1917ء میں برپا ہونے والا انقلاب روس بلاشبہ انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ تھا۔ 1871ء میں صرف دو ماہ کیلئے قائم رہنے والے پیرس کمیون کو چھوڑ کر انقلاب روس تاریخ کا وہ پہلا واقعہ تھا جس میں کروڑوں محنت کشوں نے نوجوانوں اور چھوٹے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور اجتماعی ملکیت کی بنیادوں پر ایک غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنے کی شعوری کوشش کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس میں فروری 1917ء میں جنم لینے والی انقلابی تحریک حتمی تجزئیے میں پہلی عالمی جنگ کی تباہی، شدید معاشی وریاستی بحران، بے انتہا غربت اور بدحالی جیسے معروضی عوامل کی پیداوار تھی لیکن اکتوبر 1917ء میں انقلاب کی کامیابی ان معروضی حالات کا خودرو نتیجہ ہر گز نہ تھی۔ یہ انقلابی تحریک بھی دیگر بے شمار عوامی بغاوتوں کی طرح ضائع ہو جاتی اگر اس کی قیادت کرنے کیلئے بالشویک پارٹی موجود نہ ہوتی۔ وہ بالشویک پارٹی جس کا خالق، نظریہ دان اور سیاسی قائد لینن تھا۔ بلاشبہ انقلاب کے دوران بالشویک پارٹی کے ہزاروں کیڈرز اور دیگر کئی قائدین نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا، لیکن تمام تر تاریخی شواہد اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ لینن اور ٹراٹسکی(خاص طور پر اول الذکر) کے بغیر انقلاب کی کامیابی نا ممکن تھی۔ اسی طرح انقلاب سے پہلے کے طویل عرصے میں انقلابی پارٹی کی تعمیر کے ہر مرحلے میں ہمیں لینن کا بطور نظریہ دان، سیاسی قائد اور منتظم ایک کلیدی کردار نظر آتا ہے۔ انقلاب روس اور اس کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی دنیا کی تاریخ لینن کے ذکر کے بغیر بالکل ویسے ہی ادھوری ہے جیسے جدید یورپ کی تاریخ نپولین کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ بلا شبہ مارکس اور اینگلز کو آج تک میسر آنے والا سب سے بہترین شاگرد تھااور مارکسزم کو عمل میں ڈھالنے کے اپنے ہنر کی بدولت دنیا بھر کے محنت کشوں کا عظیم استاد۔ لیکن لینن کو یہ مقام کیونکر حاصل ہوا؟ کیا اس میں کچھ ایسی پیدائشی صفات تھیں جو کسی اور میں نہیں ہو سکتیں یا پھر اس کے پاس کوئی ایسا خفیہ جادوئی منتر تھا جس کا صرف اسے ہی علم تھا۔ کچھ ایسا تو ہر گز نہ تھا پھر لینن کی عظمت اور اس کے تاریخی مقام کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب کھوجنا ہی اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے اور یہی وہ خراج تحسین ہے جس کا لینن حقدار ہے۔
لینن کے بارے میں لکھی گئی بورژوا مصنفین کی زیادہ تر تحریریں تو طبقاتی تعصب سے بھرپور لغویات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ لیکن اپنی طبقاتی نفرت کو کئی پردوں میں چھپا کر لکھی جانے والی چند ایک نام نہاد سنجیدہ کتب بھی صرف یہ بیان کر پاتی ہیں کہ لینن تقریباً ہر موقعے پر درست فیصلہ کرنے کے قابل تھا۔ مگر کیسے؟ اس سوال کا جواب نہ تو بورژوا مصنفین کبھی دے پائے ہیں اور نہ ہی کبھی دے سکیں گے۔ دوسری طرف سٹالنسٹوں کی جانب سے لینن پر لکھی گئی کتب میں لینن کو ایک ’’عظیم‘‘ شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے بچپن میں ہی پتہ تھا کہ اس نے کب کیا کرنا ہے۔ ان کتابوں اور مختلف مذہبی شخصیات کی شان میں لکھے گئے قصیدوں میں فرق کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اصل میں لینن کوئی مافوق الفطرت ایسی ہستی نہیں تھی جس سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہونے کا امکان ہی نہ ہو۔ ایسا سمجھنا خود لینن کے عظیم نظریات کی تحقیر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس کے بالکل برعکس لینن اور اس جیسی عظیم شخصیات بھی آخری تجزیئے میں عام لوگوں کی طرح معروضی حالات ہی کی پیداوار ہوتی ہیں مگر سماج کو تبدیل کر دینے کی ان تھک جدوجہد، مشکل حالات سے ٹکرا جانے کی بے دھڑک برجستگی اور سب سے بڑھ کر زندگی میں زندگی سے کچھ بڑا کر گزرنے کی جستجو کے بلبوتے پر وہ دقیق فلسفیانہ نکتہ نظر کو اپنے احساس اور ادراک میں جذب کر لینے کی غیر معمولی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہی غیر معمولی صلاحیت انہیں تاریخی عمل کو سمجھ کر اس میں مداخلت کرنے، اپنی غلطیوں کا بروقت ازالہ کرنے اور نتیجتاً فیصلہ کن حالات میں معروضی دھارے کو یکسر تبدیل کر دینے کا پوٹینشل عطا کرتی ہے جس کا اظہار اکتوبر انقلاب جیسے عظیم واقعات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسی طرح لینن کی زندگی اور خصوصاً اس کی وفات کے بعد سے لے کر اب تک بائیں بازو کے بے شمار سنجیدہ اور جرات مند کارکنان بھی اپنی نیک نیتی کے باوجود لینن ازم کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ حتمی نتائج ہی کو اہم تسلیم کرتے ہوئے انہی پر توجہ مرتکز کرنے کی عمومی نفسیات ہے اور اس چکر میں یہ بالکل فراموش کر دیا جاتا ہے کہ یہ نتائج کس میتھڈ یا طریقہ کار کے ذریعے اخذ کئے گئے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ جہاں ایک طرف تو بذات خود نتائج کی سطحی سمجھ بوجھ کی صورت میں نکلتا ہے، وہیں پر نتائج اپنے سیاق و سباق اور میتھڈ سے کٹ کر مردہ آفاقی فارمولوں کا روپ دھار لیتے ہیں جنہیں آنکھیں بند کر کے ہر موقع پر طوطے کی طرح دہرا دیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ لینن اپنی سیاسی زندگی میں مختلف معاملات کے بارے میں جن نتائج تک پہنچا اور اس نے جو مؤقف اختیار کئے، وہ کسی طرح سے بھی غیر اہم ہیں، لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ لینن کے میتھڈ، اس کے طریقہ کار کو سمجھا جائے جو اسے کسی بھی صورتحال میں درست نتائج اخذ کرنے کے قابل بناتا تھا۔ لینن کا میتھڈ ہی اس کی عظمت کا راز ہے اور یہی لینن ازم کی اساس ہے۔
یہ تحریر لینن کی ذاتی یا سیاسی سوانح عمری نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد بورژوا دانشوروں اور سٹالنسٹوں کی لغویات کا جواب دینا ہے۔ اس کا اصل مقصد طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کشوں، نوجوانوں اور بائیں بازو کے کارکنان کو لینن کے میتھڈ سے روشناس کرانا ہے۔ یہ ایک بہت وسیع اور پیچیدہ موضوع ہے لہٰذا مصنف کی گزارش ہے کہ نہ تو اس تحریر کو حرفِ آخر سمجھنے کی غلطی کی جائے اور نہ ہی یہ گمان کیا جائے کہ محض ایک مختصر تحریر کے ذریعے لینن کے طریقہ کار کو مکمل طور پر سمجھ کر اس پر عبور حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے جہاں ایک طرف ہیگل، مارکس، اینگلز، بذات خود لینن اور ٹراٹسکی کی تحریروں کا بغور مطالعہ ضروری ہے، وہیں دنیا کو بدل دینے کی جدوجہد میں عملی شمولیت بھی ایک کلیدی کردار رکھتی ہے۔ علم اور عمل کے اس جدلیاتی تال میل کے بغیر لینن کے نظریاتی و سیاسی کام کو حفظ تو کیا جا سکتا ہے پر سمجھا نہیں جا سکتا۔
لینن ازم۔۔۔ جدلیاتی طریقہ کار کا شاہکار
مارکسزم کا جوہر کیا ہے؟ بظاہر سادہ نظر آنے والے اس سوال کا جواب دینا اتنا آسان نہیں۔ مارکس اور اینگلز کے دور سے لے کر اب تک بائیں بازو سے وابستہ کارکنان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے پر نظریاتی ابہام کا شکار رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ تاریخ، سیاسی معاشیات اور سماجیات کے بارے میں مارکسزم کے حاصل کردہ نتائج کو ہی مارکسزم کا جوہر سمجھتے ہیں۔ ان سب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مارکسزم کی روح اس کے نتائج میں نہیں بلکہ اس فلسفیانہ طریقہ کار میں ہے جس کے ذریعے یہ نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔ مارکسزم کی اساس اور اس کا حقیقی جوہر وہ جدلیاتی طریقہ کار ہے جسے اس کی جدید شکل میں عظیم فلسفی ہیگل نے پروان چڑھایا لیکن یہ مارکس تھا جس نے جدلیاتی میتھڈ کو ہیگل کی عینیت پسندی سے آزاد کراتے ہوئے اسے مادی بنیادیں عطا کیں۔ مارکس کی ’’داس کیپیٹل‘‘ سے لے کر اینگلز کی ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ تک، مارکسزم کی تمام کلاسیکی تصانیف کی بنیاد جدلیاتی مادیت کے اس فلسفے پر ہے۔ اس جدلیاتی طریقہ کار پر گرفت حاصل کئے بغیر نہ تو مارکسزم کو حقیقی معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی عملی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے لینن پا گیا تھا۔ جدلیاتی طریقہ کار پر عبور اور اس کا ماہرانہ تخلیقی استعمال ہی وہ عنصر تھا جس کی بدولت لینن تاریخ میں بے نظیر مقام رکھتاہے۔ لیکن آخر یہ جدلیاتی طریقہ کار ہے کیا؟
’’اینٹی ڈوہرنگ‘‘ میں اینگلز لکھتا ہے:
’’جدلیات؛ فطرت، انسانی سماج اور شعور کی حرکت اور ارتقا کے عمومی قوانین کی سائنس ہے۔‘‘
اسی طرح اینگلز جدلیاتی منطق کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے جدلیات کے تین بنیادی اصول وضع کرتا ہے:
1۔ مقدار کی معیار میں تبدیلی اور اس کے برعکس۔
2۔ ضدین کا اتفاق اور باہمی انضمام
3۔ نفی کی نفی
لیکن سوال جدلیاتی طریقہ کار کے اس بنیادی خاکے کو زبانی یاد کر کے طوطے کی طرح دہراتے رہنے کا نہیں ہے۔ بہت سے پروفیسر حضرات نے یہ کام کیا ہوا ہے لیکن وہ جدلیات کی سمجھ بوجھ میں بالکل کورے ہیں۔ اصل کمال تو یہ ہے کہ جدلیاتی طریقہ کار کو اس کی کلیت میں لیتے ہوئے استعمال میں لایا جائے اور اس استعمال کے نتیجے میں طریقہ کار کی سمجھ بوجھ میں پیدا ہونے والے نکھار سے واپس اس (طریقہ کار) کے استعمال کو مزید ٹھوس کیا جائے۔ لینن اس فن کا ماہر تھا۔ روس میں سرمایہ کاری کے ارتقا کی بحث ہو یا پھر انقلابی پارٹی کی ضرورت و اہمیت کا معاملہ، روسی انقلاب میں پرولتاریہ کے قائدانہ کردار پر مؤقف ہو یا پھر پارٹی کی تعمیر کے عملی مسائل، محکوم قومیتوں کا مسئلہ ہو یا پھر زرعی سوال، سامراج کے مظہر کا تجزیہ ہو یا پھر اپریل تھیسس، دوسری انٹرنیشنل کے موقع پرستوں کی مخالفت ہو یا پھر بائیں بازو کے انتہا پسندوں پر تنقید، ماخ کی تجربی تنقید کا جواب ہو یا پھر نوزائیدہ مزدور ریاست کو درپیش مسائل کاحل، لینن کی پوری سیاسی زندگی جدلیاتی طریقہ کار کے ماہرانہ استعمال کی غمازی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹراٹسکی نے لینن ازم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’Leninism is Marxism in action‘‘۔
آئیے لینن کی تصانیف1 اور مختلف مسائل و موضوعات پر لینن کی پوزیشنوں کا جائزہ لیتے ہوئے لینن کے میتھڈ کو ٹھوس انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
روس میں سرمایہ داری کا ارتقا
روس میں نرودنک تحریک کی معاشی رومانویت پسندی کے جواب میں لکھی جانے والی لینن کی کتاب ’’روس میں سرمایہ داری کا ارتقا‘‘ میں ہمیں لینن کے طریقہ کار کی پہلی واضح جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ نرودنک روس میں بورژوا پیداواری رشتوں کی بڑھوتری کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے اور سمجھتے تھے کہ روس سرمایہ داری سے گزرے بغیر ایک یوٹوپیائی ’’مخصوص روسی راستے‘‘ کے ذریعے ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ لینن سے پہلے پلیخانوف بھی اس نرودنک رومانویت پسندی پر لکھ چکا تھالیکن نرودنک نظریات کے مکمل بخیے ادھیڑ دینے کا کام لینن نے ہی کیا۔ مگر کیسے؟ اس نے یہ کام کرنے کیلئے تاریخی مادیت، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں کے متعلق تجریدی بحثوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ انتہائی عرق ریزی سے اکٹھے کئے گئے ٹھوس اعدادوشمار کو اپنے تجزئیے کی بنیاد بنایا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اس نے تجریدی اصولوں کو زبردستی زندہ حقیقت پر لاگو نہیں کیا بلکہ زندہ حقیقت سے اپنے تجزئیے کا آغاز کیا۔ لیکن دوسر ی طرف لینن کی کتاب اعدادوشمار کا ایک بے ہنگم مجموعہ بھی ہر گز نہیں ہے۔ وہ روسی معیشت کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کاٹ کر نہیں دیکھتا اور ایسا نہیں کرتا کہ کسی ایک پہلو پر زور دیتے ہوئے باقی تمام کو نظر انداز کر دے بلکہ صنعت، زراعت اور داخلی منڈی سمیت معیشت کے تمام پہلوؤں کو ایک باہمی ربط میں لاتے ہوئے معیشت کو بطور کل دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ثابت کرتا ہے کہ روسی معیشت کے مختلف شعبوں میں بورژوا ملکیتی رشتوں کا پھیلاؤ مقداری اعتبار سے کم ہونے کے باوجود جب تمام شعبوں میں بورژوا رشتوں کی سرایت کو بطور کل دیکھا جائے تو وہ معیاری اعتبار سے جاگیری اور نیم جاگیری پیداواری رشتوں پر حاوی ہو چکے ہیں۔ روس میں ابھرتی ہوئی سرمایہ داری کا تجزیہ کرتے ہوئے لینن ٹھوس اعداد و شمار کے ذریعے تیزی سے بڑھتے ہوئے نوزائیدہ محنت کش طبقے کے حجم اور دیہاتوں میں امیر کسانوں اور غریب کسانوں کے مابین بڑھتے ہوئے معاشی تفاوت کو سامنے لاتا ہے، یعنی دوسرے الفاظ میں وہ روس میں ارتقا پذیر بورژوا سماج کے بطن میں موجود تضادات کو آشکار کرتے ہوئے مستقبل کی انقلابی حکمت عملی کو مادی بنیادیں عطا کرتا ہے۔
لینن کی یہ تصنیف 1899ء میں اپنی اشاعت کے ساتھ ہی سوشل ڈیموکریٹک حلقوں میں خاصی مقبول ہوئی اور اپنے ٹھوس دلائل کی بدولت نوجوانوں کی ایک وسیع پرت کو فیصلہ کن انداز میں سوشلسٹ نظریات کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
انقلاب روس میں محنت کش طبقے کا کردار
انقلاب روس کا کردار کیا ہو گا اور اس کی قیاد ت کون سا طبقہ کرے گا؟ اس موضوع پر روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں بیسویں صدی کے بالکل اوائل میں ہونے والی بحثیں آج بھی مارکسزم کے کسی طالب علم کیلئے رسمی منطق پر مبنی میکانکی سوچ اور جدلیاتی طریقہ کار کے مابین فرق واضح کرنے کیلئے ایک شاندار مثال ہیں۔ ان سوالات کے حوالے سے روسی سوشل ڈیموکریسی(اور دوسری انٹرنیشنل) میں منطقی طور پر سب سے برتر پوزیشن تو لیون ٹراٹسکی کی تھی جس کا ’’نظریۂ مسلسل انقلاب‘‘ 1917ء میں تاریخ کی کسوٹی پر پورا اترا لیکن یہاں ہمارے پاس جگہ نہیں ہے کہ ہم اس کی تفصیلات میں جا سکیں۔ ابھی ہم لینن کی جانب واپس پلٹتے ہیں۔ اپریل 1917ء سے قبل تک لینن اور منشویک نظریہ دان روسی انقلاب کے بورژوا جمہوری کردار پر اتفاق کرتے تھے لیکن سوال یہ تھا کہ انقلاب میں مختلف طبقات کا کیا کردار ہو گا اور انقلاب کی قیادت کونسا طبقہ کرے گا؟ ان سوالات پر منشویکوں کا میکانکی مؤقف رسمی منطق کی محدودیت کا شاندار نمونہ ہے۔ منشویکوں کا کہنا یہ تھا کہ کیونکہ انقلاب کا کردار بورژوا جمہوری ہو گا، لہٰذا اس کی قیادت بھی بورژوا طبقے کے پاس ہونی چاہیئے اور محنت کش طبقے اور اس کی نمائندہ پارٹی کو بورژوا طبقے کا قائدانہ کردار تسلیم کرتے ہوئے انقلاب میں بورژوازی کے پیچھے چلنا چاہیئے۔ اس کے برعکس لینن نے منشویک مؤقف کو سختی سے رد کرتے ہوئے ’’پرولتاریہ اور کسانوں کی انقلابی جمہوری آمریت‘‘ کا مؤقف پیش کیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انقلاب کا کردار بورژوا جمہوری ہونے کے باوجود انقلابی تحریک کی قیادت بورژوازی نہیں کر سکتی اور یہ فریضہ محنت کشوں اور کسانوں (خصوصاً چھوٹے کسانوں) پر مشتمل ایک اتحاد ہی ادا کر سکتا ہے جس میں قائدانہ کردار پرولتاریہ کا ہو گا۔ لیکن آخر منشویکوں کا مؤقف کیوں غلط تھا؟ اس موضوع پر اپنی بے شمار تحریروں اور مباحثوں میں لینن نے وضاحت کی کہ کس طرح منشویک ہر ایک پہلو سے روسی بورژوازی کی معاشی بنیادوں اور سماجی کردار کا ٹھوس تجزیہ کرنے کے بجائے اصطلاحات کی پرستش کا شکار ہو کر انگلستان اور فرانس کے کلاسیکی بورژوا جمہوری انقلابات میں وہاں کی بورژوازی کی طرف سے ادا کئے گئے ترقی پسندانہ کردار کو زبردستی روس کی صورتحال پر لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں منشویک انگلستان اور فرانس کے انقلابات میں بورژوازی کے کردار کو اس کے تاریخی سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک آفاقی فارمولا بناتے ہوئے ایک مختلف صورتحال پر منطبق کرنے کی غلطی کر رہے تھے۔ جبکہ لینن روسی سرمایہ داری اور بورژوا طبقے کا تمام پہلوؤں سے ایک ٹھوس تجزیہ کرتے ہوئے یہ وضاحت کرتا ہے کہ تاریخی تاخیر زدگی کا شکار روسی بورژوا طبقے کا وجود جہاں ایک طرف بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہیں دوسری طرف قدیم جاگیردارانہ اشرافیہ کے ساتھ بھی ہزاروں تانوں بانوں سے جڑی روسی بورژوازی محنت کش طبقے کو درست طور پر اپنا اولین دشمن سمجھتی ہے اور اس سے محفوظ رہنے کیلئے زار شاہی کو اپنا سب سے قابل اعتماد محافظ مانتی ہے۔ لینن نے یہ بھی وضاحت کی کہ انگلستان اور فرانس کے برعکس روسی بورژوازی، جاگیردارانہ ملکیت کو چیلنج کرنے کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں پرولتاریہ کیلئے بورژوا ملکیت کو چیلنج کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ لینن اس درست مؤقف تک پہنچنے میں کیوں کامیاب ہوا؟ کیونکہ منشویکوں کے برعکس، اس نے مردہ تاریخی تجرید کو زندہ سماج پر زبردستی مسلط کرنے کی بجائے معروض کی زندہ حقیقتوں کو اپنے تجزئیے کا نقطہ آغاز بنایا اور سماج کے مختلف طبقات کے کردار، طبقاتی قوتوں کے توازن، عالمی سرمایہ داری کی کیفیت سمیت تمام پہلوؤں کا ہر ایک رخ سے ٹھوس تجزیہ کرتے ہوئے پوری صورتحال کو ایک مربوط کل کی شکل دی۔ یہی لینن کا طریقہ کار تھا۔ یہی اس کی درستگی کا راز تھا۔
پرولتاریہ کی ہراول پارٹی کا تصور
پیشہ ور انقلابیوں پر مشتمل آہنی ڈسپلن رکھنے والی پرولتاریہ کی ہراول پارٹی کا تصور پیش کرنا بلاشبہ لینن کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ خیال مکمل طور پر نیا نہیں تھا اور ہمیں کمیونسٹ مینی فسٹو سمیت مارکس اور اینگلز کی بے شمار تحریروں میں اس تصور کے ابتدائی خدوخال ملتے ہیں لیکن اس خیال کو نکھار کر ایک ٹھوس شکل عطا کر نے کا کام یقینی طور پر لینن نے سر انجام دیا۔ ’’کیا کیا جائے؟‘‘ اور ’’ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے‘‘ سمیت اپنی کئی تحریروں میں لینن نے پرولتاریہ کی ہراول پارٹی کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے اپنے مؤقف پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اس معاملے پر لینن کا مؤقف اس وقت دوسری انٹرنیشنل میں انقلابی پارٹی کی نوعیت اور کردار کے حوالے سے رائج عمومی نقطہ نظر سے اتنا مختلف اور جدید تھا کہ روزا لکسمبرگ اور لیون ٹراٹسکی جیسے غیر معمولی نظریہ دان بھی فوری طور پر اسے سمجھ نہ پائے اور اس حوالے سے لمبے عرصے تک غلط فہمیوں کا شکار رہے۔ عمومی طور پر پائی جانے والی غلط فہمی کے برعکس، لینن کا ہراول پارٹی کا تصور صرف مخصوص ’’روسی حالات‘‘ کی پیداوار نہ تھا بلکہ روس سمیت دیگر ممالک میں ماضی اور حال میں چلنے والی بے شمار مزدور تحریکوں اور عوامی بغاوتوں کے جدلیاتی تجزئیے کا عمومی نچوڑ تھا۔
1895ء میں اینگلز کی وفات کے بعد مخصوص معروضی صورتحال کے تحت بدترین اصلاح پسندی، برن سٹائن کے تحریف پسندانہ نظریات سے مسلح ہوتے ہوئے، جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں گہری جڑیں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کا اثر ناگزیر طور پر پارٹی کی عمومی سیاسی حکمت عملی پر بھی پڑا۔ پارٹی جہاں ایک طرف بورژوا پارلیمانی سیاست تک ہی محدود ہو کر رہ گئی وہیں ایک قائدانہ سیاسی کردار ادا کرنے کی بجائے محنت کش طبقے کی خودرو تحریک کی اندھی اور غلامانہ پرستش اور پارٹی کو عملی طور پر صرف فوری معاشی مطالبات کی لڑائی تک محدود کر دینے کا نقطہ نظر بھی حاوی ہو گیا۔ روزالکسمبرگ نے اس اصلاح پسندی اور برن سٹائن کے تحریف پسندانہ نظریات کے خلاف ایک ناقابل مصالحت اور قابل تحسین نظریاتی لڑائی لڑی لیکن وہ اس نظریاتی لڑائی کے ساتھ ناگزیر طور پر جڑے ہوئے لازمی سیاسی اور تنظیمی نتائج اخذ نہ کر سکی۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے حجم اور اثرورسوخ کی بدولت اس میں فروغ پانے والے ان اصلاح پسندانہ نظریات نے دوسری انٹرنیشنل کی دیگر پارٹیوں کو بھی متاثر کیا۔ روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں موجود معیشت پرست رجحان درحقیقت برن سٹائن ازم کا ’’روسی ورژن‘‘ ہی تھا۔ بعد میں ابھرنے والے منشویک رجحان کا خمیر بھی اسی اصلاح پسندی پر مشتمل تھا۔ انہی اصلاح پسندانہ رجحانات اور ان کے تنظیمی مضمرات کے خلاف لڑائی لڑتے ہوئے ہراول پارٹی کے متعلق لینن کا تصور تشکیل پایا۔
پرولتاریہ کو ہراول پارٹی کی ضرورت کیوں ہے؟ لینن کے نزدیک یہ صرف نظریاتی ہی نہیں بلکہ ایک بھرپور عملی سوال بھی تھا۔ وہ محنت کش طبقے کی تحریک کو تجریدی انداز میں نہیں دیکھتا بلکہ اس کو ویسے دیکھتا ہے جیسا کہ وہ حقیقت میں سماج کے معروضی حالات میں پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔ وہ انقلاب سے پہلے یا پھر انقلاب کے دوران مزدور تحریک کے کسی ایک پہلو یا کسی ایک وجہ کی بنیاد پر ہراول پارٹی کا تصور استوار نہیں کرتا بلکہ ایک طرف تاریخی تجربات کے نچوڑ اور دوسری طرف سماج، ریاست، محنت کش طبقے کی تحریک، طبقاتی قوتوں کے توازن، عالمی صورتحال سمیت تمام ممکنہ پہلوؤں کی ٹھوس کیفیت کو بطور کل اورایک متغیر مظہر کے طور پر دیکھتے ہوئے ہراول پارٹی کی ضرورت و اہمیت تک پہنچتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ محنت کش طبقہ حتمی تجزئیے میں اپنے تجربات سے سیکھتا ہے لیکن طبقے کے سیکھنے کے اس عمل کو تیز تر، نسبتاً ہموار اور کم تکلیف دہ بنانے میں ہراول پارٹی کے کردار پر بھی زور دیتا ہے۔ وہ درست طور پر یہ سمجھتا ہے کہ بورژوا ریاست اور حکمران طبقہ ہر ممکن طریقے سے محنت کشوں کے طبقاتی شعور کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کوششوں کا منظم شعوری مقابلہ کرنے کیلئے ہراول پارٹی کا ہونا لازمی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ مزدور تحریک ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتی اور اس میں بے شمار اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ اسی لئے پارٹی طبقے کا تاریخی حافظہ بنتے ہوئے پچھلی نسل کے تجربات کو محنت کشوں کی نئی نسل تک پہنچانے کا اہم فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ وہ کسی بھی سماج کے محنت کشوں کو عالمی مزدور تحریک کے ساتھ جوڑنے اور دیگر ممالک کے محنت کشوں کے تجربات سے ضروری نتائج اخذ کرنے کے حوالے سے ہراول پارٹی کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ وہ محنت کشوں کے فوری معاشی مطالبات کی لڑائی میں شمولیت کی اہمیت کو سمجھتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہراول پارٹی کا اصل فریضہ طبقے سے ایک قدم آگے رکھتے ہوئے ہر فوری مطالبے کو سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی تضادات کے ساتھ جوڑتے ہوئے محنت کش طبقے کو سوشلسٹ تبدیلی کی حتمی منزل کے شعور تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ وہ یہ حقیقت سمجھتا ہے کہ انقلابات غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں اور انقلابی ادوار میں محنت کش انتہائی تیزی سے سیکھتے ہیں اور ضروری نتائج اخذ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ محنت کش طبقے میں مختلف پرتیں ہوتی ہیں اور انقلابی ادوار میں بھی ان پرتوں کے ضروری نتائج اخذ کرنے کی رفتار مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ لہٰذا فیصلہ کن وار کرنے کیلئے درست پروگرام اور حکمت عملی سے مسلح ہراول پارٹی کا ہونا ضروری ہے جو کہ محنت کش طبقے کی وسیع ترین پرتوں کی حمایت کو جیتتے ہوئے ان کی طاقت کو ایک نکتے پر مرتکز کر سکے۔ لینن درست طور پر یہ سمجھتا ہے کہ بورژوا پیداواری رشتوں میں اپنے معروضی مقام کی بدولت محنت کش طبقہ (انقلابی ادوار میں)اپنے بل بوتے پر سوشلسٹ شعور حاصل کر سکتا ہے 2لیکن وہ یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ ایک تو محنت کش طبقے کی مختلف پرتیں بیک وقت اس شعور تک نہیں پہنچتیں اور دوسر ا یہ کہ شعور حاصل کر لینے کا مطلب یہ نہیں کہ طبقہ انقلابی تحریک کے ہیجان خیز دورانئیے میں خودکار طریقے سے ایک منظم اور تجربہ کار قیادت بھی اگل دے گا اور وہ بھی ایک ایسی کیفیت میں جہاں دشمن حکمران طبقے کے پاس مقابلہ کرنے کیلئے صدیوں کی حکمرانی کا تجربہ اور منظم ریاستی مشینری موجود ہے۔ اس کمی کو صرف ایک ہراول پارٹی ہی پورا کر سکتی ہے جسے انقلابی کیفیت کے جنم لینے سے طویل عرصہ قبل شعوری طور پر تعمیر کرنا ضروری ہے۔
مختصر ترین الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لینن ایک ایسا لیڈر تھا جو طبقے کی پہل گامی اور خود رو تحریک کو کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہتا تھا لیکن ساتھ میں اس کی اندھی اور غلامانہ پرستش کا بھی ہر گز قائل نہ تھا۔ سٹالنسٹ مورخوں کی لغویات کے بالکل برعکس لینن نہ تو محنت کش طبقے کو بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ سمجھتاتھا جسے ہانکنے کیلئے ایک چرواہے (پارٹی) کی ضرورت ہو اور نہ ہی اصلاح پسندوں کی طرح پارٹی کے طبقے کی خودرو تحریک کے پیچھے سر نیہوڑے گھسٹتے چلے جانے کا قائل تھا۔ یہ حس توازن اس کے طریقہ کار کا خاصہ تھی جو کہ اسے عظیم استاد بناتا ہے۔
لینن اور قومی سوال
قومی سوال جیسے پیچیدہ مسئلے پر لینن کے موقف کو سمجھنے کیلئے ہمیں پھر لینن کے جدلیاتی طریقہ کار کو سمجھنا پڑے گا۔ لینن کے بقول زار شاہی روس قومیتوں کا جیل خانہ تھا جس کی لگ بھگ 16کروڑآبادی میں سے 9 کروڑآبادی غیر روسی اقوام پر مشتمل تھی جو کہ روسی حکمران طبقے اور اس کی مطلق العنان زار شاہی ریاست کے قومی جبر کا شکار تھی۔ لینن اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتا تھا کہ زار شاہی کے خلاف اٹھنے والی انقلابی تحریک میں روسی پرولتاریہ تمام محکوم قوموں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرے گا۔ لینن کیلئے دیگر تمام سیاسی و سماجی مسائل کی طرح قومی مسئلہ بھی حتمی تجزئیے میں ایک طبقاتی مسئلہ تھا اور لینن کے نزدیک اس مسئلے پر مارکس وادیوں کے مؤقف کا حتمی مقصد مختلف اقوام کے محنت کشوں کو بورژوازی کے خلاف لڑائی میں طبقاتی بنیادوں پر متحد کرنا تھا۔ اسی مقصد کیلئے لینن نے ’’اقوام کے حق خود ارادیت‘‘کا موقف پیش کیا تاکہ بالشویک تمام محکوم قومیتوں پر یہ واضح کر سکیں کہ وہ قومی جبر کی ہر شکل کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ قوم پرستی کی ہر شکل اور ہر قسم کی بھی سخت مخالفت کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ حتمی نجات کیلئے مختلف اقوام کے محنت کشوں کا طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہونا لازمی ہے۔
قومی مسئلے پر لینن کی پوزیشن کو ایک کل کے طور پر دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے دونوں پہلوؤں میں سے کسی ایک کو نظرانداز کرتے ہوئے دوسرے پر اندھا دھند زور دینا مارکس وادیوں اور محنت کش تحریک کیلئے نہایت تباہ کن ثابت ہو گا۔ مثلاً قوم پرستی کو رد کئے بغیر اور مختلف اقوام کے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کی اہمیت پر ہر ممکن زور دئیے بغیر صرف اقوام کے حق خود ارادیت کے نعرے کو دہراتے رہنے کا مطلب بورژوا قوم پرستی کی اندھی کھائی میں گر جانا ہے۔ اسی طرح محکوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کی بات کئے بغیر اور قومی جبر کی ہر شکل کی مخالفت کئے بغیر نہ صرف مختلف قوموں کے محنت کشوں کے مابین طبقاتی اتحاد قائم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی بلکہ یہ پالیسی حتمی تجزئیے میں حاکم اور محکوم اقوام کے حکمران طبقات کی محنت کش طبقے کو قومی بنیادوں پر تقسیم رکھنے کی کوششوں کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے گی۔
یہاں پر قومی مسئلے پر لینن کی پوزیشن کو مزید واضح کرنے کیلئے اس کی ’’اقوام کے حق خود ارادیت‘‘ کے مؤقف پر مزید بات کرنا ضروری ہے۔ جدلیاتی طریقہ کار ہمیں زندہ حقیقتوں پر اندھا دھند عمومی فارمولے تھوپنے کی بجائے کسی بھی مظہر کا ہر پہلو سے ٹھوس تجزیہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کرنا سکھاتا ہے۔ یہی لینن کا طریقہ کار بھی تھا۔ اقوام کے حق خود ارادیت کا دفاع بلاشبہ قومی مسئلے پر لینن کے موقف کا ایک انتہائی اہم جزو تھا اور بالشویک پارٹی کے عمومی پروگرام کا حصہ بھی تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ لینن ہر صورتحال میں علیحدگی کا حامی بھی تھا۔ بالکل ویسے جیسے حق طلاق کی حمایت کرنے کا مطلب ہر صورتحال میں طلاق کا حامی ہونا ہر گز نہیں ہے۔ اس مطالبے کا حقیقی مقصد جہاں ایک طرف حاکم قوم کے حکمران طبقے کے سامراجی و قومی جبر کی مخالفت کرنا تھا تو وہیں دوسری طرف محکوم قوم کے حکمران طبقے (اور پیٹی بورژوازی) کی تنگ نظر قوم پرستی کا مقابلہ کرتے ہوئے محنت کشوں کے طبقاتی اتحاد کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اقوام کا حق خود ارادیت ایک جمہوری مطالبہ ہے۔ لینن اس کی حمایت کرتا تھا لیکن ہر جمہوری مطالبے کی طرح اس مطالبے کی حمایت بھی اس کے نزدیک محنت کشوں کے طبقاتی مفادات اور سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کے تابع تھی۔ یعنی حتمی تجزئیے میں ’’اقوام کا حق خود ارادیت‘‘ بھی لینن کے نزدیک اپنے سیاق و سباق سے کٹا ہوا کوئی آفاقی فارمولا نہیں تھا جسے ہر صورتحال پر اندھا دھند لاگو کر دیا جائے بلکہ اس کی حمایت بھی کسی مخصوص قومی مسئلے کی حقیقی صورتحال ا ور اس کے نہ صرف اس خطے کی مزدور تحریک بلکہ عالمی مزدور تحریک پر اثرات کے ٹھوس تجزئیے پر منحصر تھی۔ یعنی کہ اگر کسی مخصوص صورتحال میں محکوم قوم کی قومی آزادی کی جدوجہد اس خطے میں اور عالمی سطح پر مزدور تحریک کو آگے لے جانے کا سبب بن رہی ہو تو ایسی صورتحال میں بلاشبہ ’’اقوام کے حق خود ارادیت‘‘ کے جمہوری مطالبے کی حمایت کرنا بالکل درست ہے بلکہ ایسی کیفیت میں کسی مخصوص مرحلے پر علیحدگی تک کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہواور کسی مخصوص صورتحال میں قومی آزادی کی جدوجہد سے بحیثیت مجموعی مزدور تحریک کو نقصان پہنچ رہا ہو اور اس کے نتیجے میں مختلف اقوام کے محنت کشوں میں قومی بنیادوں پر فاصلے بڑھ رہے ہوں، تو ایسی صورتحال میں مارکس وادیوں کیلئے جہاں ایک طرف قومی جبر کی ناقابل مصالحت مخالفت کرنا لازمی ہے تو وہیں دوسری طرف ایسی صورتحال میں حق خود ارادیت کے مطالبے کی اندھی حمایت کرنا ہر گز ضروری نہیں۔
اس کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ مارکسسٹ اظہار رائے کی آزادی کے جمہوری مطالبے کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہر جمہوری مطالبے کی طرح اس مطالبے کی حمایت بھی مارکسسٹوں کے نزدیک پرولتاریہ کے طبقاتی مفادات کے تابع ہے۔ مثلاً اگر کوئی رجعتی فاشسٹ تنظیم اظہار رائے کی آزادی کو جواز بناتے ہوئے اپنا زہریلا پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کرے گی تو ایسی صورتحال میں مارکسسٹ اس مخصوص مسئلے پر آزادئ اظہار رائے کی پوزیشن کو رد کر دیں گے لیکن اظہار رائے کی آزادی ایک عمومی مطالبے کے طور پر انقلابی پارٹی کے پروگرام کا حصہ رہے گی۔
قومی مسئلے کے بارے میں لینن کی یہی جدلیاتی اپروچ تھی جس نے بالشویک پارٹی کو ایک طرف قوم پرستی کو گنجائش دینے کی موقع پرستی اور دوسری طرف قومی مسئلے کا سرے سے انکار کر دینے کی الٹرا لیفٹ انتہاپسندی سے بچاتے ہوئے 1917ء میں تمام محکوم قومیتوں کے محنت کشوں کا اعتماد جیتنے اور اکتوبر انقلاب کی قیادت کرنے کا اہل بنایا۔
سامراج۔ ۔ ۔ سرمایہ داری کی آخری منزل
1916ء کے اوائل میں لکھی جانے والی لینن کی کتاب ’’سامراج۔ ۔ سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ بلاشبہ مارکسزم کے علمی خزانے میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے والا لینن پہلا شخص نہیں تھا۔ بیسویں صدی میں لینن سے پہلے بھی کئی لوگ اس موضوع پر اپنا تجزیہ پیش کر چکے تھے جن میں برطانوی بورژوا معیشت دان ہابسن، دوسری انٹرنیشنل کے نظریہ دان (اور بعد ازاں بھگوڑے)کاؤتسکی اور روڈولف ہلفرڈنگ اہم ہیں۔ لیکن لینن کے علاوہ سامراج کے باقی تمام تجزئیے رسمی منطق کے مخصوص ساکت، جامد اور یک رخے پن پر مبنی استدلال کا شکار تھے۔ یہ تجزئیے نہ تو سامراج کو سرمایہ داری کے تاریخی ارتقا کے دوران اس کے نامیاتی قوانین کے تحت ہونے والے ارتکاز سرمایہ کے ناگزیر نتیجے کے طور پر دیکھ پا رہے تھے اور نہ ہی سامراج کے مظہر کا تجزیہ کرتے ہوئے مختلف سامراجی ممالک کے مابین طاقت کے مسلسل بدلتے توازن، حلقہ اثر کی لڑائی اور نوآبادیاتی مقبوضات کی از سر نو تقسیم کیلئے مسلسل ہونے والی کوششوں سے جنم لینے والے تضادات کا ادراک کر پا رہے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ تمام تجزئیے نو آبادیاتی سماجوں میں سامراجی مداخلت کی بدولت پڑنے والے اثرات، سامراج کے عہد میں محکوم قوموں کی جدوجہد آزادی اور سب سے بڑھ کر بذات خود ترقی یافتہ سامراجی ممالک میں سامراجی لوٹ مار کے باعث ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے مزدور تحریک پر اثرات کا احاطہ کرنے سے مکمل طور پر قاصر تھے۔ ان خامیوں کی جڑیں بھی حتمی طور پر رسمی منطق کے طریقہ کار میں پیوست ہیں جو کہ کسی بھی مظہر کے تمام پہلوؤں کو ایک باہم تعلق میں دیکھنے کے بجائے ہر پہلو کو دوسرے سے کاٹ کر دیکھتا ہے۔
لینن کا سامراج پر تجزیہ جدلیاتی طریقہ کار کے استعمال کا شاہکار تھا۔ وہ سامراج کو سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کے تاریخی تناظر میں دیکھتا ہے اور یہ وضاحت کرتا ہے کہ جدید سامراج کا مظہر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی چند ایک ’’بری‘‘ پالیسیوں کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کی معاشی بنیاداجارہ دارانہ سرمایہ داری پر قائم ہے اور اس اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا ظہور ماضی کے ’’آزاد مقابلے‘‘ کی سرمایہ داری سے کوئی الگ تھلگ چیز نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ دارانہ ارتقا کے ’’آزاد مقابلے‘‘ کے مرحلے کے دوران سرمایہ داری کے نامیاتی قوانین کے تحت ہونے والے ارتکاز سرمایہ میں مقداری اضافوں کا ہی نا گزیر معیاری نتیجہ ہے۔ لہٰذا سامراج، سرمایہ داری کے تاریخی ارتقا کی ناگزیر آخری منزل ہے اور جو کوئی بھی چند اصلاحات کے ذریعے سامراجی اجارہ دارانہ سرمایہ داری کو واپس ’’آزاد مقابلے‘‘ کے عہد میں لے جانا چاہتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اجارہ داریوں اور ریاستی مشینری کے باہم قریبی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی واضح کرتا ہے کہ مختلف سامراجی قوتوں کی معاشی طاقت اور تکنیکی صلاحیت نہ تو یکساں ہے اور نہ ہی غیر متغیر، بلکہ ان عوامل کے ناہموار اور متغیر ہونے کے سبب عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس ساری صورتحال میں منڈیوں کی چھینا جھپٹی اور نوآبادیاتی مقبوضات کی از سر نو تقسیم کی کوششوں سے جنم لینے والی مقابلہ بازی معیشت کے ساتھ ساتھ جنگوں (جیسا کہ پہلی عالمی جنگ) کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ یہ کاؤتسکی اور ہلفرڈنگ جیسے دوسری انٹرنیشنل کے بھگوڑوں کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا جو سامراجی طاقتوں کے مابین ان تضادات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اجارہ دارانہ سرمایہ داری ایک سیدھی لکیر میں ارتقا کرتے ہوئے ایک متحد عالمی اجارہ داری کو جنم دے گی جس کے نتیجے میں جنگ و جدل کا خاتمہ ہو جائے گا اور سرمایہ داری کے تحت امن قائم ہو جائے گا۔ اس طرح وہ درحقیقت مزدور تحریک میں سامراج کے عذر خواہ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ مزدور تحریک کے ان غداروں کے برعکس، لینن اس نتیجے پر پہنچا کہ سامراجی اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا ظہور اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ذرائع پیداوار کا نہ صرف بڑے پیمانے پر ارتکاز ہو چکا ہے بلکہ قومی ریاست ذرائع پیداوار کیلئے مطلق بیڑیاں بن چکی ہے اور یہ ساری صورتحال عالمی سوشلسٹ تبدیلی کیلئے جدوجہد کو تیز تر کرنے کی متقاضی ہے۔
لینن نے سامراج کے مظہر کو بطور کل دیکھتے ہوئے اپنے تجزئیے کو سامراج کے معاشی اور سٹریٹجک پہلو تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے سیاسی و سماجی اثرات کا بھی جائزہ لیتے ہوئے مزدور تحریک کے پروگرام اور حکمت عملی کے حوالے سے بھی ضروری نتائج اخذ کئے۔ اس نے وضاحت کی کہ کس طرح طاقتور سامراجی ممالک کا حکمران طبقہ اپنے سماج کے محنت کش طبقے کی اوپری پرت کو سامراجی لوٹ مار میں سے کچھ ہڈیاں پھینک کر شعوری طور پر پراگندہ کر تا ہے اور کس طرح اپنے طبقے کی وسیع ترین اکثریت سے بہتر معیار زندگی سے لطف اندوز ہونے والی محنت کشوں کی یہ بالائی پرت (مزدور اشرافیہ) اپنے طبقے سے غداری کرتے ہوئے اپنے حکمران طبقے کی سامراجی پالیسیوں کی حامی بن جاتی ہے۔ لینن درست طور پر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ دوسری انٹرنیشنل کی اصلاح پسند زوال پذیری حتمی تجزئیے میں اس مزدور اشرافیہ کی شعوری پراگندگی کا ہی سیاسی اظہار ہے۔ اسی طرح وہ سامراج کے عہد میں محکوم قومیتوں کے مسئلے کی بڑھتی ہوئی شدت اور قومی جبر میں ہونے والے بے تحاشہ اضافے کی بھی نشان دہی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ نوآبادیاتی سماجوں میں بڑھتی ہوئی سامراجی مداخلت کے سبب وہاں کی سماجی بنتر بھی تبدیل ہو گئی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ قومی آزادی کی تحریکوں میں شدت کی صورت میں نکلے گا۔ لیکن لینن کے تجزئیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ سامراج کے عہد میں قومی مسئلے کا حل قوم پرستی میں نہیں بلکہ محنت کش طبقے کے بین الاقوامی اتحادکے ذریعے عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام کی جدوجہد میں ہے۔ بعد ازاں (1920ء میں) منعقد ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل (تیسری انٹرنیشنل) کی دوسری کانگریس میں لینن کے نوآبادیاتی سماجوں کی قومی بورژوازی کی طرف سے کسی بھی قسم کے ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کے امکان کو فیصلہ کن طور پر رد کرنے میں انقلاب روس کے عمومی اسباق کے ساتھ ساتھ سامراج کے مظہر پر کئے گئے اس ٹھوس تجزئیے کا بھی کلیدی کردار تھا۔
اپریل تھیسِس
7 اپریل 1917ء کو جلاوطنی سے واپسی کے چند روز بعد لینن نے اپنا مشہور زمانہ اپریل تھیسِس پیش کیا۔ یہ تھیسِس انقلاب روس کے کردار کے حوالے سے لینن کی سوچ میں آنے والی معیاری تبدیلی کا اظہار کرتا ہے۔ اپریل تھیسِس میں لینن اپنے راستے سے انقلاب روس کے ’’مسلسل کردار‘‘ کے حوالے سے انہی نتائج پر پہنچتا ہے جن تک لیون ٹراٹسکی 1905-06ء میں اپنے ’’نظریۂ انقلابِ مسلسل‘‘ کے تحت پہنچا تھا۔ اس حوالے سے ان دونوں عظیم مارکسی اساتذہ کے مابین قائم ہونے والی سیاسی ہم آہنگی ہی آنے والے دنوں میں ان کے مضبوط نظریاتی، تنظیمی اور ذاتی تعلقات کی بنیاد بنی۔ انقلاب روس کے کردار کے حوالے سے روسی سوشل ڈیموکریسی میں ہونے والی بحث ایک بہت وسیع موضوع ہے اور ہمارے پاس گنجائش نہیں کہ ہم اس کی تفصیلات میں جا سکیں۔ اس تحریر میں اپریل تھیسِس کے بارے میں بات کرنے کا مقصد قارئین پر یہ واضح کرنا ہے کہ لینن کسی بھی نئی صورتحال پر بنے بنائے فارمولے لاگو کرنے کا ہر گز قائل نہ تھا۔ وہ ماضی میں کسی بھی صورتحال کے ٹھوس جدلیاتی تجزئیے سے اخذ کردہ نتائج کو ان کے سیاق وسباق سے کاٹ کر ایسے آفاقی اصولوں کا درجہ نہیں دیتا تھا جنہیں ہر نئی صورتحال پر بھی اندھا دھند لاگو کر دیا جائے بلکہ اس کا طریقہ کار کسی بھی نئے مظہر یا صورتحال کو بطور کل دیکھتے ہوئے، اس کے ہر پہلو کا تجزیہ کرتے ہوئے، اس کے تمام اجزا کو ان کے تضادات اور تغیر سمیت ایک باہمی ربط میں لاتے ہوئے، ایک ٹھوس جدلیاتی تجزئیے کے ذریعے ضروری نتائج اخذ کرنے کا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کسی بھی نئی صورتحال میں جہاں دوسرے مردہ تجریدوں کو دہراتے رہتے تھے اور نتیجتاً بھیانک سیاسی غلطیوں کے مرتکب ہوتے تھے، وہیں لینن صورتحال کے مطابق درست موقف اختیار کر پاتا تھا۔ لینن کی اس صلاحیت کو بعض بورژوامصنّفین نے عملیت پسندی قرار دیا ہے۔ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے اور یہ درحقیقت ان بورژوا دانشوروں کی رسمی منطق پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو کہ تھیوری اور عمل کوایک دوسرے سے کاٹ کر دو الگ تھلگ چیزوں کے طور پر دیکھتی ہے۔ لینن کیلئے تھیوری اور عمل ایک ہی کل کے دو پہلو تھے جن کے مابین جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔ لینن کا کسی نئی صورتحال کا ٹھوس تجزیہ کرتے ہوئے اپنا موقف تبدیل کرنا عملیت پسندی کا نہیں بلکہ تھیوری (جدلیاتی طریقہ کار) کے عملی استعمال کا اظہار تھا اور اسی عمل کا بار بار کیا جانا ہی اس کی جدلیاتی طریقہ کار پر انتہائی مضبوط گرفت کا موجب بھی تھا۔
بائیں بازو کا کمیونزم۔ ۔ ایک طفلانہ بیماری
1920ء میں چھپنے والی یہ کتاب لینن کی وہ غیر معمولی تصنیف ہے جس سے ہمیں لینن کے طریقہ کار کے متعلق بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ 1917ء کے انقلاب روس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے تھے اور انہی اثرات کے تحت دنیا کے کئی ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں کا جنم ہوا تھا۔ محنت کشوں کی ہراول پرتیں تیزی کے ساتھ اصلاح پسندانہ پروگرام اور غدار قیادت رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں سے ناطہ توڑ کر ان نوزائیدہ کمیونسٹ پارٹیوں میں شامل ہوتے ہوئے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے جھنڈے تلے اکٹھی ہو رہی تھیں۔ لیکن تیز ترین تبدیلیوں کے اس عہد میں ان نوزائیدہ کمیونسٹ پارٹیوں کی ناتجربہ کار قیادت کئی اہم معاملات پر بائیں بازو کی انتہا پسندی کا شکار ہو کر خوفناک غلطیاں کر رہی تھی۔ مثلاً سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں میں موجود عام محنت کشوں کے بارے میں فرقہ پرستانہ رویہ، بورژوا پارلیمانی سیاست کا مکمل بائیکاٹ، رجعتی قیادت رکھنے والی ٹریڈ یونینز میں کام کرنے سے انکار، جدوجہد کے کسی بھی قانونی طریقہ کار سے نفرت، ’’کوئی سمجھوتہ نہیں‘‘ جیسی تجریدی نعرے بازی وغیرہ۔ اس سارے مسئلے کی جڑ پر ان ایماندار لیکن نا تجربہ کار لیڈروں کی جدلیاتی طریقہ کار سے مکمل عدم واقفیت تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا تھا کہ یہ لوگ پہلی عالمی جنگ کے دوران دوسری انٹرنیشنل کے سیاسی و نظریاتی بحران اور انقلاب روس کے تجربے سے اخذ کئے گئے درست عمومی نتائج کو ایک میکانکی انداز میں اپنے سماجوں کی ٹھوس معروضی کیفیت پر لاگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لینن کی یہ کتاب اسی بائیں بازو کی انتہا پسندی پر تنقید ہے، جس میں لینن مختلف ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں کی الٹرا لیفٹ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے جدلیاتی طریقہ کار کے مختلف پہلوؤں پر روشنی بھی ڈالتا ہے۔
لینن وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح محنت کشوں کے قابل ذکر حصوں کی ممبر شپ رکھنے والی ٹریڈ یونینز میں اپنے واضح پروگرام اور شناخت کے ساتھ کام جاری رکھنا ضروری ہے، چاہے ان ٹریڈ یونینز کی قیادت کتنے ہی رجعتی عناصر پر مشتمل کیوں نہ ہو۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح بائیں بازو کے کمیونسٹ ان ٹریڈ یونینوں کی ظاہری بنتر(رجعتی قیادت، یونین بیوروکریسی وغیرہ) پر توجہ مرتکز کرتے ہوئے ان کے حقیقی مواد(ان میں موجود عام محنت کش) کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں اور خبردار کرتا ہے کہ اس غلط پالیسی کی بدولت کمیونسٹ پارٹیاں ان ٹریڈ یونینوں میں موجود محنت کشوں کو رجعتی لیڈروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے سیاسی جرم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اسی طرح وہ بعض کمیونسٹ پارٹیوں کے بورژوا پارلیمانی سیاست کے مکمل بائیکاٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ اگرچہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بورژوا پارلیمانی سیاست (سرمایہ دارانہ نظام کی طرح) تاریخی طور پر متروک ہو چکی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس درست عمومی نتیجے کو آنکھیں بند کر کے ہر ٹھوس معروضی کیفیت پر لاگو کر دیا جائے۔ محنت کشوں کی پارٹی کو پارلیمانی سیاست میں حصہ لینا چاہئیے یا نہیں، اس کا فیصلہ کسی پہلے سے طے شدہ اصول کے تحت نہیں بلکہ ٹھوس معروضی صورتحال کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک ابھرتی ہوئی انقلابی تحریک کی کیفیت میں، اگر محنت کش طبقہ بورژوا ریاستی اداروں (مثلاً پارلیمنٹ) کی حقیقت کا شعور حاصل کرتے ہوئے ان کو ٹھوکر مار کر آگے نکلنے کیلئے پر تول رہا ہو، تو یقیناًاس کیفیت میں کمیونسٹوں کا پارلیمانی سیاست کا رخ کرنا بدترین موقع پرستی ہو گی۔ لیکن ایک غیر انقلابی عہد میں، جب طبقہ ابھی تحریک کیلئے تیار نہیں اور اس کی وسیع پرتوں کی پارلیمانی سیاست سے وابستہ جھوٹی امیدیں ٹوٹی نہیں ہیں، تو ایسی کیفیت میں بورژوا پارلیمانی سیاست کو ’’اصولی بنیادوں‘‘ پر رد کر دینا بائیں بازو کی انتہا پسندی ہو گی۔ یقیناًایسی صورتحال میں پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کا مطلب دوسری انٹرنیشنل کی پارٹیوں کی طرح پارلیمانی تنگ نظری کا شکار ہو جانا نہیں ہے لیکن کمیونسٹوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ حس توازن قائم رکھتے ہوئے پارلیمانی کام سمیت ہر قانونی ذریعے کو اپنے پراپیگنڈے اور ایجی ٹیشن کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کریں تاکہ محنت کش طبقے کے سامنے سرمایہ دارانہ نظام اور بورژوا ریاست کو بے نقاب کرنے کا کام تیز کیا جا سکے۔
اسی طرح جہاں کمیونسٹ کسی بھی صورت میں مارکسزم کے نظریات پر رتی برابر بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے وہیں پر حکمت عملی کے معاملے میں پارٹی کا رویہ انتہائی لچک دار ہونا چاہیئے۔ اس حوالے سے لینن ان کمیونسٹوں پر تنقید کرتا ہے جو کہ بائیں بازو کی انتہا پسندی کا شکار ہو کر ہر وقت اور ہر معاملے پر ’’کوئی سمجھوتہ نہیں‘‘ کی نعرے بازی کرنے کے شوقین تھے۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ ٹھوس صورتحال کے مطابق ضرورت پڑنے پرجہاں انقلابی دستے جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہیں وہاں ایک مشکل صورتحال میں شکست سے بچنے کے لیے وقتی پسپائی کا فن سیکھنا بھی ضروری ہے۔ کب آگے بڑھنا ہے اور کب پیچھے ہٹنا ہے؟ کب محاذ کھولنا ہے اور کب انتظار کرنا مناسب ہو گا؟ دشمن طبقات پر کب حملہ کرنا ہے اور کب نہیں؟ یہ سب حکمت عملی کے سوالات ہیں اور ان پر آنکھیں بند کر کے کوئی ایک آفاقی فارمولا لاگو نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر انفرادی صورتحال کے ٹھوس جدلیاتی تجزئیے کے بعد ہی مناسب حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے۔ لینن اس ضمن میں مارچ 1918ء میں ہونے والے برسٹ لٹوسک معاہدے کا بھی حوالہ دیتا ہے جس میں معروضی حالات کے جبر کے تحت بالشویک حکومت کو جرمن سامراج کے ساتھ ایک تکلیف دہ وقتی معاہدہ کرنا پڑا تھا۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ لینن کی وفات کے بعد اس کتاب کا انتہائی غلط استعمال بھی کیا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف الٹرا لیفٹ ازم کا شکار فرقہ پرور گروہوں نے لینن کی اس شاندار تصنیف کو سمجھنا تو دور کی بات، شاید پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی، وہیں بائیں بازو کے کئی رجحانات نے اس کتاب میں پارلیمانی کام، رجعتی ٹریڈ یونینوں میں کام اور حکمت عملی پر سمجھوتوں سے متعلق لینن کے مؤقف کو اس کے طریقہ کار سے بالکل کاٹ کر آفاقی فارمولوں کا درجہ دیتے ہوئے اپنی بدترین موقع پرستی کیلئے جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لیکن بائیں بازو کے سنجیدہ اور جرات مند کارکنان کیلئے لینن کی یہ کتاب اس کے طریقہ کار کو سمجھنے کے حوالے سے آج بھی ایک بیش قیمت خزانے کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن اس سے مستفید ہونے کیلئے کتاب میں مختلف معاملات کے متعلق اخذ کردہ نتائج کو رٹ لینے کی بجائے اس طریقہ کار کو سمجھنا ہو گا جس کے ذریعے نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔
ایک ضروری وضاحت
لینن کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے اس تحریر میں تجریدی سوچ پر کڑی تنقید کی ہے۔ اس سے بعض قارئین اس غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ تجرید بیکار اور غیر ضروری ہوتی ہے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے اور ایسا سمجھنا حس توازن کو کھوتے ہوئے شعور کے آگے بڑھنے کے عمل کو یک رخے انداز میں دیکھنا ہے۔ درحقیقت تجرید کرنے کی صلاحیت ہی انسانی شعور کی بنیاد ہے اور اسے باقی تمام جانوروں سے ممتاز بناتی ہے۔ مجرد اور ٹھوس3 میں ایک جدلیاتی تعلق ہوتا ہے اور اس تعلق کو ایک کل کے طور پر سمجھے بغیر ہم انسانی شعور کی پیش رفت کو نہیں سمجھ سکتے۔ مارکسی طریقہ کار مردہ تجریدوں کو زندہ حقیقتوں پر لاگو کرنے کی مخالفت کرتا ہے نہ کہ بذات خود تجرید کی۔ جیسا کہ اینگلز اپنی تصنیف اینٹی ڈوہرنگ میں لکھتا ہے:
’’اصول تحقیقی عمل کا نکتہ آغاز نہیں بلکہ حتمی نتیجہ ہوتے ہیں۔ انہیں فطرت اور انسانی تاریخ پر لاگو نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے اخذ کیا جاتا ہے۔‘‘
لینن ازم، لینن کے بعد
لینن نے مارکسی نظریات کی ترقی اور ترویج میں اہم ترین کردار ادا کیا اور اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے مزدوروں کی پہلی ریاست کی بنیاد رکھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1924 ء میں لینن کی وفات کے ساتھ ہی لینن ازم بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا؟ یا اسکی عملی افادیت مسدود اور مفقود ہو گئی؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لینن کی زندگی کے آخری سالوں میں ہی سوویت یونین میں ایک نئی معروضی صورتحال بھی فیصلہ کن انداز میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھی۔ خانہ جنگی میں بے شمار بالشویک کیڈرز کی جانوں کے ضیاع، زبردست معاشی بربادی، محنت کش طبقے کی سیاسی و نفسیاتی تھکاوٹ اور سب سے بڑھ کر جرمنی، اٹلی اور دیگر انقلابات کی ناکامی کے باعث انقلاب کی تنہائی نے سوویت یونین میں بیوروکریسی کے ابھار کی راہ ہموار کی۔ ظاہر ہے کہ لینن نے اپنے آخری سالوں میں جونہی اس عمل کو بھانپاتو اس کے خلاف جدوجہد کی ٹھان لی مگر اس کو زندگی نے موقع نہ دیا۔ لینن تو چلا گیا لیکن لینن ازم تو تاریخی قوت کے طور پر وارد ہو چکا تھا اور بیوروکریسی کے خلاف لینن ازم کی مزاحمت ناگزیر تھی۔ ان حالات میں صرف ایک ہی ایسا شخص تھا جو اس مزاحمت کی قیادت کر سکتا تھا اور وہ لیون ٹراٹسکی تھا لیکن تمام تر مزاحمت کے باوجودمعروضی عوامل بیوروکریسی کی اقتدار پر گرفت کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط کرتے چلے گئے۔ بیوروکریسی کے ابھار کا شخصی اظہار جوزف سٹالن کی آمریت کی صورت میں سامنے آیا۔ اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بیوروکریسی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت کا نظریاتی جواز پیش کرے۔ اس مقصد کے لیے لینن ازم سے بالکل متصادم ’’ایک ملک میں سوشلزم ‘‘ اور ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ جیسے مذموم اور غیر سائنسی نظریات کی سرکاری ترویج و تشریح کی گئی اور ان پر ’’لینن ازم‘‘ کا لیبل لگا دیا گیا۔ اسی لڑائی کے مدوجزر میں ٹراٹسکی نے ’انقلاب سے غداری‘، ’ انقلابِ روس کی تاریخ‘ سمیت دیگر بیش بہا نظریاتی خزانہ تخلیق کیا جس نے آنے والی نسلوں اور لینن ازم کے بیچ میں ضروری پُل کا کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کی عالمی مزدور تحریک پر سیاسی اتھارٹی کے باعث بیوروکریسی کے خلاف ہونے والی مزاحمت پر غداری اور سامراجی ایجنٹی جیسے مکروہ الزامات لگانا بیوروکریسی کے لیے قطعاً مشکل نہ تھا۔ بعد ازاں حقیقی لینن ازم کی طرف سے مزاحمت کی ہر نظریاتی و سیاسی کوشش پر ٹراٹسکی ازم کا لیبل چسپاں کر کے اسے غیر لیننی کہہ کر شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔ یوں سوویت انقلاب کے بعد دو متحارب مکاتیبِ فکر تاریخی افق پر نمودار ہوئے۔ ایک بیوروکریسی کا سرکاری ورژن یعنی سٹالن ازم جو لینن ازم کی نفی تھا جبکہ دوسرا اس کا مخالف یعنی لینن ازم کا تسلسل تھا جسے آج ہم ٹراٹسکی ازم کے نام سے جانتے ہیں۔ اور آج بھی لینن کے میتھڈ کا درست ادراک اور استعمال کرتے ہوئے عالمی مارکسی رجحان (IMT) ہی ہے جو اسی عظیم سیاسی و نظریاتی ورثے کے دفاع اور ایک نئے بالشویک ابھار کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
لینن اور عہدِ حاضر
آج ہمارے ارد گرد کی دنیا سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی واضح عکاسی کر رہی ہے۔ سیاست، معیشت، ثقافت اور بین الاقوامی تعلقات سمیت کوئی ایک ایسا شعبہ نہیں جو سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کی وجہ سے انتشار کا شکار نہ ہو۔ لیکن اسی انتشار میں مستقبل کے نظم، ایک نئے اور برتر انسانی سماج کے بیج بھی موجود ہیں۔ پچھلی ایک دہائی میں کرۂ ارض کے ہر خطے میں جنم لینے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بے شمار احتجاجی تحریکیں، عام ہڑتالیں اور انقلابی بغاوتیں پرانے سماج کے بطن میں پرورش پاتے نئے سماج کا ہی ایک اظہار ہیں۔ لیکن مارکسزم تاریخی جبریت کا قائل نہیں۔ مارکس لکھتا ہے کہ ’’انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن وہ ایسا بالکل اپنی مرضی کے مطابق نہیں کر سکتے اور نہ ہی ایسا کرنے کے حالات کا انتخاب خود کر سکتے ہیں بلکہ وہ انہی حالات کے تحت ایسا کرتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوں اور ماضی سے ورثے میں ملے ہوں‘‘۔ بلاشبہ انسان سماج اور عہد کی مادی حدودوقیود کا پابند ہے لیکن ان حدودوقیود کے اندر وہ عمل کرنے کیلئے آزاد بھی ہے۔ مارکس اور اینگلز نے صرف اتنا کہا تھا کہ سرمایہ داری وہ مادی حالات تخلیق کر رہی ہے جن کی بنیاد پر ایک عالمگیر سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی ناگزیریت کے تحت سوشلزم کے خود بخود آجانے کے تصور کا مارکسزم سے کوئی تعلق نہیں۔ اینگلز کا مشہور جملہ ’’سوشلزم یا بربریت‘‘ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ سوشلسٹ سماج کے قیام کی خاطر محنت کش طبقے کو ایک شعوری لڑائی لڑنی پڑے گی اور وہ اس لڑائی کا آغاز بھی کر چکا ہے لیکن درست نظریات، تناظر، پروگرام، ٹھوس نعروں اور لچکدار حکمت عملی سے لیس ایک ہراول پارٹی کے قیادت کے بغیر وہ اس لڑائی کو حتمی انجام تک نہیں پہنچا سکتا۔ دنیا کے ہر سماج میں ایسی پارٹیاں تعمیر کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی ایک عالمگیر انقلابی پارٹی (انٹرنیشنل)تعمیر کرنا ہی آج تمام مارکسی کارکنوں کا تاریخی فریضہ ہے۔ مگر اس فریضے کی تکمیل کیلئے مارکسزم کے نظریات کو سمجھنا پڑے گا۔ مارکسزم کی روح، اس کا جوہر، جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار میں ہے جس پر عبور حاصل کئے بغیر مارکسی نظریات کو زبانی یاد تو کیا جا سکتا ہے پر سمجھا اور مزید نکھارا نہیں جا سکتا۔ طریقہ کار پر یہ عبور گوشہ نشینی کی حالت میں نہیں بلکہ جرات کے ساتھ عمل کے میدان میں اترتے ہوئے دنیا کو بدل دینے کی جدوجہد میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی لینن کی زندگی کا نچوڑ ہے۔ یہی آنے والی نسلوں کیلئے اس کا چھوڑا ہوا نظریاتی ورثہ ہے۔
نوٹس:
1۔ اس تحریر کیلئے ہم نے خاص طور پر لینن کی ان تصانیف کا انتخاب کیا ہے جن کے ذریعے ہم لینن کے طریقہ کار کی بہتر انداز سے وضاحت کر سکیں۔
2۔ 1902ء میں شائع ہونے والی لینن کی کتاب ’’کیا کیا جائے؟‘‘ معیشت پرستوں کی سیاسی پسماندگی پر ایک زبردست تنقید تھی جس میں لینن ہراول پارٹی کے تصور کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ یہ کتاب اپنے جوہر میں بالکل درست ہے لیکن لینن اس کے آغاز میں ایک جگہ معیشت پرستوں پر درست تنقید کرتے ہوئے اپنے دلائل کو دوسری انتہا پر لے گیا جس سے توازن بگڑ گیا۔ لینن نے لکھا، ’’تمام ممالک کی تاریخ بتاتی ہے کہ محنت کش طبقہ خالصتاًاپنی کوشش کے بل بوتے پر صرف ٹریڈ یونین کا شعور حاصل کر پاتا ہے مثلاً ٹریڈ یونینوں میں اکٹھا ہونے، مالکان کیخلاف جدوجہد کرنے اور حکومت کو لیبر قوانین سازی پر مجبور کرنے وغیرہ کی ضرورت کا ادراک‘‘۔ یعنی کہ محنت کش طبقہ اپنے بل بوتے پر سوشلسٹ شعور حاصل نہیں کر سکتا اور یہ شعور اس کو باہر سے انقلابی نظریہ دانوں کے ذریعے دینا پڑے گا۔ یہاں پر بلاشبہ لینن درست نہیں رہتا لیکن ایک تندوتیز مباحثے میں توازن بگڑنے کے سبب (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) ہونے والی غلطی کو جواز بناتے ہوئے بعد میں نہ صرف لینن ازم پر بے شمار حملے کئے گئے بلکہ یہ معاملہ بے تحاشہ نظریاتی ابہام کو جنم دینے کا سبب بھی بنا۔ حالانکہ بعد ازاں لینن نے توازن میں اس وقتی بگاڑ کی بارہا وضاحت کی۔ اسی طرح جب روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی دوسری کانگریس میں اس موقف کو جواز بناتے ہوئے لینن پر تنقید کی گئی تو اس نے وضاحت کی:’’ہم سب جانتے ہیں کہ معیشت پرست ایک انتہا پر چلے گئے تھے۔ معاملات کو سیدھا کرنے کیلئے کسی کو دوسری سمت میں زور لگانا پڑنا تھا اور میں نے ایسا ہی کیا‘‘۔ (لینن مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 6، صفحہ نمبر 491)
3۔ واضح رہے کہ ٹھوس کے معنی انگریزی کے لفظ ’’سالڈ‘‘(solid) کے نہیں بلکہ حقیقی، تضادات لئے ہوئے اور متغیر کے ہیں۔