Urdu

برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما، ’سر‘ کیئر سٹارمر کی جانب سے نیٹو کی تعریف میں خط لکھا گیا ہے جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو متاثر کرنا اور لیفٹ کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ مغربی سامراج پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے مزدور تحریک کو سوشلسٹ بین الاقوامیت کے لیے لڑنا ہوگا۔

یوکرائن میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے ہمیں ایلن ووڈز (’مارکسزم کے دفاع میں‘ ویب سائٹ کے مدیر) آگاہ کر رہے ہیں۔ روس کی جارحیت کے آغاز سے مغربی میڈیا مسلسل غلیظ پروپیگنڈہ کر رہا ہے جس سے خوف و ہراس کی بھیانک فضا قائم ہو رہی ہے اور اب اخبارات تیسری عالمی جنگ کے امکانات پر چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ سامراجی قائدین ”یوکرائن کی قومی خودمختاری کی پامالی“ پر تعفن زدہ منافقت کا اظہار کرتے ہوئے پیوٹن کی ملامت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی گھناؤنے قاتل ہیں جو ماضی میں اپنے مفادات کیلئے جنگ کو سفاک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ مارکس وادیوں کو ہر ملک میں اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے منافقت زدہ سفاک ”حب الوطنی“

...

فرانسیسی صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 10 اپریل کو منعقد کرایا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر امیدوار کون ہوں گے، مگر یہ پیشگوئی کرنا نا ممکن ہے کہ دوسرے مرحلے تک ان میں سے کون کون پہنچیں گے۔

بالآخر امکان حقیقت میں بدل چکا ہے۔ روسی افواج نے یوکرائن پر دیو ہیکل حملہ کر دیا ہے۔ علی الصبح ٹی وی پر ایک مختصر خطاب میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک ”خصوصی فوجی آپریشن“ کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے چند منٹوں بعد یوکرائن میں صبح 5 بجے دارلحکومت کیف سمیت بڑے شہروں کے قریب دھماکے سنائی دیئے۔

مندرجہ ذیل تحریر عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کے روسی کامریڈوں کا اعلامیہ ہے، جس میں 24 فروری کو علی الصبح یوکرائن پر کیے گئے حملے کی مذمّت کی گئی ہے۔ فوجی مداخلت نا منظور! شاؤنزم نا منظور! عوام کے بیچ جنگ مردہ باد! طبقات کے بیچ جنگ زندہ باد!

کرونا وباء نے پہلے سے موجود سرمایہ دارانہ بحران کو مزید تیز اور گہرا کر دیا ہے۔ آج ہمیں دہائیوں کے سب سے گہرے سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ کچھ حد تک معاشی بحالی کے باوجود، پچھلے عرصے میں سرمایہ داروں کی جانب سے مجبوری میں لیے جانے والے اقدامات (یعنی دیوہیکل پیمانے پر ریاستی اخراجات) کا نتیجہ اب افراطِ زر میں اضافے کی صورت نکل رہا ہے، جس کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی دنیا بھر میں غم و غصّے اور عدم استحکام کو اشتعال دے رہی ہے۔

جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک میں بی جے پی حکومت کی جانب سے حجاب پر پابندی عائد کرنا، بھارتی حکمران طبقے کی عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی گھناؤنی پالیسی کا تسلسل ہے۔ یہ برطانوی سامراج کے ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کے طریقہ کار کی میراث ہے، جس نے پورے خطے میں مذہبی منافرت پھیلائی ہے، اور جسے مودی حکومت نے ایک نئی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ کانگریس کی حکومت کے دوران اس نے بھی ملک میں سرمائے کی حکمرانی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے یہی حربہ استعمال کیا تھا۔ مودی حکومت صرف حکمران طبقے کے سفاک چہرے کی نمائندگی کرتی ہے، جو حالیہ گہرے بحران کے نتیجے میں مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور اظہار رائے کی آزادی کا جھوٹا پردہ بھی گرتا جا رہا ہے۔

30 اور 31 جنوری 2022ء کو ایران بھر کے 300 سے زائد شہروں میں اساتذہ نے ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کی قیادت کے تحت ہڑتال کی۔ جلسوں میں لگائے جانے والے نعرے یہ تھے: ”اساتذہ اس بے عزتی کو برداشت کرنے کی بجائے مرنا پسند کریں گے“، ”اگر انصاف ہوتا تو اساتذہ سڑکوں پر نہ نکلتے“، اور ”ہمارے پاس توپیں اور بندوقیں نہیں مگر ہمارے پاس لوگوں کی حمایت ضرور ہے“۔ ہڑتال کی پاداش میں ٹریڈ یونین کے درجنوں اراکین کو گرفتار کیا گیا۔ مگر اساتذہ کا حوصلہ برقرار ہے، جنہوں نے اس مہینے ہفتہ وار ہڑتالیں منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی طرف جائیں گے۔

”تاریخ کا خاتمہ اور آخری بشر“ کی اشاعت کو تیس سال گزر چکے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام پر تمسخر اڑاتے ہوئے امریکی ماہر سیاسیات محترم فرانسس فوکویاما نے حیران کن دعویٰ کیا کہ انسان تا ریخ کے خاتمے تک پہنچ چکا ہے کیونکہ انسان کا نظریاتی ارتقاء منہاج پر پہنچ چکا ہے اور مغربی لبرل جمہوریت کو عالمی پیمانے پر رائج کرنا ہی، انسانی طرزِ حکومت کی معراج ہے۔

پچھلے چند ماہ سے دنیا بھر کے میڈیا پر یورپ میں ایک نئی جنگ کے بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی انٹیلی جنس سروسز کے مطابق، روس نے یوکرائن کے ساتھ اپنی سرحدوں پر ایک لاکھ پر مشتمل فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں۔ روس نے بیلاروس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں بھی شروع کی ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کا روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ چلا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ابھی تک معاملات حل نہیں کر سکا۔

نئے سال کے پہلے ہفتوں سے ہی بری خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک جانب اومیکرون نے پہلے سے ہی تباہی مچائی ہوئی تھی، جبکہ اب کینیڈا کے محنت کش گھرانے خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا بھی کریں گے۔ ڈلہاؤزی یونیورسٹی کیرپورٹ کے مطابق، اس سال اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 6 سے 8 فیصد اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

پچھلے دسمبر کے دوران ایران بھر میں 230 ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے ہیں۔ اساتذہ کا 10 سے 13 دسمبر تک کی تین روزہ ملک گیر ہڑتال، جو ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل کے تحت منعقد ہوئی، کے بعد بھی ایران بھر میں ان کے احتجاج جاری ہیں۔ خوزستان کے اندر شعبہ تیل کے محنت کشوں کی ہڑتالیں وقفے وقفے سے جاری ہیں، جبکہ اطلاعات کے مطابق تقریباً روزانہ بڑے بڑے کارخانوں کے محنت کش غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا آغاز کر رہے ہیں۔

سرمایہ داری انسانیت کو مزید ترقی دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عرصہ دراز پہلے محنت کش طبقے کو اس نظام کو اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے تھا۔ لیکن اب تک ایسا کیوں نہیں ہو سکا ہے؟ اس سوال کا جواب قیادت اور انقلابی پارٹی کے کردار میں پوشیدہ ہے۔ یہ مضمون سال 2021ء کے موسم سرما میں منعقد ہونے والے کینیڈا کے مونٹریال مارکسی سکول کی ایک بحث سے ماخوذ ہے جس میں اس سوال کے مختلف پہلوؤں اور عالمی محنت کش طبقے کی شاندار تاریخ سے حاصل کردہ اسباق کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اقتدار میں تقریباً 19 سال گزارنے کے بعد ترکی کے سب سے لمبے عرصے تک صدر رہنے والے ”مردِ آہن“ طیب اردوگان کی مقبولیت میں تیزی کے ساتھ کمی آتی جا رہی ہے۔ کرونا وباء کی چنگاری سے شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران نے پہلے سے ہی بحران زدہ حکومت کو شدید لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

6 جنوری 2022ء کو قزاقستانی فوج اور سیکورٹی فورسز روس کے خصوصی دستوں کی مدد سے اس تحریک کو کچلنے کی جانب بڑھے جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد قزاقستان کی سب سے بڑی عوامی تحریک بن گئی ہے۔