سرمایہ داری ایک بیمار نظام ہے جو اپنا ترقی پسندانہ سفر بہت پہلے پورا کر چکا ہے۔ اپنے شدید ضعف کے دور میں یہ جنگ، نسل پرستی، غربت اور بھوک کو جنم دیتا ہے۔ سرمایہ داری کا حتمی مرحلہ سامراجیت ہے جس کا خاصہ مختلف سرمایہ دار لٹیروں کے گروہوں کے درمیان لوٹ مار کی تقسیم کی لڑائی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات سے لوٹ کا مال سکڑ رہا ہے اور ان کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے جس کی وجہ سے ہم عسکریت پسندی اور جنگ کی طرف رجحان میں نیا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
غزہ میں جاری جنگ نے ہمیں سرمایہ داری کی بربریت کا سب سے واضح چہرہ دکھایا ہے۔ مغربی سامراجیوں نے اسرائیلی جنگی مشین کے ذریعے 40 ہزار نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی بھرپور پُرجوش حمایت کی اور مادی مدد فراہم کی ہے۔ اس عمل میں انہوں نے ’مغربی اقدار‘، ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ اور انسانی حقوق کے تقدس کی تمام منافقانہ باتوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
یوکرین میں روسی جنگی جرائم پر ان کے تمام واعظ اور مگرمچھ کے آنسوؤں والی منافقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ یہ جنگ یوکرین کی آزادی یا خودمختاری کے لیے نہیں ہے بلکہ روس کو ایک حریف طاقت کے طور پر کمزور کرنے کے لیے یوکرینی عوام کو ایک اور سامراجی قتل عام میں چارہ بنا کر جھونکا گیا ہے۔
غزہ اور یوکرین میں یہ جنگیں دنیا بھر میں جاری سرمایہ داری کی بربریت کی صرف دو مثالیں ہیں۔ غزہ، یوکرین، کانگو، سوڈان، تائیوان کی تنگنائی میں بڑھتی ہوئی کشیدگیاں اور دنیا کے 30 سے زائد ممالک میں جاری جنگیں اور خانہ جنگیاں: یہ ہے وہ مستقبل جو سرمایہ داری نے انسانیت کے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔
سرمایہ داری کی موت کے کرب کے دور میں رجعتی اور سامراجی جنگیں پھیل رہی ہیں۔ اموات، زخموں اور بیماریوں کی صورت میں، 11.7 کروڑ سے زیادہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کے ذریعے، روزگار کے ذرائع کی تباہی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں، لاکھوں غریب عوام اور محنت کش طبقہ اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ مٹھی بھر غیر منتخب، غیر جوابدہ ارب پتی جونکوں کے منافع کے لیے ہو رہا ہے۔
لیکن اس عمل کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ لاکھوں، بلکہ کروڑوں لوگ ریڈیکل ہو رہے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی، جنگ اور سامراجیت کے خلاف لڑائی کے لیے رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے لاکھوں لوگوں اور بڑے پیمانے پر احتجاجی کیمپوں کی تحریک نے یہ ثابت کر دیا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ایک وسیع البنیاد بین الاقوامی مہم شروع کی جائے جو عسکریت پسندی اور سامراجیت کے خلاف واضح پروگرام پر مبنی ہو۔ اس مقصد کے لیے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل درج ذیل پروگرام کو ایسی مہم کے نقطہ آغاز کے طور پر پیش کرتی ہے اور ہم ہر اس فرد یا تنظیم سے رابطے کی اپیل کرتے ہیں جو سامراجی جنگ کی سنجیدہ مخالفت کرتے ہیں تاکہ وہ اس مہم میں شامل ہوں اور اس کام میں ہمارا ساتھ دیں۔
ہم ہر یونیورسٹی، اسکول، مزدور تنظیم، یونین اور کام کی جگہ تک پہنچنے کا عزم رکھتے ہیں تاکہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے غصے کا واضح اظہار کیا جا سکے اور اسے ہمارے ارد گرد بڑھتی ہوئی اس بربریت کے ذمہ دار مجرموں یعنی سامراجی حکمران طبقے کے خلاف موڑا جا سکے۔
جنگ نہیں صحت! بندوق نہیں قلم!
جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام بحران میں داخل ہوتا ہے منڈیاں سکڑتی ہیں اور سرمایہ کاری کے مواقع ہوا میں تحلیل ہوتے ہیں، سامراجی طاقتوں کی لڑائی ایک نئے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں وہ اپنی منڈیوں، اثر و رسوخ کے دائرہ کار اور سرمایہ کاری کے میدانوں کا دفاع کرنے اور پھیلانے کے لیے اپنے ہتھیار صیقل کر رہے ہیں۔
ہر طرف حکمران طبقے کی طرف سے ایک ہی نعرہ بلند ہو رہا ہے: روٹی سے پہلے بندوقیں! صرف 2023ء میں عالمی دفاعی اخراجات 9 فیصد بڑھ کر ایک ریکارڈ 2.2 ٹریلین ڈالر سالانہ تک پہنچ گئے یعنی ہر مرد، عورت اور بچے کے لیے اس سیارے پر ہر سال 306 ڈالر تباہی کے سامان پر خرچ ہو رہے ہیں۔
وہ فوجی شعبے کے لیے یہ سب کچھ فراہم کر سکتے ہیں۔ وہ اسرائیلی جنگی مشین اور یوکرین کی خونخوار جنگ کے لیے اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن دہائیوں سے ہمیں بتایا گیا ہے کہ خزانے خالی ہیں، ہم نے اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کیا ہے اور اس لیے ہمیں تعلیم، صحت اور دیگر عوامی شعبوں پر حملے قبول کرنا ہوں گے۔ جب وہ عوامی خدمات میں مزید کٹوتیوں کی تیاری کر رہے ہیں اسی وقت میں وہ فوجی شعبے کے لیے حیرت انگیز پیسوں کا وعدہ کر رہے ہیں۔
یہی معزز خواتین و حضرات جو کہتے ہیں کہ ان کے پاس تعلیم کے لیے فنڈز نہیں ہیں، وہ غزہ کے 20 لاکھ باشندوں کے گھروں کو ملبے میں تبدیل کرنے کے لیے پیسے فراہم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ نئے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی تعمیر کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن وہ جنگ کے پہلے 100 دنوں میں غزہ کی تمام 12 یونیورسٹیوں کو خاک میں ملانے کے لیے پیسہ فراہم کرتے ہیں۔
یورپ میں 2023ء میں فوجی خرچ سالانہ بنیاد پر 16 فیصد بڑھ گیا۔ 2022ء میں یوکرین جنگ کے آغاز کے فوراً بعد جرمن چانسلر اولاف شولز نے جرمن فوجی تجدید کے لیے 100 ارب یورو کی خطیر رقم کا اعلان کیا۔ یہ 2014ء سے دفاعی خرچ میں ہونے والے 55 فیصد اضافے کے علاوہ ہے۔
یہ پیسہ کہیں سے تو اکٹھا ہو گا اور اس سال 30.6 ارب یورو عوامی خرچوں میں کٹوتی کی جائے گی جن میں صحت، بچوں کی دیکھ بھال اور عوامی نقل و حمل سمیت دیگر عوامی شعبوں کے فنڈ شامل ہیں۔ یہ محض آغاز ہے۔
برطانیہ میں صرف گزشتہ سال دفاعی خرچ میں 7.9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا موازنہ اس حقیقت سے کریں کہ 2024ء کے لیے صحت کے شعبے کے مختص بجٹ میں 1.2 فیصد کٹوتی کی گئی ہے جو 1970ء کی دہائی کے بعد برطانیہ میں صحت کے شعبے میں سب سے بڑی حقیقی کٹوتی ہے۔ برطانیہ کے نئے ’لیبر‘ کے وزیراعظم کیر اسٹارمر نے کہا کہ وہ ٹوٹتے صحت کے نظام یا بھوکے بچوں کے لیے پیسے کا وعدہ نہیں کر سکتا مگر فوراً ہی اس نے یوکرین کے لیے اربوں مالیت کے اسلحے کا وعدہ کیا۔
دیگر سامراجی ممالک میں بھی صورت حال یہی ہے۔ جاپان میں دفاعی خرچ ایک سال میں 11 فیصد اور سویڈن میں 12 فیصد بڑھا ہے۔ تقریباً ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔
اس سال نیٹو کی 75 ویں سالگرہ کی سربراہی کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ اتحاد کے رکن ممالک کی ریکارڈ تعداد دفاع پر GDP کا 2 فیصد سے زیادہ خرچ کر رہی ہے: بلاک کے 31 ارکان میں سے 23، جو 10 سال پہلے صرف تین تھے۔ پھر بھی کہا گیا کہ یہ کافی نہیں ہے۔
سامراجیوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے عسکری منصوبوں کا ابھی تو محض آغاز ہے۔ وہ جنگ اور تباہی کے دور کی تیاری کر رہے ہیں جس میں ان کا نظام ہمیں اور بھی گہرا دھکیلتا جا رہا ہے۔ انسانی محنت کا ایک بڑا حصہ مکمل طور پر بے کار ہتھیاروں کی تیاری میں ضائع ہو گا۔
معیشت میں کچھ بھی اضافہ کرنے کے بجائے ہتھیاروں کی تیاری کا مقصد الٹا پیداوار کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح خرچ کیے جانے والے اربوں ڈالروں سے کچھ بھی پیداواری یا مفید چیز نہیں بنے گی اور اس سے یقیناً مزید مہنگائی ہو گی جس کا بوجھ لاکھوں لوگوں کو سہنا پڑے گا۔ اس طرح نہ صرف تعلیم، صحت وغیرہ کے لیے بجٹ میں کٹوتی کے ذریعے بلکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ذریعے بھی ہمیں دوبارہ فوجی صنعت کے لیے قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
تصور کریں کہ 2.2 ٹریلین ڈالر سالانہ اور مسلسل بڑھتی ہوئی اس رقم سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ صرف یہی پیسہ ہر سال موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنے کے لیے درکار 3.5 ٹریلین ڈالر کی دو تہائی سرمایہ کاری کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔ ہم سب کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ کتنے ڈاکٹروں اور نرسوں کی تربیت کی جا سکتی ہے تاکہ صحت کے نظاموں کو دوبارہ فعال کیا جا سکے جو اس وقت برباد ہونے کی نہج پر ہے؟ صرف 40 ارب ڈالر سالانہ (جو عالمی فوجی خرچ کا 2 فیصد سے کم ہے) سے ان 85 کروڑ لوگوں کو خوراک فراہم کی جا سکتی ہے جو اس وقت بھوکے ہیں۔
ایک ہی لہر میں ہم انسانیت کے سامنے موجود کئی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر رہے؟ صرف اس لیے کہ سامراجی گِدھوں کو اپنے منافع اور علاقوں کی حفاظت کے لیے ہتھیاروں، ٹینکوں اور توپوں کی مضبوط دیواروں کی ضرورت ہے۔
ہم کہتے ہیں:
نیٹو اور دیگر سامراجی معاہدوں اور تنظیموں کو اکھاڑ پھینکو!
جنگ نہیں صحت!
بندوق نہیں قلم!
بینکوں اور ہتھیاروں کے ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کو ضبط کرو!
جہاں کھربوں ڈالر کی بڑی رقمیں موجود ہیں وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لاک ہیڈ مارٹن، ریتھیون، جنرل ڈائنامکس، بی اے ای سسٹمز اور دیگر موت کے سوداگر ایک بڑھتی ہوئی سامراجی جنگ کے دور کے امکانات پر خوشی مناتے ہیں۔
جنرل ڈائنامکس کے چیف فنانشل آفیسر نے اسرائیل کی غزہ میں بھرپور پیمانے پر قتل عام کے آغاز کے دو ہفتے بعد سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کی صورتحال بلاشبہ خوفناک ہے“۔ لیکن جب اس نے جنگ کے ذریعے توپوں کے گولوں کے آرڈرز کے شاندار امکانات کو بیان کیا تو اس کی حالت فوراً بدل گئی۔
لینن نے ایک صدی پہلے کہا تھا کہ ”جنگ ’خوفناک‘ ہے؟ ہاں، خوفناک حد تک منافع بخش“۔
فروری 2022ء سے برطانوی ہتھیار ساز کمپنی بی اے ای سسٹمز نے اپنے شیئرز کی قیمت کو دوگنا ہوتے دیکھا ہے اور توقع ہے کہ 2024ء میں اس کی فروخت مزید 12 فیصد بڑھے گی۔ لاک ہیڈ مارٹن، جنرل ڈائنامکس اور نارتھروپ گرومین توقع کرتے ہیں کہ ان کے شیئرز کی قیمتیں اس سال 5 سے 7 فیصد بڑھیں گی جبکہ باقی دنیا کی معیشت بحران میں غرق ہے۔
یہ کمپنیاں سامراجی جنگی مشینوں کو ہوا دینے کے ذریعے ہر سال 10 سے 12 فیصد منافع حاصل کر رہی ہیں۔ زمین پر ایسے بھاری منافع اور کہاں حاصل ہو رہے ہیں؟
سپر مارکیٹس، توانائی کے بڑے ادارے اور دیگر بھی جنگ کے دوران سپلائی چین کی خرابیوں اور دیگر اثرات کا فائدہ اٹھا کر قیمتیں بڑھاتے ہیں اور جنگ ختم ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر سے منافع کمانے والے بھی آتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: عسکریت پسندی سے حاصل شدہ منافع ضبط کرو اور جنگی صنعتوں کو قومی تحویل میں لو۔
بہت سے امن پسند غیر مسلح ہونے کے حامی، بہترین ارادوں کے ساتھ، ہتھیار ساز فیکٹریوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ نادانستہ طور پر اس طاقتور شعبے کے محنت کشوں کو علیحدہ کرتے ہیں جو اس کے نتیجے میں بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ ہتھیار ساز صنعتوں میں لاکھوں ہنر مند ملازم ہیں۔ پھر متعدد محققین ایسے بھی ہیں جن کی تحقیق دفاعی شعبے کے سرمایہ کاروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر قتل کے فن کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ کارکنوں اور فیکٹریوں کو ضائع کرنے کے بجائے ان مہارتوں کو بہتر استعمال میں لایا جانا چاہیے۔
ان فیکٹریوں کو بند کرنے کی بجائے محنت کشوں کے کنٹرول میں ہتھیاروں کی صنعت اور بڑے بینکوں کو لے کر انہیں سماجی طور پر مفید سامان بنانے کے لیے دوبارہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ محنت کشوں کے کنٹرول میں ضبط شدہ بینکنگ سیکٹر کی مکمل فنڈنگ اور ہتھیاروں کے تاجروں کے منافع سے کارکن آسانی سے فیکٹریوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے منصوبے تیار کر سکیں گے۔
تباہی کا سامان بنانے کی بجائے بہت ہی کم وقت میں وہ ابھرتی ہوئی ماحول دوست صنعتوں سے جڑا ہوا سماجی طور پر مفید سامان تیار کر سکتے ہیں۔ اس امکان کو عملی طور پر ثابت کیا گیا ہے: ہم 1970ء کی دہائی میں برطانیہ میں لوکاس پلان کی مثال پیش کرتے ہیں جب ہتھیار ساز فیکٹری کے کارکنوں نے اپنی فیکٹری کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ تیار کیا۔
لہٰذا، ہمارا نعرہ ہے:
جنگی منافع خوروں سے سب چھین لو!
موت کے سوداگروں سے سب چھین لو!
جنگی صنعتوں سے لاکھوں دھاگوں سے جڑے ہوئے بینکوں کو ضبط کرو!
معاوضوں کو مسترد کرو!
تمام قومیائی گئی کمپنیوں کو محنت کشوں کے کنٹرول میں دیا جائے تاکہ فیکٹریوں کو سماجی طور پر مفید مقاصد کے لیے دوبارہ ترتیب دیا جا سکے!
جمہوری حقوق کا دفاع کرو!
مغرب بھر میں عسکریت پسندی کی طرف یہ دوڑ ایک ہی نعرے کے تحت ہو رہی ہے: ’ہماری حفاظت‘ اور ’ہماری جمہوریت کی حفاظت‘ کے لیے جنگی بحری جہاز اور بموں کی ضرورت ہے۔
جس ’جمہوریت‘ کی ’حفاظت‘ کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، اس کا کیا حال ہے؟ ہر جگہ عسکریت پسندی کے ساتھ یہی چیزیں وابستہ ہیں: سنسر شپ، فوجی مہمات کے خلاف تمام مخالفین کے خلاف دیوانہ وار مہم، ننگا جبر اور محنت سے جیتے ہوئے جمہوری حقوق کی تنزلی۔
غزہ پر جنگ کو مغربی حکمرانوں کی مکمل حمایت حاصل ہے حالانکہ عوام کی اکثریت اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہاں ’جمہوریت‘ کہاں ہے؟
جرمنی میں حکمران طبقہ ایک نئے پاگل پن کو ہوا دے رہا ہے۔ اب وہ غزہ میں قتل عام کی مکمل حمایت کو ایک مہاجرین مخالف، اسلام مخالف مہم کے ساتھ ملا رہے ہیں اور نئے قوانین متعارف کر رہے ہیں جو بدقسمتی سے نئے شہریوں کو اسرائیل کی موجودگی کے حق کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ نسل کشی کے خلاف پرامن احتجاجوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، طالب علموں کی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہیں اور UCLA سے لے کر یونیورسٹی آف ایمسٹر ڈیم تک احتجاجی خیموں کو پولیس کی طرف سے بے رحمی سے اکھاڑا گیا ہے۔ جب صیہونی جتھے نہتے طلبہ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو وہی پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ جرمنی اور فرانس میں ہم نے فلسطین کی حمایت میں احتجاجوں پر پابندی لگانے کی کوششیں دیکھی ہیں۔ سابق یونانی وزیر خزانہ یانیس ویروفاکس کو فلسطین کے ساتھ یکجہتی کانفرنس کے لیے جرمنی میں داخل ہونے سے بھی روکا گیا۔ یہاں ’آزاد اجتماع‘ کا مقدس حق کہاں ہے؟
دوسری طرف یوکرین اور غزہ میں جاری جنگوں کی مخالفت کرنے والوں کو ’آزاد‘ پریس کی طرف سے ’پیوٹن کے ایجنٹ‘، ’سامی مخالف‘، ’حماس کے حامی‘ اور اس طرح کے دوسرے القابات سے بدنام کیا جاتا ہے۔ فرانس میں ہم نے پریس اور دائیں اور ’بائیں‘بازو کی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ایک وحشیانہ مہم دیکھی ہے جو میلانشون اور لا فرانس انسومی پر غزہ جنگ کی مخالفت کرنے پر ’یہودی مخالف‘ ہونے کا الزام لگا رہی ہیں۔ یہ ہے وہ کام جو ’آزاد پریس‘ کر رہا ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سرمایہ داری میں ہمارے پاس کوئی بھی حق نہ ہو تب بھی ایک ناقابل تنسیخ جمہوری حق ہے: اپنی دولت کو اپنے طریقے سے خرچ کرنے کا حق۔ پھر بھی کئی حکومتیں اب کھلے عام BDS مخالف (اسرائیل کے حوالے سے بائیکاٹ، سرمائے کی واپسی اور پابندیوں کا عوامی مطالبہ) قوانین پر بات کر رہی ہیں جو اسرائیل کے بائیکاٹ کی دعوت دینے کو ہی غیر قانونی بنا دیں گے۔ کئی امریکی ریاستوں، امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں اور عوامی اداروں میں پہلے ہی BDS کے خلاف پابندیاں عائد ہیں۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سرمایہ داری اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ حقیقت اس دھوکے کو پاش پاش کر رہی ہے۔ عروج کے دور میں، کم از کم امیر ممالک میں، حکمران طبقہ کچھ جمہوری آزادیوں کی اجازت دے سکتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے طبقاتی اور قومی تضادات تیز ہوتے ہیں، حکمران طبقہ جمہوریت کی رسمی باتوں کو ترک کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ دیوالیہ سرمایہ دار طبقے کے لیے یہ ایک ایسی عیاشی ہے جسے وہ کم سے کم برداشت کر سکتے ہیں۔
ہمارا نعرہ ہے:
آزادی اظہار کے حق کا دفاع کرو! سامراجیوں کی مخالفت کرنے والی زبانوں پر تالے نہ لگاؤ!
احتجاج کے حق کا دفاع کرو! جنگ مخالف تحریک پر جبر نامنظور!
غزہ میں قتل عام کے خلاف تحریک پر الزام کشی بند کرو!
جنگ کے خاتمے کے لیے ہمیں سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا!
سرمایہ داری کا مطلب جنگ ہے۔ 2008ء میں بحران کے آغاز کے بعد سے منڈیاں اور سرمایہ کاری کے مواقع مسلسل سکڑتے جا رہے ہیں۔ یہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ پیداواری قوتوں کی قومی منڈیوں اور نجی ملکیت کی پابندیوں میں سانسیں گھٹ رہی ہیں۔ ہر سامراجی طاقت کی اپنے حریفوں کی قیمت پر منڈیوں اور وسائل کو اپنے قابو میں لانے کے لیے عسکریت پسندی اور جنگ کا عروج سرمایہ داری کے بحران کا منطقی اختتام ہے۔
امریکی سامراج کی نسبتاً تنزلی اس عمل کو تیز کر رہی ہے۔ اب یہ اپنے حریفوں کو علاقائی سطح پر طاقت کا اظہار کرنے سے روکنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کے اتحادی بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اپنی فوجی طاقت پر انحصار کرنا ہو گا جس کی وجہ سے یورپ اور بحر الکاہل کے علاقے میں فوجی تعمیرات ہو رہی ہیں۔
دنیا میں چوروں کے مختلف گروہ، چاہے وہ امریکہ کے دوست ہوں یا دشمن، نے یوکرین میں پھیلی ہوئی خونریزی اور دہشت کا بغور مطالعہ کیا ہے جو امریکہ کی کمزوری کو بے نقاب کرتی ہے۔ مستقبل کی سامراجی جنگیں اور پراکسی جنگیں موت کے گھاٹ اور تھکا دینے والے کھیل سے مزین ہوں گے۔ اس کے لیے فوجی، روایتی ہتھیار اور بھاری مقدار میں بارود درکار ہو گا۔
مزدوروں اور نوجوانوں کو ہی اپنی زندگی کے معیار اور جانوں کے ساتھ قیمت چکانی ہو گی۔ جنگی صنعتوں میں جھونکے گئے سینکڑوں ارب ڈالر کے علاوہ بہت سے ممالک میں سرد جنگ کے بعد پہلی بار فوجی بھرتی کی دوبارہ بحالی پر کھلی بحث ہو رہی ہے۔
افسوس کے ساتھ نام نہاد بایاں بازو جس نے ایک یا دوسری سامراجی طاقت کی کاسہ لیسی نہیں کی ہے، وہ انتہائی افسوسناک امن پسند اپیلوں تک محدود ہو گیا ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ اقوام متحدہ جیسی تنظیموں سے مداخلت کی درخواست کی جا رہی ہے۔ لیکن سامراجی ’امن‘ ہمیشہ نئی سامراجی جنگوں کے لیے محض ایک پیشگی دور اور تیاری کی مدت ہوتا ہے۔
جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے، لینن کا اس کے پیشرو لیگ آف نیشنز کے بارے میں بیان بالکل درست ہے: یہ صرف ایک ”چوروں کا باورچی خانہ“ ہے۔ یہ صرف ایک فورم ہے جہاں سامراجی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں قوموں کے حقوق اور زندگیوں کا سودا کیا جاتا ہے۔ جب چور آپس میں متفق نہیں ہو پاتے تو یہ بے سود ہوتا ہے۔ جب امریکی سامراج اقوام متحدہ سے اپنے سامراجی مقاصد کے لیے منظوری حاصل کر سکتا ہے جیسے 1950-53ء میں کوریا کی جنگ، 1961ء میں کانگو میں لوممبا کا قتل، 1991ء کی خلیجی کی جنگ اور 2004ء سے ہیٹی میں فوجی مداخلت، تو اپنے ننگے مفادات کے لیے اس ادارے کو نقاب کے طور پر استعمال کرنے میں خوشی ہوتی ہے۔ جب اقوام متحدہ ایسی قرار دادیں منظور کرتی ہے جو اسے پسند نہیں (جیسے کیوبا اور فلسطین کے معاملے میں) تو یہ انہیں جان بوجھ کرنظر انداز کر دیتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کے کوئی نتائج نہیں ہوں گے۔
امن پسند یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ عسکریت پسندی اور جنگ کسی ایک یا دوسری سرمایہ دارانہ پارٹی یا وزارت کی بری پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ کوئی بین الاقوامی ادارہ جنگ کے شائقین سے ’اوپر نہیں اٹھ سکتا‘ اور دنیا پر امن مسلط نہیں کر سکتا۔ جنگ اور عسکریت پسندی سرمایہ داری کے سامراجی زوال کے عہد کا ایک نامیاتی اور منطقی نتیجہ ہیں۔
کلازویٹز نے شاندار وضاحت کی تھی کہ ”جنگ محض سیاست کو دیگر ذرائع سے جاری رکھنے کا طریقہ کار ہے“۔ سامراجی جنگوں کے دور میں انقلابی کمیونسٹوں کی پالیسی محض سامراجی امن کے دور میں ہماری پالیسی کا تسلسل ہے۔
سامراجی ممالک کے دل میں، عظیم انقلابی اور عسکریت پسندی کے مخالف کارل لیبنخت کے الفاظ میں، ”ہمارا اصل دشمن گھر پر ہے!“۔ ہمیں گھر میں جنگ کو ہوا دینے والوں کو گرانے
ہم اپنی اپیل کو دہراتے ہیں۔ مزدوروں، نوجوانوں، بائیں بازو اور کمیونسٹ تنظیموں، ٹریڈ یونینوں، طلبہ گروہوں اور ہر اس شخص کے لیے جو جنگ، عسکریت پسندی اور سامراجیت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں، ہم یہی اپیل کرتے ہیں کہ آئیے مل کر کام کریں۔
ہم ان تمام لوگوں کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں جو ان بنیادی نکات پر متفق ہیں تاکہ عسکریت پسندی اور جنگ کے خلاف ایک سنجیدہ بین الاقوامی، انقلابی، سامراجیت مخالف مہم تشکیل دی جا سکے۔ موجودہ عوامی مزاج اس کے لیے تیار ہے، ہمارا کام اسے منظم کرنا اور ایک واضح سیاسی پروگرام فراہم کرنا ہے۔
ہم کہتے ہیں:
سامراجیت اور عسکریت پسندی کے خلاف نکلو! لا متناہی جنگوں کا خاتمہ کرو!
جنگ بھڑکانے والوں کو نیست و نابود کر دو!
قوموں کے درمیان امن، ارب پتیوں کے خلاف جنگ!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!