نیٹو کے مظالم کی تاریخ اور برطانیہ کا مزدور دشمن حکمران طبقہ

برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما، ’سر‘ کیئر سٹارمر کی جانب سے نیٹو کی تعریف میں خط لکھا گیا ہے جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو متاثر کرنا اور لیفٹ کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ مغربی سامراج پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے مزدور تحریک کو سوشلسٹ بین الاقوامیت کے لیے لڑنا ہوگا۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

گزشتہ ہفتے، کیئر سٹارمر نے گارڈین اخبار میں مغربی سامراج کے لیے ایک ’کراہت آمیز پیار کا خط‘ شائع کیا۔ سٹارمر کا نیٹو کے بارے میں سطحی جوش و خروش اور انتہائی احمقانہ محب الوطن شور شرابا درحقیقت خود کو برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا چیمپین اور بائیں بازو کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن اس کا مضمون شروع سے آخر تک جھوٹ اور سامراجی پروپیگنڈے کا ڈھیر ہے۔

سٹارمر مغربی سامراجیوں کے فوجی اتحاد پر تعریفوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے، اس کا انتہائی غیر مناسب موازنہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس سے کرتا ہے اور اسے "1945ء کی لیبر حکومت کی عظیم کامیابیوں" میں سے ایک کے طور پر پیش کرتا ہے: ایک "تغیر پذیر میراث" جو بظاہر لیبر کا "فخر" ہے، اور اسے "غیر متزلزل"، اور "پختہ" حمایت حاصل ہے۔

لیبر رہنما لکھتے ہیں کہ "نیٹو کی مذمت کرنا اس ’جمہوریت اور امن کی ضمانت‘ کی مذمت کرنا ہے جو نیٹو کے ذریعے لائے گئے ہیں"۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ آیا نیٹو کے 20 سالہ تسلط کے بعد افغان نوجوان اور محنت کش بھی اس سوچ سے اتفاق رکھتے ہیں؟

سٹارمر کا کہنا ہے کہ نیٹو ایک "دفاعی اتحاد ہے جس نے کبھی تنازعہ کو ہوا نہیں دی"۔ لیکن اس کے برعکس پچھلے 30 سالوں میں، نیٹو نے عراق، یوگوسلاویہ، افغانستان، صومالیہ اور لیبیا میں جارحانہ فوجی کارروائیوں میں جوش و خروش سے حصہ لیا ہے۔

ساتھ ہی، نیٹو نے فوج اور فوجی سازوسامان کے ذریعے روس کو مشرق کی جانب سے گھیرنے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ سٹارمر کی ’پریوں کی کہانیاں‘ مغرب کے اچھے لوگوں اور مشرق کے برے لوگوں کے بارے میں سکول میں پڑھائی جانے والی اور میڈیا کے ذریعے زبردستی ہمارہے ذہنوں میں انڈیلی جانے والی کہانیوں سے ملتی ہیں۔ اس طرح کی لغو کہانیاں بچوں کے لیے موزوں تو ہو سکتی ہیں مگر مفکر مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے نہیں۔

مغربی جارحیت

درحقیقت، نیٹو کی بنیاد 1949ء میں امن کے پرچار کے طور پر نہیں بلکہ سرد جنگ لڑنے کے ہتھیار کے طور پر رکھی گئی تھی۔ اور تب سے اسے ہتھیار کے طور پر ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک فوجی اتحاد ہے، جسے مالی امداد کا تین چوتھائی حصہ امریکہ سے ملتا ہے؛ جس کے مطابق اگر ایک رکن پر حملہ ہو تو ہر دوسرے رکن کو مل کر طاقت سے اس کا جواب دینا چاہیے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد روسی معیشت زوال کا شکار ہوگئی۔ افراتفری کا راج تھا، اور روس اپنے گھٹنوں پرگر چکا تھا۔ مغربی سامراجیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی منڈیوں اور اثر و رسوخ کے دائروں کو مشرق کی طرف پھیلانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ نیٹو اس حکمت عملی کا کلیدی حصہ رہا ہے۔

1999ء میں ’وارسا معاہدے‘ کے سابقہ ممالک پولینڈ، ہنگری اور جمہوریہ چیک نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ 2004ء میں، ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا بھی اس کا حصہ بنے۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر، روس کی سرحدیں دشمن فوجی اتحاد کے ارکان کی جانب سے گھیری جا رہی تھیں۔

سٹارمر روس کو "جارح" اور "بدمعاش" کے طور پر بیان کرتا ہے۔ لیکن ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ نیٹو اور روس میں سے کس نے دوسرے کے سابقہ اتحادیوں کی منڈیوں اور علاقوں میں جارحانہ توسیع کی؟ اور کون کئی سالوں سے دوسرے کی سرحدوں پر فوجیں اور ملٹری ہارڈ ویئر لگا رہا ہے؟

نیٹو کی روس کی جانب اشتعال انگیزی جاری رہی۔ 2003ء میں جارجیا میں امریکہ نواز حکومت کو اقتدار میں لایا گیا۔ امریکی مشیروں نے جارجیا کی فوج کو تربیت دینے میں مدد کی، اور ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ روس کی دفاعی صلاحیت کی حدود کو جانچیں۔

بخارسٹ میں 2008ء کے سربراہی اجلاس میں نیٹو کے ارکان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ روس کی سرحد سے متصل جارجیا اور یوکرین، مستقبل میں اس اتحاد میں شامل ہوں گے۔

ان واقعات سے حوصلہ پکڑتے ہوئے، جارجیا کے صدر ساکاشویلی نے 2008ء میں جنوبی اوسیشیا کے خود مختار علاقے پر حملہ کیا، جہاں کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی روسی شہری ہے۔

اس سے ایک اہم موڑ کی نشاندہی ہوئی۔ اس حملے کے ذریعے امریکی سامراج اپنی حد سے تجاوز کر گیا، اور روسی سرمایہ داری (جو 1990ء کی دہائی کے اوائل سے دوبارہ تعمیر کی گئی تھی) کی طاقت کو پوری طرح سمجھنے میں ناکام رہا۔

روسیوں نے جوابی حملہ کیا اور امریکی تربیت یافتہ جارجیائی فوج کو فیصلہ کن شکست دی۔ نیٹو کے ارکان، جو عراق اور افغانستان میں غیر مقبول اور بے نتیجہ جنگوں میں بندھے ہوئے تھے، اپنے اتحادی کو روسی فوجی مشینری کے ہاتھوں شکست کھاتا دیکھتے رہے (تماش بین بنے رہے)۔

سامراجی سازشیں

اس کے بعد یوکرین آیا۔ 2014ء میں جب یوکرین کے صدر یانوکووچ نے یورپی یونین کے بجائے روس کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس کے نتیجے میں ہونے والی ’یورومیدان‘ احتجاجی تحریک میں مغربی سامراج نے اہم کردار ادا کیا۔ امریکی سینیٹر جان مکین نے کیف میں ریلیوں سے خطاب کیا، اور امریکی معاون وزیر خارجہ نے یوکرین میں امریکی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے 5 بلین ڈالر خرچ کرنے کا اعتراف کیا۔

امریکی سامراج کی ان گنت اور غیر معمولی سازشوں کی بدولت روس نواز یانوکووچ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس کی جگہ مغرب نواز بورژوا پارٹیوں کی حکومت نے لی، جس میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی ’سووبوڈا‘ بھی شامل تھی۔ یہاں تک کہ نیو نازی دائیں سیکٹر کے فاشسٹوں کو انتظامیہ میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی۔

اس نئی حکومت نے، اپنے نیٹوحمایتیوں کے ساتھ واضح طور پر اتحاد کرتے ہوئے ملک کے مشرق میں روسی بولنے والے یوکرینی باشندوں پر شکنجہ کسا۔

ایک بار پھر، روس نے اشتعال انگیزی کا پر زورجواب دیا اور کریمیا کو ضم کر لیا، جہاں روس کا ایک اہم بحری اڈہ ہے۔ نیٹو ارکان کو شدید تکلیف پہنچی لیکن جواب میں کچھ نہ کر سکے۔

جارجیا اور یوکرین دونوں میں، روسی حکومت نے ریت میں لکیریں کھینچیں اور نیٹو سے کہا: ’یہاں تک اور مزید نہیں‘۔

نیٹو کی کمزوری

آج نیٹو مکمل طور پر کمزور پڑ چکی ہے۔ 2015ء میں شام کی جنگ کے دوران روسی جنگی طیاروں نے نیٹو کے رکن ملک ترکی کی فضائی حدود کی بار بار خلاف ورزی کی۔ ترکی نے اپنے نیٹو اتحادیوں سے مدد کی اپیل کی لیکن نیٹو اتحاد ’سخت الفاظ میں بیانات‘ کے علاوہ کچھ مدد نہ کر سکا۔

2016ء میں، نیٹو نے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں 4 ہزار فوجیوں کو مشرقی یورپ کی حمایت کی ’علامت‘ کے طور پر تعینات کیا۔ جبکہ پینٹاگون کے مطابق کم از کم 30 سے 40 ہزار فوجیوں کی تعیناتی ہی روسی فوج کو چند دنوں میں بالٹک ریاستوں پر قابو پانے سے روک سکے گی، اگر کریملن ایسا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو۔

پچھلے 15 سالوں میں سرمایہ دارانہ بحرانوں کی لہر کے بعد تحفظاتی پالیسیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس نے سرمایہ داروں کے قومی گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ اس بحران نے طبقاتی جدوجہد اور سیاسی انتشار میں اضافے کی راہ ہموار کی ہے۔ اور یہ سب 30 ریاستی فوجی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے سازگار نہیں ہے۔

پیوٹن حکومت نے نیٹو کی کمزوری اور امریکہ کے چین کو سب سے بڑا دشمن سمجھ کر اس پر خصوصی توجہ دیے جانے کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ نتیجتاً، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، پیوٹن یوکرینی سرحد پر فوجیں جمع کر کے، نیٹو کی تین دہائیوں پر محیط روس کو گھیرے میں لا کر تنہا کرنے کی پالیسی کو الٹنے میں کامیاب رہا ہے۔

لبرل منافقت

اس نے مغربی سامراج کے معذرت خواہوں کی جانب سے احتجاج کو بھڑکایا ہے، بشمول سٹارمر، پال میسن، اور متوسط طبقے کے لبرلز (جن میں سے کچھ خود کوسوشلسٹ بھی کہتے ہیں)۔

یہ بدمعاش ’جمہوریت کے دفاع‘ اور ’قوموں کے حق خود ارادیت‘ کے نام پر مغربی سامراج کی حمایت کرتے ہیں۔ سٹارمر یوکرین کے بارے میں لکھتا ہے، "ہمارے براعظم یورپ میں ایک خودمختار ملک کی سالمیت خطرے میں ہے"۔ یوکرین کی خودمختاری کے لیے یہ فکرتب کہاں تھی جب امریکی سامراج فسطائی گروہوں کی حمایت میں اربوں ڈالر خرچ کر کے یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹ رہا تھا کیونکہ اس نے امریکی سامراج کی بولی بولنے سے انکار کر دیا تھا؟

نیٹو اور روس کے درمیان لڑائی دراصل منڈیوں اور اثر و رسوخ کیلئے غنڈہ گرد گروہوں کی لڑائی ہے۔ چھوٹی قوموں کے حقوق، یا ان کی حکومتوں کی جمہوری اسناد، سامراجی طاقتوں کے لیے صرف ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔

برطانوی حکومت انتہائی کرپٹ اور قانون شکن ہے؛ بدنام پولیس فورس؛ ذلیل و رسوا ہو چکا شاہی خاندان؛ اور ایسے میڈیا پر مشتمل ہے جو یا تو سرکاری ہے یا ارب پتیوں کی ملکیت۔ اوریہ سب محنت کش طبقے کے معیار زندگی کو کچلنے میں متحد ہیں۔

اور پھر بھی سٹارمر انتہائی ڈھٹائی سے برطانیہ کو ایک "آزاد قوم" کہتا ہے، اور دعویٰ کرتا ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کی آمریت کو دوسروں کو نصیحت کرنے اور بین الاقوامی سٹیج پر اپنا اثر ڈالنے کا حق ’خدا کی طرف سے‘ دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں محنت کشوں کے مفادات کو برطانوی حکمران طبقے کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی یہ کوشش اندھی حب الوطنی ہے۔ سٹارمر نے اسے "بیونائٹ انٹرنیشنلزم" کے طور پر بیان کیا ہے، جس میں اس نے ارنسٹ بیون کا حوالہ دیا ہے۔ ارنسٹ بیون دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا لیبر پارٹی کا سیاست دان تھا، جو چرچل کی جانب سے جنگی حالات میں بنائی گئی کابینہ کا بھی حصہ رہا۔ درحقیقت یہ اسٹیبلشمنٹ اور مغربی سامراج کی جانب سے محض جہالت اور جنگی جنون ہے۔

سوشلسٹ بین الاقوامیت

سامراج پر ’معذرت‘ کے برعکس، بین الاقوامی سوشلسٹ تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی سامراجیوں نے، سر سے پیر تک مسلح ہو کر، کریملن کے غنڈہ گرد حکمرانوں کے ساتھ جنگ کو ہوا دی ہے، جو اب جوابی وار کر رہے ہیں۔

منڈیوں اور منافعوں پر اقتدار کی اس کشمکش میں امریکہ، برطانیہ، یوکرین اور روس میں ہار صرف محنت کش طبقے کے حصے میں آئے گی۔

سٹارمر کے مطابق "جنگ کو روکنے کے لیے، آپ کو یہ دکھانے کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ امن کے لیے کھڑے ہونے پرسنجیدہ ہیں"۔

درحقیقت مزدوروں کے درمیان بین الاقوامی یکجہتی ہی جنگ کو روک سکتی ہے۔ حقیقی بین الاقوامیت کے لیے ہمیں 2019ء میں لی ہاورے، جینوا اور مارسیلے میں ڈاک کے محنت کشوں کی مثال لینی چاہئیے۔ ان محنت کشوں کے بحری جہازوں پر ہتھیار لوڈ کرنے سے انکار کرنے کے نتیجے میں یمن کے خلاف سعودی سامراج کی جنگ میں خلل پڑا۔

ہمیں ہر گز برطانوی حکمران طبقے، یا اس کے پالتو کتے ’سر‘ کیئر سٹارمر، کے جمہوریت اور آزادی کے بارے میں میٹھے جھوٹوں کی بنیاد پرمغربی سامراج کی حمایت کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئیے۔ نہ ہی ہمیں نیٹو کے خلاف روسی حکمرانوں کی حمایت کرنی چاہئیے۔

اس جھوٹی اسٹیبلشمنٹ اوراس کے بیرونی قوتوں کے حملے کی مذمت کے شور شرابے میں شامل ہونے کے بجائے، برطانیہ میں بائیں بازو اور مزدور تحریک کا بنیادی کام یہ ہے کہ توپوں کا رُخ اپنے اصل دشمن، یعنی بدعنوان، مجرم حکمران طبقے اور ان مغربی سامراجی مفادات، جن کا وہ دفاع اور خدمت کرتے ہیں، کی جانب موڑیں۔

سوشلسٹوں کو اندرون ملک یا بیرون ملک، محنت کش طبقے کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سامراجی بلاکس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس میں جنگ کا خطرہ اور تباہی بھی شامل ہے۔

صرف دنیا کے محنت کشوں کے اکھٹ، متحدہ عمل اور یکجہتی کے ذریعے ہی سب کے لیے امن اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔