اس سال مارچ کے مہینے میں لوئی ول شہر کے تین پولیس افسران بریونا ٹیلر اور اس کے بوائے فرینڈ کے گھر کے اندر زبردستی گھس گئے۔ پولیس نے اپارٹمنٹ میں 32 فائر کیے اور گولیوں کی بوچھاڑ نتیجے میں ٹیلر دم توڑ گئی۔ سرمایہ دارانہ عدالتوں کے حالیہ فیصلے میں کسی بھی افسر پر ماورائے عدالت قتل کا فرد جرم عائد نہیں کیا گیا۔ فیصلے کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کیا گیا اور ملک کے کم از کم درجن شہروں میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بریونا ٹیلر کو چھے گولیاں لگی تھیں مگر عدالت نے اس جواز کو مزید تحقیقات کے لیے کافی نہیں سمجھا۔ ایک پولیس جس کی گولی اپارٹمنٹ کے شیشوں سے نکلتی ہوئی پڑوسی گھر میں جا لگی تھی، صرف اس پر لاپرواہی برتنے اور لوگوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگانے کی زحمت کی گئی۔ اگرچہ یہ فیصلہ گرینڈ جیوری نے سنایا مگر یہ جیوریاں ضلع کے سرکاری وکیل اور پولیس کے زیر نگرانی کام کرتی ہیں۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ ضلعی سرکاری وکیل جب چاہتا ہے تو گرینڈ جیوری کے ذریعے کسی سینڈوچ کو بھی ملزم ٹھہرا سکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاستیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ پولیس نے اپنی حفاظت میں گولیاں چلائی تھیں کیونکہ انہوں نے حلف اٹھا کر اقرار کیا ہے کہ ہم نے بطورِ پولیس اپنا تعارف کرایا تھا اور بریونا ٹیلر کے بوائے فرینڈ نے ہم پر گولیاں چلائی تھیں۔ مگر رات گئے بریونا اور اس کے بوائے فرینڈ کو اس کا اندازہ کیسے ہو سکتا تھا کہ یہ واقعی پولیس والے ہی ہیں اور کوئی چور ڈاکو نہیں؟ کون یقینی طور پر کہہ سکتا ہے کہ پولیس نے پہلے سے ہی گولیاں چلانے کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا تھا؟ کچھ ہی عرصہ پہلے کینوشا، وسکانسن میں جیکب بلیک کو سات گولیاں ماری گئی تھیں اور اس کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ پولیس سرچ وارنٹ کی تعمیل کر رہی تھی۔ مگر قانون کے حوالے سے ایک واضح طبقاتی دوہرا معیار دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب ٹرمپ کے سیاسی مشیر راجر سٹون کے خلاف سرچ وارنٹ جاری کیا گیا تو پہلے اس کے وکیلوں کو مطلع کیا گیا اور بعد میں اس کی گرفتاری دن کی روشنی اور میڈیا کی موجودگی میں کی گئی۔ اور جیسا کہ سب جانتے ہیں بعد ازاں صدر نے سٹون کو کانگریس سے جھوٹ بولنے اور گواہوں کے معاملے میں ٹانگ اڑانے کے باوجود معافی دے دی۔
بریونا ٹیلر، جارج فلوئیڈ، ڈینیل پروڈ اور جیکب بلیک کے قتل وہ چنگاری ثابت ہوئے جس نے ملک بھر میں ایک ایسی عوامی تحریک کو جنم دیا جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ پچھلے پانچ مہینوں کے عرصے میں پچاس ریاستوں، واشنگٹن ڈی سی اور پورٹو ریکو کے دو ہزار سے زائد شہروں میں مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ اس تاریخی تحریک میں امریکہ کی دس فیصد آبادی نے شرکت کی۔ ’بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک نے منظم نسل پرستی کے سوال کو امریکی سیاست کا محور بنایا ہوا ہے۔ مگر مرکزی سوال کا جواب دینا ابھی باقی ہے؛ منظم نسل پرستی اور قاتل پولیس سے دائمی چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟
نسل پرستی امریکی سرمایہ داری کی بنیاد ہے
1776ء کے امریکی انقلاب سے پہلے ہی حکمران طبقے نے 13 کالونیوں میں ”نسل“ کے تصور کو شعوری طور پر پھیلایا۔ اس سوچ نے سفید فاموں کی برتری کو بنیاد بنا کر غلامی کے لیے جواز فراہم کیا اور محنت کشوں کو منقسم کیے رکھا۔ خانہ جنگی کے بعد تعمیر نو کے دور (Reconstruction Era: 1863-1877) میں غلامی کا خاتمہ ہوا اور آزاد غلاموں کو شہری حقوق دیے گئے۔ مگر اسی دور میں جنوبی ریاستوں کے اندر نسلی بنیادوں پر تفریق کے قوانین (Jim Crow Laws) نافذ ہو گئے اور نسل پرستی کا بھرپور استعمال کر کے بڑھتے ہوئے محنت کش طبقے کو سرمایہ داروں کے خلاف متحد ہو جانے کے ڈر سے آپس میں لڑانے کے لیے تقسیم کیا گیا۔ تمام با شعور محنت کش جانتے ہیں کہ نسل پرستی محنت کش طبقے کو کمزور اور ان کے دشمنوں کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر سفید فام محنت کش خود کو ’محنت کش‘ کی بجائے ’سفید فام‘ سمجھنے لگ جائیں تو جیت ان کے مالک کی ہوگی۔ اس قسم کی سوچ سے محنت کش طبقے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ان کے حالات بحیثیت مجموعی (یعنی سفید فام، سیاہ فام، لاطینی اور ایشیائی سب کے) بد تر ہوتے جاتے ہیں اور غیر سفید فام محنت کشوں کے حالات سب سے بد ترین ہوتے ہیں۔
قوانین، عدالتوں اور جیلوں کو ”نظام عدل“ (Criminal Justice System) کے مضحکہ خیز نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد مجرموں کو سزا دینا اور انصاف کی فراہمی ہے۔ مگر جس طرح راجر سٹون کے معاملے میں دیکھا گیا کہ یہ نظام امیروں اور غریبوں کے درمیان واضح طور پر فرق کرتا ہے۔ در حقیقت اس نظام کا اوّلین مقصد ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا دفاع کرنا ہے۔ امیر ترین 10 فیصدی آبادی 84 فیصد سٹاک مارکیٹ کے مالک ہیں، پولیس انہی کی خدمت اور حفاظت پر مامور ہے۔ ریاست کو جس امن کی فکر رہتی ہے، وہ سرمایہ داروں کے لیے امن ہے۔
ہمیں عدلیہ کے نظام کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار نہیں ہونا چاہئیے، اور ہمیں اس سے کسی ایسی چیز کی بھی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے جس کا انصاف سے دور تک کا کوئی واسطہ ہو۔ اگر ٹرمپ کی جگہ بائیڈن بھی اقتدار میں آ جائے تو کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی گی۔ اوباما کے دور حکومت میں سیاہ فاموں کی اکثریت کے لیے حالات بد تر ہو گئے تھے، اگر چہ وہ خود ایک سیاہ فام تھا۔ جب تک حکومت اور معیشت پر سرمایہ دار غالب رہیں گے، تب تک منظم نسل پرستی جاری رہے گی۔
عوامی تحریکیں اور غصّے کا اظہار حوصلہ افزا اور لازمی ہے۔ مگر اس توانائی کو بنیادی انقلابی تبدیلی میں سے گزرنا پڑے گا۔ حقیقی اور دائمی حل محض ایک ہی ہے؛ بڑے پیمانے پر محنت کشوں کی سوشلسٹ پارٹی کو تعمیر کر کے مزدور حکومت کے لیے لڑنا۔ ایک ایسی حکومت جو سوشلسٹ پروگرام سے لیس ہوگی، نسل پرستی کے سوال کو خصوصی طور پر حل کرتے ہوئے معاشرے سے نسل پرستی اور عدم مساوات کی جڑوں کو اکھاڑ کر پھینک دے گی۔
یہ پروگرام بیروزگاری کی بلند ترین سطح کے خاتمے سے شروع ہو گا جس میں بڑے پیمانے پر معیاری گھروں کی تعمیر، ہسپتال، نقل و حمل اور دیگر ڈھانچوں کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے۔ یونین میں شامل ہونے کے لیے ہر محلے میں کیمپ لگائے جائیں گے اور تمام محنت کشوں کو یونین کی تنخواہیں دی جائیں گی۔ تنخواہوں میں بغیر کوئی کٹوتی کیے ہفتے میں بیس گھنٹے اور ایک ہفتے کی کم از کم اجرت ایک ہزار ڈالر مقرر کی جائے گی جس سے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو گا اور سب کا معیار زندگی تیزی کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔ اس معاشرتی تبدیلی کے پروگرام میں سرمایہ دارانہ پولیس کا خاتمہ بھی شامل ہوگا۔ مسلح جتھوں کی بجائے، جو سرمائے کے مفاد کی خاطر معاشرے پر اوپر سے نافذ کیے جاتے ہیں، جمہوری طور پر منتخب اور منظم کی گئی دفاعی کمیٹیاں، جو محنت کشوں پر مشتمل ہوں گی، ہر کام کرنے کی جگہ اور محلوں میں اکثریت کے مفاد کے لیے کام کریں گی۔
غصّے کو انقلابی سیاست میں بدلو!
محنت کش طبقہ متعدد نسلوں پر مشتمل ہے اور ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ!“ اس کا بہت پرانا نعرہ ہے۔ پولیس کے جبر اور نسل پرست بنیادوں پر تفریق کے خلاف لڑائی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ صرف منظم محنت کش طبقہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں نسلی بنیادوں پر کبھی نہ ختم ہونے والے قتل عام کو روک سکے۔ ملک بھر میں یونین کے ممبران کی تعداد ایک کروڑ چھیالیس لاکھ ہے۔ یونین لیڈران یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ ان کو یکجہتی کے ذریعے ملک بھر میں متحرک کر سکیں جو ملک کے کونے کونے میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک میں ایک نئی روح پھونک دے گی۔ مزدور تحریک کا بیباک رد عمل، پولیس کے خلاف غصّے کا رخ نظام کی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جانب موڑ سکتا ہے۔
طبقاتی جدوجہد کا لائحہ عمل وضاحت کرے گا کہ مالکان اور محنت کشوں کے مفادات یکسر مختلف ہیں۔ نسل پرستی کے خلاف لڑائی میں تنخواہوں کی بڑھوتری، روزگار، سکولوں اور کام کی جگہوں میں حفاظتی اقدامات، معیاری رہائش اور صحت کے مطالبات لازمی طور پر شامل کرنے چاہئیں۔ اگر بڑے پیمانے پر ایسا کیا جائے تو معاشرے میں موجود بے اطمینانی پر ان مطالبات کا بڑا گہرا اثر پڑے گا اور پورا نظام سر سے پاؤں تک لرز اٹھے گا۔
اگرچہ بہت سے مزدور لیڈران نے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے حق میں باتیں کی ہیں مگر حقیقی عمل سے دور ہی رہے ہیں۔ وہ محنت کشوں سے ڈیموکریٹس کو ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہیں، جیسے یہ کوئی حقیقی حل ہو۔ ملک کے کچھ بدنام ترین پولیس ڈیپارٹمنٹس ڈیموکریٹک پارٹی ہی کے زیر انتظام ہیں، اور یہ وہی پولیس ہیں جو اقلیتوں کے علاقوں میں دہشت پھیلاتی ہے اور مظاہرین پر آنسو گیس پھینک کر تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ ’بلیک لائیوز میٹر‘ احتجاجوں کے سنجیدہ کارکنوں کو یہ سوالات اٹھانے پڑیں گے؛ کہ کس جانب بڑھا جائے؟ ان مظاہروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ ہم اور کیا کر سکتے ہیں؟
فریڈ ہیمپٹن ’بلیک پینتھرز‘ کا ممبر اور ایک انقلابی تھا جو سیاہ فام محنت کشوں کی جدوجہد کو وسیع تر محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت کو سمجھتا تھا۔ یہ خیال سرمایہ داری کے لیے خطرناک تھا اور اسی لیے سرمایہ دارانہ ریاست نے اس کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے گھر میں داخل ہو کر اس کے بیڈ روم پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں، بالکل بریونا ٹیلر کے معاملے کی طرح۔ ریاست ایک فرد کو تو مار سکتی ہے مگر اس خیال کو نہیں جس کا وقت آ چکا ہوتا ہے! ہیمپٹن نے قتل ہونے سے قبل کہا تھا:
”ہمیں کچھ حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کہ عوام کی اکثریت غریب ہیں، ان کا تعلق نچلے طبقے سے ہے، اور جب میں عوام کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب سفید فام عوام ہیں، میرا مطلب سیاہ فام عوام ہیں، میرا مطلب بھورے رنگ کے لوگ ہیں، اور میرا مطلب پیلے رنگ کے لوگ بھی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آگ کا مقابلہ آگ سے کرو، مگر ہم کہتے ہیں کہ آگ کا مقابلہ پانی سے کرو، ہمیں اس بات کو سمجھنا پڑے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ نسل پرستی کو نسل پرستی کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، ہم اسے یکجہتی کے ذریعے ختم کریں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ سرمایہ داری سے سیاہ فام سرمایہ داری کے ذریعے مت لڑو، سرمایہ داری سے سوشلزم کے ذریعے لڑو۔۔۔“
اگر آپ کو نسل پرست قاتل پولیس پر غصّہ آ رہا ہے اور اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو اس دہشت کو جنم دیتی ہے، تو اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اپنے غصّے کو انقلابی سیاست میں بدل ڈالیں۔ محنت کش طبقے کو ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی سخت ضرورت ہے جو ہر بڑے کام کی جگہ، محلے اور محنت کش طبقے میں اپنی بنیادیں رکھتی ہو۔ ہمیں ایک انقلابی پروگرام کی ضرورت ہے جو ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، جو اس خراب صورتحال کو بدلنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ معاشرے میں موجود بحران جیسے جیسے شدید ہوتا جائے گا، ان خیالات کی جانب مزید لوگ مائل ہوتے جائیں گے۔ مارکسزم کی قوتیں ملک بھر میں اگر زیادہ تعداد میں موجود ہوں گی تو ان سے مزدور تحریک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی اور مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر محنت کشوں کی سوشلسٹ پارٹی کا قیام ممکن ہو پائے گا۔
۔ سیاہ فام بھی جینے کا حق رکھتے ہیں
۔ محنت کشوں کی یکجہتی سے نسل پرستی کا خاتمہ کرو!
۔ قاتل پولیس کے خاتمے کے لیے سرمایہ داری کا خاتمہ کرو!
۔ دونوں نسل پرست پارٹیوں سے رشتے ناتے توڑ ڈالو اور محنت کشوں پر مشتمل بڑے پیمانے کی سوشلسٹ پارٹی کو تعمیر کرو!
۔ انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کے لیے عالمی مارکسی رجحان میں شمولیت اختیار کریں!