امریکی قرضہ جات حدبندی پر کوئی بھی معاہدہ کرنے کی ڈیڈ لائن میں چند دن رہ گئے ہیں لیکن کانگریس بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے۔ یکم جون یا اس کے آس پاس فیڈرل حکومت کے پاس اخراجات کے لئے پیسے ختم ہو جائیں گے اور ممکنہ طور پر ایک ایسا دیوالیہ رونما ہو سکتا ہے جس کی شدت پوری عالمی معیشت کے پرخچے اڑا سکتی ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کا اس حد تک بڑھ جانا امریکی سرمایہ داری کے بحران کا واشگاف اعلان ہے جو پہلے ہی اس بحران سے چور چور ہو چکی ہے۔
قرضہ جات حدبندی کا کھلواڑ
عام طور پر آخری لمحے تک قرضہ جات حدبندی پر بحث مباحثہ جاری رہتا ہے کیونکہ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز دونوں ایک دوسرے سے مراعات نکلوانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن آج امریکی سرمایہ داری کی حالت خاص طور پر بہت مخدوش ہے۔
حالیہ عرصے میں، خاص طور پر کورنا وباء کے دوران، امریکی حکمران طبقے کو دیوہیکل اخراجات کرنے پڑے ہیں کیونکہ یہ ریاست کا انتہائی نگہداشت وارڈ ہی تھا جس نے معیشت کو زندہ رکھا۔ نتیجے میں آج قرضہ مطلق اور نسبتی طور پر دیوہیکل ہو چکا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ (وزارت خزانہ۔ مترجم) کے مطابق کل عوامی قرضہ 31.42 ٹریلین ڈالر ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ یہ نئی حدبندی پچھلے سال دسمبر میں متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی جسے جنوری میں لاگو کر دیا گیا۔ اس وقت قرضے کا حجم سالانہ جی ڈی پی کے 100 فیصد سے بڑھ چکا ہے۔ ایسا دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
پھر ان دیوہیکل اخراجات کے نتیجے میں افراط زر کے بحران اور اس میں یوکرین جنگ کے تڑکے نے فیڈرل ریزرو (امریکی مرکزی بینک۔ مترجم) کو شرح سود بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے کہ کسی طرح معیشت کو سست کیا جا سکے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں دو درمیانے درجے کے بینکوں (SVB اور Signature) کا اس سال کے اوائل میں دیولیہ ہو چکا ہے۔ فیڈرل ریزرو نے پہلے ہی 2021ء میں افراط زر کو ”عارضی“ قرار دینے کے بعد لگاتار 10 مرتبہ شرح سود میں اضافہ کر کے کر اپنی ساکھ مجروح کر لی ہے جبکہ جون میں ایک اور اضافے کو خارج از امکان قرار دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پھر اسے SVB اور Signature بینکوں کے دیوالیے کو نظام میں پھیل جانے سے روکنے کے لئے مداخلت کرنی پڑی، اور ممکنہ دیوالیہ سے جو دیوہیکل معاشی زلزلہ آئے گا اس کے مقابلے میں ان بینکوں کا دیوالیہ تو محض ایک ناخوشگوار واقعہ ہی معلوم ہوگا۔
اس لئے اس وقت حکمران طبقہ عمیق سمندر اور اندھی کھائی کے درمیان پھنسا ہوا ہے کہ مزید اخراجات ناگزیر ہیں (اور موجودہ اخراجات کے لئے پیسہ درکار ہے) لیکن افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے اخراجات کو کم کرنا بھی لازم ہے۔
دوسری طرف فیڈرل ریزرو کچھ ناپسندیدہ آپشنز پر غور کر رہا ہے جن میں امریکی خزانے کے بانڈز (طے شدہ شرح سود پر امریکی ریاستی قرضہ جات سیکورٹیز جن کی معیاد 10-30 سال کے درمیان ہوتی ہے) کی خریداری ہے (ایک ہنگامی قدم جسے حال ہی میں بینک آف انگلینڈ نے اپنایا ہے) یا بینکوں کو دیوالیہ سیکورٹیز کو گروی رکھ کر نئے قرضے جاری کرنے کی اجازت دینا ہے۔
دوسرے الفاظ میں قرضہ جات حدبندی پر یہ ڈیڈلاک اس سے زیادہ برے وقت پر نہیں ہو سکتا تھا۔ شکاگو فیڈرل ریزرو کے صدر آسٹن گولسبی نے پچھلے مہینے ایک تقریر کے دوران کہا ہے کہ ”مالیاتی دباؤ کے لمحات خاص طور پر برا وقت ہوتے ہیں اور اگر اس دوران ایسے اقدامات لئے جائیں جو اپنے طور پر ایک مالیاتی بحران کو جنم دے سکتے ہوں، ایسا کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے منہ پر مکہ مار دیا جائے۔ مثال کے طور پر قرضہ جات حدبندی کی لڑائی میں امریکی خزانے کے بانڈز پر دیوالیہ ہونا“۔
ڈیڈلاک
دونوں روایتی بورژوا پارٹیوں کے نمائندے اس وقت سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن (جس کی مقبولیت 40 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے) کہہ چکا ہے کہ وہ نئی مشروط قرضہ جات حدبندی قبول نہیں کرے گا۔
اس دوران کانگریس اسپیکر کیفن میک کارتھی مطالبہ کر رہا ہے کہ اگر بائیڈن کو ری پبلیکن ووٹ چاہئیں تو وہ شدید کٹوتیاں کرے اور کمپنیوں اور زیادہ کمانے والوں پر نئے ٹیکسوں کو ختم کرے تاکہ 2024ء بجٹ کے لئے پیسے دستیاب ہو سکیں۔
جواب میں بائیڈن نے دھمکی دی ہے کہ اگر ری پبلیکن نہیں مانتے تو وہ امریکی آئین کی چودھیوں ترمیم (1868ء میں منظور ہونے والی ترمیم جس کے تحت تمام سابق غلاموں کو امریکی شہریت دی گئی اور ”تمام شہریوں کی تمام قوانین میں مساوی حفاظت“ یقینی بنائی گئی۔ یعنی بائیڈن بطور صدر اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے قرضہ جات حدبندی کو نظر انداز کر سکتا ہے تاکہ معاشی نکتہ نظر سے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اگرچہ اس دلیل کی حمایت اور مخالفت امریکہ میں شدت اختیار کر رہی ہے۔ مترجم) کو استعمال کرے گا جس کے تحت وہ قرضہ جات حدبندی کو نظر انداز کر سکتا ہے اگرچہ اس قدم کے قانونی اور آئینی نتائج میں یہ آپشن ایک جوہری بم ثابت ہو سکتا ہے۔
ہم نے ایسے تماشے پہلے بھی دیکھے ہیں۔ اگرچہ دونوں پارٹیوں کے قائدین قرضہ جات حدبندی کو استعمال کر کے تھیٹر لگائے بیٹھے ہیں لیکن حتمی طور پر بحیثیت مجموعی امریکی سرمایہ دار طبقے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ فیڈرل حکومت قرضوں پر دیوالیہ ہو جائے۔
اسی طرح ڈیموکریٹس یا ری پبلیکنز کو بھی دیوالیہ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں جس کی قیمت ہمیشہ محنت کش طبقے نے ادا کی ہے۔ یقینا ان بحث مباحثوں کا مقصد ہی غیر مقبول کٹوتیوں کو لاگو کرنا ہوتا ہے۔
لیکن قرضہ جات حدبندی پر یہ متواتر تماشے اب مسلسل تلخ ہونے کے ساتھ دیوالیے کی اندھی کھائی کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں جو ایک مرتبہ پھر امریکی حکمران طبقے میں شدت اختیار کرتی تقسیم کا شاخسانہ ہیں۔
پہلے ہی امریکی سرمایہ داری کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے جس کے اثرات پوری عالمی معیشت پر پڑ رہے ہیں۔ ڈالر پوری دنیا کی حقیقی ریزرو کرنسی (ایسی کرنسی جسے تمام ممالک جمع کر کے رکھتے ہیں اور تمام معاشی معاملات اسی کرنسی میں طے پاتے ہیں۔ مترجم) ہے جبکہ امریکہ اور پوری دنیا میں امریکی خزانے کے بانڈز سرمایہ کاروں، فنڈ منیجروں اور بچت کرنے والے عام شہریوں کے لئے کلیدی اثاثہ ہیں۔ دونوں کو کسی قسم کا خطرہ عالمی منڈیوں کے لئے کسی بھیانک ترین خواب سے کم نہیں ہے۔
دیوالیہ ہونے کے نتائج کیا ہوں گے؟
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کسی بھی کھلواڑ میں تباہی کا خطرہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور اس اثناء میں دم توڑتی امریکی سرمایہ داری اور اس کے سیاسی نمائندوں کی تنگ نظری جلتی پر تیل کا کام دے رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز اخبار کے رابرٹ ہاکیٹ نے کسی معاہدے کے بغیر حدبندی کی تاریخ گزر جانے کے تباہ کن نتائج کی نشاندہی کی ہے: ”اس سے ہیملٹن اور اس کے جانشینوں کی ساری محنت رائیگاں جائے گی۔۔۔ایک قومی کریڈٹ ریٹنگ جو کسی شک و شبہے سے بالاتر ہو۔ ہم امریکی بینکاری، امریکی مالیاتی منڈیوں اور عالمی سرمایہ منڈیوں میں دیوہیکل زلزلہ دیکھیں گے۔۔۔نتائج اور بھی گھمبیر ہو سکتے ہیں“۔
دیوالیہ کے عین نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن کچھ مظاہر کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
ڈالر منہدم ہو جائے گا اور قرضوں کو حاصل کرنے کی قیمت فلک شگاف ہو جائے گی۔ ریاستی سرپرستی میں موجود صحت کی سہولیات اور پنشن فنڈز ایک کچے دھاگے سے لٹک جائیں گے۔ سوشل سیکورٹی ادائیگیاں تاخیر کا شکار ہو جائیں گی۔ درآمدات کی لاگت بڑھ جائے گی اور افراط زر میں اضافہ موجودہ افراط زر کو مذاق بنا دے گا۔ ہاکیٹ کے مطابق ”صورتحال موجودہ یا 1970ء دہائی کے برعکس بیس سال پہلے ارجنٹینا یا روس سے زیادہ قریب ہو گی“۔
دیوالیوں اور کاروباروں کی بندشوں کا ایک سیلاب امڈ آئے گا جبکہ قرضوں کی ادائیگی شدید گراں ہو جائے گی جس سے ریاستی خسارہ مزید بڑھے گا۔ موڈی اینالیٹکس (عالمی مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی۔ مترجم) کا اندازہ ہے کہ اگر دیوالیہ ہوتا ہے تو 78 لاکھ نوکریاں ختم ہو جائیں گی اور گھرانوں کی دولت میں مجموعی طور پر 10 ٹریلین ڈالرز کمی واقع ہو گی۔
پھر امریکہ ”بیرون ملک عسکری اڈے اور دیگر اثاثے جاری رکھنے سے قاصر ہو جائے گا“ (ہاکیٹ کے مطابق)، یعنی دنیا کی سب سے اہم سامراجی قوت کی عالمی پہنچ بانجھ ہو کر رہ جائے گی۔
امریکی معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے اور سابق سیکرٹری خزانہ (امریکی وزیر خزانہ: مترجم) جیکب لیو نے کونسل آن فارن ریلیشنز میں ایک میٹنگ کے دوران کہا کہ ”اگر ہم دیوالیہ ہو جائیں تو کسادبازاری کے امکانات تقریباً یقینی ہیں“۔
2007-2008ء میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ معیشت میں کسادبازاری کا پوری دنیا میں اثر پڑتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر امریکی قرضہ اندرونی ہے لیکن 24 فیصد یا 7.4 ٹریلین ڈالرز کا قرضہ دیگر ممالک کے پاس ہے۔ عالمی معیشت کا دیوہیکل حصہ ان سرمایہ کاریوں پر منحصر ہے جسے ”سونے کے برابر“ سمجھا جاتا ہے۔
دیوالیہ ان بانڈز کو فوری طور پر عالمی کساد بازاری کا نکتہ آغاز بنا دے گا جس سے عالمی تجارت میں ڈالر کے کلیدی کردار پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
سب سے بڑھ کر امریکی سیکرٹری خزانہ جانیٹ یلین کے مطابق ”حکومتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی سے امریکی معیشت، تمام امریکیوں کی زندگیوں اور عالمی مالیاتی استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا“۔
ایسی صورتحال کا خطرہ بھی ناقابل تصور ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کی ساکھ ناقابل تلافی حد تک مجروح ہو چکی ہے جس کے لاپرواہ نمائندے پورے سرمایہ دارانہ نظام کے مستقبل پر جوا کھیل رہے ہیں۔
2011ء میں قرضہ جات حدبندی پر لڑائی کے دوران S&P (عالمی مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی۔ مترجم) نے امریکی کریڈٹ ریٹنگ AAA سے AA+ کر دی تھی اگرچہ ڈیڈلائن سے چند لمحات پہلے قرضہ جات حدبندی کو بڑھا دیا گیا تھا کیونکہ اس سارے کھلواڑ میں امریکی خزانے کے بانڈز کو پرخطر سرمایہ کاری سمجھا جا رہا تھا۔ اس قدم کے فوراً بعد عالمی سٹاک منڈیاں ہیجان کا شکار ہو گئی تھیں۔
آج بے قابو افراط زر، قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ اور تحفظاتی پالیسیوں میں بڑھوتری کی موجودگی میں 2011ء کے مقابلے میں عمومی معاشی صورتحال بہت زیادہ گھمبیر اور پرانتشار ہے۔ اس لئے اگر آخری لمحے میں کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو ریٹنگ میں ایک اور سنجیدہ کمی سرمایہ داری کی لاغر مالیاتی بنیادوں میں دیوہیکل بم کا کردار ادا کر سکتی ہے۔
یہ ہمارا قرضہ نہیں! قرضہ سرمایہ دار ادا کریں!
دیوالیہ کے نتیجے میں نظام کو لاحق خطرہ اس طرح کی صورتحال کو بعیدالقیاس بنا دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بائیڈن اور میک کارتھی نے مبینہ طور پر آپس میں ”حوصلہ افزاء“ گفتگو کی ہے۔۔۔اور اس دوران اشتعال انگیز لفاظی کو بڑھاتے ہوئے زور دیا ہے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
بہرحال اس سارے تماشے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ امریکی معیشت میں اندرون اور بیرون ملک اعتماد مزید کمزور ہو گا جسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پہلے ہی پوری دنیا شدید عدم استحکام اور غیر یقینی سے دوچار ہے۔
جہاں تک امریکی سرمایہ داری کے سیاسی نمائندوں کا تعلق ہے تو وہ اندھی کھائی کی طرف آنکھیں کھولے تیزی سے رواں دواں ہیں! یہ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کے عمومی انحطاط اور پوری سرمایہ داری میں بڑھتی غیرتعقلی کا واضح ثبوت ہے کہ تباہی و بربادی کے ساتھ تواتر سے بڑھتی اس لاپرواہی کو یہاں تک پہنچا دیا گیا ہے۔
یہ تمام علامات ایک ایسے معاشی اور سماجی نظام کی ہیں جو عرصہ دراز پہلے اپنی فطری عمر پوری کر چکا ہے۔ اسے قریب المرگی سے آزاد کر کے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا اور اس کی جگہ ایک نیا تعقلی معاشی نظام تعمیر کرنا ہو گا جس کی بنیاد سوشلسٹ منصوبہ بندی اور محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہو۔
سب سے پہلے عالمی مارکسی رجحان مطالبہ کرتا ہے کہ تمام قومی قرضہ جات منسوخ کئے جائیں اور ارب پتیوں کی دیوہیکل دولت کو فوری قبضے میں لیا جائے تاکہ محنت کشوں اور غرباء کی پینشنوں اور بچتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ہم سرمایہ داروں کے قرضوں کی واپسی کے ذمہ دار نہیں ہیں جس کی بنیاد جنگی اخراجات، بڑے کاروباروں کی سبسڈیاں اور سرمایہ داری کی انتہائی نگہداشت وارڈ میں دیکھ بھال ہے۔
ایک محنت کش حکومت معیشت کے تمام کلیدی شعبوں جیسے بینکاری اور کمپنیوں کو ایک تعقلی سوشلسٹ منصوبہ بند پیداوار کے تحت محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے گی۔
اس بنیاد پر ہم سرمایہ داری کا خاتمہ کر سکتے ہیں جو پورے پورے سماج تباہ و برباد کر رہی ہے اور ”متوازن بجٹ“ اور ”قرضہ جات حدبندی“ سے متعلق تمام فضول اور لایعنی بحث مباحثے کا خاتمہ کرتے ہوئے مفت اور اعلیٰ معیار رہائش، صحت اور تعلیم کی سہولیات پوری آبادی کو فراہم کر سکتے ہیں۔
آج یہ تمام اقدامات کرنے کے لئے وسائل موجود ہیں۔ لیکن ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں امریکہ میں ایک محنت کش سیاسی پارٹی درکار ہے جو سوشلسٹ پروگرام کے لئے جدوجہد پر ثابت قدمی سے قائم ہو۔ اگر آپ اپنی زندگی میں ایک ایسی پارٹی اور ایک سوشلسٹ مستقبل کے لئے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو عالمی مارکسی رجحان کے ممبر بنیں!