سرمایہ داری انسانیت کو مزید ترقی دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عرصہ دراز پہلے محنت کش طبقے کو اس نظام کو اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے تھا۔ لیکن اب تک ایسا کیوں نہیں ہو سکا ہے؟ اس سوال کا جواب قیادت اور انقلابی پارٹی کے کردار میں پوشیدہ ہے۔ یہ مضمون سال 2021ء کے موسم سرما میں منعقد ہونے والے کینیڈا کے مونٹریال مارکسی سکول کی ایک بحث سے ماخوذ ہے جس میں اس سوال کے مختلف پہلوؤں اور عالمی محنت کش طبقے کی شاندار تاریخ سے حاصل کردہ اسباق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سال 2020ء نے پوری دنیا الٹ دی ہے۔ کورونا وبا نے کروڑوں افراد کی نظروں میں سرمایہ دارانہ نظام کا دیوالیہ پن ننگا کر دیا ہے۔ ”اس مسئلے میں ہم سب اکٹھے ہیں“ کا راگ پرلے درجے کا جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں منافعوں کو انسانی ضروریات پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ ایک طرف کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں لیکن دوسری طرف امرا کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جو رکنے کانام نہیں لے رہا۔ انسانی تاریخ کے امیر ترین ملک امریکہ میں کروڑوں افراد رات کو بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔
پچھلی ایک دہائی میں ماضی کی حاصلات برباد ہو چکی ہیں اور اب رہی سہی کسر وبا سے پھٹنے والا معاشی بحران پوری کر رہا ہے۔ سال 2008ء میں شروع ہونے والے معاشی بحران کے بعد جبری کٹوتیوں نے عوامی فلاحی سروسز کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے، مزدوروں کی حقیقی اجرتیں منجمد یا پھر کم ہوئی ہیں جبکہ اس نسل کے نوجوان دوسری عالمی جنگ کے بعد وہ پہلی نسل ہیں جو اپنے والدین سے زیادہ غریب ہے۔
ان بنیادوں پر سوشلزم ایک مرتبہ پھر عمومی بحث مباحثوں کا حصہ بن رہا ہے۔ اس سال کمیونزم مخالف ”متاثرینِ کمیونزم فاؤنڈیشن“ نے اپنا سالانہ سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق 16-23 سال عمر (GenerationZ) کے نوجوانوں میں 49 فیصد کا سوشلزم کی طرف رویہ مثبت ہے۔ یہ سال 2019ء کے سروے کے مقابلے میں 9 اعشاریوں کا اضافہ ہے۔ مجموعی طور پر امریکیوں میں یہ اشاریہ 36 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہو چکا ہے۔ میکارتھی کی سر زمین پر جنریشن زی میں 18 فیصد کمیونزم کو سرمایہ داری سے زیادہ منصفانہ سمجھتے ہیں!
اگر سوچا جائے تو یہ اعدادوشمار اتنے حیران کن نہیں ہیں۔ نوجوان نسل نے خاص طور پر جبری کٹوتیوں، گرتے معیارِ زندگی، دہشت گردی، سامراجی مداخلتوں اور ماحولیات کی بربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں کا سرمایہ داری کا سنہرا دور دفن ہو چکا ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ افراد سرمایہ دارانہ نظام کے انقلابی خاتمے کے خواہش مند ہیں۔
حالات پک کر تیار ہو چکے ہیں
درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام عرصہ دراز سے انسانی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ محنت کش طبقہ دہائیوں پہلے اس کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ مگر ابھی تک ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟
اس کی یہ وجہ تو ہو نہیں سکتی کہ بہتات کی بنیاد پر ایک سوشلسٹ سماج بنانے کے لئے معروضی حالات موافق نہیں ہیں۔ معاشی نقطہ نظر سے تو کوئی شک ہی نہیں کہ اس وقت وہ تمام وسائل موجود ہیں جن کے ذریعے ہر انسانی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس پوری انسانیت کی بھوک مٹانے کے وسائل موجود ہیں۔ اس وقت وہ ٹیکنالوجی اور علم موجود ہے جس کے ذریعے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں تمام ضروریاتِ زندگی پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ایمازون اور وال مارٹ جیسی دیو ہیکل کمپنیوں نے ثابت کیا ہے کہ عالمی سطح پر پیداوار اور ترسیل کو بخوبی منظم کیا جا سکتا ہے۔ کئی مشکل اور خطرناک کام مشینوں کے سپرد کئے جا سکتے ہیں۔
مارکس نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام ”اپنے گورکن خود تخلیق کرتا ہے“ یعنی محنت کش طبقہ۔۔۔وہ طبقہ جو ہمارے ارد گرد تمام تعمیرات کرتاہے، ہماری ضرورت کی اشیائے صرف پیدا کرتا ہے اور اجناس اور سروسز کی ترسیل کرتا ہے۔ مارکس نے یہ بھی وضاحت کی کہ سوشلزم محض کچھ مفکروں کے ذہن میں پیدا ہونے والا ایک اچھا خیال نہیں ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ سرمایہ داری میں یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو ذرائع پیداوار کو اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کو تعمیر کرنے کی جدوجہد کی قیادت کرسکتا ہے۔ اس طبقے کو مالکان، بینکاروں، سی ای اوز اور ان کے سیاست دانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے منظم ہونا پڑے گا۔ آج یہ طبقہ (مارکس کے دور کے برعکس) سماج کی بھاری اکثریت ہے۔ ایک مرتبہ یہ متحرک ہو جائے اور سرمایہ داری کے خاتمے کا مصمم ارادہ کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔
لیکن اگر یہ سب حقیقت ہے تو پھر ابھی تک محنت کش طبقہ ایک انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکا؟
مزدور قصوروار ہیں؟
لینن کے ہمراہ روسی انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی نے اپنی شہادت سے قبل ”طبقہ، پارٹی اور قیادت۔۔ہسپانوی پرولتاریہ کو شکست کیوں ہوئی؟“ کے عنوان سے ایک شاندار مضمون تحریر کیا تھا۔
مضمون کا عنوان وضاحت کرتا ہے کہ اس تحریر میں 1931-39ء کے ہسپانوی انقلاب کا تجزیہ کیا گیا تھا اور اس کی شکست کی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔ ہم اس انقلاب کی کچھ تفصیل آگے چل کر بیان کریں گے۔ سرِ دست یہ کہنا کافی ہے کہ مضبوط ٹریڈ یونین تنظیموں اور جدوجہدکی شاندار روایات کی موجودگی میں ان گنت بغاوتوں، فیکٹریوں پر قبضہ کرنے کی مزدوروں کی خودرو کوششوں اور کسانوں کے زمینوں پر قبضے کرنے کے باوجود ہسپانوی محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکا۔ فرانسسکو فرانکو کی قیادت میں سال 1939ء میں ایک فسطائی آمریت قائم ہوئی جو 1970ء کی دہائی تک جاری رہی۔ ٹراٹسکی کی تحریر اگرچہ مختصر ہے (تحریر ختم کرنے سے پہلے اسے شہید کر دیا گیا تھا) لیکن یہ اسباق کا ایک ایسا انمول خزانہ ہے جس میں اس طرح کی انقلابی شکستوں کی وضاحت اور فتح کی تیاریوں کے حوالے سے گراں قدر تفصیلات موجود ہیں۔ آج ہر سوشلسٹ کو یہ تحریر لازمی پڑھنی چاہیے۔
”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ کا آغاز ایک چھوٹے سے نام نہاد مارکسی رسالے”کیو فیئر؟“ کے خلاف مباحثے سے ہوتا ہے۔ ایک مضمون میں ”کیو فیئر؟“ نے ہسپانوی انقلاب کی شکست کا الزام محنت کش طبقے کی ”ناپختگی“ پر لگایا۔ اگر ہسپانوی انقلاب ناکام ہوا ہے تو اس کی ذمہ دار محنت کش عوام خود ہے۔
آج مزدور تحریک میں عوام کو موردِ الزام ٹھہرانا ایک معمول بن چکا ہے۔ اس وقت بائیں بازو کی سیاست میں موجود کئی افراد کی نظر میں محنت کش طبقہ اس لیے مجرم ہے کیونکہ اس نے ابھی تک سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا! الزاماً کہا جاتا ہے کہ محنت کش طبقہ دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے ”بہت کمزور“ ہے۔ کچھ بائیں بازو کے افراد نے وینزویلا کے انقلاب کے حوالے سے یہی وضاحت پیش کی ہے جو 2000ء کی دہائی کے اوائل سے مسلسل جاری رہنے کے باوجود اب تک مکمل نہیں ہو سکا۔ سال 2002ء میں فوجی کُو کے خلاف تاریخی عوامی تحرک، ہیوگو شاویز کی سوشلسٹ پارٹی (PSUV) کو مسلسل جتوانے، کام کی جگہوں پر قبضے کرنے اور سال 2019ء سے متواتر رجعتی فوجی کُو کی کوششوں کا مقابلہ کرنے جیسے ان تمام اقدامات کے باوجود ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جو الزام لگاتے ہیں کہ وینزویلا کا محنت کش طبقہ بہت کمزور ہے۔
مثلاً PSUV کے ایک ممتاز ممبر ہیسوس فاریاس نے ”سوشلزم کی جانب عبوری دور کی سیاسی معیشت“ میں کہا کہ ”ہم کسی غلطی کے خوف سے بالاتر ہو کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی تیزی سے سماجی تبدیلی کی راہ میں حائل ایک بنیادی رکاوٹ محنت کش طبقے کی تنظیمی، سیاسی اور نظریاتی کمزوری ہے، جو سماجی ترقی کے لیے درکار قوتِ محرکہ کے طور پر آج اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے“۔
سال 2015ء میں یونان میں سائریزا حکومت کا وزیرِ خزانہ یانس واروفاکس بھی اسی قبیل سے ہے۔ سال 2013ء میں ایک مضحکہ خیز عنوان ”ایک متلون مزاج مارکس وادی کے اعترافات“ کے تحت تحریر کردہ ایک مضمون میں اس نے وضاحت کی کہ یورپ میں بحران ”ترقی پسندانہ متبادل کی بجائے رجعتی قوتوں سے حاملہ ہے“۔ یہ اس نے اس وقت تحریر کیا جب سال 2008ء سے اس وقت تک یونانی محنت کش طبقہ 30 عام ہڑتالیں منظم کر چکا تھا! محنت کش طبقے پر عدم اعتماد اور صرف رجعتی امکانات کو ہی دیکھ پانے کے نتیجے میں اس نے دعویٰ کیا کہ آج ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ایک وسیع اتحاد بنایا جائے جس میں ”دایاں بازو“ بھی شامل ہو تاکہ یورپی یونین کو بچایا جا سکے اور ”سرمایہ داری کو اپنے آپ سے بچایا جا سکے“۔
دیگر صحافی، دانشور اور نام نہاد بائیں بازو کی ممتاز شخصیات کا دعویٰ ہے کہ محنت کش طبقہ تبدیلی کا خواہش مند نہیں اور ایک ”بائیں بازو“ کے پروگرام کی طرف مائل نہیں۔ اسی قسم کے خیالات ایک مشہور برطانوی صحافی پال میسن کے بھی ہیں۔
2015ء میں برطانیہ میں اپنے آپ کو اعلانیہ سوشلسٹ کہنے والے جیرمی کوربن کے پارٹی قائد بننے کے بعد لاکھوں افراد نے انتہائی گرمجوشی سے لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ سال 2019ء کے انتخابات میں شکست کے بعد کوربن اب پارٹی قائد نہیں ہے اور پارٹی کا دایاں بازو سر کیئر سٹارمر کی قیادت میں اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے پارٹی سے بائیں بازو کو خارج کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
کوربن کی شکست کے بعد میسن نے بحث کی کہ برطانیہ کا ”روایتی محنت کش طبقہ“، ”بائیں بازو کے ایجنڈے کے کچھ حصوں سے بیزار ہے جس میں تارکین ِ وطن کی آباد کاری سے متعلق کھلی پالیسی، انسانی حقوق کا تحفظ، آفاقی فلاحی پالیسیاں اور سب سے بڑھ کر عسکریت پسندی اور سامراج مخالفت شامل ہے“۔ آفاقی فلاحی پالیسیاں کتنی خوفناک ہوتی ہیں! ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ”کیا ایسے ووٹروں کو امید دلانے کا کوئی فائدہ ہے جو تبدیلی سے خوفزدہ ہوں؟“
یعنی اس کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ محنت کش طبقہ تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ اسے تبدیلی سے خوف لاحق ہے۔ میسن کے نزدیک منطقی تو یہی ہے کہ برطانوی لیبر پارٹی کے اعتدال پسند قائد سٹارمر کی حمایت کی جائے۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ میسن کو کبھی محنت کش طبقے کی سماج کو تبدیل کرنے کی اہلیت پر اعتماد تھا بھی تو اب وہ مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔
یہ تمام افراداس خیال کا پرچار کرتے ہیں کہ یہ محنت کش ہیں جو سماج کو تبدیل کرنے کے لئے نا اہل ہیں یا تبدیل کرنا ہی نہیں چاہتے۔
ان خیالات سے پتا چلتا ہے کہ ان افراد کو اعتماد ہی نہیں ہے کہ محنت کش طبقہ انقلاب کر سکتا ہے، سماج کو تبدیل کر سکتا ہے اور اسے چلا سکتا ہے۔ ان خیالات کی ترویج مختلف صحافی، لبرل اور اکیڈیمک حلقوں کے افراد کرتے ہیں۔ لیکن یہ خیالات ٹریڈ یونین بیوروکریسی کے ذریعے مزدور تحریک میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔ اکثر اوقات وہی یونین قیادت محنت کشوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہوتی ہے جسے مزدوروں نے خودقیادت کے لئے چنا ہوتا ہے کیونکہ بظاہر محنت کش ”جدوجہد نہیں کرنا چاہتے“۔
قیادت کا بحران
مارکس وادی کیسے اس بحث مباحثے کا جواب دیں؟ کہ محنت کش طبقہ ابھی تک سرمایہ داری کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکا ہے؟
سماج کی تبدیلی میں محنت کش طبقے کا کلیدی کردار مارکس وادیوں کے لیے نقطہ آغاز ہے۔ مارکس وادیوں کو ان دانشوروں اور صحافیوں کی مایوسی اور سرد مہری سے کوئی سروکار نہیں جو محنت کش طبقے سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے کہ محنت کش طبقہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کے لیے ”بہت کمزور“ ہے۔ درحقیقت پچھلے سو سالوں میں محنت کش طبقے نے ان گنت مرتبہ بغاوت کی ہے تاکہ اپنے اوپر مسلط جابروں کو ختم کر کے سماج کو تبدیل کیا جا سکے۔ انہوں نے کئی مرتبہ اپنی تمام تر قوت صرف کر کے ایسا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
لیکن تقریباً ہر مرتبہ یہ مزدور تحریک کی قیادت تھی۔۔۔یونینز یا محنت کشوں کی سیاسی پارٹیوں کی قیادت۔۔۔جو تحریک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی۔ وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے حکمران طبقے سے مفاہمت کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار سے درجنوں انقلابات کو تحریک کی قیادت نے ضائع کیا ہے۔ اپنے ”عبوری پروگرام“ میں لیون ٹراٹسکی نے درست طور پر وضاحت کی کہ ”انسانی تاریخ کا بحران انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ گیا ہے“۔
لیکن ہمیں احتیاط کرنی چاہیے کہ ہم اس پوزیشن کے حوالے سے مضحکہ خیز نہ بن جائیں۔ مارکس وادی کبھی بھی اس پوزیشن کی حمایت نہیں کرتے کہ محنت کش طبقہ ہر وقت انقلاب کے لیے تیار رہتا ہے، یا وہ ہر وقت سوشلسٹ قیادت کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب وہ آ کر اسے راہِ نجات دکھائے گی۔ مزدور تحریک کی قیادت محنت کش طبقے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ اگر یونینز کی قیادت سوشلسٹوں کے پاس ہو، اگر ایک انقلابی تنظیم مزدور تحریک کی قیادت کر رہی ہو تو فوراً انقلاب برپا ہو جائے گا اور سرمایہ داری کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ درست نہیں کہ محنت کش ہر وقت جدوجہد کے لیے تیار رہتے ہیں اور اچھی قیادت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ایک عوامی تحریک چٹکی بجا کر نمودار نہیں ہو جاتی۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ ضرور بتاتی ہے کہ ایسے تاریخی فیصلہ کن لمحات ضرور آتے ہیں جب عوام انقلاب کے ذریعے جدوجہد کے میدان میں براہ راست داخل ہو جاتی ہے۔ دنیا کی تبدیلی کے خواہش مند کسی بھی سرگرم کارکن کے لیے سب سے اہم سوالات یہ ہیں کہ ہم اپنے طبقے کو۔۔۔محنت کش طبقے کو۔۔۔سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے کیسے منظم کریں؟ اس ہدف کے لیے سوشلسٹوں کا کیا کردار ہے؟ ہم اس کی تیاری کیسے کر سکتے ہیں؟
طبقاتی شعور
محنت کشوں کا طبقاتی شعور ایک سیدھی لکیر میں ارتقا نہیں کرتا۔
ایک طویل تاریخی عمل سے گزر کر ہی محنت کشوں نے شعور حاصل کیا ہے کہ اپنے آپ کو منظم کرنا ناگزیر ہے۔ ٹریڈ یونینز کا قیام ہی مالکان کے خلاف محنت کشوں کی جاری جدوجہد کا تحفظ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ بالآخر محنت کشوں نے تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں تخلیق کیں تاکہ اپنا سیاسی اظہار کیا جا سکے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ منظم ہوئے بغیر محنت کش طبقہ محض استحصال کے لیے خام مال ہے۔ طویل تاریخی جدوجہد سے گزر کر ہی محنت کش طبقے نے یونینز اور دیگر تنظیموں کے ذریعے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ یہ ناہموار عمل ہر ملک میں مختلف اشکال میں اپنا اظہار کرتا ہے۔
اس نتیجے پر پہنچنا کہ منظم ہونا چاہیے، ایک مرحلہ ہے۔ لیکن اس نتیجے پر پہنچنا کہ سرمایہ داری کا انقلابی خاتمہ ناگزیر ہے، ایک بالکل مختلف مرحلہ ہے۔ محنت کش طبقہ جب جدوجہد میں داخل ہوتا ہے تو ساتھ ہی کسی خودکار طریقے سے انقلابی نتائج پر نہیں پہنچ جاتا۔
درحقیقت شعور انقلابی نہیں ہوتا۔ شعور، عموماً انتہائی قدامت پسند ہوتا ہے۔ لوگ پرانے خیالات، روایات اور جانی پہچانی چیزوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ عام طور پر عوام خوشگوار حالات میں پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اس پر انہیں کون الزام دے سکتا ہے؟ کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں بڑاہنگامہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ محنت کش نوکری اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں ہڑتالیں کرنے کا شوق ہے۔
انقلابات تاریخ کے ناگزیر لیکن غیر معمولی لمحات ہوتے ہیں۔ محنت کش ہر وقت جدوجہد میں موجود نہیں ہوتے۔
لیکن پھر ایسے لمحات آتے ہیں جب سٹیٹس کو قائم رہنے کے قابل نہیں رہتا۔ کروڑوں افراد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ جبری کٹوتیاں محنت کشوں پر تابڑ توڑ حملے کرتی ہیں۔ زندہ رہنے کی قیمت ناقابلِ برداشت اور اجرتیں جمود کا شکار ہو جاتی ہیں۔ عوامی سروسز کی نجکاری ہو جاتی ہے۔ امیر انتہائی ڈھٹائی اور بے حیائی سے اپنی دولت میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔
یہ انقلابی یا سوشلسٹ نہیں جو انقلابات برپا کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ داری ہے جو ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ کروڑوں افراد بغاوت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کروڑوں محنت کش ایک دن گردو پیش سے بیگانہ نظر آتے ہیں اور اگلے دن سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ واقعات کے پیچھے لڑکھڑاتا ماضی میں پھنسا شعور ایک بھرپور جست کے ذریعے حقیقت کے ساتھ آن ملتا ہے اور تب انقلابات برپا ہوتے ہیں۔
اکثر اوقات کوئی ایک ”حادثہ“ انقلاب کو جنم دیتا ہے۔ 2010-11ء میں تیونس میں انقلاب اس وقت برپا ہوا جب ایک نوجوان ٹھیلے والے نے گورنر آفس کے باہر خود سوزی کر لی۔ اس ایک چنگاری نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔ عوامی تحریک نے تیونس کی دہائیوں پرانی آمریت کو اکھاڑ پھینکا۔ پھر تحریک مصر اور پوری عرب دنیا میں پھیل گئی۔ دہائیوں سے ابلنے والے غم و غصے کو محض ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔ تقریباً ہر انقلاب میں آ پ کو ایسے ہی واقعات ملیں گے۔
انقلاب کیا ہے؟ ٹراٹسکی نے اپنی شہرہئ آفاق تصنیف ”انقلابِ روس کی تاریخ“ میں یوں وضاحت کی تھی:
”بلا شبہ ایک انقلاب کا سب سے اہم پہلو عوام کی تاریخی واقعات میں براہِ راست مداخلت ہے۔ عام حالات میں ر یاست، چاہے بادشاہت ہو یا جمہوریت، اپنے آپ کو قوم سے بالاتر کر لیتی ہے اور اس کاروبار کے ماہرین ہی تاریخ بناتے ہیں۔۔۔بادشاہ، وزیر، بیوروکریٹ، پارلیمانی ممبران، صحافی۔ لیکن فیصلہ کن لمحات میں پرانا نظام عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو سیاست سے باہر رکھنے والی ہر رکاوٹ کو توڑکر، اپنے روایتی نمائندوں کو پرے پھینکتے ہوئے براہِ راست مداخلت کے ذریعے ایک نئے نظام کی ابتدائی تعمیر کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ اچھا ہے یا برا، اس کا فیصلہ ہم ماہرین اخلاقیات پر چھوڑتے ہیں۔ ہم حقائق کو ویسے ہی مدِ نظر رکھیں گے جیسے ارتقا کا معروضی عمل انہیں پیش کرتا ہے۔ ہمارے لئے انقلاب کی تاریخ سب سے پہلے عوام کی بزور قوت اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنے کی تاریخ ہے“۔
یہ تحریر مکمل طور پر ایک انقلاب کے جوہر کو واضح کرتی ہے۔ انقلاب سب سے پہلے عوام، جن کی بھاری اکثریت آج محنت کش طبقے پر مشتمل ہے، کی تاریخ کے سٹیج پر آمد ہے۔
اگر ہم پچھلے سو سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ دیکھیں تو کہیں بھی انقلابات کی کمی نہیں ہے۔ درحقیقت کوئی ایک ایسی دہائی نہیں گزری جس میں کم از کم ایک بڑا انقلاب موجود نہ ہو۔
1905ء اور 1917ء کا روسی انقلاب؛ 1923ء میں جرمن اور 1925-27ء میں چینی انقلاب؛ 1931-37ء کا ہسپانوی انقلاب؛ 1936ء میں فرانس میں دیو ہیکل ہڑتالیں؛ 1943 -45ء میں اٹلی، یونان اور فرانس میں انقلابی لہر؛ 1949ء کا چینی انقلاب؛ 1956ء میں ہنگری؛ مئی 1968ء میں فرانس؛ 1970-73ء میں چلی کا انقلاب؛ 1974ء میں پرتگال کا انقلاب؛ 1980-83ء میں نیکاراگوا میں ساندانیستا انقلاب؛ 1983-87ء میں برکینا فاسو کا انقلاب؛ 1998ء میں انڈونیشیا کی آمریت کا انقلابی خاتمہ؛ 2000ء کی دہائی میں ہیوگو شاویز کی قیادت میں وینزویلا کا انقلاب؛ 2011ء میں عرب انقلابات۔
ایک طویل تاریخی فہرست موجود ہے۔ تاریخ ان گنت لمحات سے بھری پڑی ہے جب حالات عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں اور وہ سڑکوں پر نکل کر اپنی قسمت کے فیصلے خود کرتے ہیں۔
انقلابات کو زلزلوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ کوئی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ کب ایک زلزلہ برپا ہو گا اور عمومی طور پر زلزلے بہت کم ہی آتے ہیں۔ لیکن ہم ٹیکٹونک پلیٹوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ کن حالات میں زلزلے رونما ہوتے ہیں۔ زلزلے ہر وقت رونما نہیں ہوتے لیکن حتمی طور پر وہ ناگزیر ضرور ہوتے ہیں۔
انقلابات بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ ایک انقلاب کب برپا ہو گا۔ لیکن ہم معاشی حالات کا مطالعہ کر سکتے ہیں، مزدوروں میں بڑھتا غم و غصہ دیکھ سکتے ہیں اور ایک انقلابی عہد کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔
فرق یہ ہے کہ ایک انقلاب کو انسان تخلیق کرتے ہیں۔ ہم اس کی تیاری کر سکتے ہیں اور اس کی فتح میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
خود رو پن؟
عملی طور پر انقلابات کیسے آگے بڑھتے ہیں؟ اگر محنت کش ایک ہی حملے میں سرمایہ داری کا خاتمہ کر سکیں تو پھر انقلابی تھیوری کی کیا ضرورت ہے؟ مزدور تحریک میں نظریات، پروگرام، ٹھوس اقدامات وغیرہ پر بحث مباحثہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔ کسی ایک یا دوسرے پروگرام کے دفاع میں کوئی تنظیم سازی کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
انارکسٹوں میں عوامی تحریکوں کے خود رو کردار پر بہت بات کی جاتی ہے۔ مختلف انارکسٹ تھیوریاں گھوم پھر کر اسی خیال پر اختتام پذیر ہوتی ہیں کہ عوام کسی طرح خود رو انداز میں ایک غیر طبقاتی سماج تخلیق کر لیں گے۔ مثلاً کروپوتکن نے انارکزم پر اپنے سب سے مشہور مضمون میں وضاحت کی کہ اس کا کارنامہ یہ ہے کہ ”ایک انقلابی دور میں نشاندہی کی جائے کہ کیسے ایک بڑے شہر میں۔۔اگر اس کے شہریوں نے نظریہ قبول کر لیا ہے۔۔اپنے آپ کو آزاد کمیونزم کے لئے منظم کیا جا سکتا ہے“۔ یعنی اس کا یہ کہنا ہے کہ محنت کش خود رو طریقے سے ایک انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ بہرحال کروپوتکن نے یہ نہیں بتایا کہ شہری کیسے کمیونزم کا ”نظریہ قبول“ کر لیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام عوامی تحریکوں اور انقلابات میں ایک خودرو عنصر موجود ہوتا ہے حتیٰ کہ آغاز میں یہ ایک طاقت بھی ہوتی ہے۔ خودرو انداز میں ماضی میں سیاست سے بیگانہ کروڑوں عوام سڑکوں پر آ کر حکمران طبقے کو حیران و پریشان کر دیتے ہیں۔ اکثر اوقات تو ایک انقلاب اپنے آغاز میں سب سے زیادہ ثابت قدم انقلابیوں کو بھی حیران کر دیتا ہے۔ سال 1917ء میں روس کے فروری انقلاب کے آغاز پر پیٹروگراڈ کے بالشویک واقعات سے اتنے پیچھے تھے کہ مظاہروں کے پہلے دن انہوں نے محنت کشوں کو سڑکوں پر نہ آنے کا مشورہ دیا تھا!
لیکن کیا خودرو عمل سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر تحریک، ہر جدوجہد، ہر انقلاب میں واقعات چاہے کتنے ہی خودرو کیوں نہ لگ رہے ہوں، ایک گروہ یا ایسے افراد ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جو ایک قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اچھا لگے یا برا، محنت کشوں کی بھاری اکثریت تنظیموں کے ذریعے ہی اپنا اظہار کرتی ہے یا کم از کم ان افراد کے ذریعے جو اپنے ساتھیوں کا اعتماد جیت کر قائدانہ کردار میں آجاتے ہیں۔
کسی بظاہرخود رو تحریک میں بھی کوئی ایک فرد ہوتا ہے جو کہ ایک اکٹھ میں مدلل اور جوشیلی تقریر کر کے اپنے ساتھیوں کو ہڑتال کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ کوئی تنظیم یا ایک فرد ہی وہ لیف لیٹ لکھتا ہے جو محنت کشوں کو ہڑتال پر آمادہ کرنے کی بحث پیش کرتا ہے۔ ایک تنظیم یا افراد کام کی جگہوں پر قبضہ کرنے کا خیال دیتے ہیں۔ یہ خیالات عدم سے نہیں آتے۔ اس کے برعکس ایک مزدور تحریک میں تنظیمیں یا افراد اپنی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ بھی روک سکتے ہیں۔ افراد یا تنظیمیں ایک ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے بھی بحث کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کسی فیکٹری پر قبضہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح مالکان کی نجی ملکیت کا حق مجروح ہوتا ہے۔
خیالات اور لائحہ عمل کی اس جنگ کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔ تمام محنت کش ایک ہی وقت میں ایک ہی نتیجہ اخذ نہیں کرتے۔ ایک اقلیت فیکٹری پر قبضہ، ایک عام ہڑتال کی افادیت وغیرہ کو دیگر سے پہلے سمجھ جائے گی۔ ایک انقلاب میں ایک اقلیت سمجھ جائے گی کہ اس وقت محنت کشوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ ان کا فرض دیگرمحنت کشوں کو قائل کرنے کے لئے منظم ہونا ہے۔
اگر ایک تحریک بظاہر خود رو لگ بھی رہی ہو پھر بھی حتمی طور پر تنظیمیں یا افراد ہی قائدانہ کردار ادا کریں گے۔
ٹراٹسکی نے ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں وضاحت کی کہ:
”تاریخ طبقاتی جدوجہد کا ایک عمل ہے۔ لیکن طبقات اپنی بھرپور قوت کا اظہار ایک خودرو انداز میں اور ایک ہی وقت میں نہیں کرتے۔ جدوجہد کے عمل میں طبقات مختلف تنظیمیں تخلیق کرتے ہیں جو ایک اہم اور آزادانہ کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے مسخ ہونے کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔۔۔تاریخی اکھاڑ پچھاڑ کے اہم لمحات میں سیاسی قیادت اتنا ہی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے جتنا کردار ایک جنگ کے اہم لمحات میں فوجی قیادت کا ہوتا ہے۔ تاریخ ایک خود رو عمل نہیں ہے۔ ورنہ قائدین کیوں؟ پارٹیاں کیوں؟ پروگرام کیوں؟ نظریاتی جدوجہد کیوں؟“
مزدور تحریک کے مختلف رجحانات اپنا اظہار مختلف تنظیموں کے ذریعے کرتے ہیں۔ مارکس وادی بھی منظم ہونا چاہتے ہیں اور ایک انقلابی پارٹی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔
ایک انقلابی پارٹی کیا ہوتی ہے؟
”پارٹی“ کی اصطلاح نوجوانوں اور مزدور تحریک کی کچھ پرتوں میں معیوب ہو چکی ہے اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں! موجودہ سیاسی پارٹیاں ان پرتوں کو پرے دھکیلنے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ نام نہاد ”بائیں بازو“ کی پارٹیاں بھی۔ یہ اکثر اوقات دائیں بازو کی پارٹیوں سے زیادہ گرمجوشی سے، اقتدار میں آ کر بینکوں کے آگے سر نگوں ہو جاتی ہیں اور سرمایہ داروں کے غلیظ مقاصد کی علمبردار بن جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال سائریزا کی یونان میں سال 2015ء میں بننے والی حکومت ہے۔
جب مارکس وادی ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو ہمارا مطلب ایک انتخابی مشینری نہیں ہوتا۔ ایک پارٹی سب سے پہلے نظریات، ان نظریات پر مبنی پروگرام اور اس پروگرام کو لاگو کرنے کے لئے درکار لائحہ عمل ہوتی ہے اور اس کے بعد ہی وہ ایک ڈھانچہ اور ایک تنظیم ہوتی ہے جو پوری تحریک میں اپنے پروگرام کی ترویج کے ذریعے عوام کو اپنی طرف جیتتی ہے۔
ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ محنت کش طبقے میں منظم ہونے کا رجحان پہلے سے موجود ہے جس کا اظہار ٹریڈ یونینز اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ مزدور تحریک میں موجود مختلف رجحانات تنظیموں اور گروہوں کے ذریعے اپنا اظہار کرتے ہیں۔
ٹریڈ یونینز کا کردار ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مزدوروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بھلا کون احمق یہ مشورہ دے گا کہ یونینز میں صرف انقلابی مزدور ہی ہونے چاہئیں؟ یقینا ایسی یونینز بہت کمزور ہوں گی۔ لیکن ایک انقلابی پارٹی ٹریڈ یونینز سے مختلف ہوتی ہے۔
ٹراٹسکی نے ”کمیونسٹ پارٹی سے متعلق ایک فرانسیسی سنڈیکلسٹ کے نام خط“ میں وضاحت کی تھی کہ ”اس ابتدائی گروہ (پارٹی) کی ساخت کیا ہونی چاہیے؟ یہ واضح ہے کہ یہ کسی ایک پیشہ ورانہ یا علاقائی گروہ پر مشتمل نہیں ہو سکتی۔ یہ دھات مزدوروں، ریلوے مزدوروں، جدید ترکھانوں کی بجائے پورے ملک کے پرولتاریہ کی سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتوں کا سوال ہے۔ انہیں اکٹھے ہونا ہو گا، ایک واضح عملی جدوجہد کے پروگرام کی ترویج کرنا ہو گی، سخت گیر ڈسپلن کے ذریعے اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا ہو گا اور اس طرح اپنے آپ کو محنت کش طبقے کی تمام لڑاکا سرگرمیوں، اس طبقے کے تمام اداروں اور سب سے بڑھ کر یونینز پر اپنے رہبرانہ اثر و رسوخ کو یقینی بنانا ہو گا“۔
محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی تمام پرتیں ایک ہی وقت میں ایک ہی نتیجہ اخذ نہیں کر تیں۔ کچھ مزدور سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری بہترین نظام ہے۔ کچھ کو سرمایہ داری پسند نہیں لیکن انہیں یقین نہیں کہ اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ دیگر بیگانہ ہیں۔ لیکن کچھ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ سوشلزم کے لیے جدوجہد لازم ہے۔ اس سمجھ بوجھ کو حاصل کرنے کے بعد لازمی طور پر وہ مزدور تحریک کو اس راستے کی طرف موڑنا چاہیں گے۔
ظاہر ہے کہ اگر وہ جدوجہد میں محنت کش طبقے کی دیگر پرتوں کا اعتماد جیتنا چاہتے ہیں تو اس سوشلسٹ اقلیت (ٹراٹسکی انہیں ”کیڈرز“ کہتا ہے) کو منظم ہونا پڑے گا۔ یہ فریضہ اور بھی مؤثر انداز میں ادا ہو سکے گا اگر یہ اقلیت ایک تنظیم میں منظم ہو جس کا ایک مشترکہ پروگرام ہو۔
”عبوری پروگرام پر بحث“ میں ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ:
”اب پارٹی کیا ہے؟ اس کی اکائی کس امر میں پنہاں ہے؟ یہ اکائی واقعات اور فرائض کی مشترکہ سمجھ بوجھ ہے اور یہ مشترکہ سمجھ بوجھ۔۔پارٹی کا پروگرام ہے۔ جس طرح جدید مزدور اوزار وں کے بغیر وحشیوں سے زیادہ کام نہیں کر سکتے اسی طرح پارٹی کا اوزار اس کا پروگرام ہے۔ پروگرام کے بغیر ہر مزدور کو اپنا اوزار خود تخلیق کرنا پڑے گا، یا تخلیق شدہ اوزار تلاش کرنا پڑے گا اور اس طرح ہر ایک دوسرے کی نفی کرے گا“۔
ایک انقلاب سے پہلے ایک پروگرام اور ایک تنظیم کی تعمیر اسی طرح لازمی ہے جس طرح ایک کام سے پہلے ایک مزدور کے پاس اوزار کی موجودگی۔
ہسپانوی انقلاب: پارٹی اور قیادت کے بغیر ایک طبقہ
اگر کوئی انقلابی قیادت یا انقلابی تنظیم موجود نہ ہو تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یا اگر موجود تنظیمیں تحریک کا راستہ روکیں تو پھر کیا ہوتا ہے؟
ٹراٹسکی ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں 1931-39ء کے ہسپانوی انقلاب کی شکست کے حوالے سے تجزیہ کرتا ہے۔ یہ ولولہ انگیز تاریخی واقعہ شاید سب سے دکھ بھری مثال ہے کہ جب ایک طبقہ سرمایہ داری کے خاتمے کے لئے اپنا پورا زور لگا دے لیکن ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یا موجود تنظیموں کے ا قتدار پر قبضہ کرنے سے انکار پر کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
1930ء کی دہائی کے بحران نے سپین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بے پناہ غربت نے محنت کشوں اور کسانوں کو برباد کر دیا تھا۔ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں (جواکثر اوقات ایک ہی ہوتے تھے) نے معیارِ زندگی کو ذلت کی حد تک گرا دیا تھا تاکہ منافعوں کو قائم رکھا جا سکے۔ سال 1931ء میں بڑھتے عوامی غم و غصے کے پیشِ نظر حکمران طبقہ بادشاہت کی قربانی دے کر ایک جمہوریہ قائم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن ایک جمہوریہ میں تبدیلی سے محنت کش طبقے اور غریب کسانوں کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔
دائیں بازو کی حکومت کے دو سالہ اقتدار کے بعد فروری 1936ء میں عوام پاپولر فرنٹ کو اقتدار میں لے آئی۔ اس حکومت میں سوشلسٹ، کمیونسٹ، POUM (ایک نام نہاد مارکسی پارٹی جو مسلسل انقلاب اور اصلاح پسندی کے درمیان جھولتی رہی) یہاں تک کہ مرکزی ٹریڈ یونین فیڈریشن CNT کے انارکسٹ قائد بھی شامل تھے۔ ان مزدور تنظیموں نے پاپولر فرنٹ میں بورژوا ریپبلیکنز کو بھی شامل کر لیا۔ سرمایہ دار پارٹیوں کی شمولیت نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنا پروگرام نرم کرے، محنت کشوں اور کسانوں کے حق میں کی جانے والی اصلاحات کو سست کرے اور بورژوا نجی ملکیت کو قائم رہنے دے۔ پاپولر فرنٹ کی حکومت اتنی پسپا ہوئی کہ انہوں نے جدوجہد میں موجود محنت کشوں پر حملہ کر دیا۔
اصلاحات کے حوالے سے پاپولر فرنٹ کے وعدے وعید کا انتظار کئے بغیر محنت کشوں نے 44 گھنٹہ فی ہفتہ اوقات کار اور اجرتوں میں اضافہ خود ہی کر دیا اور پچھلی دائیں بازو حکومت کے دور میں قید کئے گئے سیاسی کارکنوں کو آزاد کروا لیا۔ سال 1936ء میں فروری اور جولائی کے عرصے میں ہر بڑے ہسپانوی شہر میں کم از کم ایک عام ہڑتال منظم ہوئی۔ جولائی کے مہینے میں 10 لاکھ محنت کشوں نے ہڑتال کی۔
سرمایہ داروں کی نظر میں مزدور تحریک بے قابو ہو رہی تھی۔ 17 جولائی 1936ء کے دن جنرل فرانسسکو فرانکو نے سپین کے صنعت کاروں اور جاگیر داروں کی مکمل حمایت کے ساتھ ایک فسطائی بغاوت کا آغاز کیا۔ حکومت کا خاتمہ، یونینز اور محنت کشوں کی پارٹیوں کی تباہی اور ایک مضبوط حکومت کا قیام اس کے اہداف تھے تاکہ سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں اور کسانوں کا کسی رکاوٹ کے بغیر بدترین استحصال جاری رکھ سکے۔ ایک فسطائی کُو کے سامنے پاپولر فرنٹ پارٹیوں نے محنت کشوں کو لڑائی کے لئے مسلح کرنے سے انکار کر دیا۔
ان پارٹیوں کی غیر فعالیت کے باوجود محنت کشوں نے خود رو طور پر فسطائیوں کا مقابلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے ڈنڈے سوٹے، چھریاں اور دیگر جو کچھ بھی مل سکا اسے ہتھیار بنا لیا۔ وہ فوجیوں کے ساتھ گھل مل گئے اور بیرکوں میں گھس کر آتشیں ہتھیار وں سے خود کو مسلح کیا۔ محنت کشوں نے بورژوا پولیس کے متبادل ملیشیا بنائیں۔ فسطائیت کے خلاف ان ”عسکری“ اقدامات کے ساتھ محنت کشوں نے معاشی اقدامات بھی کیے۔ کیٹالونیا میں ٹرانسپورٹ اور صنعتیں تقریباً مکمل طور پر محنت کش کمیٹیوں اور فیکٹری کمیٹیوں کے قبضے میں لے لی گئیں۔ میڈرڈ کی مرکزی حکومت اور کیٹالونیا کی حکومت کے مساوی ایک دوسری قوت۔۔محنت کشوں کی قوت۔۔ابھر رہی تھی۔
لیکن پھر کیا ہوا؟ تمام تنظیموں کی قیادت۔۔سوشلسٹ، کمیونسٹ، POUM اور انارکسٹ CNT۔۔سب نے تحریک کو بریک لگا دی۔ کیٹالونیا میں انہوں نے محنت کشوں کی کمیٹیوں کو ختم کرنے میں حصہ لیا۔ سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں نے صفِ اول میں کھڑے ہو کر محنت کشوں کو گھر جانے، فیکٹریوں پر قبضے نہ کرنے اور فسطائیت کے خلاف بورژوا حکومت کو لڑائی کی قیادت کرنے کی تلقین کی۔ POUM نے سب سے بڑا دھوکہ دیتے ہوئے سال 1936ء کے موسمِ خزاں میں کیٹالان بورژوا حکومت میں شمولیت اختیار کر لی اور انقلاب کا راستہ روکنے کی تمام پالیسیوں کی حمایت کر دی۔ سب سے دلچسپ کردار CNT کی انارکسٹ قیادت کا ہے۔ اس عرصے میں CNT کے قائدین نے شیخی بھی ماری کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔ ”اگر ہم اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تو یقیناً ہم مئی (1937ء) میں یہ کام کر سکتے تھے۔ لیکن ہم آمریت کے خلاف ہیں“۔
CNT کے قائدین نے پنپتی محنت کش جمہوریہ کو اس لیے مستحکم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ انارکسٹ تھے اور عمومی طور پر اقتدار پر قبضے کے خلاف تھے۔ موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ لیکن یہی انارکسٹ جو محنت کش طبقے کے نام پر اقتدار پر قبضہ کرنے سے انکاری تھے، خوشی خوشی کیٹالونیا کی بورژوا حکومت میں شامل ہو گئے! اس بدترین غداری اور بدنیتی کی مثال شاید ہی تاریخ میں موجود ہو۔
محنت کش مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے۔ اس المناک داستان کا خاتمہ 1936-39ء کی خانہ جنگی میں جنرل فرانکو اور فسطائیوں کی فتح پر ہوا۔
ہسپانوی انقلاب کیوں ناکام ہوا؟
محنت کشوں نے ہر جگہ اور خاص طور پر کیٹالونیا میں خودرو طور پر فسطائیوں کو پیچھے دھکیلا اور کام کی جگہوں پر قبضے کر لئے۔ محنت کشوں کی سمت درست تھی۔ لیکن محنت کش تنظیموں کے قائدین نے عوامی تحریک کو بریک لگا دی۔ ٹراٹسکی نے ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں وضاحت کی کہ ایسی صورتحال میں محنت کش طبقے کے لئے اپنے قائدین کی قدامت پرستی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک متبادل کا موجود ہونا لازم ہے۔ ”اس شخص کو طبقے اور پارٹی، عوام اور قائدین کے درمیان باہمی تعلقات کے حوالے سے کچھ نہیں پتہ جو یہی کھوکھلی بات دہراتا رہے کہ ہسپانوی عوام نے محض اپنے قائدین کی پیروی کی۔ ایک ہی بات کی جا سکتی ہے کہ عوام نے درست راہ پر چلنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جنگ کی تپش میں انقلاب کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک نئی قیادت تخلیق کرنا ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ ہمارے سامنے ایک انتہائی متحرک عمل ہے جس میں انقلاب کے مختلف مراحل تیزی سے تبدیل ہوئے اور قیادت یا قیادت کے مختلف حصوں نے تیزی کے ساتھ طبقاتی دشمنوں کی طرف راہِ فرار اختیار کی۔۔۔لیکن ان حالات میں بھی جب پرانی قیادت اپنی اندرونی کرپشن عیاں کر دے، طبقہ فوری طور پر ایک نئی قیادت پیدا نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر اگر اسے پچھلے دور سے مضبوط انقلابی کیڈرز فراہم نہ ہوں جو پرانی لیڈنگ پارٹی کے انہدام سے فائدہ اٹھا سکیں“۔
یہ قدیم تاریخ نہیں
ہسپانوی انقلاب کوئی ایک مثال نہیں اور نہ ہی یہ کوئی قدیم تاریخ ہے۔
سال 2019ء میں لاطینی امریکہ، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک انقلابی لہر پورے جوبن پر تھی۔ چلی، ایکواڈور، کولمبیا، عراق، لبنان، الجیریاء اور سوڈان سب میں ملک گیر عام ہڑتالیں، عوامی تحریکیں یا انقلاب برپا ہوئے۔
اور ہر جگہ ایک ہی سوال ابھر کر سامنے آیا۔۔انقلابی قیادت کا سوال۔۔اور اس کے فقدان نے تمام واقعات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔
سوڈان کی مثال تو خاص طور پر اہم ہے۔ دسمبر 2018ء میں آمر عمر البشیر کے خلاف ایک عوامی تحریک پھٹ پڑی۔ خوفناک غربت، آئی ایم ایف کی مسلط کردہ جبری کٹوتیاں اور دیو ہیکل بیروزگاری عوام کو سڑکوں پر لے آئی۔ دار الحکومت خرطوم میں انقلابیوں نے ایک عوامی دھرنا بھی منظم کیا۔
فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق ”کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سال 1917ء میں جب زار شاہی کا تختہ الٹا جا رہا تھا تو روس کیسا تھا یا سال 1871ء میں فرانس میں قلیل مدتی پیرس کمیون کے بپھرے مثالی دن کیسے تھے۔ لیکن یہ یقینا اپریل 2019ء کے خرطوم جیسے محسوس ہوتے ہوں گے“۔
یہ ایک حقیقی انقلاب تھا! اپریل میں حکمران طبقہ آمر کو ہٹانے پر مجبور ہو گیا۔ ایک عبوری عسکری کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ اقتدار فوج کے پاس رہے۔ مظاہروں کے پیچھے مرکزی تنظیم سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن (SPA) تھی۔ اس تنظیم نے مظاہروں کی کال دی اور مئی کے اختتامی دنوں میں فوج سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبے پر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال بھی دی۔ اس ہڑتال نے پورا ملک مفلوج کر دیا۔
جون کے اوائل میں ریاست نے خرطوم دھرنے پر رجعتی ملیشیا چڑھا دی۔ سوڈانی محنت کشوں کو خوفزدہ کرنے کے بجائے SPA نے ایک اور ملک گیر عام ہڑتال منظم کی جس نے دوسری مرتبہ پورا ملک مفلوج کر دیا۔ مزاحمتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ یہاں موقع تھا کہ محنت کش سیاسی اقتدار اور معیشت پر قبضہ کر لیں۔ لیکن اس کے برعکس SPA نے ہڑتال ختم کرنے کی کال دے دی۔ پھر انہوں نے عسکری کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کر کے ایک معاہدہ کر لیا جس کے مطابق ایک تین سالہ عبوری دور کے بعد انتخابات منعقد کئے جائیں گے۔
سوڈان میں کون سا عنصر موجود نہیں تھا؟ محنت کشوں نے دو ملک گیر عام ہڑتالیں کیں، جبر کے باوجود دھرنا جاری رکھا اور تحریک کو منظم کرنے کے لئے گراس روٹ کمیٹیاں تخلیق کیں۔ محنت کش جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے کیا۔ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔ لیکن عوام میں سب سے زیادہ اتھارٹی رکھنے والی مرکزی تنظیم نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے جرنیلوں سے سمجھوتہ کر لیا۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ایسی صورتحال میں فوری طور پر ایک نئی تنظیم تشکیل نہیں دی جا سکتی۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، قیادت زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ آپ منظم ہونے کی ضرورت سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ اس وقت مزدور تحریک کو غلط قیادت اور محنت کشوں کی تنظیمیں روکے ہوئے ہیں اور سب سے اہم فریضہ پہلے سے ایک متبادل تیار کرنا ہے۔ ایک حقیقی انقلابی پارٹی۔
1917ء کا روسی انقلاب
ایک انقلابی پارٹی کی بحث میں 1917ء کے روسی انقلاب کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ مارکس وادی اس انقلاب کے مطالعے میں بے پناہ وقت خرچ کرتے ہیں۔ 1871ء میں قلیل مدتی پیرس کمیون کے واقعے کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کشوں اور مظلوموں نے اقتدار پر قبضہ کیا، سرمایہ داری کا خاتمہ کیا اور ایک محنت کش جمہوریہ اور ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔ مستقبل کی فتوحات کے لیے ماضی کی فتوحات کا مطالعہ لازمی ہے۔
اکتوبر 1917ء میں روسی محنت کشوں کی فتح آسمان سے نہیں اتری تھی۔ فروری 1917ء میں عالمی جنگ روس کو تباہ و برباد کر رہی تھی۔ سرحدوں پر وردیوں میں ملبوس محنت کش اور کسان اب کسی اور کی جنگ مزید لڑنے کو تیار نہیں تھے۔ فیکٹریوں کے محنت کش اور ان کے خاندان بھوکے مر رہے تھے۔ سٹیٹس کو بکھر رہا تھا۔ پیٹروگراڈ میں محنت کش خواتین کی پہل گامی پر شہر کے محنت کشوں نے عام ہڑتال کی اور ایک ہفتے کی عوامی تحریک کے بعد زار کو تختِ شاہی چھوڑنا پڑا۔
جدوجہد کے دوران پیٹروگراڈ سوویت تخلیق ہوئی اور اس کے بعد پورے روس میں سوویتیں کھمبیوں کی طرح نمودار ہونے لگیں۔ سوویتیں وسیع ہڑتالی کمیٹیاں تھیں جنہوں نے سماج کا نظم اپنے قبضے میں لینے کا عمل شروع کر دیا۔ درحقیقت طاقت انہی کے ہاتھوں میں تھی۔
لیکن سوویتوں کے ساتھ ساتھ بورژوازی کی تشکیل کردہ ایک ”عبوری حکومت“ بھی موجود تھی جس کا مقصد سرمایہ داری کو قائم و دائم رکھنا تھا۔ یہ ”طاقت کی دوئی“ اکتوبر 1917ء تک جاری رہی۔
فروری سے اکتوبر تک انقلابی اتار چڑھاؤ کے دوران عبوری حکومت نے ثابت کر دیا کہ انہیں عوام کے فوری حل طلب مطالبات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ امن، محنت کشوں کے لیے روٹی اور کسانوں کیلئے زمین۔
انقلاب کے آغاز میں سوویتوں میں موجود اصلاح پسند پارٹیوں سوشلسٹ ریولوشنَریز (SRs) اور منشویکوں پر محنت کشوں اور کسانوں کی اکثریت کو اعتماد تھا اور انہوں نے اپنی اس قائدانہ پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے بورژوا عبوری حکومت کو سوویتوں کی حمایت دلائی۔ ان کے قائدین بھی اس حکومت میں شامل ہو گئے۔ منشویک اور SRs کا یہ ماننا تھا کہ ابھی محنت کش طبقے کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنا ”قبل از وقت“ ہے، بورژوازی کو حکومت کا موقع دینا چاہیے اور سوشلزم کی جدوجہد کا بعد میں آغاز کیا جائے گا۔
کئی ماہ گزرنے کے بعد منشویک اور SRs محنت کشوں، فوجیوں اور کسانوں میں اپنی ساکھ کھو بیٹھے۔ لیکن شکر ہے کہ ایک متبادل موجود تھا۔ یہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک تھے جن کی طرف عوام نے رجوع کیا۔ بالشویکوں نے کئی مہینوں صبر کے ساتھ وضاحت کی کہ بورژوازی کے ہاتھوں سے اقتدار چھیننا ضروری اور ممکن ہے اور عوام کا اعتماد جیتنے کے بعد بالشویکوں نے دیو ہیکل عوامی قوت اور پہل گامی کو اکتوبر 1917ء کی فتح میں تبدیل کر دیا۔
بالشویک پارٹی اور لینن
تاریخ میں پہلی مرتبہ روسی انقلاب کے ذریعے محنت کشوں نے اقتدار پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ اس پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر لی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ کامیاب ہو گئے تھے جبکہ ان گنت تحریکیں ناکام ہو چکی ہیں؟
اس کی وضاحت 1930ء کی دہائی میں ہسپانوی محنت کشوں کے مقابلے میں روسی محنت کشوں کی ”پختگی“ سے تو نہیں کی جا سکتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ روسی محنت کش ہسپانوی محنت کشوں کے مقابلے میں زیادہ لڑاکا تھے۔ نہ ہی روسی محنت کش کچھ زیادہ ذہین فطین یا اس طرح کی کسی اور خصوصیت سے مالا مال تھے۔ صرف ایک کلیدی فرق تھا۔۔۔بالشویک پارٹی کی موجودگی۔
بالشویکوں نے روسی انقلاب برپا نہیں کیا تھا۔ اگرچہ بالشویک کارکنوں نے فروری میں ایک کردار ادا کیا تھا لیکن عوام کا لڑاکا موڈ سرمایہ داری اور ملک میں موجود تباہ کن حالات نے پیدا کیا تھا۔ ٹراٹسکی نے ”انقلابِ روس کی تاریخ“ میں وضاحت کی ہے کہ ”ہم پر عوامی موڈبنانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ ہم نے صرف اس کو اظہار دینے کی کوشش کی“۔
ایک مارکسی تنظیم کا یہی کردار ہے کہ محنت کش طبقے کی نیم شعوری سمجھ بوجھ کا ٹھوس شعوری اظہار کرے۔ لیکن بالشویک پارٹی خودرو طور پر اچانک سے سال 1917ء میں نمودار نہیں ہو گئی تھی۔ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر میں قوت اور وقت صرف ہوتا ہے۔
روسی مارکس وادیوں نے اپنا کام 1880ء اور 1890ء کی دہائیوں میں چھوٹے الگ تھلگ گروہوں کی شکل میں شروع کیا تھا جو مارکسزم کے بنیادی نظریات پر سٹڈی سرکلز منظم کرتے تھے۔ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی (RSDLP) باقاعدہ طور پر سال 1898ء میں قائم ہوئی تھی۔ بالشویکوں اور منشویکوں کے درمیان سال 1903ء میں علیحدگی ہوئی اور وہ RSDLP کے دو دھڑے بن گئے۔ بالشویک، مارکسزم کے دفاع میں انتہائی سخت گیر تھے اور وہ سال 1912ء میں منشویکوں سے مکمل علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک الگ پارٹی بن گئے۔
ہمیں اکثر آج یہ سننے کو ملتا ہے کہ بائیں بازو کی تنظیموں کو اپنے اختلافات پسِ پشت ڈالتے ہوئے متحد ہو جانا چایئے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ اتنی سوشلسٹ یا بائیں بازو کی تنظیمیں کیوں موجود ہیں؟ عالمی مارکسی رجحان (IMT) مارکسی نظریات کے حوالے سے اتنی سخت گیر کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر مختلف گروہ کسی سمجھوتے کے بغیر اکٹھے ہو جائیں تو کوئی ایک کام بھی نہیں ہو سکے گا۔ ہر اہم مسئلے پر نظریاتی اختلافات ہوں گے اور ”متحد“ تنظیم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ ایک کشتی کے دونوں سروں پر بیٹھے ملاح مخالف سمتوں میں چپو چلائیں گے تو کشتی دائرے میں ہی بے نتیجہ گھومتی رہے گی لیکن اگر ایک ملاح اسے ایک ہی سمت میں کھینچے گا تو جلد یا بدیر منزل تک پہنچ جائے گا۔
ہر سیاسی گروہ کی کوئی نظریاتی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ بالشویزم کی تاریخ کا سب سے اہم سبق ہے۔ سال 1900ء میں لینن نے وضاحت کی تھی کہ ”اس سے پہلے کہ ہم متحد ہوں اور متحد ہونے کے لیے بھی، سب سے پہلے ہمیں ٹھوس اور واضح حد بندیاں کرنا ہوں گی۔ ورنہ ہمارا اتحاد مکمل طور پر مصنوعی ہو گا، موجودہ کنفیوژن کی پردہ پوشی کرے گا اور ان کے ریڈیکل خاتمے میں رکاوٹ بنے گا۔ اس لئے یہ امر قابلِ فہم ہے کہ ہم اپنی اشاعتوں کو محض مختلف آراء کا ایک مجموعہ نہیں بنانا چاہتے۔ اس کے برعکس ہم اسے ایک سختی سے وضع کردہ رجحان کی روح کے تحت چلائیں گے۔ اور لفظ مارکسزم سے اس رجحان کا اظہار کیا جا سکتا ہے“۔ انقلاب سے پہلے 20 سال کے طویل عرصے میں بالشویک پارٹی کے مارکس وادیوں نے صبر کے ساتھ ایک تنظیم تعمیر کی جس کی بنیاد ایک مشترکہ پروگرام اور سرگرم کارکنوں کی پہلے سے مارکسی نظریات پر تربیت تھی تاکہ وہ مزدور تحریک میں ایک قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔ آج بھی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لئے نظریات اور تاریخ کا مطالعہ لازمی ہے۔
اگر منشویکوں اور SRs کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو وہ انقلاب کو شکست سے دوچار کر دیتے۔ خوش قسمتی سے بالشویکوں کی شکل میں ایک متبادل موجود تھا جس نے فروری اور اکتوبر کے درمیانی عرصے میں عوامی تجربات سے ہی سیکھتے ہوئے اکتوبر 1917ء تک محنت کشوں کی حمایت کو جیت لیا تھا۔ ٹراٹسکی ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں وضاحت کرتا ہے کہ ”آہستہ آہستہ کئی مراحل سے گزر کر اپنے تجربات کی ہی روشنی میں عوام کی وسیع پرتیں قائل ہوتی ہیں کہ نئی قیادت پرانی سے زیادہ ثابت قدم، قابلِ اعتماد اور وفادار ہے۔ یقینا ایک انقلاب کے دوران۔۔یعنی جب واقعات کا دھارا برق رفتار ہو۔۔اگر ایک کمزور پارٹی بھی شعوری طور پر انقلابی عمل کو سمجھ رہی ہو اور اس کے پاس ایسے ثابت قدم کیڈرز ہوں جو لفاظی کے سحر اور ظلم و جبر کے خوف سے بالاتر ہوں تو وہ تیزی کے ساتھ ایک دیو ہیکل قوت بن سکتی ہے۔ لیکن ایسی پارٹی کی انقلاب سے پہلے موجودگی انتہائی لازمی ہے کیونکہ کیڈرز کی تربیت کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے اور انقلاب یہ وقت فراہم نہیں کرتا“۔
روس میں یہ پارٹی وقت سے پہلے موجود تھی۔ فروری 1917ء میں 8 ہزار بالشویک موجود تھے۔ درست سیاسی تناظر کی روشنی میں اکتوبر میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے وقت یہ ممبرشپ 2 لاکھ 50 ہزار ہو چکی تھی۔
پارٹی میں قیادت کا کردار
لیکن بالشویک درست سیاسی تناظر تک کیسے پہنچے؟ کیا محض ایک پارٹی کا وجود کافی ہے؟
بالشویکوں کے لیے اقتدار تک پہنچنا ایک سیدھا سادہ عمل ہر گز نہیں تھا۔ یہ بات عام طور پر لوگ نہیں جانتے کہ مارچ اور اپریل 1917ء میں روس میں موجود بالشویک پارٹی کے قائدین کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی جلا وطنی سے واپس روس پہنچنے کی کوششیں کر رہے تھے اور اس دوران پیٹروگراڈ میں بالشویکوں کے مرکزی قائد سٹالن اور کامینیف تھے۔ ان کی قیادت میں بالشویک اخبار پراودا منشویک پالیسی کا دفاع کر رہا تھا کہ فی الحال محنت کشوں کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنا ”قبل از وقت“ ہے۔
بالشویک پارٹی کے کچھ عام ممبران نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔ سڑکوں پر سرگرم یہ ممبران دیکھ رہے تھے کہ سوویتوں کے ذریعے محنت کشوں کا اقتدار پر قبضہ لازم اور ممکن تھا۔ درحقیقت ملک پر سوویتیں حکمرانی کر رہی تھیں لیکن انہیں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ اس دلیل کا کیا جواب دیتے کہ ابھی اقتدار پر قبضہ کرنا ”قبل از وقت“ ہے؟
ٹراٹسکی نے ”انقلابِ روس کی تاریخ“ میں وضاحت کی ہے کہ ”ان مزدور انقلابیوں کے پاس صرف اپنی پوزیشن کے دفاع کے لئے نظریاتی وسائل کی کمی تھی۔ لیکن وہ پہلی واضح کال پر عمل کرنے کو تیار بیٹھے تھے“۔ اپریل 1917ء میں روس میں لینن کی واپسی کے ساتھ یہ کال بھی آ گئی۔ اس وقت لینن اٹل تھا کہ محنت کش طبقہ غریب کسانوں کے ساتھ مل کر سوویتوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے اور نہ صرف کسانوں کو آزادی، محنت کشوں کو امن اور روٹی فراہم کر سکتا ہے بلکہ سوشلسٹ فرائض کی ادائیگی کا آغاز کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
اپریل 1917ء میں لینن بالشویک پارٹی کا واحد قائد تھا جو اس تناظر کا دفاع کر رہا تھا (ٹراٹسکی فی الحال روس نہیں پہنچا تھا اور اس نے پارٹی میں جولائی میں شمولیت اختیار کی تھی)۔ لیکن اپنی بے پناہ سیاسی اتھارٹی اور خاص طور پر سڑکوں پر سرگرم بالشویک ممبران کے تجربات سے ہم آہنگ اپنی پالیسی کی بنیاد پر لینن اپریل کے آخر میں منعقد ہونے والی بالشویک پارٹی کانفرنس میں اپنا تناظر منظور کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس لمحے کے بعد بالشویک پارٹی نے لینن کی قیادت میں اپنے لیے محنت کشوں کو سوویتوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے قائل کرنے کا ہدف متعین کر لیا۔
اگر لینن روس نہ پہنچ پاتا تو کیا ہوتا؟ انقلاب میں وقت ایک کلیدی عنصر ہوتا ہے۔ ایک وقت آنے پر بالشویک قائدین کو سوویتوں کی طاقت کا درست ادراک ہو جاتا لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ محنت کشوں کے تحرک کے دوران ہی اس نتیجے تک پہنچ جاتے۔ محنت کش طبقہ مسلسل جدوجہد میں نہیں رہ سکتا۔ کسی ایک لمحے پر آ کر انقلاب جیت جاتا ہے یا پھر بداعتمادی اور مایوسی پھیلنے لگتی ہے۔ اگر لینن نے سال 1917ء میں مداخلت نہ کی ہوتی تو قوی امکانات ہیں کہ بالشویک پارٹی اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع کھو بیٹھتی۔ اس لئے ایک پارٹی کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ اس پارٹی کی ایک ایسی قیادت ہونی چاہیے جسے معروضی حالات کی سمت کا درست ادراک ہو۔
محنت کش طبقے کی شمولیت کے بغیر ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب ناممکن ہے۔ لیکن اس طبقے کی ایک پارٹی ہونا لازم ہے اور اس پارٹی کی ایک ایسی قیادت ہونی چاہیے جسے ادراک ہو کہ ہو کیا رہا ہے۔ مستقبل کے انقلابات کی کامیابی کے لئے یہ تین اجزائے ترکیبی اہم ہیں۔
تاریخ میں فرد کا کردار
سپین اور روس کا موازنہ کرتے ہوئے ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ کیا یہ روسی محنت کش طبقے کی محض خوش قسمتی نہیں تھی کہ انہیں لینن جیسا انسان میسر تھا؟ اگر کوئی ہسپانوی لینن موجود ہوتا تو کیا سب کچھ درست نہ ہو جاتا؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ لینن، بطور لینن نہیں پیدا ہوا تھا بلکہ وہ ایک مخصوص حوالے سے روسی مزدور تحریک کی پیداوار تھا۔ لینن ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کا نتیجہ تھا جس کی تعمیر میں اس نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پارٹی کے بغیر لینن نہ تو سال 1917ء میں اپنے خیالات کی ترویج کر پاتا اور نہ ہی اپنا کلیدی کردار ادا کر پاتا۔ لیکن پھر لینن کی پارٹی میں اتھارٹی کی بنیاد یہ حقیقت تھی کہ اس نے 25 صبر آزما سال لگا کراس کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ٹراٹسکی ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں وضاحت کرتا ہے کہ ”فروری یا مارچ 1917ء میں روسی پرولتاریہ کی پختگی میں ایک دیو ہیکل جزو لینن تھا۔ وہ آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا۔ وہ محنت کش طبقے کی انقلابی روایات کا مجسم اظہار تھا۔ عوام تک لینن کے نعروں کی رسائی کیڈرز کی موجودگی کے بغیر ناممکن تھی چاہے ابتداء میں ان کی تعداد تھوڑی تھی، قیادت پر کیڈرز کا اعتماد لازم تھا، وہ اعتماد جس کی بنیاد ماضی کا پورا تجربہ تھا۔۔۔ایک انقلابی عہد میں قیادت کا کردار اور اس کی ذمہ داری دیو ہیکل ہوتی ہے“۔
اسی طرح ”انقلابِ روس کی تاریخ“ میں ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ ”لینن تاریخی ارتقاء کا کوئی حادثاتی کردار نہیں تھا بلکہ پوری گزشتہ روسی تاریخ کا مجسم اظہار تھا۔ وہ اس میں مضبوط ترین جڑوں کے ساتھ پیوست تھا۔ محنت کشوں کے ہراول دستے کے ساتھ وہ پچھلی ربع صدی سے ان کی جدوجہد کا حصہ رہا تھا۔۔۔لینن باہر سے پارٹی کی مخالفت نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ بذاتِ خود اس کا مکمل اظہار تھا۔ اس (پارٹی) کی تربیت کے عمل میں اس نے اپنے آپ کو اس میں تربیت یافتہ کیا تھا“۔
لینن اور بالشویکوں کی فراہم کردہ انقلابی قیادت آسمان سے نہیں اتری تھی۔ یہ ربع صدی میں ایک تنظیم کی تعمیر میں صبر آزما محنت کا نتیجہ تھی۔ پارٹی کے تعمیری عمل میں لینن، عظیم لینن بنا تھا۔ ہزاروں دیگر بالشویک پارٹی کے تعمیری عمل میں مزدور تحریک کے قائدین بنے تھے۔ یہ بات اس حقیقت میں مصمم ہے کہ سال 1917ء میں ایک فیکٹری میں موجود واحد بالشویک اپنے تمام ساتھیوں کو پارٹی پروگرام پر جیت سکتا تھا۔ یہ اتھارٹی پچھلے پورے عرصے میں پارٹی کے تعمیری عمل کا نتیجہ تھی۔ جدلیاتی طور پر پارٹی کی تعمیر میں وہ افراد تخلیق ہوئے تھے جنہوں نے وقت آنے پر انتہائی شاندار کردار ادا کیا۔
روسی انقلاب تاریخ میں فرد کے کردار کے حوالے سے ایک شاندار مثال ہے۔ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر ایک اجتماعی عمل ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ افراد تخلیق ہوتے ہیں جو تحریک میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کل ہمیشہ اپنے تمام اجزاء سے بڑا ہوتا ہے اور کل کی تعمیر سے ہی اجزاء مضبوط ہوتے ہیں! آج ہمیں ان انمول اسباق سے سیکھنا ہے اور بالشویکوں کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔
عظیم مارکس وادی اور بالشویکوں کی ہم عصر روزا لکسمبرگ کا انجام بہت المناک تھا۔ اگرچہ اس نے ساری زندگی جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP) میں اصلاح پسند بیوروکریسی کے خلاف جدوجہد کی لیکن اس نے لینن کی طرز پر پارٹی میں ایک انقلابی دھڑا تعمیر نہیں کیا جیسے کہ RSDLP میں بالشویک تھے۔ سال 1916ء میں جا کر کہیں سپارٹسسٹ لیگ کی بنیاد رکھی گئی لیکن یہ ایک انقلابی تنظیم سے زیادہ لامرکزیت کا شکار ایک نیٹ ورک تھا۔
جب نومبر 1918ء میں جرمن انقلاب برپا ہوا تو لیگ کی عوام میں جڑیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ دسمبر میں لیگ کمیونسٹ پارٹی میں تبدیل ہو گئی۔ لیکن اپنے آغاز سے ہی پارٹی شدید فرقہ پرستی کا شکار تھی جس نے اسے مفلوج کر کے رکھ دیا۔ پارٹی کے سرگرم کارکنوں نے ٹریڈ یونینز میں کام کرنے سے انکار کر دیا اور پارٹی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا جن کے ذریعے اپنے نظریات کی ترویج کا ایک پلیٹ فارم حاصل کیا جا سکتا تھا۔ نوخیز کمیونسٹ پارٹی میں روزا لکسمبرگ نے اس انتہائی بائیں بازو کے رجحان کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اس کے پاس کیڈرز کا ایک ایسا گروہ موجود نہیں تھا جو اس سیاسی صورتحال کو اتنا ہی بہتر سمجھتا ہو جتنا وہ سمجھ رہی تھی اوراس کے نظریات کی ترویج کرتا۔ کمیونسٹ پارٹی مسلسل غلطیاں کرتی رہی۔
جنوری 1919ء میں سوشل ڈیموکریٹک حکومت نے برلن میں محنت کشوں کی ایک بغاوت کو اکسایا تاکہ سب سے زیادہ شعور یافتہ محنت کشوں اور خاص طور پر کمیونسٹ پارٹی کو تنہا کر کے جبر کا نشانہ بنایا جائے۔ کمیونسٹ پارٹی کی ناتجربہ کاری اور محنت کشوں پر اتھارٹی کی کمزوری کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس اشتعال انگیزی کو نہ روک سکے۔ ان واقعات کے دوران لکسمبرگ کو ایک اور انتہائی شاندار پارٹی قائد کارل لیبنیخت کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ لکسمبرگ نے پیشگی ایک انقلابی پارٹی تعمیر نہیں کی جس کے نتیجے میں المناک شکست اور اس کی موت واقع ہوئی جس کے بعد جرمن محنت کش طبقہ انقلابی قیادت سے محروم ہو گیا۔ پھر اپنے دو مرکزی قائدین کھونے کے بعد 1923ء تک کمیونسٹ پارٹی محنت کش طبقے کو اقتدار تک نہیں پہنچا سکی۔ روسی اور جرمن انقلابات ایک ہی مسئلے کو دو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کرتے ہیں یعنی ایک انقلابی قیادت کی ناگزیر لازمیت۔
اپنے قتل سے چند دن پہلے روزا لکسمبرگ نے جرمن انقلاب کے پہلے چند ماہ سے کچھ اہم نتائج اخذ کیے۔ اس کے نتائج اس ”خودرو پرستی“ سے یکسر مختلف ہیں جو اس کے نام نہاد پیروکار اس سے منسوب کرتے ہیں۔ ”قیادت کی عدم موجودگی، برلن کے محنت کشوں کو منظم کرنے کے لئے ایک مرکز کی عدم موجودگی زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ اگر انقلاب کو آگے بڑھانا ہے، اگر پرولتاریہ کی فتح اور سوشلزم کو خواب سے حقیقت میں بدلنا ہے تو انقلابی محنت کشوں کو قائدانہ تنظیمیں تعمیر کرنی ہوں گی جن میں عوام کی قیادت کرنے اور ان کی قوتِ محرکہ کو استعمال کرنے کی اہلیت موجود ہو“۔
تحریک کی قیادت، آج کے عہد میں
یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ ایک پورے تاریخی عہد میں پوری دنیا میں مارکسی تحریک پسپا رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد خوشحالی نے مغرب میں اصلاح پسندی کی بنیاد رکھی جبکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد مارکسزم پر ہولناک حملے کئے گئے۔ فرانسس فوکویاما جیسے سب سے زیادہ زعم کے شکار بورژوا دانشور نے تو ”تاریخ کے خاتمے“ کا اعلان بھی کر دیا، جس کی اس کے بقول لبرل جمہوریت میں تکمیل ہو گئی تھی۔
اگرچہ 1970ء کی دہائی عوامی تحریکوں اور انقلابوں کا دور تھا لیکن 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں مزدور تحریک کو بھی شدید پسپائی کا سامنا رہا۔ ان دہائیوں کے بعد والے عرصے میں مزدور تحریک کی قیادت نے مکمل طور پر دائیں بازو کے ساتھ مصالحت کر لی۔
مثلاً 1980ء کی دہائی میں کیوبیک (کینیڈا) کی سب سے بڑی صوبائی ٹریڈ یونین فیڈریشن FTQ نے ”جمہوری سوشلزم“ کی بات کرنا چھوڑ دی اور دوسری بڑی فیڈریشن CSN نے اپنے مینی فیسٹو میں موجود سرمایہ داری مخالف نظریات ترک کر دیئے۔ آج مزدور تحریک کی قیادت میں موجود قائدین اپنے ممبران کو متحرک کرنے کے بجائے مالکان سے ساز باز کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً CSN کے موجودہ صدر نے کیوبیک بورژوازی کے ہیڈکوارٹر کونسل دو پیترانات (مالکان کی یونین) کی پچاسویں سالگرہ پر کہا کہ ”کبھی کبھی ہمارے بیچ مختلف نقطہ نظر کی وجہ سے اختلافات ہو جاتے ہیں لیکن جب روزگار کی بڑھوتری، کام کی جگہوں پر اچھے تعلقات کی خواہش اورکیوبیک کی معاشی ترقی کو یقینی بنانے کی بات آتی ہے تو ہمارے آپس میں انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں“۔ یہ کوئی ایک مثال نہیں ہے۔ یہی آج مزدور تحریک کی قیادت کا حال ہے۔
مزدور تحریک میں مارکس وادیوں سے ایک دعویٰ منسوب کر کے مضحکہ خیز تنقید کی جاتی ہے کہ اگر ایک انقلابی قیادت موجود ہو تو پھر محنت کش ہر وقت جدوجہد میں متحرک رہیں۔ ان افراد کے مطابق ہم یونین قیادت پر ایسے تنقید کرتے ہیں جیسے یہ قیادت جادو کی چھڑی ہلائے گی اور عوامی تحریک برپا ہو جائے گی۔ یہ خیال محنت کش طبقے اور اس کی قیادت کے درمیان تعلق کے حوالے سے مارکسی تجزیئے کی انتہائی بھونڈی اور مسخ شدہ شکل ہے۔
ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ محنت کش ہر وقت جدوجہد میں موجود نہیں ہوتے۔ انقلابات غیر معمولی تاریخی لمحات ہوتے ہیں جو بذاتِ خود طبقاتی جدوجہد سے جنم لیتے ہیں۔ لیکن ایک انقلاب سے پہلے کیا ہوتا ہے؟ اگرصورتحال انقلابی نہ ہو،جو کہ زیادہ تر نہیں ہوتی، تو پھر محنت کش تحریک کی قیادت کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں کہ محنت کش طبقہ یکساں نہیں ہے۔ انقلاب کے دن تک کچھ پرتیں مایوس ہوں گی، کچھ پرتیں بیگانہ ہوں گی اور کچھ پرتیں مالکان کے حملوں کے خلاف جدوجہد کے لئے تیار ہوں گی۔ تضادات سے بھرپور اور غیر یکساں طبقاتی شعور ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے اور ہمیں اسی کے ساتھ کام کرنا ہے۔ یونین قیادت واقعی جادو کی چھڑی ہلا کر تحریک برپا نہیں کر سکتی۔ لیکن ایک فعال قیادت طبقاتی جدوجہد میں یہ کردار ادا کرسکتی ہے کہ ممبران کو تیار کرے، ایک ایکشن پلان تشکیل دے اور یونین ممبران کی تربیت کرے تاکہ ایک عوامی تحریک برپا کی جا سکے۔ ہاں جادو کے زور پر ایک تحریک نہیں ابھاری جا سکتی۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ محنت کشوں کو دیگر مطالبات، نظریات اور جدوجہد کے طریقوں پر تربیت دی جائے۔
2012ء میں کیوبیک کے طلبہ کی ہڑتال ایک شاندار مثال ہے کہ ایک درست سیاسی قیادت کیاکامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔ 2010ء میں کیوبیک کی لبرل حکومت نے اشارہ دیا کہ فیسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ سرگرم طلبہ منظم ہونا شروع ہو گئے۔ مارچ 2011ء میں اعلان کر دیا گیا کہ فیسوں میں 75 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس کا اطلاق سال 2012ء کے موسمِ خزاں میں ہو گا۔
اس وقت کی سب سے زیادہ ریڈیکل طلبہ یونین ASSE نے 2011ء کے پورے سال میں طلبہ آگاہی مہم چلائی کہ فیسوں میں اضافے کے کیا نتائج ہوں گے اور طلبہ کو ایک شعوری پلان کے ذریعے متحرک کیا تاکہ ایک غیر معینہ مدت کی ہڑتال منظم کی جا سکے۔ ASSE کے کچھ سرگرم کارکن، جن میں انارکسٹ رجحانات تھے؛ انہیں ہر گز ”قیادت“ یا ”قائدین“ کی اپنے سے منسوب اصطلاح پسند نہیں ہوں گی لیکن آپ حقیقت کا محض نام تبدیل کر کے اسے بدل نہیں سکتے۔۔یقینا وہ ایک انتہائی شاندار قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے!
ایک ہڑتال کو منظم کرنے کے پلان اور ایک سخت گیر حکومت سے ٹکر لینے کے لئے وقت کے تقاضوں پر پورا اترنے والے لائحہ عمل کے ذریعے جدوجہد کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی سے ASSE قیادت نے شمالی امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی طلبہ ہڑتال منظم کی۔
قائدانہ کردار کسی طور پر عام ممبران یا عوام کی سیاسی عمل میں مکمل شمولیت سے متصادم نہیں ہے۔ اس کے برعکس ASSE قیادت نے راستہ دکھایا اور فیسوں میں اضافے کے خلاف ہزاروں سرگرم طلبہ کی تربیت کی جس کے ذریعے کیوبیک کے طول و عرض میں تحریک سے جڑے لاکھوں طلبہ کی لڑاکا اور تخلیقی قوتوں کو مہمیز ملی۔
طلبہ ہڑتال کی مثال ایک فعال قیادت کے کردار کو اجاگر کرتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرنے سے جدوجہد میں ہزاروں افراد کی شمولیت کے لئے سازگار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ASSE قیادت نے کچھ غلطیاں بھی کیں۔ سال 2012ء کے موسمِ گرما میں لبرلز نے انتخابات کا اعلان کر دیا اور طلبہ قیادت نے مفت تعلیم کی حامی واحد سیاسی پارٹی کیوبیک سولیڈیئر کی حمایت کرنے سے انکار کر تے ہوئے انتخابات کو نظر انداز کر دیاجبکہ زیادہ تر طلبہ نے ہڑتال کے بجائے لبرلز کی حکومت ووٹ کے ذریعے ختم کرنے کی کاوش شروع کر دی۔ اس سارے عمل کا ہم نے ایک اور جگہ تجزیہ کیا ہے۔ لیکن اس غلطی کے سائے میں ہم حاصل ہونے والے سب سے اہم سبق کو نظر انداز نہیں کر سکتے یعنی ایک درست قیادت کی ناگزیر ضرورت۔
اس وقت پوری دنیا میں مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز میں سب سے سلگتا سوال قیادت کا ہے۔ ہم کتنی مرتبہ سن چکے ہیں کہ محنت کش جدوجہد نہیں کرنا چاہتے؟ کہ آپ چٹکی بجا کر ایک ہڑتال منظم نہیں کر سکتے؟ کیوبیک میں پبلک سیکٹر کی یونینز ایک سال سے زائد عرصے سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ دائیں بازو کی CAQ حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں اور محنت کشوں کو انتہائی مضحکہ خیز پیش کش کر رہی ہے۔ کچھ اساتذہ یونینز غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی جانب بڑھ رہی ہیں جبکہ دیگر اساتذہ یونینز نے صرف پانچ دن ہڑتال کا عندیہ دیا ہے جسے ”مناسب وقت پر“ لاگو کیا جائے گا۔ ہم نے دیگر مضامین میں اس صورتحال پر تنقید کی ہے۔ کیوبیک میں لیبر فائٹ بیک کی منظم کردہ ایک عوامی میٹنگ میں پانچ دن ہڑتال والی انہی یونینز میں سے ایک کے صدر نے یونین قیادت کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ (ایک ہڑتال کا) فیصلہ کرنا ہمارے (یونین قیادت کے) اختیار میں نہیں، یہ ہمارے ممبران کا اختیار ہے اور اگر ہم انہیں مطلع کریں تو وہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔۔FSE (یونین) میں ہم غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا فیصلہ کر سکتے تھے لیکن ’پلاٹیوز‘ (مقامی یونینز) میں مجھے کوئی مندوب نظر نہیں آیا جو یہ کہہ رہا ہو کہ ’چلو، غیر معینہ مدت کی ہڑتال کریں‘۔۔ہمیں معلومات شیئر کرنی پڑتی ہیں، جب ہم یونین (قیادت) ہوتے ہیں تو ہم کٹھ پتلی ہوتے ہیں، ہم لوگوں کو حکم نہیں دے سکتے کہ کیا کرنا ہے۔۔میری مقامی جنرل اسمبلی میں اگر کوئی آ کر کہے کہ ’مجھے غیر معینہ مدت کی ہڑتال چاہیے‘ تو مجھے اچھا لگے گا، میرا خیال ہے میری خوشی قابلِ دید ہو گی“۔
یہاں اس منطق کو اپنی انتہاء پر پہنچا دیا گیا ہے اور یہ مظہر ہمیں پوری مزدور تحریک میں نظر آتا ہے۔ اس منطق کے مطابق اگر محنت کش عام ہڑتال یا غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی بات نہیں کر رہے تو پھر یہ یونین قیادت کا کام نہیں کہ وہ اس تجویز کو پیش کرے۔ یہ منطق ایک گھن چکر ہے کیونکہ اگر قیادت کچھ نہیں کرے گی اور ممبران کو ایک جرات مند حل پیش نہیں کرے گی (جسے ’لوگوں کو بتانا کہ کرنا کیا ہے‘ سمجھا جاتا ہے) تو پھر یہ معمول بن جاتا ہے کہ محنت کشوں میں اعتماد ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جدوجہد کر کے فتح حاصل کی جا سکتی ہے اور وہ خود سے جدوجہد کے لئے لڑاکا لائحہ عمل پیش نہیں کرتے!
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ چٹکی بجا کر ایک عوامی تحریک منظم کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ایک معلوماتی دفتر ہونے اور ریڈیکل نتائج تک ممبران کے پہنچنے کا انتظار کرنے کے برعکس قیادت کرنا یونین قائدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ یونین قیادت کو ایک پلان تشکیل دینا چاہیے، ممبران کی تربیت کرنی چاہیے، انہیں اعتماد دینا چاہیے اور ممبران کے لئے ایسے سازگار حالات پیدا کرنے چاہیں کہ وہ غیر مصالحتی طبقاتی جدوجہد کا راستہ اپنائیں۔۔جیسے کہ 2012ء میں طلبہ تحریک کی قیادت نے کیا تھا۔
تحریک کے لیے ایک سوشلسٹ قیادت کی تخلیق
اس وقت مزدور تحریک کی قیادت وہ افراد کر رہے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام پر یقین کرتے ہیں اور ان کو مکمل یقین ہے کہ اس نظام کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یونین قائدین محنت کشوں کی حالتِ زار سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔ وہ مالکان کے خلاف جدوجہد کرنے کے بجائے سٹیٹس کو، کو قائم رکھنے میں یقین کرتے ہیں۔ وہ عدم اعتماد کا شکار ہیں اور اپنے ممبران کی تخلیقی اور لڑاکا صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے۔
مزدور تحریک کی موجودہ قیادت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سرمایہ داری کی حقیقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹکراؤ کا شکار ہوتی جائے گی۔ جلد ہی جبری کٹوتیاں معمول بن جائیں گی۔ سرمایہ داری مسلسل اپنی حقیقت کو بے نقاب کرتی رہے گی یعنی یہ نظام محنت کشوں کے لئے نہ ختم ہونے والی بربادی ہے۔ ہم یہ سب کچھ کورونا وبا میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
لیکن اگر مزدور تحریک کے قائدین کچھ نہیں کرتے اور محنت کشوں پر حملوں میں خاموش رہتے ہیں تو کیا ہو گا؟ وہ جن محنت کشوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں انہی کی نظروں میں مجروح ہو جائیں گے۔ ٹراٹسکی نے وضاحت کی ہے کہ یہ عمل کیسے ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ ”ایک قیادت مختلف طبقات کے درمیان یا ایک طبقے کی مختلف پرتوں کے درمیان کشمکش کے عمل میں بنتی سنورتی ہے۔ ایک مرتبہ تشکیل پانے کے بعد قیادت ناگزیر طور پر اپنے طبقے سے بالاتر ہو کر دیگر طبقات کے دباؤ اور اثرورسوخ کا شکار ہو تی ہے۔ پرولتاریہ ایک طویل عرصے تک ایک ایسی قیادت کو ’برداشت‘ کرتا رہتا ہے جو اندر سے مکمل طور پر کھوکھلی ہو چکی ہو لیکن دیو ہیکل واقعات میں فی الحال اس نے اپنے انحطاط کا واضح اظہار نہ کیا ہو۔ ایک دیو ہیکل تاریخی جھٹکا قیادت اور طبقے کے درمیان تضادات کو واضح طور پر ننگا کرنے کے لئے ناگزیر ہے“۔
کورونا وباء اور معاشی بحران ان تاریخی جھٹکوں میں سے ایک ہیں۔ پوری دنیا میں عوامی غم و غصہ پنپ رہا ہے۔ محنت کش بیروزگاری اور معیارِ زندگی اور کام کی جگہوں پر حالات کی گراوٹ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں جبکہ امرا کی دولت کے انبار روزبروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں ہم انقلابی عہد میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ مزدور تحریک کی قیادت ماضی میں پھنسی ہوئی ہے۔
پھر سوشلسٹ کیا کر سکتے ہیں؟
”سوشلسٹ قائدین یونینز کو نہیں بچائیں گے“ عنوان سے ایک مضمون میں انڈسٹریل ورکرز آف دی ورلڈ (IWW) کے ایک کارکن نے کہا کہ ”لوگ سمجھتے ہیں کہ قیادت تاج اور خلعت کا نام ہے، کہ ایک عہدے پر منتخب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ معتبر ہو گئے ہیں اور ہر کوئی آپ کی بات سنے گا۔۔اور یقینا یہ درست نہیں ہے۔۔آپ کو حقیقت میں محنت کشوں کو منظم کرنا پڑے گا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ آپ بطور یونین عہدیدار یہ کام نہیں کر سکتے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کا یونین عہدیدار ہونا اس سلسلے میں کوئی خاص فائدہ مند ہوتا ہے“۔
ہم ایک حد تک اپنے انارکسٹ سینڈیکلسٹ کامریڈز سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ انفرادی سوشلسٹوں کی ایک یونین کے عام ممبران میں کسی بنیاد کے بغیر کلیدی عہدے حاصل کرنے کے رجحان پر تنقید کر رہے ہیں کیونکہ اس طرح لڑاکا سوشلسٹ پالیسیاں لاگو نہیں کی جا سکتیں۔ کئی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح سرگرم سوشلسٹ کارکنان نے شارٹ کٹ لئے اور پھر قیادت کے ڈھانچوں میں تنہاء ہو کر یونین بیوروکریسی میں ضم ہو گئے۔ مارکس وادی ٹھوس بنیادوں کے بغیر قائدانہ پوزیشن لینے کی مکمل طور پر مخالفت کرتے ہیں۔
لیکن ممبران کو منظم کرنے اور یونین قیادت ہونے کی اس دو ئی میں ایک بنیادی مسئلہ ہے اور تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھا جا رہا ہے۔ درحقیقت اصلاح پسند یونین قائدین کی بھاری اکثریت اعتراف کرے گی کہ منتخب قائدین ممبران کو منظم نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح ان پر ایک متحرک کردار ادا کرنے کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے! پھر، عام ممبران کو متحرک و منظم کرنا بذاتِ خود ایک قائدانہ عمل ہے۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کو ایک مخصوص تحریک کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔ لیکن ایک مرتبہ عام ممبران منظم ہو جائیں تو پھر کیا ہو گا؟ اگر یونین قائدین منظم انداز میں ممبران کو تتر بتر کرنے کی کوششیں کریں تو پھر کیا ہو گا؟ ان کو ایسا کرنے سے روکنا ہو گا۔ لیکن کیسے؟ اگر آپ ان قائدین کے متبادل یونین قائدین فراہم نہیں کرتے جو جدوجہد کے لئے تیار ہیں تو پھر کنٹرول انہیں دھوکہ باز قائدین کے پاس رہے گا۔ ہمیں اچھا لگے یا برا ہم پھر گھوم پھر کر واپس تحریک میں دیانت دار و جرات مند قیادت کی ضرورت اور ممبران سے پچھڑی یونین قیادت کے متبادل کے طور پر طبقاتی جنگجو ؤں پر مبنی قیادت کی لازمیت پر واپس جا پہنچے ہیں۔
پھر مزدور تحریک میں سوشلسٹوں کا کیا کردار ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ ہاں ہمیں عام ممبران کو منظم کرنا ہے، طبقاتی جدوجہد کے طریقہ کار کا دفاع کرنا ہے اور محنت کشوں کی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی ضرورت پر تربیت کرنی ہے۔ اور اس بنیاد پر ہم دیگر محنت کشوں کے اعتماد اور ان میں اتھارٹی کو جیتتے ہوئے یونینز میں قائدانہ پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں اور تحریک کی قیادت کر سکتے ہیں۔ اس کا سب سے بہترین طریقہ ایک مشترکہ انقلابی تنظیم میں منظم ہونا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کیوبیک میں یونینز کی قائدانہ پوزیشنوں پر کچھ افراد براجمان ہیں جو اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں اور وہ یقینا ”یونینز کو نہیں بچائیں گے“۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ تنہا ہیں اور ان کو ایسی تنظیم میسر نہیں جس کے ذریعے وہ سوشلسٹ پالیسیوں کو استعمال کرتے ہوئے تحریک کے ان دیگر قائدین کا مقابلہ کر سکیں جو جدوجہد نہیں کرنا چاہتے۔ تحریک میں حقیقی وزن حاصل کرنے کے لئے یہ لازمی ہے کہ اس تنظیم میں منظم ہوا جائے جو حقیقی طور پر سوشلزم کی لازمیت کو سمجھتی ہو۔
تاریخ نے مزدور تحریک کے علاوہ بھی بارہا دکھایا ہے کہ ان سوشلسٹ یا ریڈیکل افراد کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو ایک انقلابی تنظیم تعمیر نہیں کرتے۔ ناگزیر طور پر یہ افراد موجود تنظیموں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے۔ مثلاً ایک انتہائی قابلِ قدر سابق کمیونسٹ اینجلا ڈیوس نے عرصہ دراز پہلے ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر کے خیال سے کنارہ کشی کر لی۔ پچھلے انتخابات میں اس نے ڈیموکریٹک پارٹی اور جو بائڈن کی حمایت کی۔ یہ مسئلہ انارکسٹ نوم چومسکی اور نام نہاد مارکسی اکیڈیمک ڈیوڈ ہاروی کو بھی درپیش ہے۔ سیاست تنظیموں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اگر آپ ایک متبادل تعمیر نہیں کرتے تو پھر ناگزیر طور پر آپ موجود ”کم تر برائی“ کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔
انقلابی رجائیت
طبقاتی شعور ایک ایسی چیز ہے جو مخصوص حالات میں تیزی کے ساتھ ارتقا کرتی ہے۔ سال 2012ء کی طلبہ تحریک میں کتنے ان گنت افراد تھے جنہیں ہڑتال سے پہلے فیسوں میں اضافے کے متعلق کچھ نہیں پتا تھا؟ ان میں سے کتنے طلبہ تھے جو تحریک کی تیاری میں چلنے والی مہم سے پہلے بیگانگی اور عدم دلچسپی کا شکار تھے؟ یہ سوال ہر عوامی اور انقلابی تحریک کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے۔ شعور قدامت پرست ہوتا ہے لیکن اس میں ریڈیکل اور انقلابی بن جانے کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔
مایوس افراد محنت کش طبقے کی کمزور، بیگانہ اور مایوس پرتوں کو بنیاد بنا کر نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انقلاب تو برپا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس مارکس وادی اپنے طبقے کے دیو ہیکل انقلابی امکانات کو بنیاد بناتے ہیں۔ ہاں، محنت کش ہر وقت انقلاب کی قیادت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن آج سوشلسٹ نظریات کی جدوجہد کے دوران ہم مزدور تحریک میں سیاسی اتھارٹی جیت سکتے ہیں اور مستقبل کی عوامی تحریک میں ایک کامیاب انقلاب کا کلیدی اوزار بن سکتے ہیں۔
پوری دنیا میں کروڑوں مزدوروں کے لیے کورونا وبا بربادی اور افلاس کا پیغام بن کر آئی ہے۔ لیکن اس انتشار میں سے نوجوانوں کی ایک نئی نسل پیدا ہو رہی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتی ہے۔ امریکہ میں جارج فلائیڈ کے قتل پر پھوٹنے والی ولولہ انگیز تحریک نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کی عظیم ترین سامراجی قوت بھی عوامی غم و غصے کے لاوے سے بچ نہیں سکتی۔ پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کے لئے حالات پنپ رہے ہیں۔ انہی ولولہ انگیز امکانات کی بنیاد پر مارکس وادیوں کی ثابت قدم انقلابی رجائیت قائم ہے۔
سوشلسٹ انقلاب خودرو انداز میں رونما نہیں ہو گا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ شعور یافتہ سرگرم افراد تحریک میں ایک سوشلسٹ پروگرام کا دفاع کریں۔ ایک تنہا سوشلسٹ کارکن کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن ایک مشترکہ بینر، پروگرام اور نظریات کی بنیاد پر کسی بھی تنہا کارکن کے مقابلے میں لامحدود اثرات مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ ایک انقلابی تنظیم میں شمولیت اختیار کر کے آپ اپنے آپ کو اور دیگر افراد کو سیاسی و نظریاتی اعتبار سے تعمیر کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ ایک انقلابی تنظیم میں شمولیت اختیار کر کے آپ ان موجودہ تنظیموں کا متبادل تعمیر کر سکتے ہیں جو محنت کش طبقے کو قبول کرنے اور ان کا انقلابی اوزار بننے کے بجائے انہیں مسلسل شکستوں سے دوچار کر رہی ہیں۔ ایک انقلابی تنظیم میں شمولیت اختیار کر کے آپ محنت کش طبقے میں مارکسزم کے نظریات کی اس طرح ترویج و تشریح کر سکتے ہیں جس طرح ایک تنہا فرد کبھی بھی نہیں کر سکتا۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے عالمی مارکسی رجحان کا یہی انقلابی پیغام ہے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اس کام میں ہمارے ساتھ قدم بہ قدم شریک ہوں، جو ہم سے بڑا اور عظیم تر ہے۔
آخر میں ہم آپ کے لئے ٹراٹسکی کے یہ انمول اور ولولہ انگیز الفاظ چھوڑتے ہیں جو اس نے اپنی شہادت سے چند ماہ پہلے تحریر کئے تھے۔ ”اگر ہم ایک طویل قریب المرگی کو نظر انداز کر دیں تو سرمایہ دار دنیا کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ لازم ہے کہ اگر دہائیوں نہیں تو کئی سالوں پر محیط طویل جنگوں اور بغاوتوں، بیچ میں جنگ بندیوں کے قلیل لمحات اور پھر نئی جنگوں اور نئی بغاوتوں کی تیاری کی جائے۔ ایک جوان انقلابی پارٹی کو لازمی طور پر اپنی بنیاد اس تناظر پر استوار کرنی چاہیے۔ تاریخ اسے اپنے آپ کو آزمانے، تجربہ اور پختگی حاصل کرنے کے لئے لاتعداد مواقع اور امکانات فراہم کرے گی۔ جتنی جلدی ہراول دستے کی صفیں منظم ہوں گی اتنا ہی خونی ہنگاموں کا عہد قلیل مدتی ہو گا اور ہمارے سیارے کو کم سے کم تباہی بھگتنی پڑے گی۔ لیکن یہ عظیم تاریخی مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک ایک انقلابی پارٹی پرولتاریہ کی قیادت نہیں کرتی۔ رفتارِ عمل اور وقت کے دورانیے کا سوال انتہائی اہم ہے لیکن یہ عمومی تاریخی تناظر اور ہماری پالیسی کی سمت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ نتیجہ سادہ ہے کہ پرولتاری ہراول دستے کو تربیت یافتہ اور منظم کرنے کے کام کو دس گنا زیادہ توانائی کے ساتھ سر انجام دیا جائے“۔