جمعہ 17 اکتوبر کو مالاکنڈ میں کامریڈ ساجد عالم کی وفات پر پراگریسو یوتھ الائنس (PYA) اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں طلبہ، محنت کشوں، سیاسی کارکنان اور مقامی افراد نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ناصر امین نے سر انجام دئیے جبکہ PTUDC کے انٹرنیشنل سیکرٹری کامریڈ لال خان ریفرنس کے مہمان خصوصی تھے۔
اس موقع پر کامریڈ ساجد کے استاد محمد صابر نے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ساجد اپنے ہم عمر طلبہ سے کئی لحاظ سے مختلف تھا، وہ ایک سنجیدہ نوجوان تھا، ادب اور شاعری میں گہری دلچسپی رکھتا تھا، معاشی ناہمواری اور طبقاتی اونچ نیچ سے سخت نفرت کرتا تھا، میری آخری بار اس سے ملاقات سفر کے دوران بس میں ہوئی، اس گفتگو کے دوران ساجد نے عالمی اور ملکی حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی، میں اس کی معلومات اور علم سے بہت متاثر ہوا اور محسوس کیا کہ وہ ایک غیر معمولی انسان بن چکا تھا۔ کامریڈعمران نے کہا ساجد عالم ایک سچا اور بے لوث انقلابی تھا جسے خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھائے جائے۔ ساجد عالم کے ادبی دوست امیر زیب نے وفات سے کچھ عرصہ پیشتر تحریر کی گئیں ان کی کچھ نظمیں اور اشعار پڑھ کر سنائے جس میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے استحصالی نظام کی سماجی ذلتوں پر روشنی ڈالی تھی۔ پشاور سے کامریڈ فضل قادر اور سوات سے کامریڈ باچازادہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ساجد نے اپنی زندگی کو ایک ایسے عظیم مقصد کے لئے وقف کیا جو زندگی سے کہیں بڑا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ان کی جدوجہد نہ تو رائیگاں جائے گی نہ ہی ان کے کامریڈز انہیں کبھی فراموش کریں گے۔
ساجد عالم کے بڑے بھائی نوید عالم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ساجد عمر میں مجھ سے چھوٹا ہونے کے باوجود میرا استاد تھا، ہم دونوں گھنٹوں سیاست، معیشت اور فلسفے پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے اور وہ میرے ابہام بڑی خوبصورتی سے دور کیا کرتا تھا، رات گئے تک مطالعہ کرنا اس کا معمول تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی کے مذہب کا دشمن نہیں تھا بلکہ اس کی لڑائی استحصال اور نا انصافی پر مبنی اس نظام کے خلاف تھی۔
کامریڈ غفران احد نے کہا کہ انسان جسمانی طور پر تو مر سکتا لیکن اس کے نظریات ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ساجد عالم اپنے ان تھک تنظیمی کام کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہے گا، نسل انسان کو استحصال، جبر اور غلامی سے آزاد کرنے کا جو خواب کامریڈ ساجد نے دیکھا تھا اسے ہم پورا کریں گے اور اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے کچھ رجعتی عناصر اور مُلاؤں نے ریاست کی ایما پر کامریڈ ساجد اور مارکسسٹوں کے خلاف بے بنیاد مذہبی پروپیگنڈہ کی مہم چلا رکھی ہے، ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری لڑائی کسی مذہب سے نہیں بلکہ مذہب کی ٹھیکیداری کرنے والے حکمران طبقے کے گماشتوں سے ہے جنہوں نے مذہب جیسے نجی معاملے کو کاروبار بنا دیا ہے اور استحصالی نظام کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اگر غریب اور مظلوم طبقے کے حق میں ظالم کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہے تو ہم یہ جرم فخر سے ببانگ دہل کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گاندھی گیر نہ سمجھا جائے اور ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بخوبی جانتے ہیں۔ دنیا میں جہاں پر بھی ظلم ہو گا ہم رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کے فرسودہ تعصبات سے بالاتر ہو کر ظالم کے خلاف لڑیں گے۔
کامریڈ لال خان نے کہا کہ ساجد کی موت کا ذمہ دار سرمایادارانہ نظام ہے جس میں انسان کے زخم اور اذیت سے پیسہ کمایا جاتا ہے، یہاں موت سستی ہے اور زندگی مہنگی۔ آبادی کی وسیع اکثریت علاج کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ ٹریفک حادثے کے بعد ساجد کو بٹخیلہ یا مالاکنڈ میں مناسب طبی امداد مل جاتی تو اس کی زندگی بچائی جاسکتی تھی۔ لیکن اسے علاج کے لئے کئی گھنٹوں کی مسافت پر واقع پشاور کے مہنگے پرائیویٹ ہسپتال لے جانا پڑا اور تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس سماج میں ہر چیز، ہر مظہر تضاد کا شکار ہے۔ منصوبہ بندی سے عاری منڈی کی اس بے ہنگم معیشت میں منافع کی ہوس کے تحت گاڑیاں بڑھتی جارہی ہیں اور سڑکیں تنگ پڑتی جارہی ہے، بے قابو ٹریفک سے جنم لینے والے حادثات میں ہر روز قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ آرام دہ اور باعزت پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام قائم کر کے سفر کی اذیت، آلودگی اور انسانی جانوں کے ضیاں کو روکا جاسکتا ہے لیکن اس نظام میں ہر معاشی سرگرمی کا مقصد منافع ہے، انسانی زندگی کو سہل بنانا نہیں۔ کامریڈ لال خان نے کہا ساجد عالم ایک ایسے سماج کی جدوجہد کر رہا تھا جہاں کوئی انسان بھوک، لاعلاجی اور دہشتگردی سے نہ مرے لیکن اسی نظام نے اس کی جان لے لی، ہم غم کی اس گھڑی میں عزم نو کرتے ہیں کہ اس ملک، خطے اور کرہ ارض پر سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے قاتل سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالوں سے ہر دکھ، ہر زخم کا بدلہ لیں گے۔