وکرین پر روسی فوج کشی کو 100 سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ اس وقت جنگ بندی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ابتداء میں روس نے کیف، سومی، چرنیہیف اور خارکیف کے گرد علاقوں پر تیزی سے قبضہ کر لیا تھا۔ بعد میں ان علاقوں سے پسپائی پر مغرب نے جو مغرور بڑھک بازی کی آج وہ قنوطی مایوسی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ روسی افواج برتر توپ خانے کے ساتھ دونباس میں سُستی لیکن ثابت قدمی سے بڑھ رہی ہیں۔ یوکرین کے نقصانات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی پابندیوں کے باوجود روس اپنی آئل اور گیس کی کمائی کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے جبکہ پابندیاں عالمی معیشت کو ایک نئی خوفناک کساد بازاری میں دھکیل رہی ہیں۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جنگ اب تک دو واضح مراحل سے گزر چکی ہے۔ پہلے مرحلے میں روس نے شمال، جنوب اور مشرق کے کئی فرنٹس پر ایک مشترکہ آپریشن لانچ کیا جس میں افواج کی تیز ترین پیش قدمی اور کلیدی یوکرینی شہروں کا محاصرہ شامل تھا۔ اس اچنک سے حیرت میں ڈالنے کی حکمت عملی کا مقصد دارلحکومت پر قبضے کے برعکس افواج کی چین آف کمانڈ کو توڑنا اور یوکرینی حکومت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔ یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
یوکرینی مزاحمت توقعات کے برعکس شدید تھی اور مغربی انٹیلی جنس تک رسائی سے یوکرینی افواج کو کچھ روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری اور کامیاب دفاع کرنے کا موقع مل گیا جس کی ایک مثال ہوستومیل ائرپورٹ ہے۔ روسی افواج کی سپلائی چینز شدید دباؤ میں آ گئیں اور یوکرینی افواج کی چھوٹی گروہی گوریلا جنگ کی حکمت عملی نے روسی افواج کو پھنسا دیا۔
جواب میں مارچ کے اختتام اور اپریل کے آغاز میں روسی افواج نے اپنی تدبیر میں تبدیلی کی۔ انہوں نے شمال میں قبضہ کئے علاقے خالی کر دیے اور افواج کو مشرق میں تعینات کر دیا اگرچہ خارکیف کے شمالی سرحدی علاقے میں ایک چھوٹی موجودگی کو برقرار رکھا گیا۔ اب ہدف دونباس پر قبضہ (لوہانسک اور دونیتسک کے انتظامی ضلعوں تک) اور خرسون اور زاپوریزیا میں اپنی فتوحات کو مستحکم کرنا تھا۔
امریکی سامراج کی پراکسی جنگ
یوکرینی حکومت اور مغرب نے فتح کا شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ”روسیوں کو شکست فاش ہو چکی ہے!“ جنگ کے آغاز میں مغرب کو بھی لگ رہا تھا کہ یوکرین چند دنوں کا مہمان ہے۔ واشنگٹن نے زیلنسکی کو ملک سے نکل جانے کا مشورہ دیا تھا اور برطانوی اور فرانسیسی سپیشل فورسز نے اسے بحفاظت نکالنے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا تھا۔ اب امریکی سامراج نے جنگ کے حوالے سے اپنے اہداف تبدیل کر لئے ہیں۔ اب وہ کھل کر کہتے ہیں کہ یہ ایک پراکسی جنگ ہے جس کا مقصد روس کو کمزور کرنا ہے۔ امریکہ نے جنگ میں اربوں ڈالر کا سامان اور امداد جھونکنا شروع کر دیا اور اپنے اتحادیوں کو بھی اس کام کے لئے سرگرم کیا ہے۔
لیکن تمام منصوبے دھرے رہ گئے۔ یوکرین کو مسلح کرنے کے لئے امریکی قانون سازی کو ایک مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ امریکی تیار کردہ M777 155mm ہاؤیٹزر توپیں ایک مہینے سے میدان جنگ میں گولہ باری کر رہی ہیں، دیگر اسلحہ، خودکار جہاز وغیرہ سب شامل ہیں لیکن جنگ پر کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہو ا ہے۔ میدان جنگ میں آج بھی روسی توپ خانے کو دیو ہیکل برتری حاصل ہے۔ دونباس میں جنگ ٹھیک نہیں ہو رہی۔ روس فاتح ہو رہا ہے۔
پہلے ہم نے دیو ہیکل سٹیل صنعت ازوفستال کی شکست دیکھی جہاں نیم نازی آزوف رجمنٹ (یوکرینی نیشنل گارڈ کا حصہ) کچھ یوکرینی میرین فورس کے ساتھ محصور تھے۔ ہتھیار نہ ڈالنے کی مسلسل بیان بازی کے بعد کئی ہفتوں کی ناکہ بندی اور تازہ کمک کی عدم موجودگی میں ہتھیار ڈالے گئے اگرچہ مغربی اور یوکرینی میڈیا نے اس شکست کو ”انخلاء“ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ روسی جنگی قیدی کیمپوں میں ”انخلاء“! 2 ہزار سے زائد تجربہ یافتہ اور جنونی فوجیوں کو جنگ سے باہر کر دیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا نفسیاتی صدمہ تھا جس کا اثر میڈیا نے زائل کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔
آزوفستال فتح کرنے کے بعد روسی افواج کو دونباس میں حملہ مستحکم کرنے کا موقع مل گیا۔ روسیوں نے دو اہم مقامات پر قبضہ کر لیا۔ لوہانسک میں اونچائی پر موجود ایک چھوٹا قصبہ پوپاسنا جہاں سے انتہائی اہم باخمت-سیویرودونیتسک سڑک کی جانب پیش قدمی کرنے کا موقع مل گیا۔ مقصد یہ تھا کہ لیسیچانسک- سیویرودونیتسک کے مضافات کا محاصرہ کیا جائے تاکہ لوہانسک کی انتظامی سرحدوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے۔ دوسرا ایزئم تھا جو سلاویانسک اور کراماتورسک (دونیتسک کے کلیدی شہری مراکز) کی جانب سڑک پر ایک کلیدی مواصلاتی مقام ہے۔
دریائے سیورسکی دونیتسک کو پار کر کے محاصرہ مکمل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی اور یوکرینی فوج نے بڑی تعداد میں بکتر بند گاڑیاں اور کشتیوں کے پل تباہ کر دیے۔ لیکن روسی پیش قدمی نہ روکی جا سکی۔ سیویرودونیتسک کی جنگ جاری ہے لیکن شہر کے اکثر علاقوں پر روس کا قبضہ ہو چکا ہے۔
ایزئم کے جنوب میں پیش قدمی رُک جانے پر روسی افواج نے اپنی تمام کوششیں لیمان پر قبضہ کرنے پر مرکوز کر دیں جو سلاویانسک کے شمال مشرق میں ایک اہم مواصلاتی مقام ہے (2014ء میں روس نواز باغیوں نے سب سے پہلے اس شہر پر قبضہ کیا تھا)۔
اس دوران یوکرینی افواج کی خارکیف کے شمال (ترنووا، روبیزہنے، ستاری سالتیف)، خرسون (دیویدیف برد) کے محاذ اور حال میں ایزئم کے مغرب میں جنگل پر پلٹ کر قبضہ کرنے کی کوششوں کو روس نے ناکام بنا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان حملوں کا مقصد فیصلہ کن طور پر روسی افواج کو پسپائی پر مجبور کرنے کے بجائے جنگی مراکز سے دور کاٹ کر پھنسانا تھا۔
”ہم بس مہرے ہیں“
یوکرینی قیادت اور مغربی سامراجیوں کا لہجہ واضح طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ یوکرینی افواج کے گرتے مورال کی خبریں مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔ یوکرین کی ان علاقائی دفاعی فورسز جنہوں نے جنگ کے آغاز میں اپنے ملک، لیکن سب سے بڑھ کر اپنے گھروں اور خاندانوں کے دفاع کے لئے جنگ میں شمولیت اختیار کی تھی، آج خاص طور پر مایوس ہیں۔ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بس مہرے ہیں جنہیں بغیر تربیت اور ہتھیاروں کے ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے جسے جیتا نہیں جا سکتا۔ کئی دستوں نے احتجاجی ویڈیوز بنائی ہیں۔ کچھ جنگ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
دی اکانومسٹ میگزین نے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”اگر دونوں اطراف سے گمبھیر خبریں آ رہی ہیں تو یوکرین کی حالت زیادہ خراب ہے۔ واپس آنے والے فوجی پرانتشار کمان اور اسلحے کی عدم دستیابی کی شکایت کر رہے ہیں۔ رضاکار دستوں سے نوجوان ناتجربہ کار سپاہیوں کو مرنے والوں کی جگہ فرنٹ پر بھیجا جا رہا ہے“۔
دی انڈیپنڈنٹ اخبار نے یوکرین پر ایک مغربی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق مایوس کن صورتحال ہے:
”یوکرینی فوج شدید نقصانات کا شکار ہے کیونکہ روسی افواج کے مقابلے میں توپ خانے کا 1:20 اور اسلحے کا 1:40 تناسب ہے۔۔یوکرینی اور مغربی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ یوکرینیوں کو روسی توپ خانے کا جواب دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ یوکرینی توپ خانے کی پہنچ 25 کلومیٹر تک ہے جبکہ دشمن اس کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ دور تک گولے برسانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد اب بھگوڑے ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکے ہیں۔ دی انڈیپنڈنٹ نے یہ رپورٹ دیکھی ہے اور اس میں لکھا ہوا ہے کہ دونباس میں حالات بہت خراب ہو رہے ہیں جہاں روزانہ تقریباً 100 فوجی مر رہے ہیں جس کے ’یوکرینی افواج کے مورال پر کاری اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ مادی اثرات میں ہر ہفتے بھگوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے“‘۔
مشیر برائے صدر پودولیاک کے فراہم کردہ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق روزانہ 200 یوکرینی فوجی مر رہے ہیں۔ CBC کے ایک مضمون میں ایک یوکرینی سپاہی نیکیتا نے حکام بالا پر سخت تنقید کی ہے:
”اس کا کہنا ہے کہ ’آپ کو سمجھنا پڑے گا کہ اس ملک میں دو ذاتیں ہیں۔ ایک اونچی ذات اور ایک ہم نیچ ذات۔ ہم بس مہرے ہیں۔ اور کچھ بھی نہیں۔ اونچی ذات والوں کو پیسہ ملتا ہے اور ہمیں احکامات۔ ’آگے بڑھو!‘ یہاں (یوکرین میں) ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے‘۔ یہ کہنے کے بعد اس کا کہنا تھا کہ اسے کوئی یقین نہیں کہ اس کی باتوں کو سنجیدہ لیا جائے گا۔ نیکیتا نے کہا کہ ’کوئی سچ سننا نہیں چاہتا۔ وہ بس ایک متحد یوکرین کی خوبصورت کہانی سننا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم برباد ہو چکے ہیں۔“‘
سرکاری پروپیگنڈہ اور زمینی حقائق کے درمیان اس خلیج کو کچھ یوکرینی صحافیوں نے بھی نوٹس کیا ہے جن پر روسی ہمدردیوں کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ لوہانسک گورنر ہائیدائی کے فاتحانہ اعلانات پر صحافی یوئی بوتوسوف پھٹ پڑا:
”جنگ میں آپ نے اپنی عوام کے بجائے اپنے دشمنوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ اس وقت یوکرینی سماج کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہئیے، ہمیں خیالی کے بجائے حقیقی فتوحات درکار ہیں۔ جنگ میں خود فریبی کا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ جھوٹی کہانیوں اور بلاجواز رجائیت پسند باتوں سے دستے اور عوام گمراہ ہو جاتے ہیں اور ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بھونڈا مذاق بند کرو، تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔باقاعدہ پیغاموں میں حقیقت کے برعکس خواہشات کا اظہار سنجیدہ مسئلہ ہے۔ حقیقی فتوحات کے لئے آپ کو ہوا میں قلعے تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے“۔
اس لئے یوکرین اپنے مغربی اتحادیوں سے مزید ٹینکوں اور اسلحے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ صدارتی آفس کے سربراہ کے مشیر میخائلو پودولیاک نے 15 جون کو برسلز میں NATO وزیروں کی ایک نئی میٹنگ ہونے سے پہلے ایک ٹوئٹ کیا جس میں ٹھوس مطالبات کئے گئے تھے۔ 1 ہزار 155mm ہاؤیٹزر توپیں، 300 MLRS سسٹم (ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹم)، 500 ٹینک، 2 ہزار بکتر بند گاڑیاں، 1 ہزار ڈرون۔
مطالبہ کئے گئے اسلحے کا اگر ایک چھوٹا حصہ بھی مل گیا تو غنیمت ہو گا۔ کئی ممالک کے پاس مطالبہ کئے گئے MLRS انتہائی قلت میں موجود ہیں (جرمنی 28، فرانس 13، برطانیہ 44)۔ اور اگر امریکہ یہ مطالبہ پورا کرتا ہے تو اس کے کل ذخیرے میں ایک چوتھائی کمی آ جائے گی! جہاں تک ٹینکوں کا تعلق ہے تو برطانوی فوج کے پاس 227 اور جرمنی کے پاس 226 موجود ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان جدید ہتھیاروں کے سسٹم پر اگر مہینوں نہیں تو ہفتوں تربیت درکار ہوتی ہے جس میں نہ صرف توپ چلانے والے شامل ہوتے ہیں بلکہ پوری فوج کو یکسوئی کے ساتھ کام کی تربیت دی جاتی ہے۔
واشنگٹن میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکی سامراج کے نمائندے واشنگٹن پوسٹ اخبار نے ایک سرخی لگائی کہ ”میدان جنگ میں حالات مخدوش ہونے کے ساتھ یوکرین میں اسلحہ ختم ہو رہا ہے۔ برتر اسلحے کے سامنے یوکرین کی روسی پیش قدمی روکنے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے“۔ ظاہر ہے ان میں سے کچھ باتوں کے حوالے سے رویہ محتاط ہونا چاہیے کیونکہ ان کا مقصد حکومتوں پر دباؤ ڈال کر ان سے امدادی ہتھیار حاصل کرنا بھی ہے لیکن عمومی طور پر میدان جنگ کی صورتحال یہی ہے۔ روس مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور توپوں اور دیگر ہتھیاروں کی مغربی سپلائی کا خاص اثر نہیں ہو رہا۔ اس مرحلے پر مغربی سامراجی حکمت کار بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسی جنگ میں اربوں ڈالر جھونکنے کا کیا فائدہ اگر فتح کے امکانات تقریباً معدوم ہیں۔
جنگ کا بڑھتا خرچہ
روسی پیش قدمی کی کے ساتھ جنگ کی طوالت کے عالمی معیشت پر دورروس اثرات کا امریکی سامراج کو شدت سے احساس ہے اور یہ مسئلہ واشنگٹن اور اس کے کچھ یورپی اتحادیوں (فرانس، جرمنی اور اٹلی) کے درمیان خلیج وسیع کر رہا ہے۔ مسلسل مہنگی ہوتی جنگ سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اٹلی نے ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ میکرون اپنی پوزیشن دہرا رہا ہے کہ ”پیوٹن کو شرمندہ نہیں کیا جا سکتا“۔ اتحادی گرین پارٹی کے وزیر خارجہ کی تمام بڑھک بازیوں کے باوجود جرمن حکمران طبقہ صورتحال سے بہت زیادہ پریشان ہے۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ”جرمن حکومتی ذرائع نے پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ مغرب میں کچھ افراد یوکرین کو غیر حقیقی عسکری اہداف کی طرف دھکیل رہے ہیں جس میں 2014ء میں روس کے فتح کردہ کریمیا جزیرہ نما پر دوبارہ قبضہ بھی شامل ہے جو جنگ کو مزید طوالت دے سکتا ہے“۔
امریکہ مختلف اطراف سے دباؤ کا شکارہے۔ ایک طرف وہ چاہتا ہے کہ یوکرینی افواج کو مہروں کے طور پر استعمال کر کے روس پر کاری ضرب لگائی جائے۔ لیکن دوسری طرف کیف کو کس قسم اور رینج کی توپیں فراہم کی جا سکتی ہیں، اس حوالے سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ کہیں روس براہ راست جواب دینے پر نہ اتر آئے (بہرحال روس ایک جوہری قوت ہے)۔ اس لئے ہم نے ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (HMARS) فراہم کرنے پر کئی مہینے تذبذب دیکھا۔ پہلے ان کا وعدہ کیا گیا، پھر انحراف اور پھر صرف چار سسٹم فراہم کئے گئے جن کا اسلحہ ایک مخصوص فاصلے تک ہی فائر کیا جا سکتا ہے۔ روس نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس کی سرزمین پر کوئی حملہ ہوا تو اسے براہ راست جارحیت تصور کیا جائے گا اور روس اس کا جواب ”ان فیصلہ کرنے والے مراکز کے خلاف دے گا جو کیف میں موجود نہیں ہیں“۔
اس دوران پابندیوں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا اور یوکرین پر پیوٹن کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ دی گارڈین اخبار میں لیری ایلیوٹ نے لکھا کہ ”روس معاشی جنگ جیت رہا ہے“۔ روس پر مغربی پابندیوں کی کمپیئن نے معیشت پر اثرات ضرور مرتب کئے ہیں جس کا تخمینہ 8.5 فیصد تک شرح نمو میں کمی لگایا جا رہا ہے۔ لیکن عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں کو پرَ لگنے پر روس کی توانائی برآمدات سے کمائی میں درحقیقت اضافہ ہوا ہے!
رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ ”امریکی توانائی سیکورٹی نمائندے آموس ہوچسٹین نے کانگریس ممبران کو بتایا کہ یوکرین پر فوج کشی سے پہلے کے مقابلے میں روس کی فوسل فیول سے کمائی میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے سے اس کی فروخت کو کم کرنے کی مغربی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں“۔
فن لینڈ اور سویڈن کی NATO میں شمولیت کے حوالے سے سرگرمیاں بھی ماند پڑ رہی ہیں کیونکہ ترکی میں اردوگان اپنے ویٹو حق کو استعمال کرتے ہوئے قابل ذکر مراعات حاصل کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر وہ چاہتا ہے کہ سویڈن اس کے سیاسی مخالفین کے خلاف قانونی کاروائی کرے، ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ختم کرے (جی ہاں! امن پسند سویڈن ہتھیابرآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے)، NATO شامی کردوں کی حمایت ترک کرے اور اس سارے عمل میں اگر ہو سکے تو امریکہ اسے F-35 فائٹر جیٹ خریدنے کی اجازت بھی دے (جب ترکی نے روس سے S-400 اینٹی ائرکرافٹ دفاعی سسٹم خریدا تو امریکہ نے اس حوالے سے پابندی لگا دی تھی)۔
اس ساری صورتحال میں فی الحال روس کو مذاکرات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اور وہ دونیتسک اور لوہانسک جمہوریہ (یہاں قیادتیں تبدیل کر دی گئی ہے) خرسون اور زاپوریزیا کو روسی فیڈریشن میں ضم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مستقبل میں ان میں سے کسی ایک پر حملہ روس پر حملہ تصور ہو گا۔ اس حوالے سے یہ ایک طاقتور رکاوٹ ثابت ہو گا۔ اب مذاکرات 24 فروری سے پہلے کی بنیاد کے برعکس آج کے زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوں گے۔
مغربی مداخلت کے بڑھتے تذبذب اور مشکلوں کا مطلب یہ ہے کہ جب روس دونیتسک اور لوہانسک پر ہفتوں یا مہینوں میں اپنا تسلط مکمل کر لے گا تو اس کے بعد ہی وہ مذاکرات کے لئے آمادہ ہو گا چاہے اس کا نتیجہ کوئی معاہدہ ہو یا جنگ بندی۔ زیلنسکی کو امید ہے کہ اگر روسیوں کو ایک خاص وقت تک روکا جائے تو مغرب مزید توپیں اور ہتھیار فراہم کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں یوکرین فوری طور پر یا مستقبل قریب میں پلٹ کر وار کرنے کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔
لیکن نقصانات میں مسلسل اضافے کے ساتھ زیلنسکی کو گھر میں شدید مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے جس کی ابتداء اب نظر آنی شروع ہو گئی ہے۔
جنگیں انتہائی پیچیدہ ہوتی ہیں۔ ایک طرف پیوٹن اور روس کے علاقائی سامراجی عزائم ہیں۔ جنگ شروع کرنے کے بعد اب وہ اپنے تمام یا کم ازکم ان میں سے اکثریت اہداف حاصل کئے بغیر جنگ بندی نہیں کر سکتا۔ NATO سے باہر ایک کمزور یوکرین اس کا مرکزی ہدف ہے اور اب اس نے اندازہ لگا لیا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں تباہ کاری اور ملک کو بحر اسود سے کاٹ کر یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران روس کو کریمیا کے دفاع کے لئے ایک زمینی راہداری مل جائے گی جو بحر اسود بیڑے کا مرکز ہے۔ جنگ کا موجودہ مرحلہ کیا صورت اختیار کرتا ہے اس بنیاد پر وہ اپنے اہداف کو بڑھا کر مایکولیف اور اوڈیسہ کی جانب پیش قدمی کا سوچ سکتا ہے جس کے بعد ٹرانس نستیریا کا زمینی قبضہ مکمل ہو جائے گا اور یوکرین کے بحر اسود ساحل پر مکمل تسلط قائم ہو جائے گا۔
دوسری طرف امریکی سامراج ہے جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے لیکن اس وقت نسبتی زوال کا شکار ہے اور اُبھرتی قوت چین سے نبرد آزما ہے۔ اسے روس کے ہاتھوں شکست کسی صورت قبول نہیں۔ اس سے مزید ہزیمت ہو گی اور عالمی ساکھ مزید مجروح ہو گی۔
درمیان میں میدان جنگ یوکرین ہے جو دو سامراجی قوتوں کی کشمکش کے نتیجے میں مسلسل شہری، عسکری اور انفراسٹرکچر کے نقصانات اٹھا رہا ہے۔ 2014ء کے بعد سے یہاں مسلسل مختلف رجعتی اولیگارش (مٹھی بھر امراء کی حکومت) حکومتوں کا تسلط رہا ہے جو فیصلہ کن طور پر مغربی سامراج کے دلال بنے ہوئے ہیں۔ پھر بھی روس کا فوج کشی کرنے کا فیصلہ تبدیل نہیں ہوا اور مغرب انہیں یورپی یونین کی ممبرشپ دینے تک راضی نہیں ہے۔ جلد یا بدیر اس حکمت عملی کے خلاف بغاوت ہو گی۔
سامراجی جنگ سے طبقاتی جنگ
آخر میں اس ساری صورتحال میں ایک اور عنصر بھی موجود ہے جسے عام طور پر عسکری حکمت کار یا بورژوا تجزیہ کار ملحوظ نظر نہیں رکھتے، وہ ہے طبقاتی جدوجہد۔ محنت کش عوام کی رائے ایک فیصلہ کن عنصر ہے۔ جنگ اور پابندیوں کے معاشی نتائج ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں جنگجو صنعتی سرگرمیوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ محنت کش بے قابو افراط زر کے نتیجے میں اپنی گرتی ہوئی قوت خرید کو بحال کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے لئے کمر بستہ ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یورپی حکومتوں اور امریکہ کی روس کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے کی صلاحیت میں نمایاں کمی ہو گی۔
غریب اور پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں اثرات اور بھی گھمبیر ہیں، سماجی دھماکے ہو رہے ہیں اور صورتحال کھلی بغاوت تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سے عالمی تعلقات اور زیادہ غیر مستحکم ہوں گے۔ روس میں بھی ایک مرتبہ جنگ کے بادل چھٹ جانے کے بعد (ظاہر ہے ایک نہ ایک دن ایسا ہونا ہے) محنت کشوں نے اپنی رجعتی سرمایہ دارانہ حکومت اور اس کے زار شاہی پاگل پن سے بہت سارے حساب پورے کرنے ہیں۔ اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ جب تک ایسا لگے گا کہ روس جیت رہا ہے عوامی رائے حمایت میں رہے گی۔
جنگیں اکثر انقلابات کی دائی ثابت ہوتی ہیں۔ درحقیقت ایک سوشلسٹ انقلاب ہی جنگ کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ سرمایہ دارانہ سامراج کا ناگزیر نتیجہ ہے اور اس کا خاتمہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے میں ہی ممکن ہے۔