گذشتہ دو ہفتوں سے دیوہیکل عوامی احتجاجوں کی لہر ایران بھر کے شہروں اور قصبوں میں پھیل چکی ہے۔ غربت، مہنگائی، افلاس کے ساتھ ساتھ ایرانی اشرافیہ بالخصوص ملا اشرافیہ کی دولت اور کرپشن کے خلاف پنپتا غم وغصہ خودرو انداز میں پھٹ پڑا۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق، ان احتجاجوں میں 21 کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ 1700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ واشنگٹن سے لے کر لندن تک مغربی لیڈروں نے ایرانی عوام کے انسانی حقوق کے ’دفاع‘ میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔
وہی ڈونلڈ ٹرمپ جو رجعتی سعودی بادشاہت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، نے ایران کے معاملے پر اپنے منفرد انداز میں لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا دیکھ رہی ہے!‘‘ اور ایرانی عوام کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’’ آپ مناسب وقت پر امریکہ کی طرف سے عظیم مدد آتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔ کینیڈا کے خارجہ امور کے وزیر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ایرانی حکومت جمہوری اور انسانی حقوق کا احترام کرے‘‘۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے انسانی جانوں کے ضیاع پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی پاسداری پر زور دیا۔
کچھ تاخیر کے بعد یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ موگیرینی اور فرانسیسی صدر میکرون بھی جمہوری حقوق کے دفاع کی ڈگڈگی بجاتے میدان میں کود پڑے۔ 2 جنوری کو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے بتایا کے امریکہ، ایران میں احتجاج کرنے والوں کی اموات پر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین کی مسلط کردہ سنگین اقتصادی پابندیاں
دہائیوں سے امریکہ اور یورپی طاقتوں نے ایران پر ظالمانہ (معاشی و اقتصادی) پابندیوں کی پالیسی اپنائے رکھی جو کہ 2012ء میں شدت اختیار کرتے ہوئے مکمل تجارتی پابندیوں تک پہنچ گئی، ایسی صورتحال میں مغربی لیڈروں کی حمایت کی بیان بازیاں کسی کام نہ آئیں گی بلکہ ایران کی سراپا احتجاج عوام کو مزید اشتعال دلانے کا سبب بنیں گی۔
عین عالمی معاشی بحران کے ہنگام میں، ان پابندیوں میں حالیہ شدت نے ایرانی معیشت میں ایک گہرے بحران کو جنم دیا۔ ایران کی سب سے کلیدی تیل کی صنعت سے برآمدات کا حجم 2.5 ملین سے سکڑ کر 1ملین بیرل یومیہ رہ گیا۔ آٹو موبائل سیکٹر، جو کہ ایران کی دوسری بڑی صنعت ہے، کی پیداوار 60 فی صد تک گر گئی۔ اس عرصہ میں ایرانی معیشت میں غیر معمولی گراوٹ دیکھنے میں آئی اور مارچ2012ء سے مارچ 2014ء تک محض دو سالوں میں ، کم ہوتی تیل کی پیداوار، فیکٹریوں اور نجی شعبے کی بندش کے سبب ایرانی معیشت اپنے 9 فیصد تک سکڑ گئی۔
2014ء تک آتے آتے بیروزگاری کی شرح 20 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح اس سے نہیں زیادہ بلند تھی۔ لاکھوں محنت کشوں کو ان پابندیوں کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے زبرستی نوکری سے برخاست کر دیا گیااور اس سے کہیں زیادہ کئی ماہ کی بغیر اجرت کے محنت کرنے پر مجبور تھے۔
روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسے بجلی، تیل، پانی، گندم، اور خوردنی تیل کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں۔ ادویات اور طبی آلات تک رسائی بری طرح سے محدود ہو کر رہ گئی اور آبادی کی وسیع اکثریت کیلئے بیماری کے باوجود علاج ایک خواب بن کے رہ گیا۔ ایران کے مسافر طیاروں کا بیڑہ ضروری پرزوں کی کمی کا شکار ہوگیا جس سے ایران سے اڑان بھرنے والی پروازوں کے حفاظتی اقدامات بری طرح متاثر ہوئے۔
متوسط طبقے کی وسیع پرتیں مکمل طور پر برباد ہو گئیں اور ان کے کاروبار ڈوب گئے اور ان کی جمع پونجیاں بے وقعت ہوکر رہ گئیں۔ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ اس پابندیوں کی شکار حکومت کا ایرانی عوام کی طرف رویہ بھی انتہائی تباہ کن اور ذلت آمیز تھا۔ ان پابندیوں کا مقصد ایران کو اطاعت پر مجبور کرنا تھا، جس کی حدت سب سے پہلے محنت کشوں، غریبوں اور درمیانے طبقے نے محسوس کی۔ یہی وجہ ہے کے آج یہ پرتیں ایران کے گلی کوچوں میں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔
افراطِ زر، غربت اور بیروزگاری کے خلاف پھوٹنے والے عوامی مظاہروں کی جانب مغربی لیڈروں کی ہمدردی اور حمایت ننگی منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ وہی طاقتیں ہیں جو محض ایران اور مشرق وسطیٰ میں اپنی دھونس اور غلبہ جمانے کے مقصد کے تحت ایرانی عوام کو معاشی محرومی اور مفلسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں۔
2015ء کے جوہری معاہدہ کے بعد یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپی طاقتیں مذکورہ پابندیاں ہٹا لیں گے۔ کچھ مخصوص پابندیاں ہٹائی بھی گئیں جن سے تیل کی برآمدات میں اضافہ ممکن ہوا۔ تاہم، بہت سی پابندیاں بالخصوص امریکہ کی جانب سے تاحال برقرار ہیں۔
یاد رہے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی نعروں میں ایک نعرہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرتے ہوئے جارحانہ معاشی اور عسکری پالیسیوں کی یلغار کرنا بھی تھا۔ صدارت کے منصب پر براجمان ہوتے ساتھ ہی موصوف نے 2015ء کے معاہدے کے باوجود ایران پر کئی غیر جوہری پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں۔اس کے نتیجے میں ایران میں بیرونی سرمایہ کاری تعطل کا شکار ہوگئی جس کی معادے کے بعد امید کی جارہی تھی۔
امریکی جارحیت
ٹرمپ کی ان احتجاجوں کیلئے ’’ہمدردی‘‘ کے پیچھے ان پابندیوں کو بحال رکھنے اور مزید سخت کرنے کا جواز مہیا کرنے کے عزائم پوشیدہ ہیں۔ گذشتہ اکتوبر میں ٹرمپ پہلے ہی ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی دے چکا ہے، جس کا فیصلہ آنے والے چند ہفتوں میں ہوگا۔ اگر وہ(ٹرمپ) ایران کی معاہدے سے پاسداری کی توثیق نہیں کرتا تواس کے نتیجے میں نئی پابندیوں عائد کی جاسکتی ہیں۔ 5 جنوری کو ٹرمپ کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بلایا جانے والا ہنگامی اجلاس بھی ایران کے خلاف مغربی مداخلت مزید بڑھانے کی ایک مذموم کوشش تھی۔
لیکن یہ احتجاج تو پھوٹے ہی ایرانی عوام کی معاشی بد حالی کی وجہ سے ہیں، جن میں ٹرمپ مزید شدت لانا چاہتا ہے۔ ایرانی عوام مغربی سامراج کی مسلط کردہ یہ مجرمانہ پابندیاں بھولے نہیں اور نہ ہی انہیں بھولنا چاہیے۔ وہ مغربی لیڈر جو ایرانی عوام کے حق میں ٹسوے بہا رہے ہیں حقیقت میں ان کو ایرانی عوام کی بدحالی سے کوئی سروکار نہیں۔
(ٹرمپ کی معاہدہ منسوخی کی دھمکی نے) برطانیہ اور فرانس جیسے امریکہ کے یورپی اتحادیوں کو بھی شش و پنج میں ڈال دیا ،جنھوں نے ٹرمپ کو معاہدہ منسوخ کرنے اور ایران کے خلاف مزید تادیبی کاروائیوں سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ اس کے باوجود، وہ امریکہ کے ایران کے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا موجب بننے اور جمہوری حقوق کے متعلق بھاشن کا حصہ بنے۔ یہ ہے ان مغربی طاقتوں کی منافقت ، جنہوں نے خطے میں ایک بعد دوسری جنگ مسلط کی۔ بلاشبہ ایرانی ریاست بھی اس منافقت کو احتجاج کناں عوام کو اپنی حاکمیت کو چیلنج کرنے سے روکنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی۔
امریکہ اور اتحادی‘ ایرانی حکومت کی تبدیلی کے لئے کوشاں
امریکہ پچھلے پندرہ سالوں سے مشرق وسطیٰ میں مسلسل مداخلت کی ناکامی کے بعد پسپائی کا شکار ہے۔ عراق پر چڑھائی اور قبضے نے عراقی فوج کو تباہ کر دیا جو کہ خطے میں ایرانیوں کے مدمقابل ایک قوت کے طور پر موجود تھی۔ اس کے نتیجے ایرانی حکومت خطے بالخصوص عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہوئی۔ جوابی حربے کے طور پر امریکہ اور اور اس کے اتحادیوں نے شامی انقلاب کو انتہا پسند سنی قوتوں کے ذریعے ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ لیکن شامی مہم جوئی بھی الٹا امریکہ کے گلے پڑگئی، جو نہ صرف شکست کا موجب بنی بلکہ اس کے نتیجے میں خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی۔
خطے میں امریکہ کی تباہ کن مداخلتوں نے امریکہ کے مطلوبہ اثرات کے خلاف نتائج دیئے اور نتیجتاً امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مزید کمزوری سے دوچار ہوئے اور ایران کے علاقائی اثرورسوخ میں مزید اضافہ کا سبب بنیں۔ امریکہ، بالخصوص سعودی اور اسرائیلی ایران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے خائف ہیں اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے حربے آزما رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب،ترکی اور اسرائیل ایران کی مظلوم قومیتوں میں قومی بنیادوں پر تناؤ پیدا کرنے کی کوششیں کرتے آئے ہیں۔
تاہم، عدم استحکام پیدا کرنے کی یہ کوششیں موجودہ صورت حال میں کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں لیکن بعد میں آنے والی کسی مرحلہ پر یہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایران ایک سنجیدہ علاقائی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، اور وہ عہد جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی جو چاہے کرسکتے تھے، اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ حالیہ عوامی تحریک سے متعلق ان کی بیان بازی ایران میں قدم جمانے کی ایک کوشش ہے جس کے پیچھے ان کا واضح ہدف موجودہ تحریک کو ہائی جیک کرتے ہوئے اسے رجعتی سمت میں دھکیلنا ہے۔
ان کوششوں میں امریکہ اور اتحادیوں کو اس وقت دو گماشتے دستیاب ہیں۔ ایک تو رضا پہلوی ہے ، جو کہ برطانیہ اورامریکہ کی پروردہ بادشاہت کا آخری وارث ہے جس کو 1979ء کے انقلاب کے دوران بیدخل کیا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو ایرانی حزب اختلاف کی ’’متحدہ آواز‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایرانی حکومت گرانے کیلئے اس نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی ہے۔ بی بی سی ریڈیو کو دیے جانے والے حالیہ انٹرویو میں اس نے موجودہ حکومت کے انہدام کے بعد ایران میں ایک ’’آئینی بادشاہت‘‘ کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن (PMOI ) بھی مغربی سامراج کی توجہ اور حمایت حاصل کر رہی ہے۔ یہ ایک رجعتی اسلامی دہشت گرد تنظیم ہے جو سالوں سے عراق میں اپنا سیٹ اپ رکھتی تھی۔ اس گروپ نے ایران۔عراق جنگ میں صدام حکومت کے ساتھ کام کیا اور اس کے بعد کھلم کھلا مغربی سامراج کی حمایت کا خواہاں رہا ہے۔ اس گروپ کے سعودی عرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کے شواہد موجود ہیں۔ PMOI کوکچھ ہی عرصہ قبل 2009ء میں یورپی یونین اور 2012ء میں امریکی دہشت گردوں کی لسٹ سے خارج کیاجاچکا ہے۔ ان کو نا صرف ریپبلیکن بلکہ ڈیموکریٹ پارٹی کی نمایاں شخصیات میں بھی خاصی حمایت حاصل ہے اور اس ماہ ان کو ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے لئے بھی بلایا گیا۔ ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس گروپ کے کئی ممبران کو پچھلے چند ہفتوں کے دوران سبوتاژ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
دریں اثنا، بہت سے امریکی اور یورپی میڈیا گروپس کی جانب سے ایک جارحانہ پراپیگنڈہ مہم شروع کی جا چکی ہے جس کا ہدف ایرانی عوام ہیں۔ مانوٹو(Manoto)، وائس آف امریکہ(VOA ) اور بی بی سی فارسی جیسے ٹی وی چینلز، جو ( ایرانی حکومت کی جانب سے سنسرشپ) کی وجہ سے خاصے مقبول ہیں، کی ایران میں حکومت کی تبدیلی اور مغربی طاقتوں اور ان کی پراکسیوں کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
خوش قسمتی سے مغرب کی پروردہ یہ طاقتیں ایران میں زیادہ اثرو رسوخ نہیں رکھتیں۔ تاہم، وہ اس عوامی تحریک پر اثر انداز ہونے اور اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔ اس لئے یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ عوامی تحریک سامراج کی حمایت یافتہ ان رجعتی قوتوں کو رد کرتے ہوئے انہیں پرے دھکیل دے۔
ایرانی حکومت کے تمام دھڑے اس عوامی تحریک کو مغربی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔در حقیقت، یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ اب بھی عوام کی وسیع تر پرتیں امریکی سامراج کے ہاتھوں مہرہ بننے کے ڈر سے اس تحریک میں شمولیت سے گریزاں ہیں۔
سامراجی حمایت‘ تحریک کے لئے زہرِقاتل
مغربی سامراج کاایران اور مشرق وسطیٰ کے عوام کے خون سے داغدار ماضی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کے وہ اپنی حکومت کے خلاف جدوجہد میں سرگرداں ایرانی عوام کیلئے کسی قسم کا کوئی ترقی پسند کردار ادا نہیں کر سکتے۔ پوری بیسویں صدی پر محیط برطانوی اور امریکی سامراج کی ایران میں لوٹ مار اور خونی مداخلت، جس میں امریکی حمایت یافتہ 1953ء کا کُو، ایرانی بادشاہت کی پشت پناہی اور صدام کی ایران پر چڑھائی (بشمول کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی) شامل ہیں، سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ حالیہ معاشی جنگ غربت اور بدحالی کی شکار عوام کی جانب سامراجیوں کے غلیظ اور خونی رویے کو بے نقاب کرتی ہے۔
عراق، لیبیا اور شام میں امریکی سامراج کی مداخلت کا واحد نتیجہ فرقہ وارانہ خون ریزیوں اور بڑے پیمانے پر غربت کی صورت میں نکلا ہے۔ مغربی سامراج کی مداخلت ایران پر صرف رجعتی اثرات ہی ڈال سکتی ہے۔ امریکی،کینیڈین اور یورپی سامراج کے (سامراجی اور غلیظ) کردار کے متعلق کسی بھی قسم کا ابہام ایرانی محنت کشوں اور نوجوانوں کی معاشی پابندیوں کے خاتمہ ، جمہوری حقوق کے حصول اور بدعنوان آمرانہ حکومت کے خاتمہ سے وابستہ امیدوں پر صرف پانی ہی پھیر سکتا ہے۔
ایرانی حکومت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کے عوامی جذبات مغربی سامراج کے خلاف ہیں۔ درحقیقت موجودہ ایرانی حکمرانوں کی حاکمیت کا اہم ترین ستون ہی امریکی سامراج کا مسلط کردہ بیرونی خطرہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ ایرانی حکومت اپنے آپ کو خطے میں سعودی اور امریکی سامراج کے پروردہ رجعتی گروہوں کے خلاف ایک سامراج مخالف قوت کے طور پر پیش کرنے کا تاثر دیتی رہی ہے۔
خامنہ ای اس تحریک کے ابھار کے پیچھے ’’ایران کے دشمنوں‘‘ کی دولت، ہتھیاروں اور انٹیلی جنس کے کار فرما ہونے کا ڈھونڈورا پیٹ رہا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں ایرانی ایلچی نے بھی ٹرمپ اور مغربی طاقتوں کو ایران کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا مورد الزام ٹھراتے ہوئے جارحانہ جواب دیا۔ ’’اصلاح پسند‘‘ سیاستدان، جو حکمران اشرافیہ کا ہی حصہ ہیں، خاص طور پر احتجاج کرنے والوں کی طرف جارحانہ رویہ رکھنے میں پیش پیش ہیں اور حالیہ ہلچل کی واحد وجہ مغربی طاقتوں کے عمل دخل کو ہی گردانتے ہیں۔
حقیقت میں بلاشبہ ایران کی ملا حکومت کسی بھی زاویہ سے سامراج مخالف نہیں ہے۔ اس کے برعکس افغانستان اور عراق میں ایران اور امریکہ کئی موقعوں پر ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں۔ عراق میں امریکہ کو داعش اور دوسرے سنی انتہا پسندوں سے مقابلے کیلئے ایرانی حمایت یافتہ قوتوں کے ساتھ الحاق کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ یہ شیعہ ملیشیا، ایرانی فوجی اور پیرا ملٹری دستے ہی وہ واحد قابل بھروسہ قوت ہے جنہوں نے عراق کا شیرازہ بکھرنے سے روک رکھا ہے۔ ایران کی مدد کے بغیر عراق میں شکست خوردہ امریکی فوج کو اس سے کہیں زیادہ قیمت چکانا پڑتی۔
ایران نے افغانستان پر قبضے کے دوران طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں امریکہ کی مدد کی۔ اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حامد کرزئی کی حکومت کے نہ صرف امریکہ اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے بلکہ اسے ان دونوں ممالک کی حمایت بھی حاصل تھی۔ دونوں ممالک نے اس حکومت کی مالی امداد بھی کی۔ شام میں بھی ایران نے کئی موقعوں پر امریکی سامراج کے ساتھ معاہدوں کی پیش کش کی۔ ایرانی حکومت کی مغربی سامراج کے خلاف ’’لڑائی‘‘ محض سامراجی لوٹ مار میں ساتھ مل کر اپنا حصہ لینے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
جب تک ایران پر سامراجی جارحیت کی یلغار جاری ہے بلاشبہ ایران کا حکمران ٹولہ عوام کی ایک پرت کی حمایت حاصل کر سکتا ہے۔ اپنے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے امریکی، اسرائیلی اور سعودی مداخلت نے عوام کی کچھ پرتوں پر برے اثرات ڈالے اور وہ اسی ہچکچاہٹ میں اس تحریک سے دور رہے جس کے نتیجے میں تحریک کمزور ہوئی۔
ایران کے انقلابیوں کے لیے آنے والے وقت میں یہ ایک واضح سبق ہے۔ عوام امریکی سامراج یا کسی بھی حکمران طبقے پر کسی بھی صورت بھروسہ نہیں کر سکتے۔ انہیں صرف اپنی قوت بازو پر انحصار کرنا ہو گا۔ اس تحریک کو تنہائی میں بکھرنے سے بچانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے محنت کشوں کے ساتھ جوڑا جائے۔
مغربی سوشلسٹوں اور مزدور تحریک کا یہ فرض بنتا ہے کہ ایران میں ہر قسم کی فوجی مداخلت، معاشی پابندیوں، سفارتی حربوں اور خفیہ کاروائیوں کی کھل کر مخالفت کرے۔ مغربی سامراج کے عزائم کو مزدور تحریک کے سامنے بے نقاب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مغرب کے محنت کش اور نوجوان ایران کی اس عظیم جدوجہد کے ساتھ فطری طور پر یکجہتی اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔ اس تحریک کو مہمیز دینے والے بہت سے مسائل، جن میں غربت، بیروزگاری، بدعنوانی اور معاشی ناہمواری شامل ہیں، صرف ایران کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسائل ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایرانی عوام کے ساتھ طبقاتی جڑت بناتے ہوئے اپنی سامراجی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو تیز کریں۔ ساتھ ہی ساتھ انٹرنیشنلسٹ ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایرانی محنت کشوں اور نوجوانوں کی طرف رجوع کرتے ہوئے ایک انقلابی مارکسی تنظیم تعمیر کرنے کی کوششوں کو تیز کریں جو مستقبل میں ایرانی انقلاب کی قیادت کرسکے۔