مشعل کی شہادت پاکستان میں ابھرتی ہوئی طلبہ تحریک میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ مشعل کی جدوجہد اور قربانی کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ اس کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ مشعل کا قتل پولیس، فوج اور سیکیورٹی سمیت اس ٹوٹ کر بکھرتی ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مشعل کا بہیمانہ قتل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پولیس، فوج سمیت تمام ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی طلبہ کو اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی۔ مشعل کی جدوجہد کو جاری رکھنا ہمارا انقلابی فریضہ ہے۔ مشعل کے بہیمانہ قتل میں شریک پولیس، فوج، یونیورسٹی انتظامیہ اور دہشت گرد طلبہ تنظیموں کے افراد کو فوری سزائے موت دی جائے ۔مشعل کا قاتل یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا حکمران طبقہ ہے اور اس نظام زر کو اکھاڑ پھینک کر ہی مشعل کے خون کا حقیقی بدلا چکایا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی مشعل اس طرح کے ہتھکنڈوں کے استعمال سے قتل نہ کیا جائے۔مارکسزم کے نظریات ہی انسانیت کو درپیش مسائل کا درست حل پیش کرتے ہیں اور مشعل کے کمرے میں لگے مارکس اور چی گویرا کے پوسٹر مشعل کے نظریات کی غمازی کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جمعیت اور دیگر غنڈہ گرد تنظیمیں ریاستی پشت پناہی کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور ان کا ایجنڈاطلبہ کو اپنے حقیقی مسائل کے خلاف جدوجہد سے روکنا ہے۔ طلبہ یونین کی انقلابی بنیادوں پر فوری بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مفت تعلیم اور روزگار ہمارا حق ہے اور یہ حق حکمران طبقے سے چھین کر لینا پڑے گا۔مشعل کی راہ پروگریسو یوتھ الائنس کی راہ ہے اور آخری فتح تک ہم اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار 22اپریل کو الحمرا آرٹس کونسل میں ہونے والے پروگریسو یوتھ الائنس(PYA)
لاہور کے کنونشن میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے کیا۔
لاہور میں ہونے والا یہ یوتھ کنونشن عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبعلم مشعل خان کو منسوب کیا گیا تھا جس کو 13 اپریل کو طلبہ حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں ریاستی پشت پناہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یوتھ کنونشن میں لاہور میں واقع تعلیمی اداروں، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لاہور، پنجاب یونیورسٹی، رائل کالج، یونیورسٹی آف مینجمنٹ ایند ٹیکنالوجی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کے ساتھ ساتھ ملتان سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور ایمرسن کالج، اسلام آباد سے اسلامک یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی اور بحریہ یونیورسٹی، فیصل آباد سے زرعی یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور گوجرانوالہ سے بھی طلبہ وفود نے شرکت کی۔ قریباً 100سے زائد طلبہ اس کنونشن میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ ترقی پسند شعرا اور گلوکاروں نے اپنے فن سے اس کنونشن کو چار چاند لگا دیے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض زین العابدین نے سرانجام دیے۔ مشعل کے نام منسوب اس کنونشن کے لئے مارکسسٹ اسٹوڈنٹس فیڈریشن برطانیہ، مارکسسٹ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن امریکہ، اسپین، بیلجیم، فرانس، اٹلی، سویڈن، کینیڈا، یونان، ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک سے پی وائے اے کو موصول ہونے والے یکجہتی کے پیغام بھی پڑھ کر سنائے گئے جن میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ مشعل کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور ہم اس انسانیت دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر اور عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے مشعل کے خون کا بدلہ لیں گے۔ ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں پی وائے اے کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہیں۔ مشعل کی قاتل پاکستانی ریاست اور اس کی حامی امریکہ، برطانیہ اور دیگر سامراجی قوتوں کے خلاف ہم سوشلسٹ انقلاب کی حتمی فتح تک برسر پیکار رہیں گے۔ مشعل کی جنگ ہماری جنگ ہے۔
کنونشن کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے زین نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا اور مختلف ممالک سے موصول ہونے والے پیغام یکجہتی پڑھ کر سنائے۔ زین کا کہنا تھا کہ مشعل کی قربانی نے پاکستان کے نوجوانوں بالخصوص طلبہ کے لئے ایک مثال قائم کی ہے کہ کس طرح اپنے حقوق اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑا جاسکتا ہے۔ مشعل کے قاتل یہ حکمران مشعل کو قتل کر کے پورے پاکستان کے نوجوانوں کے لئے ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے کہ جو بھی اپنے حقوق مانگنے کے لئے کھڑا ہوگا ہم اس کا مشعل والا حشر کریں گے۔ مگر مشعل کے بہیمانہ قتل کے خلاف پورے پاکستان کے نوجوانوں کی جانب سے احتجاجوں کی صورت میں ملنے والے جواب نے ان حکمرانوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے مگر اس کے باوجود پورے پاکستان کے نوجوانوں نے اس بہیمانہ قتل کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں طلبہ تحریک ایک نئی اٹھان لے رہی ہے اور مشعل کی قربانی نے اس کو درست راستہ اور نظریات دکھائے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، پولیس اور فوج اس قتل کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں براہ راست شریک ہیں جو کہ یونیورسٹیوں کی سیکیورٹی کی حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ دہشت گردی کو بنیاد بناتے ہوئے یونیورسٹیوں کو جیلوں میں تبدیل کردیا گیا ہے مگر اس واقعے نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ فوج، پولیس، سیکیورٹی گارڈز طلبہ کی حفاظت کے لئے موجود نہیں بلکہ ان کے اصل کام طلبہ پر جبر کو بڑھانا ہے اور ان کو اپنے حقوق کے لئے منظم ہونے سے روکنا ہے۔ مشعل کا ’قصور‘ یہ تھا کہ اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن کو بے نقاب کیا اور فیسوں میں اضافے کے خلاف آواز اٹھائی۔ مشعل کا قتل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان اداروں پر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ طلبہ دوستی کا نقاب اوڑھے یہ درندے ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس لئے طلبہ کو تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی اپنے ہاتھوں میں لینی ہوگی اور طلبہ کی منتخب قیادت ہی یہ فریضہ سرانجام دے سکتی ہے اور اس کے لئے طلبہ یونینز کی بحالی انتہائی ضروری ہے۔ محنت کش طبقے کے نوجوانوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا تو ویسے ہی ایک خواب ہے مگر پچھلے عرصے میں تعلیمی اداروں کی نجکاری اور فیسوں میں ہونے والے بے تحاشہ اضافے نے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے بھی تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے۔ تعلیم حاصل کر بھی لی جائے تو روزگار ندارد۔ پاکستانی حکمران طبقہ اور یہ ریاست آج محنت کشوں اور نوجوانوں کو سوائے ذلت اور محرومی کے اور کچھ نہیں دے سکتی۔ کسی سیاسی پارٹی کے پاس ان مسائل کا حل موجود نہیں۔ یہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا نتیجہ ہے اور رائج الوقت تمام پارٹیاں اس نظام کی وفادار ہیں۔ ایسے میں نوجوانوں کو اپنے حقوق کے لئے خود نکلنا ہوگا۔ مشعل نے اس ملک کے نوجوانوں کو ناصرف یہ دکھایا ہے کہ اپنے حقوق کے لئے کیسے ڈٹ جایا جاتا ہے بلکہ مشعل نے وہ نظریات بھی نوجوانوں کے سامنے اپنی جاں گنوا کر پیش کر دیے ہیں جن پر چل اپنے حقوق کے لئے درست سمت میں جدوجہد کی جاسکتی ہے اور وہ نظریات مارکسزم کے عظیم نظریات ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس بھی پورے پاکستان میں انہی نظریات پر طلبہ حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کا یہ اعلان ہے کہ مشعل کی جنگ ہماری جنگ ہے اور حتمی فتح سوشلسٹ انقلاب تک اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
کنونشن کے پہلے مقررانجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے طالبعلم شے رضائی تھے۔ شے رضائی نے پروگریسو یوتھ الائنس کے اغراض و مقاصد اور طلبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیسوں میں اضافے سے لے کر روزگار کے مسئلے سمیت آج طلبہ کو درپیش تمام مسائل متحد اور منظم ہوکر درست نظریات پر جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس ان تمام نوجوانوں کو جو اس جدوجہد کا حصہ بننا چاہتے ہیں اس میں شمولیت کی دعوت دیتا ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبعلم ماہ بلوص اسد نے اپنے خطاب میں کہا کہ مشعل کے بہیمانہ قتل کے خلاف جس خودرو انداز میں پورے پاکستان میں نوجوانوں کے مظاہرے ہوئے ہیں وہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آج نوجوان اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ مشعل کے ریاستی قتل کے خلاف کسی سیاسی پارٹی یا طلبہ تنظیم نے احتجاج کی کال نہیں دی بلکہ بیشتر احتجاج سٹوڈنٹس نے خود منظم کیے بلکہ مشعل کے قتل نے روایتی اور نام نہاد ’ترقی پسند‘ طلبہ تنظیموں کا بھی پول کھول دیاہے۔ اس انسانیت سوز واقعے میں جہاں ایک طرف جمعیت اور تحریک انصاف نے ریاستی گماشتے ہونے کا ثبوت دیا تو دوسری پختون ایس ایف کا اس میں ملوث ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ماضی کی یہ ترقی پسند تنظیمیں نظریاتی زوال پذیری کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر حکمران طبقے کی دلال بن چکی ہیں۔ ایسے میں نئی طلبہ تنظیموں کی ضرورت ہے۔ ان ملک گیر مظاہروں کے دوران پروگریسو یوتھ الائنس نے اس واقعے کے پیچھے ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کے حوالے سے نعرے دے کر اور خود احتجاج منظم کر کے عملی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ پروگریسیو یوتھ الائنس درست نظریات اور پروگرام پر طلبہ حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے۔
اس کے بعد ترقی پسند شاعر عابد حسین عابدؔ نے اپنا کلام سنایا جسے شرکا نے بہت پسند کیا۔ عابد حسین عابد کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہورہی ہے کہ طلبہ کے مسائل اور طلبہ حقوق کے لئے جدوجہد کے حوالے سے خود طلبہ ہی بات کررہے ہیں۔ کنونشن کے اگلے مقرر یونیورسٹی آف لاہور کے طالبعلم سہیل راٹھور تھے۔ سہیل نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج تعلیم کا کاروبار سب سے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ مگر لاکھوں روپے خرچ کرکے ڈگریاں خریدنے کے بعد بھی روزگار نہیں ملتا۔ ان حکمرانوں سے ہمیں کوئی امید وابستہ نہیں ہمیں خود اپنے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے طالبعلم عمر ریاض نے جمعیت کی غنڈہ گردی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت تعلیمی اداروں میں ریاستی پشت پناہی کے ساتھ موجود ہے۔ ریاست جمعیت اور اس جیسی دیگر غنڈہ گرد تنظیموں کو مسلسل طلبہ پر نافذ کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہی ہے جس میں وہ مسلسل ناکام ہوئی ہے۔ مشعل کا قتل جس میں یہ ’اسلامی‘ تنظیم ریاستی نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے براہ راست شریک تھی انہیں ریاستی کوششوں کا حصہ تھا۔ جمعیت ایک بنیاد پرست اور فاشسٹ نظریات پر کھڑی تنظیم ہے جس نے ہمیشہ حکمران طبقے اور ریاست کی دلالی کی ہے اور اس کا مقابل ترقی پسند نظریات پرکھڑی ایک دوسری تنظیم ہی کرسکتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست ایسا کیوں کررہی ہے۔ عالمی معاشی بحران کے زیراثر پاکستان کی لولی لنگڑی ریاست کے پاس اس ملک کے عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں۔ اس ملک کے نوجوان اور محنت کش کسی بھی وقت اس نظام کے خلاف بغاوت کرسکتے ہیں۔ اسی ممکنہ بغاوت کا خوف ہی ریاست کو ایسے اقدامات پر مجبور کر رہا ہے۔ مگر یہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے اس ملک کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے بغاوت کے علاوہ اور کوئی رستہ چھوڑا ہی نہیں ہے۔ مشعل کے قتل کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہرے اس ممکنہ طلبہ تحریک کی محض ایک جھلک ہے۔ دنیا بھر سے موصول ہونے والے یکجہتی کے پیغامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسائل ترقی یافتہ دنیا میں بھی وہی ہیں جو یہاں ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نوجوان بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس کی پورے کرۂ ارض کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے ساتھ یہ جڑت مارکسزم کے بین الاقوامی نظریات کی بدولت ہے۔ یہ مارکسزم کے نظریات ہی ہیں جنھوں نے مشعل کو تن تنہا اس نظام کے خلاف کھڑے ہوجانے کی شکتی اور حوصلہ دیا۔ ہم مشعل کے قتل کا بدلہ ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے لیں گے۔
اس کے بعد کلاسیکل گائیک استاد ناصر خان نے اس کنونشن کے لئے خاص طور پر تیار کی گئی نظم ’’میں بھی تو مشال ہوں‘‘ گا کر ناصرف مشعل کی جدوجہد کو انتہائی خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا بلکہ شرکا کے دل بھی جیت لیے۔ یہ نظم کامریڈ پارس جان نے مشعل کی شہادت کے بعد لکھی تھی۔
کنونشن کے دوران مشعل کے قتل میں ملوث تمام افراد اور اس کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی اور پشت پناہی کرنے والوں کو سزائے موت دینے کی قراداد منظور کی گئی۔ اس کے علاوہ مفت تعلیم، نجکاری کے خاتمے، طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے، روزگار یا 15000 روپے بیروزگاری الاؤنس، مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کی حمایت اور کشمیر اور بلوچستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بھی قراردادیں پاس کی گئیں۔
اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی پشتون کونسل سے ابرار خان اور سندھ کونسل سے جان محمد نے پنجاب یونیورسٹی میں جاری جمعیت کی غنڈہ گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت کے ان غنڈوں کو یونیورسٹی انتظامیہ، پولیس اور پنجاب حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے مگر ہم ان کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ لاہور کی ایک طلبہ تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس کولیکٹو کے ممبر حامد رضا نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سب مقررین ریاست، فوج اور حکمران طبقے کے خلاف بات کرکے اپنا کتھارسس کر رہے ہیں۔ ہم ہر چیز کا ملبہ ریاست پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا کہ پاکستان میں بایاں بازو مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔ جمعیت محض ریاستی پشت پناہی سے کام نہیں کرتی بلکہ وہ وقتاً فوقتاً طلبہ مسائل کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ جبکہ بائیں بازو کی تمام تنظیمیں پاپولر سیاست کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ ہمیں مفت تعلیم اور روزگار اور اس جیسے بنیادی مسائل سے آگے بڑھ کر نئی بات کرنی ہوگی۔ حامد رضا کے جواب میں پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم عالمگیر وزیر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جمعیت نے ہی پنجاب یونیورسٹی میں کلچرل اور سپورٹس پروگرام کروانے ہیں تو پھر یونیورسٹی انتظامیہ کس کام کی ہے؟ جب طلبہ سیاست پر پابندی ہے مگر جمعیت کو کام کرنے کی کھلی آزادی ہے تو کیا یہ ریاستی پشت پناہی کے بغیر ممکن ہوسکتا ہے۔ آپ درپردہ جمعیت اور ریاست کی حمایت کررہے ہیں۔ پاکستان میں بایاں بازو ناکام نہیں بلکہ کامیابی کی جانب گامزن ہے۔ عالمگیر نے اس موقع پر کہا کہ وہ پروگریسو یوتھ الائنس کے موقف کو درست سمجھتا ہے اور اس کا حصہ بننے کا اعلان کرتا ہے۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ آج پروگریسیو یوتھ الائنس کا یہ کنونشن اس بات کا اظہار ہے کہ بایاں بازو ناکام نہیں ہوا بلکہ کامیابی کے ساتھ اپنا سفر آگے بڑھا رہا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے صدر اور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے طالبعلم جئیند بلوچ نے اپنے خطاب میں بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن، بلوچ قومی سوال اور پاکستانی ریاست کے سامراجی جبر کے خلاف بات کی اور بی ایس او کی جدوجہد کا بتایا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے اس کنونشن کے لئے خاص طور پر تیار گیا ایک خاکہ بھی پیش کیا جس میں فرسودہ اور طبقاتی نظام تعلیم اور اس کے نوجوانوں پر اثرات کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ پروگرام کی آخری مقرر پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن لاہور ڈویژن کی صدر فائزہ رعنا تھیں۔ فائزہ کا کہنا تھا جس قسم کا رجعتی اور فرسودہ نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے وہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کوسلب کرلیتا ہے۔ ایسے میں ٹیچرز کا بہت اہم کرداربنتا ہے کہ وہ طلبہ کو سوال کرنا اور ہر چیز کا تنقیدی جائزہ لینا سکھائیں اور اگر اساتذہ اپنا یہ فریضہ ادا نہیں کر رہے تو یہ ذمہ داری بھی طلبہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بحث و مباحثے کے ماحول کو ایک بار پھر کیمپسز میں لے کر آئیں۔
کنونشن کے دوران پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کی باڈی بھی منتخب کی گئی جس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے جان شیر لیاقت؛ صدر، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے مستعین الرحمان؛ نائب صدر، یونیورسٹی آف لاہور سے سہیل راٹھور؛ جنرل سیکرٹری، پنجاب یونیورسٹی سے فائقہ؛ وومن سیکرٹری، رائل کالج سے انیب؛ فنانس سیکرٹری، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارس علی؛ جوائنٹ سیکرٹری، پنجاب یونیورسٹی سے ریحان بلوچ؛ کلچرل سیکرٹری، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے حمید بلوچ؛ سٹڈی سرکل انچارج اورانجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے شے رضائی؛ انفارمیشن سیکرٹری شامل ہیں۔
پروگرام کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی چیئرمین فرحان گوہر نے کہا کہ مشعل کا قتل اس بات ثبوت ہے کہ مزدوروں اور نوجوانوں کو دینے کے لئے اس سرمایہ دارانہ ریاست اور حکمران طبقے کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ توہین مذہب اور رسالت کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے والوں کو خاموش کردینے کا یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ یہ اس ریاست کا روایتی ہتھیار ہے اور اس کو استعمال کرنے کے لئے اس نے جمعیت اور اس جیسی دیگر بنیاد پرست تنظیمیں بھی پال رکھی ہیں۔ مگر مشعل کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام اور اس ریاست کے خلاف لڑا جاسکتا ہے۔ یہ نظام کچھ دے سکتا ہے تو بس غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، دہشت گردی اور بنیاد پرستی دے سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی پاپولر سیاست کا مطلب حکمران طبقے کی سیاست ہے مگر ہم آج بھی مفت تعلیم اور روزگار، تنخواہوں میں اضافے جیسے مسائل کے گرد ہونے والی سیاست کو حقیقی سیاست سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس دینے کے لئے نہ کوئی روزگار ہے نہ تعلیم ہے۔ اگر ہمارے پاس کچھ دینے کے لئے ہے تو وہ مارکسزم کے عظیم نظریات ہیں، درست پروگرام اور لائحہ عمل ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی نجات کا واحد راستہ ہے اور مشعل کے خون کا حقیقی بدلہ ہے۔
کنونشن کے اختتام پر شرکا کی پرزور فرمائش پر استاد ناصر خان نے نظم ’’میں بھی تو مشعل ہوں‘‘ ایک بار پھر سنائی۔ جس کے بعد پریس کلب تک ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی میں نوجوان مشعل کے قاتلوں کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس کے علاوہ ’’مشعل کی راہ ہماری ہے، جنگ ہماری جاری ہے‘‘، ’’مشعل تیرے لہو سے، انقلاب آئے گا‘‘، ’’یہ جو دہشت گردی ہے! اس کے پیچھے وردی ہے!‘‘ اور مفت تعلیم و روزگار کے حصول اور طلبہ کے دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے نعرہ بازی کی گئی۔