ترکی: اردوگان حکومت گہرے معاشی بحران کی لپیٹ میں

اقتدار میں تقریباً 19 سال گزارنے کے بعد ترکی کے سب سے لمبے عرصے تک صدر رہنے والے ”مردِ آہن“ طیب اردوگان کی مقبولیت میں تیزی کے ساتھ کمی آتی جا رہی ہے۔ کرونا وباء کی چنگاری سے شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران نے پہلے سے ہی بحران زدہ حکومت کو شدید لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اردوگان کی حکمران پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (اے کے پی) کی مقبولیت رائے شماریوں میں کم ہونے لگی ہے۔ ایک حالیہ سروے میں اس کی پارٹی کی حمایت 30 فیصد سامنے آئی ہے، جو تقریباً دو دہائیوں میں کم ترین ہے۔

اے کے پی کا ابھار عالمی معاشی عروج کے دور میں ہوا تھا، جس وقت ترکی کے اندر ملکی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی ترقی دیکھنے کو ملی تھی۔ ان حالات میں اے کے پی کے لیے خاصی مقدار میں اصلاحات کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی، جبکہ اردوگان نے خود کو عوام کے سامنے اصلاح پسند کے طور پر پیش کیا۔ اردوگان کی مقبولیت اور اے کے پی کی حمایت کے پیچھے یہی حالات کارفرما تھے۔ مگر اب حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔

تکالیف میں گھرے عوام

ترکی کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ بڑے پیمانے کی بیروزگاری کے ہوتے ہوئے بڑھتے ہوئے افراطِ زر اور کرنسی کی کم ہوتی ہوئی قدر نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔

سال کے شروع سے کرنسی کی قدر میں 45 فیصد کمی، جبکہ محض نومبر میں 30 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ ریاستی ایجنسی ادارہئ شماریات ترکی کے مطابق افراطِ زر کی شرح 23 فیصد ہے، مگر ایک غیر سرکاری انفلیشن ریسرچ گروپ کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ اصل شرح 58.65 فیصد ہے۔ ترکی خام مال اور بجلی کے ذرائع کی درآمدات پر بڑا انحصار کرتا ہے، جس کے باعث کرنسی کی قدر میں ہر کمی کے ساتھ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ترکی اپنے تیل کا 93 فیصد سے ذائد اور قدرتی گیس کا 98 فیصد سے ذائد برآمد کرتا ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نتیجہ افراطِ زر میں اضافے کی صورت نکلتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث دیگر تمام اشیاء اور سروسز کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس سال بجلی کی قیمتوں میں کئی دفعہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ کمزور کرنسی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور پیداوار اور سپلائی میں کمی بھی ہے۔

بنیادی خوارک کی اشیاء اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ لوگوں کی اکثریت صرف ڈبل روٹی، پاستا اور انڈوں پر گزارہ کر رہی ہے۔ سپر مارکیٹوں کے ملازمین نے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کی ہیں، جن میں ایک ہفتے کے اندر اندر کئی دفعہ پرائز ٹیگ کو بدلا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ کوکنگ آئل جیسی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ایک سال کے اندر 137 فیصد سے ذائد اضافہ ہوا ہے، جبکہ آٹے کی قیمت میں 109 فیصد اور ٹماٹر کی قیمت میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق بعض بیکریوں نے ڈبل روٹی کے لیے چندے کا سلسلہ شروع کیا ہے، تاکہ ان افراد کو مفت مہیا کی جا سکیں جو خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ڈبل روٹی کے لیے قطاروں کا لگنا ملک بھر کے شہروں میں معمول بنتا جا رہا ہے۔

پٹرول کی قیمت میں 102 فیصد سے ذائد اضافہ ہوا ہے اور قدرتی گیس کی قیمت میں اضافے نے لاکھوں گھرانوں کو گرمائش اور بجلی سے محروم کر دیا ہے۔ گھروں کی قیمتیں اور کرائے بھی آسمانوں کو چھو رہے ہیں، جبکہ رہائش کے کرایوں میں 70 فیصد سے ذائد اضافہ ہوا ہے۔

بیروزگاری کی شرح 2013ء کے بعد سے کافی زیادہ رہی ہے۔ کنفیڈریشن آف پروگریسو ٹریڈ یونینز آف ترکی کے مطابق تقریباً 80 لاکھ افراد بیروزگار ہیں۔ نوجوانوں اور خواتین میں بیروزگاری کی شرح مزید زیادہ ہے، جو بالترتیب 22 اور 29 فیصد ہے۔

جولائی میں کنزیومر رائٹس ایسوسی ایشن کی شائع کردہ تحقیقاتی رپورٹ، جس میں بڑی یونینز اور ادارہئ شماریات ترکی کے دئیے گئے اعداد و شمار سے مدد لی گئی ہے، کے مطابق 1 کروڑ 60 لاکھ سے ذائد افراد فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو چار افراد کے خاندان کے لیے 2327.8 لیرا فی کس مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 5 کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو 7582.25 مقرر کی گئی ہے۔ یعنی 8 کروڑ 40 لاکھ کی آبادی میں 6 کروڑ 60 لاکھ غریب ہیں۔ ان تشویش ناک اعداد و شمار سے ملک میں گہری نا برابری کا اظہار ہوتا ہے۔

محنت کش اپنی اجرتوں میں کٹوتیوں کی رفتار اور کم ہوتی قوتِ خرید دیکھ کر صدمے میں ہیں۔ کم از کم اجرت، جو 2825 لیرا ہے، سے اس سال کے شروع میں 382 امریکی ڈالر بنتے تھے مگر اب ان کی قیمت 205 ڈالر ہے۔ محنت کشوں کی آدھی سے زیادہ تعداد کم از کم اجرت پر کام کر رہی ہے۔ قیصری شہر، جہاں اے کے پی کی بنیاد رکھی گئی تھی، کے محنت کشوں نے روزنامہ ایورینسل سے بات کرتے ہوئے اپنے بد تر ہوتے ہوئے حالاتِ زندگی کے بارے میں بتایا، جن میں ایک کا کہنا تھا: ”وہ (اے کے پی) امیروں کو امیر تر بنا رہے ہیں اور ہمارا خون چوس کر زندہ رہتے ہیں۔“

ایک دوسرے محنت کش کا کہنا تھا: ”مالکان، جو سارے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں، ہم سے اوور ٹائم کروانا چاہتے ہیں۔ ہمیں کب اپنے خاندان کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزارنے کا موقع ملے گا؟ انہوں نے محنت کشوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔“

جب ان مسائل کے حل کے بارے میں پوچھا گیا تو ایک محنت کش نے جواب دیا: ”ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا۔“ یہ الفاظ اس شہر میں ادا کیے جا رہے ہیں جو اردوگان کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ معاشی بحران نے آبادی کی ان پرتوں کے اس پارٹی کے ساتھ رشتے ناتے توڑ دیے ہیں جسے انہوں نے ماضی میں اقتدار دلایا تھا۔

’دقیانوسی‘ معاشی طریقوں سے روگردانی

ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر کو قابو کرنے کے لیے شرحِ سود بڑھایا جا رہا ہے، اردوگان ترکی کے مرکزی بینک پر شرحِ سود کم کرنے کا دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس کا بورژوا معاشیات کے اصولوں سے انحراف آج سرخیوں کی زینت بن رہا ہے، جس کے حوالے سے بورژوا تجزیہ نگار پریشان ہیں۔

18 نومبر 2021ء کو مسلسل تیسرے مہینے کے لیے شرحِ سود میں 2 فیصد کمی کی گئی، جس کے نتیجے میں لیرا ایک دفعہ پھر تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اگلے پیر کو، اردوگان اسی طرح زد پر اڑا رہا، اور یہ اعلان کیا کہ ترکی اس ”معاشی آزادی کی جنگ“ کو جیت کر رہے گا، اور کہا کہ: ”(ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں؛) یا تو ہم سرمایہ کاری، صنعتی افزائش اور روزگار کو خیرباد کہہ دیں یا پھر تاریخی قدم اٹھا کر اپنی ضروریات پوری کریں۔“ اگلے دن لیرا تاریخ کی بدترین گراوٹ کا شکار ہوا، جو ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 13.45 تک آ گیا، جس نے ملک بھر میں احتجاجوں کو اشتعال دیا۔

بورژوا معیشت دان بارہا اردوگان کے اس ”غیر دقیانوسی خیال“ کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ زیادہ شرحِ سود افراطِ زر کا باعث بنتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، مگر وہ ”آمرانہ“ اور ”آوارگی“ والا رویہ اپنا کر اپنی ضد پر قائم ہے۔ بلاشبہ اردوگان کی شخصیت کا اپنا کردار ہے، مگر در حقیقت وہ سماجی دھماکے کو پھٹنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پچھلے دو سالوں کے دوران، اردوگان نے ملک پر اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنے کی خاطر متعدد دفعہ مرکزی بینک کے گورنروں اور وزرائے خزانہ کو تبدیل کیا ہے۔ حال ہی میں اس نے وزیرِ خزانہ لطفی الفان کو عہدے سے ہٹا دیا جو حزبِ اختلاف میں بچ جانے والا آخری شخص تھا، اور اس کی جگہ اے کے پی کے وفادار نورالدین نباتی کو یکم دسمبر کو اس وقت تعینات کیا جب کرنسی کی قدر مزید گر رہی تھی۔ ترکی نے لیرا کو بچانے کے لیے پچھلے دو ہفتوں (یہ تحریر 14 دسمبر 2021ء کو لکھی گئی تھی) کے دوران دو دفعہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو استعمال کیا ہے۔ اس مداخلت سے لیرا کی گراوٹ نہیں رُک پائی جبکہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر فضول میں خرچ کیے گئے۔

اردوگان حکومت بڑی بیتابی سے معیشت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر اس کے لیے تیزی کے ساتھ تمام راستے بند ہو رہے ہیں۔

جب وباء کی چنگاری سے شروع ہونے والے معاشی بحران کا آغاز ہوا تو ترکی کی معیشت پہلے سے ہی افراطِ زر، گراوٹ کا شکار کرنسی اور بیروزگاری کا شکار تھی۔

تب معیشت اور معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت سخت اقدامات لینے پر مجبور ہوئی۔ حکومت نے قرضوں تک رسائی کو مزید بڑھانا شروع کیا، جو 2018ء میں ترکی کی کساد بازاری شروع ہونے کے بعد 2019ء میں پہلے سے ہی کیا جا رہا تھا۔ اور در حقیقت، 2020ء کے اندر ترکی کی معیشت میں 1.8 فیصد بڑھوتری بھی ہوئی، جو دنیا بھر کی ان چند معیشتوں میں سے ایک تھی جہاں بڑھوتری ہوئی تھی۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، 71 فیصد سے ذائد آبادی مقروض ہے۔ جنوری 2021ء کے بعد سے ترکیوں کا قرض 128 ارب ترکش لیرا تک پہنچ چکا ہے۔ مجموعی قرض 1300 ارب ترکش لیرا سے ذائد ہو چکا ہے۔ بینکوں کو پہلے سے ادائیگی میں تاخیر اور نان پرفارمنگ لون (جس کی ادائیگی غیر یقینی ہو) کا سامنا ہے۔ لاکھوں لوگ مزید مقروض ہو گئے ہیں اور ابھی غیر ادا شدہ قرضوں کے باعث قانونی کاروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

اردوگان سمجھتا ہے وہ مزید قرضے دے کر بحران کو قابو کر سکتا ہے، مگر وہ ایک بنیادی نکتے کو بھول رہا ہے: قرض کو واپس بھی کرنا پڑتا ہے، سود سمیت! بحران کو قابو کرنے کے لیے قرض کے انبار لگا کر، وہ محض ترک سرمایہ داری کے تضادات کو بڑھا رہا ہے اور مزید عدم استحکام کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے۔

بیرونی قرض ابھی جی ڈی پی کے 60 فیصد سے ذائد تک پہنچ چکا ہے۔ اگلے 12 مہینوں تک، ترکی کو 170 ارب امریکی ڈالر کے قریب قرضہ واپس کرنا پڑے گا، جو جی ڈی پی کا 23 فیصد بنتا ہے۔ ترکی کے پاس اتنے ذخائر نہیں ہیں کہ اس قرضے کو واپس کر سکے، اور لیرا کی گراوٹ کے ساتھ اس میں مزید نا قابلِ برداشت حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ترکی کی درآمدات کے اخراجات میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ صرف ستمبر میں، اس کی بجلی درآمدات کے اخراجات میں 65.7 فیصد اضافہ ہوا۔ 450 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کو واپس کرنے کے لیے حکومت کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، مگر ترکی کو ایک دفعہ پھر سرمایہ کاری میں کمی کا سامنا ہے۔ اگر حکومت مزید پیسہ چھاپے، جس کے زیادہ امکانات ہیں، اس سے افراطِ زر میں مزید اضافہ ہوگا۔

مگر اردوگان کے پاس راستہ ہی کیا بچا ہے؟ اگر وہ شرحِ سود کو بڑھاتا بھی ہے تو اس سے انتہائی کمزور معیشت پر دباؤ بڑھے گا، جس سے دیوالیہ پن کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور نتیجہ بڑے پیمانے پر غربت اور بیروزگاری کی صورت نکلے گا۔ دوسری جانب کم شرحِ سود کو برقرار رکھنے سے قرض کا بہاؤ تو جاری رہے گا، مگر اس سے افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا اور نتیجتاً لیرا کی قدر میں کمی ہوتی رہے گی، جس سے عوام مزید غربت اور قرض میں دھنستے چلے جائیں گے اور اردوگان حکومت کی حمایت میں بھی کمی ہوتی رہے گی۔

ترکش سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے کے لیے اردوگان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔ یقیناً سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اردوگان نے معاشی بحران کے باعث اقتدار سنبھالا تھا جب اس کے سارے حریف غیر مقبول ہو گئے تھے، مگر ابھی وہ خود معاشی بحران کی زد میں ہے۔

اے کے پی کا عروج و زوال

ترکی میں 2001-02ء کے مالیاتی بحران کے بعد تمام حکومتی پارٹیاں غیر مقبول ہو گئیں، جس کے باعث اے کے پی نے 2002ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر کے اقتدار سنبھالا۔ نئی بنی ہوئی پارٹی نے عوام کے غم و غصّے کو استعمال کرتے ہوئے خود کو ایک ایسی حکومت مخالف پارٹی کے طور پر پیش کیا جو افراطِ زر، کرنسی کے بحران، بیروزگاری اور غربت سے ملک کو نجات دلا سکتی ہے۔ اس نے خوشحالی، امن اور جمہوریت کا وعدہ کیا۔

2008ء سے پہلے آنے والی معاشی ترقی نے اے کے پی کو اپنے وعدے کافی حد تک پورے کرنے کا موقع دیا۔ ترکی جغرافیائی طور پر بھی اہمیت کا حامل ہے جو یورپ کی سرحد پر واقع ہے، یہاں سستی محنت موجود تھی جس کے باعث ترقی یافتہ ممالک ادھر سرمایہ کاری کرنے لگے۔ ترکی میں دیوہیکل پیمانے پر سرمائے کی آمد ہونے لگی۔ 2002ء اور 2011ء کے بیچ، ترکی 7.5 فیصد اوسط بڑھوتری حاصل کرنے میں کامیاب رہا جبکہ افراطِ زر اور شرحِ سود میں کمی ہونے لگی۔ 2002ء اور 2010ء کے دوران فی کس جی ڈی پی تین گنا بڑھ گیا۔ حکومت کچھ حد تک اصلاحات کرنے کی اہل ہوئی، اور اناطولیہ کے تاریخی طور پر پسماندہ علاقوں کو ہائی ویز، سڑکوں، پلوں اور ائیرپورٹوں کے ذریعے باقی ملک کے ساتھ منسلک کر دیا جبکہ شعبہ صحت، تعلیم اور رہائش کے حوالے سے بھی اصلاحات کی گئیں۔ کسان اور مزدور شہروں کی جانب رُخ کرنے لگے اور اناطولیہ کے خطے میں نئے صنعتی قصبے تعمیر کیے گئے۔ معاشی بڑھوتری کے ساتھ اکثریتی آبادی کی معیاراتِ زندگی بھی بہتر ہونے لگے، اور لاکھوں ترک غربت سے باہر نکلے۔

معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ معیارِ زندگی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور محنت کش طبقے کے متبادل کی عدم موجودگی میں اے کے پی انتخابات جیت رہی تھی، حتیٰ کہ اپنی حمایت میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔

مگر جیسے ہی 2008-09ء کا سرمایہ دارانہ معاشی بحران شروع ہوا، حکومت کا انحصار تیزی کے ساتھ سستے قرضوں اور سٹاک مارکیٹ پر بڑھنے لگا۔ اردوگان کی حکومت انتہائی بلند شرحِ نمو حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھی، مگر حقیقت میں ملک کے اوپر بیرونی قرضوں کا انبار بڑھ رہا تھا۔ 2013ء میں حالات اپنے الٹ میں تبدیل ہو گئے۔ افراطِ زر اور بیروزگاری میں اضافہ ہونے لگا اور 2017ء تک کرنسی میں مسلسل گراوٹ ہونے لگی۔ ان تمام عناصر کا نتیجہ 2018ء کے معاشی زوال کی صورت نکلا۔

ترک سرمایہ داری حالیہ سالوں میں جب بھی بحران کا شکار ہوئی ہے، حکومت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے کندھوں پر بحران کا بوجھ مزید بڑھایا ہے، جس کے باعث اردوگان اور اے کے پی کا حقیقی طبقاتی کردار بے نقاب ہوا ہے۔ نظام کے بحران نے تمام تضادات کو سطح کے اوپر اچھال دیا ہے۔ حالیہ رائے شماریوں میں اردوگان اور اے کے پی کی غیر مقبولیت کی یہی وجہ ہے۔

اردوگان حکومت نے بیرونی مداخلتوں کے ذریعے طبقاتی جدوجہد کو دبانے، اور کُردوں کے خلاف نفرت پھیلا کر محنت کش طبقے کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اپنی کمزور ہوتی حکومت پر اپنے اختیارات بڑھانے کی کوشش کی ہے، اور اپنے ہاتھوں میں مزید اختیارات لے کر ریاستی مشینری اور اداروں کو حریفوں سے صاف کیا ہے، جن کی جگہ اپنے وفاداروں کو تعینات کیا ہے، جبکہ صحافیوں اور ناقدین کو قید کیا ہے۔

استنبول کی بوغازچی یونیورسٹی میں اے کے پی کے وفادار کو بطورِ ریکٹر تعینات کرنے کے بعد شہر میں طلبہ احتجاجوں کی لہر دیکھنے کو ملی تھی۔ تحریک دبانے کے لیے حکومت نے ریکٹر کو ہٹا دیا، جس کی جگہ اے کے پی کے ایک اور وفادار کو لایا گیا، مگر طلبہ کو پوری طرح سے دبایا نہیں جا سکا ہے۔

سماج کی سطح کے نیچے عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، اور محنت کش طبقہ جدوجہد کے میدان میں داخل ہونا شروع ہوا ہے۔ ملک بھر میں ہڑتالوں اور احتجاجوں کی لہر پھیل رہی ہے۔ اردوگان کی حکومت مزدور تحریک کو دبانے میں کامیاب نہیں رہی ہے، بلکہ اس کے برعکس یونین میں محنت کشوں کی شمولیت سے منظم مزدور مضبوط ہو رہے ہیں، جو بحران سے نجات کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ محنت کش اپنے معیارِ زندگی پر ہونے والے حملوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کر رہے ہیں، اس عمل میں ان کی جدوجہد ان کی شعوری سطح کو مزید بلند کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہے۔

بڑھتے ہوئے غم و غصّے کی وجہ سے بعض پرتیں مرکزی حزبِ اختلاف ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کی جانب رُخ کر رہی ہیں، مگر ایسا محض محنت کش طبقے کے متبادل کی عدم موجودگی کے باعث ہو رہا ہے۔ سی ایچ پی کا قائد کمال قلیج اب وہی وعدے کر رہا ہے جو اردوگان نے دو دہائیاں پہلے کیے تھے۔ اس نے ”قانون کی بالادستی“، ”اپنے عہدوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت میں اضافہ کرنے والے کرپٹ افسران“ کے خاتمے، اور ”امن، جمہوریت اور انصاف“ لانے کے وعدے کیے ہیں۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ قلیج محض ترکی کے حکمران طبقے کے کمال اسٹ دھڑے کا نمائندہ ہے، جو بنیادی طور پر اے کے پی سے مختلف نہیں ہے۔ در حقیقت، حالیہ سالوں میں نام نہاد ’سیکولر‘ سی ایچ پی نے اے کے پی کے سابقہ حامیوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مذہبی اور انتہائی قدامت پرست امیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔ قلیج نے کہا ہے کہ وہ سماج کی ان تمام پرتوں کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہتے ہیں جن کو سی ایچ پی نے ماضی میں مایوس کیا ہے۔۔۔بشمول قدامت پرست۔

محنت کش طبقے کے متبادل کی عدم موجودگی میں سی ایچ پی بحران کا فائدہ اٹھا رہی ہے، مگر محنت کش اور غریب جلد سیکھیں گے کہ ان کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں ہے اور وہ عوامی مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر سکتے۔ یہ محض محنت کش طبقہ ہی ہے جو سارے بورژوازی، نام نہاد سیکولر کمال اسٹ دھڑے اور قدامت پرست اناطولوی بورژوازی دونوں، کے خلاف لڑتے ہوئے سرمایہ داری کے بحران سے اپنے زورِ بازو پر نجات حاصل کر سکتی ہے۔

غریبوں کی تحقیر کرتے امیر

اس وقت عوام غربت اور بھوک سے نبرد آزما ہیں، جبکہ اردوگان عوامی غصّے کو قابو میں رکھنے کی خاطر مذہب کا استعمال کر رہا ہے، جس کا کہنا ہے: ”ہمارا خدا کہتا ہے کہ ہم تھوڑے سے خوف اور بھوک کے ذریعے اور دولت، زندگی اور اشیاء کے کھو جانے کے ذریعے تمہاری آزمائش کریں گے۔“ مگر اردوگان بھوک کے ساتھ زندگی نہیں گزار رہا اور اس کی ساری دولت اوع عیش و عشرت بھی صحیح سلامت ہے۔ اس پچھلے موسمِ گرما میں نو تعمیر شدہ صدارتی محل کا افتتاح کیا گیا۔ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ایک پُر تعیش رہائش، جس کی مالیت 7 کروڑ 40 لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ اسے عوامی خزانوں سے چرائے گئے پیسوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔

محنت کشوں کو ڈبل روٹی خریدنے تک میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ اردوگان کی بیوی امینہ اردوگان عوام کو کہہ رہی ہے کہ ”اپنے کھانے کی مقدار کم کریں“، اور مشورہ دے رہی ہے کہ وہ ”آم خشک کر کے انہیں ذخیرہ کرنے“ کے ذریعے پیسوں کی بچت کر سکتے ہیں۔ اے کے پی کے وہ افسران جو کرپشن کے سکینڈلز میں بے نقاب ہوئے ہیں، اپنی پرتعیش زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں اور عوام کی تحقیر کر رہے ہیں، جو کبھی عوام کو ”کم کھانے“ کی تلقین کرتے ہیں، تو کبھی کہتے ہیں کہ معاشی صورتحال کو برداشت کرنا ان کا قومی فریضہ ہے، چاہے انہیں ”دنوں یا مہینوں تک ڈبل روٹی اور پیاز“ ہی کیوں نہ کھانا پڑے، جو نشاندہی کرتے ہیں کہ ”ہمارے رسول بھی خالی پیٹ زندگی بسر کرتے تھے۔“

اے کے پی کے تحت چلنے والے نیوز چینل ٹی جی آر ٹی نے ترکی میں سستی محنت کی کم ہوتی ہوئی قیمت کے بارے میں جشن مناتے ہوئے خصوصی پروگرام نشر کیا اور فخریہ طور پر کہتے رہے کہ ترکی میں دنیا کی سب سے سستی (یعنی انتہائی استحصال زدہ) محنت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں سرمائے کی آمد بڑھے گی۔ مگر یہ 2002ء کا دور نہیں ہے، سرمایہ داری بحران میں ہے اور ترکی میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوگی۔

اردوگان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کرا رہا ہے کہ ”وہ بڑے منافعے حاصل کر کے مطمئن رہیں گے“ اور کہہ رہا ہے کہ ”ترکی میں سرمایہ کاری کا سنہرا موقع ہے۔“ اردوگان کا اصل مطلب یہ ہے کہ ترکی ایسی جگہ ہے جہاں محنت کش کم حقوق رکھتے ہیں اور وہ سرمایہ داروں کو سستے مزدور فراہم کرے گا جن کا وہ دل کھول کر استحصال کر سکتے ہیں۔ اردوگان اپنا اقتدار چھوڑنے کی بجائے محنت کش طبقے کو مزید فاقہ کشی میں دکھیلنا زیادہ پسند کرے گا۔

ترکی کے لوگ اے کے پی کو جھوٹوں اور چوروں کا بے شرم ٹولہ سمجھتے ہیں، جو محنت کشوں کا استحصال، ریاستی اثاثہ جات کی نجکاری اور شدید کرپشن کر کے امیر ہوئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ محنت کش اب اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ انہیں اس لیے غربت میں دکھیلا جا رہا ہے تاکہ حکمران طبقہ اپنے منافعوں کو بچا سکے اور اپنی دولت میں اضافہ کر سکے۔ اردوگان کی اسلامی شخصیت میں وہ اثر باقی نہیں رہا جیسے ماضی میں تھا۔ اردوگان کا معاشی بحران سے انکار، سازشی بیان بازیاں (اردوگان کے مطابق ہمیشہ کی طرح ملکی مسائل کے ذمے دار ”غیر ملکی کارندے“ ہیں) اور عہدیداروں کو برطرف کرنا اس کے خلاف غم و غصّے میں محض اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ تمام صورتحال سماجی دھماکے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

اردوگان کے دور میں معاشی ترقی کے باعث ترکی کے اندر دیوہیکل پیمانے پر ترقی اور صنعتکاری ہوئی، اور اس سے جدید مزدور کی تعداد میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے، جو ایک ایسا طبقہ ہے جس کی بڑھوتری پر سرمایہ دار انحصار کرتے ہیں، مگر یہی طبقہ تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا گور کن بھی ہے۔ ترکی کے محنت کش طبقے میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ جدوجہد کے اندر داخل ہونا شروع ہوا ہے۔ انتہائی اہمیت کا حامل فریضہ یہ ہے کہ واضح مارکسی پروگرام پر مبنی ایک انقلابی متبادل کو تعمیر کیا جائے تاکہ محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ساتھ جڑا جا سکے اور ایسی انقلابی تحریک کو تیار کیا جائے جو نہ صرف اردوگان حکومت، بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹ سکے، اور ترکی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کر سکے۔