13 ستمبر 2014 کو پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے مرکزی چیئرمین ریاض بلوچ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔
ریاض بلوچ جو کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں الیکشن لڑچکے ہیں، کو اس سے پہلے انتخابی مہم کے دوران بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ہفتہ کی سہ پہر وہ شہید بے نظیر بھٹو لاء کالج، جس کے وہ پرنسپل ہیں، سے واپس گھر آرہے تھے کہ منزل پمپ، لانڈھی کراچی میں ان پر حملہ کیا گیا۔ ہسپتال کے ذرائع کے مطابق ان کو دو گولیاں پیٹ جبکہ ایک گلے میں لگی۔ جناح اسپتال میں آپریشن کے بعد انکو خصوصی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا ہے۔ ریاض بلوچ پاکستان پیپلز پارٹی میں مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کے نظریات کے حامل نمایاں لیڈ ر ہیں جبکہ پاکستان کی مزدور تحریک میں ایک پرجوش اور نمایاں کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے نج کاری کی پالیسی کے خلاف، PTUDC کے رہنماؤں کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے کشمیر، پختون خواہ، پنجاب اور سندھ بھر میں درجنوں لیبر کانفرنسوں، جلسوں اور لیبر ایکشن کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔ پورے ملک کے محنت کشوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور PTUDC کی جانب سے نج کاری کے خلاف لڑائی کے آغاز کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ریاض بلوچ اور انکے ساتھیوں نے اپنے ملک گیر دورے میں ساٹھ سے زیادہ ریاستی اداروں کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کے لئے ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں۔ اس دورے میں ملک بھر کے تمام بڑے اداروں کے محنت کشوں، ٹریڈ یونینز، فیڈریشنزاور ایسوسی ایشنز کو نج کاری کے خلاف جنگ کے منشور پر متحد کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اس ملک گیر تحریک نے حکمران طبقے کو اپنے مذموم عزائم آگے بڑھانے سے باز رکھا اور حکمران ٹولہ نج کاری کا مکروہ عمل روک دینے پر مجبور ہوگیا۔
ریاض بلوچ پہلے بھی اس قسم کے ملک گیر دورے کرتے رہے ہیں جن کا مقصد ملک بھر میں مزدورتحریک کو مضبوط بنانا تھا۔ انہوں نے کئی بارعالمی مارکسی رجحان (IMT) کی عالمی کانگریس میں شرکت کی اور نہ صرف بین الاقوامی مزدور تحریک کے تجربات سے آگاہی حاصل کی بلکہ پاکستان میں مزدورتحریک اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد سے دنیا بھر کے مارکسسٹ انقلابیوں کو روشناس کیا۔ مفادپرستی کے اس دور میں سرمایہ داری کے مخالف دھارے میں آگے بڑھتے ہوئے ایک انقلابی رہنما کا کردار ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔
کافی پیچیدہ آپریشن کے بعد ریاض بلوچ اگرچہ بظاہر خطرے سے باہر ہیں مگر انتڑیوں میں آنے والے گہرے زخموں کے باعث وہ کئی مہینے تک نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ریاض بلوچ پر قاتلانہ حملہ سٹریٹ کرائم ہے یا فاشسٹ تنظیم کا انتقامی وار، کراچی میں موت بانٹنے والے مختلف گروہوں کی کاروائی ہے یا ریاستی اداروں کی کارستانی، کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ مگر یہ حملہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان بھر میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص انقلابی سیاست کرنا کتنا دشوار اور خطرناک کام ہے۔ فی الوقت اس چیلنج کا جواب بھر پور انقلابی اور تنظیمی سرگرمیوں کے ذریعے دینا ہی درست ردعمل ہوگا۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ ایسے حملوں سے انقلاب کے سفر پر گامزن ساتھیوں کے قدم ہرگز نہیں ڈگمگائیں گے۔ انقلاب کے راستے کٹھن امتحانات لیتے ہیں۔ ہمیں استقامت سے اپنی تنظیمی مضبوطی اور نظریاتی پختگی کو ثابت کرنا ہوگا۔ آگے بڑھتے رہنا ہوگا، تب تک کہ انقلابیوں کے قدم انقلاب کی چوکھٹ پر جا پہنچیں۔