6 جنوری 2022ء کو قزاقستانی فوج اور سیکورٹی فورسز روس کے خصوصی دستوں کی مدد سے اس تحریک کو کچلنے کی جانب بڑھے جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد قزاقستان کی سب سے بڑی عوامی تحریک بن گئی ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
6 جنوری بروزِ جمعرات جب حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے فوج کا استعمال کرنا شروع کیا تو قزاقستان کے متعدد بڑے شہروں کے اندر سڑکوں کے اوپر جھڑپیں دیکھنے کو ملیں۔ پولیس کے ترجمان نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے ریاستی خبر رساں ادارے کو کہا کہ ”درجنوں حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا“۔ سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے اور ہزاروں کے گرفتار ہونے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ انتہائی خود پسند صدر قاسم جومارت توکائف نے جمعے کے دن ٹی وی پر آ کر کہا کہ اس نے ذاتی طور پر سیکورٹی فورسز اور فوج کو ”ڈاکوؤں اور دہشتگردوں“ کے اوپر ”براہِ راست گولیاں چلانے“ کا حکم جاری کیا۔
یہ واضح ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں حالات ریاستی مشینری کے قابو سے باہر ہو گئے تھے، جو اب قابو پانے کے لیے تیزی کے ساتھ پُر تشدد طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ تمام ائیرپورٹ، سڑکیں، چوراہے، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے دیگر اہم مقامات، جن پر مظاہرین نے قبضہ کیا ہوا تھا، ابھی ریاست کے مکمل قبضے میں ہیں۔
پچھلے ہفتے کے دوران ملک کے تمام بڑے شہر احتجاجوں کی لپیٹ میں تھے، مگر واضح قیادت اور تنظیم کی عدم موجودگی میں، کم از کم ابھی کے لیے، مظاہرین حکومت کے ہاتھوں شکست کھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تحریک بغاوت میں تبدیل ہو گئی تھی جب بڑے شہروں کے اندر عوام نے ائیرپورٹ اور حکومتی عمارات کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اور پولیس اور مظاہرین کے بیچ بھائی چارہ قائم ہونے کے امکانات تھے۔ البتہ آگے بڑھنے کے واضح منصوبے کے بغیر ردّ انقلاب کا پلڑا بھاری ہو گیا، جسے سنبھلنے کا موقع ملا اور جس نے رعایتوں اور جبر کو ملا کر واپس وار کیا۔
طاقتور تحریک کا سامنا کرتے ہوئے، ریاست ابتدائی طور پر وسیع پیمانے کی رعایتیں دینے پر مجبور ہوئی، جن میں مانغیستاؤ خطے کے اندر گیس کی قیمت میں کمی اور پٹرول، ڈیزل، قدرتی گیس اور خوراک کی ضروری اشیاء پر ریاستی نرخ نامہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ پوری حکومت کا استعفیٰ دینا بھی شامل تھا۔ اس سے تحریک کی خود اعتمادی بڑھ گئی اور وہ مزید مضبوط ہو گئی جبکہ ریاستی افواج دھیرے دھیرے کمزور ہو رہی تھیں۔ توکائف کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے خاص کر ریاستی مشینری کی صفوں میں وسیع پیمانے پر الجھن پھیل گئی تھی۔
البتہ جمعرات کو توکائف نے آگے بڑھ کر حالات اپنے قابو میں لینا شروع کیے۔ اس نے نگران صدر کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالا تھا، جس کی حکومت کے پیچھے اصل ہاتھ سابقہ صدر نور سلطان نظربایف کا تھا۔ اس نے حکومت برطرف کر کے نظربایف کو سیکورٹی کونسل کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا، اور ایمرجنسی نافذ کر کے روسی افواج کی مدد (کولیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن کے تحت) طلب کر لی۔ اس بیباک اور پُر اعتماد اقدام نے ریاستی قوتوں کو متحرک کیا اور انہیں اس جارحیت پر اتر آنے کا موقع دیا جسے ہم پچھلے کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اس دوران تحریک کے ابتدائی مطالبات کی منظوری اور نئے واضح اہداف کی غیر موجودگی کے باعث کچھ پرتیں میدان سے باہر ہو گئیں۔ عوام کی مزید حوصلہ شکنی لوٹ مار اور بے معنی تشدد کے واقعات نے کی، جن کی اکثریت کے پیچھے بلاشبہ ریاست کا ہاتھ تھا۔ ان حالات کے پیشِ نظر، اور کسی واضح تنظیم اور پروگرام کے بغیر ریاستی جبر کے خلاف لڑائی کا سامنا ہوتے ہوئے، عوام کی بڑی پرت پیچھے ہٹ گئی اور سب سے لڑاکا عناصر سڑکوں پر تنہا رہ گئے۔
اگرچہ بعض علاقوں جیسا کہ الماتی اور دارالحکومت نور سلطان میں سڑکوں کو خالی کرایا گیا ہے، ژاناؤزن اور اقتاؤ جیسے علاقوں میں احتجاج اب بھی جاری ہیں۔ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ایک دفعہ جب تحریک صدمے والی حالت پر قابو پا لے، اس کی لڑاکا قوتوں میں اضافہ ہوگا اور وہ آگے کی جانب نئے سرے سے بڑھے گی۔ ابھی کے لیے چاہے جو بھی ہو، یہ قزاقستانی انقلاب کا اختتام ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ابھی اس کا آغاز ہو رہا ہے۔
آنے والا عدم استحکام
آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ قزاقستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ وہ ملک جس کو بورژوازی کئی سالوں سے استحکام کے نمونے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، ابھی عدم استحکام، بحران اور طبقاتی جدوجہد کے نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ حکومت کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ سخت جبر اور معاشی رعایتوں کو ساتھ ملا کر تحریک کا راستہ روکے۔
قزاقستان میں کرومائٹ، وولفرام، لیڈ، زنک، مینگنیز، سلور اور یورینیم کے ذخائر پائے جاتے ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔ یہاں پر باکسائٹ، تانبے، سونے، لوہے، کوئلے، قدرتی گیس اور پٹرولیم کے بڑے ذخائر بھی موجود ہیں۔ ان ذخائر کی بنیاد پر قزاقستان کی ملکی دولت کافی زیادہ ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ بعض سماجی و معاشی رعایتیں دینے کا اہل ہے۔
البتہ اس طریقے سے حاصل کیا جانے والا استحکام دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔ یہ ذخائر عالمی معیشت پر انحصار کرتے ہیں، جو خود بحران کا شکار ہے۔ 2014ء میں جب چین اور مغربی ممالک کی معاشی سست روی کے نتیجے میں تیل اور معدنیات کی قیمتیں گرنے لگیں، قزاقستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو 4.2 سے 1.2 فیصد تک گر گئی تھی۔ وباء پھیلنے کے بعد جب قیمتیں بڑھنے لگیں اور بنیادی سہولیات تک غریبوں کی رسائی کم ہونے لگی تو صورتحال مزید بگڑ گئی۔ آنے والے عرصے میں عالمی معیشت مزید بحرانات کا شکار ہوگی، جس سے قزاقستان کی معیشت پر دباؤ مزید بڑھے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران طبقے کے پاس اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی خاطر معیاراتِ زندگی پر حملے کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
دو دہائیوں تک قزاقستانی حکومت، جس کی قیادت بوناپارٹسٹ طرز پر نور سلطان نظربایف کر رہا تھا، ترقی کرتی معیشت کی بنیاد پر نسبتاً استحکام قائم رکھنے اور آبادی کے کچھ حصے میں معیاراتِ زندگی کی بڑھوتری کی اہل رہی تھی۔ البتہ وہ دور گزر چکا ہے۔ اگر پچھلے ہفتے کے دوران حکومت کی تھوڑی بہت عزت باقی تھی تو جمعرات کے دن یقیناً رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی، جس کا خود کو برقرار رکھنے کے لیے جبر کے اوپر انحصار بڑھتا جائے گا، اور نتیجتاً آبادی کی مزید پرتیں مخالفت کرنے پر مجبور ہوں گی۔ چنانچہ وہ ”نظم و ضبط“ جس کا توکائف نے نور سلطان اور الماتی کے اندر فخریہ اعلان کیا ہے، عدم استحکام اور طبقاتی جدوجہد کے نئے دور کی بنیاد بنے گا۔
کیا یہ سازشی انقلاب ہے؟
بائیں بازو میں سے بعض نے پچھلے ہفتے کی تحریک کو ’کلر ریولوشن (Colour Revolution)‘ قرار دینے میں دیر نہیں لگائی، جن کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے مغرب کا ہاتھ ہے تاکہ روس کو تنہا کر سکے۔ ان کے نقطہ نظر سے حالیہ واقعات یوکرائن کی رجعتی تحریک ’میدان‘ سے مشابہ ہیں، جو امریکہ کی پشت پناہی پر چلنے والے انتہائی دائیں بازو اور فاشسٹ عناصر کے قبضے میں تھی۔ البتہ یہ ایک سطحی موازنہ ہے جو قزاقستان کے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے۔
حالیہ تحریک کی خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں لبرل اور پیٹی بورژوا عناصر کی موجودگی بہت محدود ہے۔ 2018ء اور 2020ء کی احتجاجی تحریکوں کے برعکس، گزشتہ ہفتے کے احتجاجوں کا ایک حقیقی انقلابی کردار تھا اور انہیں محنت کشوں نے شروع کیا تھا، جنہوں نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا، اس کے علاوہ اس میں بیروزگار غریب اور نچلے درمیانے طبقے کے عناصر بھی شامل تھے۔
تحریک کا نقطہ آغاز اور ابتدائی مرکز مانغیستاؤ کا مغربی خطہ تھا، جو تیل کی بڑی کمپنیوں کا مرکز ہے اور جہاں لڑاکا روایات رکھنے والا بڑا اور طاقتور صنعتی محنت کش طبقہ موجود ہے۔ اس خطے میں ژاناؤزن کا قصبہ موجود ہے، جہاں 2011ء میں تیل کے شعبے سے وابستہ ہزاروں محنت کشوں نے ہڑتال کی تھی، جنہوں نے سات مہینوں تک شہر کو اپنے قبضے میں رکھا تھا اور بعد میں مسلح افواج نے تشدد کر کے انہیں پیچھے ہٹایا۔ واضح ہے کہ اس تجربے نے حالیہ تحریک میں اہم کردار ادا کیا، جس کے اوپر اس خطے کی جدوجہد والی روایات غالب تھیں۔
چند دنوں کے اندر متاثر کن انداز میں پروان چڑھنے والی اس تحریک کی وضاحت ’سوشلسٹ موومنٹ آف قزاقستان‘ نے اپنے بیانیے میں بہت اچھے طریقے سے کی، جس کو ہم تفصیل سے یہاں پر نقل کریں گے:
”قزاقستان کی حالیہ تحریک حقیقی معنوں میں ایک عوامی تحریک ہے۔ احتجاج اپنے آغاز سے ہی سماجی اور طبقاتی نوعیت کے تھے؛ سٹاک ایکسچینج پر گیس کی قیمت میں دوگنا اضافہ دراصل وہ آخری تنکا تھا جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ در حقیقت ژاناؤزن میں تحریک کا آغاز تیل کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں نے کیا، جو پوری احتجاجی تحریک کے لیے ایک قسم کا سیاسی ہیڈکوارٹر بن گیا۔
”اس تحریک کے محرکات سے اس کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کا آغاز سماجی احتجاج کے طور پر ہوا، پھر یہ پھیلتی گئی، مزدور تنظیموں نے اپنی ریلیوں میں اپنے مطالبات بلند کیے، جن میں اجرتوں میں 100 فیصد اضافہ، غیر ضروری پیداواری اہداف کی منسوخی، حالاتِ کار کی بہتری اور ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں کی آزادی شامل تھے۔ نتیجتاً، 3 جنوری کو مانغیستاؤ کا پورا خطہ عام ہڑتال کی لپیٹ میں آ گیا، جو اتیراؤ کے قریبی خطے تک پھیل گیا۔
”یہ قابلِ غور بات ہے کہ 4 جنوری کو تیل کی تنگیز شیورائل نامی کمپنی، جس کا 75 فیصد امریکی ملٹی نیشنلز کے تحت ہے، کے محنت کش بھی ہڑتال پر چلے گئے۔ اسی کمپنی نے پچھلے سال دسمبر میں 40 ہزار محنت کشوں کو برطرف کیا تھا اور مزید برطرفیوں کا ارادہ رکھتی تھی۔ ان محنت کشوں کو اقتوبے، مغربی قزاقستان اور قیزیلوردا خطے میں موجود تیل کے محنت کشوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔
”مزید برآں، اس دن کی شام، قاراغاندی خطے میں آرسیلر متل تیمرتاؤ کمپنی کے کان کن، اور قازخمیس کارپوریشن کے تانبے کے محنت کش اور کان کن بھی ہڑتال پر چلے گئے، یعنی پورے ملک میں کان کنی کی صنعت عام ہڑتال کی لپیٹ میں آ گئی۔ وہاں کے محنت کشوں نے اجرتوں میں اضافے، ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی، اپنے ٹریڈ یونینز چلانے اور ہڑتال کرنے کے حقوق کے مطالبات رکھے۔
”اس کے ساتھ منگل کے دن اتیراؤ، اورال، اقتوبے، قیزیلوردا، تراز، تالدیقورغان، ترکستان، شیمکنت، اکیباستوز، الماتی خطے اور الماتی شہر میں غیر معینہ مدت کے جلسے منعقد ہونے لگے۔ الماتی میں 4 اور 5 جنوری کی درمیانی شب کو سڑکوں کی بندش کے باعث مظاہرین اور پولیس کے بیچ جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں مظاہرین نے صوبائی حکومت پر عارضی قبضہ کر لیا۔ قاسم جومارت توکائف نے اس کو بہانہ بنا کر ایمرجنسی نافذ کی۔
”یاد رہے کہ الماتی کے جلسوں میں شرکاء کی اکثریت بیروزگار نوجوانوں اور شہر کے مضافات میں رہائش پذیر اندرونِ ملک مہاجرین پر مشتمل تھی جو غیر مستقل اور کم اجرت والی نوکریاں کرتے ہیں۔ مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں گیس کی قیمت میں 50 تنگہ کمی کے وعدے کیے گئے جس سے کسی کو تسلی نہیں ہوئی، سوائے مانغیستاؤ خطے اور الماتی کے۔
”قاسم جومارت توکائف کا حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ، اور پھر سیکورٹی کونسل کے چیئرمین کے عہدے سے نور سلطان نظربایف کو ہٹانے سے بھی احتجاج نہیں رُکے۔ 5 جنوری کو شمالی اور مشرقی قزاقستان کے ان علاقوں میں احتجاجی ریلیاں شروع ہوئیں جہاں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، جن میں پیترو پاولسوک، پاؤلودار، است کامینوگورسک اور سیمیپالا تینسک کے علاقے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ اقتوبے، تالدیقورغان، شیمکنت اور الماتی کے اندر علاقائی حکومتوں کی عمارات پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
”ژاناؤزن کے اندر غیر معینہ مدت کے جلسے میں محنت کشوں نے نئے مطالبات ترتیب دیے، جن میں موجودہ صدر اور نظربایف کے تمام سرکاری افسران کا استعفیٰ، 1993ء کے آئین کی بحالی اور سیاسی پارٹیاں قائم کرنے کی آزادی، ٹریڈ یونینز قائم کرنے کا حق، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جبر کا خاتمہ شامل تھا۔ فوری طور پر کونسل آف ایلڈرز کمیٹی بنائی گئی، جس کو غیر روایتی طور پر اختیارات حاصل تھے۔
”چنانچہ مختلف شہروں اور خطوں میں بلند ہونے والے نعرے اور مطالبات پوری تحریک میں پھیل گئے، اور جدوجہد میں سیاسی عنصر شامل تھا۔ ذیلی سطح پر کمیٹیاں اور کونسلز بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں تاکہ جدوجہد کو یکجا کیا جائے۔“
ہمیں صاف طور پر نظر آتا ہے کہ مانغیستاؤ کے صنعتی محنت کش طبقے نے تحریک میں بہت بڑا کردار ادا کیا، جنہوں نے بنیادی طور پر اس کا آغاز کیا اور اس میں اپنا پرولتاری سیاسی پروگرام اور منظم ہونے اور جدوجہد کرنے کے طریقے شامل کیے۔ دوسری جانب، مغربی سرپرستی میں چلنے والی لبرل اپوزیشن کے مبہم جمہوری اور قوم پرست مطالبات کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔
زونووا میڈیا پر شائع ہونے والے ایک نہایت دلچسپ انٹرویو میں، ملک بدر سوشلسٹ موومنٹ آف قزاقستان کے قائدین میں سے ایک، عینور کرمانوف اس دعوے کا جواب دیتا ہے کہ یہ تحریک مغربی قوتوں کی سازش تھی:
”یہ ’میدان‘ تحریک جیسا معاملہ نہیں ہے، اگرچہ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے۔ خود کو منظم کرنے کا یہ شاندار مظاہرہ کیسے دیکھنے کو ملا؟ اس کی بنیاد محنت کشوں کے تجربات اور روایات ہیں۔ مانغیستاؤ کا خطہ 2008ء سے ہڑتالوں سے لرز رہا ہے، اور ہڑتالی تحریک کا آغاز 2000ء کی دہائی کے شروع سے ہوا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی یا دیگر کسی بائیں بازو والے گروہ کی کوشش کے بغیر تیل کی کمپنیوں کو قومیانے کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ محنت کش اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ نجکاری اور بیرونی سرمایہ داروں کی ملکیت کا نتیجہ کیا نکل رہا تھا۔ ان ابتدائی مظاہروں کے دوران، انہوں نے جدوجہد اور یکجہتی کے طریقوں کے معاملے میں دیوہیکل تجربات حاصل کیے۔ اسی پسِ منظر کی بنیاد پر محنت کش طبقہ اور آبادی کی دیگر پرتیں اکٹھی ہوئیں۔ ژاناؤزن اور اقتاؤ میں محنت کشوں کے احتجاجوں نے ملک کے دیگر خطوں کے محنت کشوں کو بھی متاثر کیا۔ مظاہرین نے شہر کے اہم چوراہوں پر جو خیمے لگائے، یہ طریقہ ’میدان‘ کے تجربے سے اخذ نہیں کیا گیا؛ انہوں نے پچھلے سال مانغیستاؤ خطے کی مقامی ہڑتالوں سے یہ سیکھا ہے۔ عوام خود مظاہرین کے لیے پانی اور خوراک کا اہتمام کرتے رہے۔“
نہ صرف یہ کہ مانغیستاؤ خطے کے محنت کش امریکی سامراجیت کے ساتھ مل کر سازش نہیں کر رہے، بلکہ ان کے پاس مغربی ملٹی نیشنل کے خلاف لڑنے کی سنہری روایات بھی موجود ہیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ بورژوا ’لبرل‘ اور قوم پرست تنظیمیں اس تحریک کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر ایک چیز یقینی ہے؛ انہوں نے اس تحریک کو شروع نہیں کیا اور یہ ان کے قبضے میں نہیں ہے۔
قزاقستان، روس اور مغرب
قزاقستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرنا غلط ہوگا جس پر روس کا غالب اثر و رسوخ ہے۔ نظربایف کی قزاقستانی حکومت 30 سالوں تک روس، امریکہ، چین اور حتیٰ کہ ترکی کے بیچ توازن قائم کرنے کا کھیل کھیلتی رہی، جس نے اپنے لیے بہترین سودا بازی کرنے کی خاطر ایک قوت کو دوسری کے خلاف استعمال کیا۔ در حقیقت یہ روس نہیں بلکہ امریکہ ہے، جو شیورون اور ایگزون موبل کی سرمایہ کاری کی بدولت قزاقستان کے بیرونی سرمایہ کاروں میں پہلے نمبر پر ہے۔ خود شیورون قزاقستان میں سرمایہ کاری کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔
دوسری جانب قزاقستانی اشرافیہ کی بڑے پیمانے کی بیرونِ ملک دولت مغربی اور خلیجی ممالک میں ہے۔ نور سلطان نظربایف کی مرکزی ملکی پالیسی مغرب مخالف نہیں، بلکہ روسی مخالف قزاق قوم پرستی کی پالیسی تھی، جس کا نتیجہ ملک کی قزاق اور روسی آبادی کے بیچ خطرناک اختلافات کی صورت نکلا ہے۔
امریکی سامراجیت کو قزاقستان میں داخل ہونے کے لیے کسی سازش کی ضرورت نہیں ہے؛ وہ پہلے سے ہی وہاں پر موجود ہے اور خوب منافعے کما رہا ہے! قزاقستانی حکمران طبقے کے منافعوں کی بھی یہی حالت ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائز کے بیان سے یہ تعلق واضح ہوتا ہے، جس کا کہنا تھا کہ امریکہ ”امید کرتا ہے کہ قزاقستان کی حکومت جلد ان مسائل کو حل کرے گی جو بنیادی طور پر معاشی اور سیاسی نوعیت کے ہیں۔“ پرائز نے مزید اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اس وسطی ایشیائی قوم کا ”شراکت دار“ ہے!
امریکی وزیرِ خارجہ اینتونی جے بلنکن نے قزاقستانی وزیرِ خارجہ مختار تیلیوبردی سے بات چیت کرتے ہوئے ”امریکہ کی جانب سے قزاقستان کے آئینی اداروں اور میڈیا کی آزادی کی مکمل حمایت پر زور دیا اور حقوق کا خیال رکھتے ہوئے بحران کے پرامن حل کی تجویز دی۔“ یہ کسی ایسے جارحانہ سامراجی قوت کے الفاظ نہیں ہیں جو قزاقستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ اس سامراجی قوت کے الفاظ ہیں جو ملک کے مستقبل کے استحکام، اور قزاقستانی حکومت کی جانب سے اس کے مفادات کی ضمانت کی اہلیت کے بارے میں فکرمند ہے۔ یہ در حقیقت مغرب کی مداخلت کرنے کی نا اہلیت کا اظہار ہے، جو وہ چاہ کر بھی نہیں کر سکتے۔
دوسری جانب روس پریشانی کی حالت میں قزاقستان کے واقعات پر نظر رکھ رہا ہے۔ بیلاروس کی حالیہ عوامی تحریک کی طرح، قزاقستانی تحریک روس کے استحکام کے لیے خطرہ ہے، جہاں کے عوام کے حالات زیادہ مختلف نہیں۔ چنانچہ روسی افواج کی مداخلت اہم ملکی مقصد کے پیشِ نظر کی گئی ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیوٹن قزاقستانی حکومت کو بچانے کا صلہ نہیں مانگے گا، بالکل اسی طرح جیسے بیلاروس کی حکومت سے اس نے فرمانبرداری کا مطالبہ کیا تھا۔ بہرحال، امریکہ اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔ اس کی بجائے روس کے اوپر اس کا انحصار بڑھے گا کہ قزاقستان کے اندر اس کے مفادات کا تحفظ کرے۔
آگے کا راستہ؟
جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ ’کلر ریولوشن‘، سی آئی اے کی سازش، یا قزاقستانی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائی نہیں ہے۔ یہ محنت کشوں، نوجوانوں، غریبوں اور محروموں کی حقیقی انقلابی تحریک ہے۔
اس کی بنیاد وہ پروگرام اور جدوجہد کو منظم کرنے کے وہ طریقے ہیں جو صنعتی محنت کش طبقے کی سب سے ترقی پسند پرتوں نے ترتیب دیے ہیں۔ یہ طریقے (ہڑتال، عوامی جلسے وغیرہ)، اور معاشی، سماجی اور جمہوری مطالبات نہایت کار آمد ثابت ہوئے ہیں، جیسا کہ تحریک کے پھیلاؤ کی رفتار سے ظاہر ہوتا ہے، جس نے چار دنوں کے اندر اندر پورے ریاستی ڈھانچے کو خطرہ لاحق کیا۔
بہرحال، قیادت اور تنظیم کا سوال تحریک کی بنیادی کمزوری ہے۔ ملکی سطح پر محنت کش طبقے کے منظم ہوئے بغیر تحریک ہڑتالوں کو ملکی سطح پر لا کر انقلابی عام ہڑتال میں تبدیل کرنے، یا حکومتی کارروائیوں کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ یہ روسی زبان بولنے والوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مہم چلانے میں بھی ناکام رہی، جو آبادی کے تقریباً 20 فیصد ہیں۔
آنے والے عرصے میں، خاص کر عوام کی بڑی پرتوں کے سڑکوں سے پیچھے ہٹ جانے کی صورت، بورژوا لبرل عناصر بلاشبہ باقی ماندہ تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ محنت کشوں کی مضبوط ملکی پارٹی، اور ایک ایسی قیادت جو ان کی چالوں کا جواب دے، کی عدم موجودگی میں وہ شاید کامیاب بھی ہو جائیں گے۔ البتہ تحریک میں ان مختلف رجحانات کے بیچ جدوجہد کا ابھی سے تعین نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی سے اس تحریک کو رجعتی قرار دینے کا مطلب جدوجہد کے آغاز میں ہی اسے ترک کر دینے کے مترادف ہوگا۔ اس کی بجائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے ترقی پسند انقلابی عناصر ان واقعات سے ضروری اسباق اخذ کریں، اور ایسی انقلابی قیادت تعمیر کرنے کی جدوجہد کا آغاز کریں جو محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے سب سے ترقی پسند عناصر پر مبنی ہو۔
عینور کرمانوف کی اس بات سے ہم اختلاف کرتے ہیں کہ اگر لبرل بورژوا اپوزیشن اقتدار میں آ جائے تو یہ محنت کش طبقے کے لیے کسی طرح فائدہ مند ہوگا۔ درج بالا انٹرویو میں وہ کہتا ہے:
”قزاقستان میں موجود بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہ اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر واقعات کے اوپر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ اشرافیہ اور بیرونی قوتیں اس تحریک کو دبانے یا کم از کم اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔ اگر وہ جیت گئے، ملکیت کی از سرِ نو تقسیم اور بورژوازی کے مختلف دھڑوں کے بیچ کھلے عام تصادم، یعنی ’سب کی سب کے خلاف جنگ‘ کا آغاز ہوگا۔ مگر جو بھی ہو، محنت کش بعض حقوق جیتنے اور نئے مواقع حاصل کرنے کے اہل ہوں گے، جن میں اپنی پارٹیاں اور آزادانہ ٹریڈ یونینز قائم کرنے کا حق شامل ہوگا، جس سے انہیں مستقبل کی جدوجہد میں آسانیاں ہوں گی۔“
ہم اس حوالے سے کسی بھی خام خیالی کے بارے میں خبردار کرنا چاہتے ہیں۔ محنت کش طبقے اور انقلابی تحریک کو کسی بھی صورت بورژوا لبرل قوتوں کے اقتدار میں آنے کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ لبرل ’جمہوری‘ اپوزیشن کا کام تحریک کا طبقاتی کردار اور بالعموم سماج سے طبقاتی تضادات کو حذف کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ برما میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی، یوکرائن کی میدان تحریک اور بے شمار انقلابات کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے، لبرل اپوزیشن کا کام نظام کو بچانا ہوتا ہے۔ وہ عوام کے دشمن ہیں، اور بطورِ انقلابی ہمیں ان قوتوں کو کسی قسم کی بھی رعایتیں دینے کے خلاف لڑنا ہوگا۔ اس قسم کے رجعت پسندوں کے ساتھ مفاہمت یا حتیٰ کہ مفاہمت کرنے کی خواہش تحریک کو کمزور کرنے کی طرف جائے گی۔ سرمایہ دار اشرافیہ کا دوسرا ٹولہ اگر اقتدار میں آ جائے تو اس سے محنت کش طبقے کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے۔ وہ چاہے ’جمہوری‘ اور ’لبرل‘ ہونے کا جتنا بھی ڈھونگ رچائیں، اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اقتدار میں آ کر یہ حضرات (جن کی اکثریت کچھ عرصہ پہلے نظربایف کی حکومت کا حصہ رہے تھے) یہی اقدامات نہیں لیں گے اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد کرنے کے یہی طریقے استعمال نہیں کریں گے، اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں اور محنت کشوں کو قید کر کے عوامی تحریک پر جبر نہیں کریں گے۔
قزاقستانی انقلاب کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے محنت کش اور غریب عوام محض اپنی قوت پر انحصار کر سکتے ہیں۔ چند دنوں کے اندر اندر، لڑاکا اور پرولتاری طریقوں اور مطالبات کی بنیاد پر انہوں نے وہ کچھ حاصل کر کے دکھایا ہے جس کا کسی لبرل این جی او نے پچھلی پوری دہائی میں حاصل کرنے کا خواب تک نہیں دیکھا ہوگا۔ انہوں نے کئی فتوحات حاصل کی ہیں اور حکومت اور پرانے آمر کو برطرف کیا ہے۔ اس جدوجہد کو آگے بڑھا کر ہی وہ اس فریضے کو مکمل کرنے کی تیاری کر کے پوری بوسیدہ حکومت کو گرا سکتے ہیں۔