نیشنل یونین کے بانی رہنماؤں میں سے تھا۔ نسل پرست حکومت کے زوال کے دور میں اس نے اس وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کی قیادت کی تھی۔ حکومت کے بدترین حملوں کے آگے یونین اس کی قیادت میں ڈٹی رہی۔ اس نے ساؤتھ افریقن ٹریڈ یونینز کانگریس(COSATU) کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس نے COSATU کے ابتدائی دنوں میں بہت ترقی پسند اور بعض اوقات انقلابی تقاریر کیں۔
80ء کی دہائی میں (COSATU) کا قیام جنوبی افریقہ کے محنت کشوں کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ان دنوں انقلابی جدوجہد بھی عروج پر تھی۔ بالآخر 80ء اور 90ء کی دہائی میں محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں کی بدولت نسل پرست حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس سب سے رامافوزا اور دوسرے مزدور رہنماؤں کے اثر ورسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مگر آج کا رامافوزا محنت کش طبقے کا ساتھی نہیں بلکہ مزدور تحریک کے غداروں میں سے ایک ہے۔
ANC، COSATU اور SACP کے لیڈران، جن میں رامافوزا بھی شامل ہے، نے خود سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرنے والی عوامی تحریک کو دبانے کے لیے اپنے سیاسی اثر ورسوخ کا بھرپور استعمال کیا۔ بجائے اس کے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جنوبی افریقہ کے محنت کش طبقے کو اکٹھا کرتے، انھوں نے ڈی کلرک (جو اس وقت جنوبی افریقہ کا صدر تھا) کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔
90ء کی دہائی میں نسل پرست حکومت اور آزادی کی تحریک کے درمیان جاری CODESA مذاکرات کے دوران ہونے والی اس ڈیل کے نتیجے میں 1993ء کا باہمی رضامندی سے طے پانے والے معاہدہ سامنے آیا۔ ان مذاکرات میں رامافوزا ANC کی قیادت کر رہا تھا۔ سمجھوتہ اس بنیاد پر طے پایا کہ آئین میں ذاتی ملکیت کے حق کو تحفظ دیا جائے گا۔ اس سے معیشت پر روایتی سفید فام بورژوازی کی بالادستی قائم رہی اور تحریک آزادی کے رہنماؤں کو بڑے سیاسی عہدے مل گئے۔ اس ’’اشرافیہ کے معاہدے‘‘ نے گزشتہ 25 سال سے قائم سرمایہ دارانہ حاکمیت کی بنیاد رکھی۔
80ء کی دہائی میں چلنے والی محنت کشوں کی تحریک نے سرمایہ داری کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں جس نے بڑے سرمایہ داروں کو خوفزدہ کر دیا۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ سماج کی انقلابی تبدیلی سے بچنے کا واحد راستہ رامافوزا، امبیکی اور منڈیلا جیسے آزادی کی تحریک کے ’’عملیت پسند‘‘ لیڈروں سے سمجھوتہ کرنا ہی ہے۔
نام نہاد ’’جمہوری تبدیلی‘‘ کے بعد، بڑے سرمایہ داروں نے رامافوزا کو 80ء اور 90ء کی دہائی میں عوام کی انقلابی تحریکوں کا قلع قمع کرنے کے بدلے اچھے خاصے انعام سے نوازا۔ سیاہ فاموں کی معاشی خودمختاری کے پروگرام‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے کاروبار کا آغاز کیا اور کروڑوں ڈالر کے اثاثے تعمیر کر لیے۔ وہ کئی کانوں کا مالک ارب پتی بن گیا اور اس کی دولت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ اس کا شمار ملک کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ یہ ایک نہایت عمدہ مثال ہے کہ سرمایہ دار کس طرح محنت کش طبقے کے لیڈروں کو پیسہ کھلا کر ان کا سیاسی اثر ورسوخ عوام کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، خاص کر انقلابی حالات کے دوران۔
پیروں تلے سرکتی زمین
1994ء میں پہلے غیر نسلی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد، حکمران طبقہ ANC کی قیادت کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ایک لمبے عرصے تک ترقی پذیر معیشت کی بنیاد پر حالات مستحکم رکھنے میں کامیاب رہا۔ 1994ء کے بعد آنے والی دہائی میں جی ڈی پی کی اوسط ترقی کی شرح3 فیصد رہی جو فی کس کے حساب سے 1 فیصد تھی۔ یہ پچھلی دہائی کے مقابلے میں واضح بہتری تھی۔ نسل پرست حکومت کے زوال کا دور (93۔1984) معاشی ترقی کے حوالے سے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے برا دور تھا جس کی وجہ حکومت پر لگنے والی تجارتی و معاشی پابندیاں اور انقلابی تحریکیں تھیں۔ اس دور میں معاشی ترقی کی اوسط شرح 0.8 فیصد تھی جو فی کس کے حساب سے منفی 1.3 فیصد تھی (بیورو برائے معاشی ترقی، سٹیلن بوش یونیورسٹی،2006)۔
قرضوں کے دم پر چلتی معیشت اورANC کی عوامی تحریک کو بورژوا جمہوری راستے پر چلانے کی کوششوں کی بدولت نظام کی انقلابی اکھاڑ پچھاڑ کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا۔ جمہوری حاصلات بھی اس دور میں محنت کشوں کی عظیم جدوجہد کی بدولت ہی حاصل ہوئی تھیں۔ محنت کش طبقے کو شکست نہیں ہوئی اور ان کی تنظیمیں اسی حالت میں نئے دور میں داخل ہوئیں۔ یہ بات 2009ء کے بعد سے اب تک طبقاتی کشمکش کی اس نئی اٹھان کو سمجھنے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
ماریکانا
اگست 2012ء میں تیز ہوتی طبقاتی کشمکش کے دوران ماریکانا میں محنت کش کان کنوں کے قتل عام کا مکروہ واقعہ رونما ہوا۔ رامافوزا نے ان حالات کو پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جو ان مزدوروں کے قتل کی وجہ بنے۔ اس نے لونمن عہدیداروں اور وزارتِ پولیس کو ای میلز کیں جس میں اس ہڑتال کو ’’انتہائی مجرمانہ‘‘ قرار دیا اور اس کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے پولیس پر ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا اور اس کے لیے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کیا۔ مزدورں کے قتل عام میں اس کا ہاتھ شامل تھا۔
پولیس ہڑتال کو وحشیانہ تشدد کے ساتھ ختم کرنے کی تیاری کر کے آئی تھی۔ وہ واضح طور پر قتل عام کے لیے تیار تھے۔ ہڑتال والی صبح انھوں نے 4 بڑی لاشیں اٹھانے والی گاڑیاں منگوا رکھی تھیں جن میں سے ہر ایک گاڑی میں 30 سے زیادہ لاشوں کی جگہ موجود تھی۔ رامافوزا کے ’’سخت کارروائی‘‘ کے مطالبے کے 24 گھنٹے کے اندر ہی پولیس نے 112 مزدوروں پر گولی چلائی جن میں سے 78 زخمی اور 34 جاں بحق ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے سینکڑوں مزدوروں کو مقتولین کا ساتھی قرار دے کر اسی جرم میں گرفتار کر لیا جس کی بنیاد پر انھیں قتل کیا گیا تھا۔
یہ ایک سابقہ ٹریڈ یونین لیڈر کی محنت کش طبقے کے ساتھ کھلی اور سفاک ترین غداری تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ طبقاتی جنگ میں دو کشتیوں کی سواری نہیں ہو سکتی۔ یا محنت کشوں کا ساتھ دیا جا سکتا ہے یا سرمایہ داروں کا، دونوں کا نہیں۔ پارلیمنٹ میں بولے جانے والے میٹھے الفاظ کبھی بھی اس کے دامن سے اس قتل عام کا بدنما داغ نہیں دھو سکتے۔
عوامی تحریک کا نیا ابھار
اس عرصے میں ہونے والی ہڑتالوں، مظاہروں اور احتجاجوں میں دھماکہ خیز اضافے سے یہ بات واضح تھی کہ محنت کش حکمران طبقے کے حملوں کے خلاف لڑنے کو تیار ہیں۔ سیاہ فام عوام، جنہوں نے اپنے زور بازو سے خوفناک آمریت کا تختہ پلٹ کر رکھ دیا تھا، کے لیے 1994ء کے بعد حاصل ہونے والی جزوی فتح ہر گز کافی نہیں تھی جس سے انھیں محض پانی، نکاسی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات حاصل ہوئیں۔ اس کے برعکس اس سے ان کے حوصلے کو اور تقویت ملی کہ وہ زیادہ اجرت اور رہائش جیسے دوسرے مطالبات بھی کر سکیں۔ بہرحال یہ مطالبات سرمایہ داری کے اصولوں کے خلاف جاتے ہیں۔ نام نہاد ’’اخراجات میں کمی‘‘ اور ’’ادائیگی کرنے والے صارفین‘‘ کو ترجیح دینے جیسی پالیسیوں کے تحت لاکھوں ایسے گھروں کو بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا گیا جو ان کی قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایک ایسی معیشت جس کی بنیاد ہی سیاہ فام محنت کشوں کی وافر اور سستی قوت محنت پر تھی، اس پر ایسے اقدامات کے اثرات محنت کشوں کے علاقوں میں احتجاجی مظاہروں میں بڑے پیمانے پر اضافے کی شکل میں نظر آئے۔
اس سب کا اظہار سیاسی میدان میں بھی ہوتا نظر آیا۔ 07۔2005ء کے دوران ANC میں عام کارکنان کی جانب سے بغاوت اٹھنے لگی جس کا مقصدANC حکومت کی سمت اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو تبدیل کرنا تھا۔ اس شدید دباؤ کی وجہ سے ANC یوتھ لیگ، SACP اور COSATU یونینز میں بائیں بازو کا اتحاد قائم ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2007ء میں ہونے والی پولکوانی کانفرنس میں تھابو امبیکی کی سرمایہ نواز قیادت کا خاتمہ کر دیا گیا۔
2008ء میں عوامی تحریک کی موجودگی میں عالمی معاشی بحران بھی آ گیا۔ یہ جنوبی افریقہ کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا اور سال 2008ء کے آخر اور 2009ء کے شروع میں تقریباً 20 سال بعد پہلی مرتبہ معاشی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ مسلسل تین سہ ماہیوں کے دوران جی ڈی پی میں گراوٹ نظر آئی، 2008ء کی آخری (منفی 2.3 فیصد) اور 2009ء کی پہلی (منفی 6.1 فیصد) اور دوسری (منفی 1.4 فیصد) سہ ماہی۔
معاشی سست روی کی اثرات فوری طور پر نظر آنے لگے۔ سال 2008ء کی آخری سہ ماہی کے دوران کان کنی کی صنعت میں ریکارڈ 33 فیصد کمی ہوئی۔ پیداواری شعبے کا حجم 22 فیصد تک سمٹ گیا۔ صارفین کے اخراجات میں 5 فیصد کمی آئی، جو گزشتہ 13 سالوں کی بلند ترین سطح تھی۔ 2009ء کے پہلے چار ماہ میں کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کی شرح میں 47 فیصد اضافہ ہوا اور گھریلو قرضوں میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سب کی قیمت محنت کشوں کو فوری طور پر دس لاکھ سے زیادہ نوکریوں سے ہاتھ دھو کر چکانی پڑی۔
طبقاتی جدوجہد اور محنت کشوں کے جارحانہ موڈ نے سیاسی منظر نامے کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ ANC طبقاتی خطوط پر تقسیم ہونے لگی۔ 2008ء میں تھابو امبیکی کی صدارت کے خاتمے کے بعد لبرلز کا ایک دھڑا علیحدہ ہو گیا اور اس نے دائیں بازو کی جماعت عوامی کانگریس (Congress of the People) بنا لی۔ لیکن حالات کا جھکاؤ بائیں جانب زیادہ تھا۔ پولکوانی میں بننے والاSACP ، COSATU اور ANC یوتھ لیگ کا اتحاد بکھرنے لگا۔ ’’کمیونسٹ‘‘ لیڈران جیکب زوما کی نئی بننے والی حکومت میں بطور وزراء اور ممبر پارلیمنٹ شامل ہوگئے اور جہاں انھوں نے حکومت کی سرمایہ دارانہ پالیسوں کو جاری رکھا۔ COSATU یونین میں بھی ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور میٹل ورکرز یونین NUMSA نے COSATU سے نکالے جانے کے بعد اپنی علیحدہ فیڈریشن بنا لی۔ ANC یوتھ لیگ سے نکالے جانے والے رہنماؤں، جن میں جولیس مالیما بھی شامل تھا، نے اکنامک فریڈم فائیٹرز(EFF) کے نام سے ایک اور پارٹی بنا لی۔ اس طرح سابقہ آزادی کی تحریک دائیں اور بائیں بازو کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔
حکمران طبقے پر اثرات
اس سب کے حکمران طبقے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ پچھلی دو دہائیوں سے بڑے سرمایہ دار ANC کے لیڈران کے ذریعے سماج پر بالواسطہ طور پر حکومت کرتے رہے۔ 50ء کی دہائی سے اب تک ANC کو سیاہ فام عوام کی مکمل حمایت حاصل تھی اور حکمران طبقے کے لیے ضروری تھا کہ ANC کو جب تک ممکن ہو قائم رکھا جائے تاکہ عوام کو دبا کے رکھا جا سکے۔ لیکن محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی مصالحت کروانا کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ بالآخر ANC کی بطور حکمران جماعت یہ سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہی تھیں جو اب اسے چیر پھاڑ رہی ہیں۔
روایتی سرمایہ دار طبقے، جو بڑے منافع بخش کاروبار سمیٹے ہوئے ہے، اور صدر زوما کے گرد نو زائیدہ حکمران طبقے اور گپتا خاندان، جو حکومتی ٹھیکوں میں بدعنوانی سے دولت سمیٹ رہے تھے، کے درمیان بھی ایک بہت بڑی تقسیم پھوٹ پڑی ۔ حالیہ وقتوں میں جب معیشت سست روی کا شکا ہوئی تو بڑے سرمایہ داروں نے حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ مطالبہ نو مولود سرمایہ داروں پر گراں گزرا جنہوں نے ریاستی پیسہ لوٹ کت کافی تگڑے ہوچکے تھے۔ نتیجتاً حکمران طبقے میں بہت بڑے تضادات پیدا ہونے لگے جنہوں نے پچھلے کچھ سالوں سے جنوبی افریقہ کی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ!
اسی دوران رامافوزا عملی سیاست میں واپس آ گیا۔ 2012ء میں اسے مانگاؤنگ میں ANC کا نائب صدر چن لیا گیا۔ دسمبر میں زوما کے امیدوار کو شکست دے کر وہ ANC کا صدر بن گیا۔ حکومتی پارٹی کا لیڈر اب براہ راست بڑے سرمایہ داروں کا نمائندہ ہے اور وہ خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محنت کش طبقے کو چوکنا رہنا ہو گا۔ یہ متحرک ہونے کا وقت ہے۔ رامافوزا کی صدارت کا مطلب حکمران طبقے کے مفادات کا زیادہ بہتر اور شعوری انداز میں تحفظ ہو گا اور وہ بھی زوما کی کھلی اور بدنام زمانہ لوٹ مار کے بغیر۔ بڑے سرمایہ دار اپنے پاؤں جمانے اور معیشت کی بحالی کے لیے کوشاں ہوں گے۔ اور یہ سب صرف محنت کشوں پر مزید حملوں کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
ابھی سے ہی وہ لیبر قوانین میں تبدیلیوں کی تیاری کر رہے ہیں اور یہ محنت کش طبقے پر براہ راست حملہ ہے۔ دو قوانین محنت کشوں سے ہڑتال کا حق چھیننے سے متعلق ہیں۔ ان میں ہڑتال کے لیے رائے شماری اور ’’مشاورتی ثالث پینل‘‘ بنائے جانا شامل ہے جن سے مالکان مزدوروں سے بات چیت کیے بغیر براہ راست رجوع کر سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس پینل کے فیصلے کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ حکومت شدید کٹوتیوں پر مبنی بجٹ بھی پیش کرنے والی ہے۔ یہ محنت کشوں کے خلاف اعلان جنگ ہو گا۔
بہرحال یہ سب کہنا آسان ہے لیکن کرنا اتنا آسان نہیں۔ محنت کش طبقہ کبھی بھی بے جگری سے لڑے بغیر اپنے ہڑتال کے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔ رامافوزا کا پہلا کام حالات کو مستحکم کرنا ہے۔ حکمران طبقہ ابھی بھی متزلزل زمین پر کھڑا ہے۔ معاشی استحکام کی کوئی بھی کوشش ناگزیر طور پر معاشرتی اور سیاسی عدم استحکام کی جانب لے جائے گی۔ رامافوزا سے جڑی پیٹی بورژوا خوش فہمیاں طبقاتی کشمکش کی بھڑکتی آگ میں بھسم ہوجائیں گی۔
جنوب افریقی سرمایہ داری شدید بحران کی کیفیت میں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ 90ء کی دہائی میں طے پانے والا CODESA کا وہ معاہدہ تھا جس نے محنت کشوں کی تحریک کو انقلابی راستے سے بھٹکا دیا۔ اب 25 سال بعد ANC منڈیلا کے دور میں حاصل ہونے والا اخلاقی اور سیاسی اثر ورسوخ بھی کھو چکی ہے۔ جہاں پر بڑے سرمایہ داروں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کا من پسند امیدوار دسمبر میں ANC کا صدر بن گیا ہے، وہیں پر انھیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اب پارٹی میں محنت کشوں کی تحریک کو دبانے کی پہلے سی سکت موجود نہیں رہی۔ ایک بڑی جنگ سامنے کھڑی ہے۔ پارٹی کا یہ بحران بذات خود سرمایہ داری کے بحران کی عکاسی کر رہا ہے۔ اس کے پورے معاشرے پر انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔