’’روس اور دنیا کے انقلاب دونوں کی کامیابی کا انحصار دویا تین دن کی لڑائی پر ہے۔‘‘
میں یہ سطریں 8(21)اکتوبر کو لکھ رہا ہوں اور بہت کم امید ہے کہ یہ 9اکتوبر تک پیٹروگراڈ پہنچ جائیں گی۔ ممکن ہے کہ یہ بہت تاخیر سے پہنچیں کیونکہ شمالی سوویتوں کی کانگریس کی تاریخ 10اکتوبر طے ہو چکی ہے۔
لیکن پھر بھی میں اپنا ’’ایک تماشائی کا مشورہ‘‘ ضرور دینا چاہوں گاکیونکہ امکان ہے کہ پیٹروگراڈ سمیت پورے ’’علاقے‘‘کے مزدوروں اور سپاہیوں کا ایکشن جلد شروع ہو جائے گا اور ابھی اس کا آغاز نہیں ہوا۔
یہ واضح ہے کہ تمام اقتدار لازمی طور پر سوویتوں کو منتقل ہو۔ہر بالشویک کے لیے یہ بھی غیر متنازعہ ہونا چاہیے کہ پرولتاری انقلابی اقتدار (یا بالشویک اقتدار۔۔۔اس دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)کو دنیا بھر ، خاص طور پر جنگ میں شریک ممالک، کے محنت کشوں اور استحصال کا شکار عوام اور خصوصی طور پر روس کے کسانوں کی ہر ممکن ہمدردی اور غیر مشروط حمایت حاصل کرنی ہے۔اس عام سچائی پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں۔
جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے وہ شاید کامریڈز پر واضح نہیں۔ وہ یہ کہ سوویتوں کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے ایک مسلح بغاوت کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل صاف ظاہر ہے لیکن ہر کسی نے اس پر غور نہیں کیا یا کر رہا۔ اس وقت مسلح بغاوت سے انکار کرنے کا مطلب ہے کہ بالشویزم کے بنیادی نعرے (سوویتوں کو اقتدار کی منتقلی) اور عمومی طور پر پرولتاری انقلابی انٹرنیشنل ازم سے انکار کرنا۔
لیکن مسلح بغاوت ایک مخصوص قسم کی سیاسی جدوجہد ہوتی ہے جس کے خصوصی قوانین ہوتے ہیں جس کے لیے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کارل مارکس نے اس سچائی کو واضح طور پر بیان کیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ ’’ مسلح بغاوت جنگ کی طرح کا ایک آرٹ ہے۔‘‘
اس آرٹ کے ضابطے بیان کرتے ہوئے مارکس نے کہا تھا:
1۔ بغاوت سے کبھی مت کھیلو، لیکن جب اس کا آغاز کرو تو اس کا بھرپور ادراک کر لو کہ تمہیں آخر تک جانا ہے۔
2۔ فیصلہ کن نکتے پر اور فیصلہ کن لمحے پر تمام تر بہترین قوتوں کو مرتکز کر لو۔ ورنہ دشمن اگر زیادہ منظم اور تیار ہواتو باغیوں کا صفایا کر دے گا۔
3۔ ایک دفعہ بغاوت کا آغاز ہو جائے تو بلند ترین عزم اور پوری طاقت کے ساتھ کام کرتے ہوئے حملہ کرو۔
4۔ تمہیں کوشش کرنی چاہیے کہ دشمن کو حیران کردو اور اس لمحے پر حملہ کرو جب اس کی قوتیں منتشر ہیں۔
5۔ تمہیں روزانہ کامیابی کی کوشش کرنی چاہیے، خواہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو (اگر ایک قصبہ ہو تو ہر گھنٹے کے حساب سے)اور ہر حال میں اخلاقی برتری قائم رکھو۔
مارکس نے مسلح بغاوت کے لیے تمام انقلابات کے اسباق کا نچوڑ عظیم ادیب دانتے کے الفاظ میں دیا تھا جوتاریخ میں انقلابی پالیسی دینے والا سب سے عظیم استاد تھا،’’جرات و بے باکی ، جرات و بے باکی اور مزید جرات و بے باکی۔‘‘
اگر اس کو روس اور اکتوبر 1917ء پر لاگو کریں تو اس کا مطلب ہے کہ پیٹروگراڈپر ایک مشترکہ حملہ۔ جتنا بھی اچانک اور تیز ممکن ہو سکے۔اسے کسی کوتاہی کے بغیر اندر اور باہر سے مکمل کرنا۔محنت کشوں کے علاقوں سے بھی اور فِن لینڈ سے بھی، ریول سے بھی اور کرونسٹاڈسے بھی،پوری بحریہ کا حملہ۔ بورژوا گارڈ (افسروں کے سکول ) یا وینڈی افواج (قزاقوں کا حصہ ) کے پندرہ یا بیس ہزار ( یا شاید زیادہ ) کیخلاف اعلیٰ ترین قوتوں کو پوری طرح مرتکز کرتے ہوئے حملہ۔
ہمیں اپنی تین اہم طاقتوں۔۔۔ بحری بیڑہ،مزدور اور فوجی یونٹ کو ایسے جوڑنا ہو گا کہ ہم ان مقامات پر قبضہ کریں اور ہر قیمت پراس کا دفاع کریں۔1۔ ٹیلی فون ایکسچینج، 2۔ ٹیلی گراف آفس،3 ۔ ریلوے اسٹیشن اور سب سے بڑھ کر پُل ۔
سب سے پُرعزم حصوں کو (ہماری ’’شاک فورس‘‘ اور نوجوان مزدور اور سب سے بہترین بحری سپاہی)کو چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کر کے سب سے اہم حصوں پر قبضہ کرنا ہے اور انہیں ہر جگہ اہم آپریشنوں میں حصہ لینا ہے۔ مثا ل کے طور پر،
’’پیٹرو گراڈ کا محاصرہ کر کے اس کو کاٹنا، اس پر بحری سپاہیوں، مزدوروں اور فوجیوں کے مشترکہ حملے سے قبضہ کرنا۔ ایک ایسا فریضہ جس کے لیے آرٹ اور تین گنا جرات و بے باکی کی ضرورت ہے۔ سب سے پر عزم محنت کشوں کورائفلوں اور بموں سے مسلح کر کے دشمن کے مراکز (افسروں کے سکولوں،ٹیلی گراف آفس،ٹیلی فون ایکسچینج وغیرہ) کا محاصرہ کرنا۔ ان کا نعرہ یہ ہونا چاہیے،’’دشمن کے یہاں سے گزرنے سے جوانمردی سے مرنا بہتر ہے‘‘۔
آؤ امید کریں کہ اگر اس عمل کا فیصلہ ہوتا ہے تو تمام قائد مارکس اور دانتے کے اقوال پر عمل کریں گے۔
روس اور عالمی انقلاب دونوں کی کامیابی کا انحصار دو یا تین دن کی لڑائی پر ہے۔