2021ء کا آغاز ایک دھماکے کے ساتھ ہوا۔ اگر امریکہ میں سرمایہ دارانہ بحران کی گہرائی کے بارے میں کوئی ابھی تک شکوک و شبہات کا شکارتھا تو حالیہ واقعات نے ان کا خاتمہ کر ڈالا ہے، اور یہ تو محض شروعات ہے۔ امریکی خانہ جنگی کے ہنگامہ خیز دنوں میں بھی امریکی پارلیمان پر اس طرح کا دھاوا کسی نے نہیں بولا تھا، جبکہ امریکی صدر اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا! انسدادِ دہشت گردی کی ہنگامی صورت حال میں تمام اقدامات بروئے کار لائے گئے اور راہداریوں میں آنسو گیس پھینکے گئے، اطلاعات کے مطابق کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے مارا گیا۔ سابقہ صدر جارج بش کے الفاظ میں یہ مناظر کسی تیسری دنیا کے ملک کا نقشہ پیش کر رہے تھے، نہ کہ عالمی سامراجیت کے گڑھ کا۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
امریکی سرمایہ داری اور اس کے اداروں کی حالت ایک دیمک زدہ گھر جیسی ہو گئی ہے، جو اس کے اندر تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سطح کے اوپر سب کچھ ٹھیک نظر آ رہا ہوگا مگر جونہی آپ زمین پر پاؤں رکھیں گے تو سطح میں سوراخ ہو جائے گا اور آپ کا پاؤں اس میں دھنس جائے گا۔ جدلیات کے مطابق چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوتی ہیں۔ بڑے سرمایہ دارانہ ممالک کی فہرست میں امریکہ دہائیوں تک سب سے زیادہ مستحکم اور طاقتور رہا ہے۔ جبکہ آج، ساری دنیا دائیں بازو کے مظاہرین کو پارلیمان پر ہلہ بولتے دیکھ رہی ہے، جو تین انتہائی اہم ریاستی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ بظاہر طاقتور اور مضبوط نظر آنے والی امریکی ریاست کے ”قادر مطلق“ ادارے کسی کھوکھلی عمارت کی طرح ہیں، جس کی حقیقت سامنے آ چکی ہیں۔
سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کے نامیاتی بحران کی وجہ سے عالمی سامراجیت کا قلعہ سماجی عدم استحکام اور زوال کا شکار ہوا ہے۔ اس کا اظہار دائیں بازو اور بائیں بازو میں شدید پولرائزیشن اور سیاسی کنفیوژن کی صورت میں بھی ہو رہا ہے۔ محنت کش طبقے کے بیچ تقسیم کی وجہ سرمایہ داری کا بحران اور طبقاتی بنیادوں پر منظم ایک بے باک سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت کا نہ ہونا ہے۔ اگر دہائیوں سے جمع ہوتے ہوئے محنت کش طبقے کے غصّے کو ایک نئی عوامی پارٹی بنانے اور یونینوں کو طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کی جدوجہد کے لیے منظم کرنے پر صرف کیا جاتا تو پچھلے سال اور آج کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔
حالیہ برسوں میں بہت تیزی کے ساتھ شدید تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ افراتفری اور کنفیوژن کے حالات میں ایک مناسب قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے محنت کش طبقے کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مگر اس صورتحال سے کئی مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ لینن نے وضاحت کی تھی کی سماج کے قبل از انقلاب والے عرصے میں داخل ہونے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حکمران طبقہ تقسیم ہو جاتا ہے اور روایتی انداز میں حکومت نہیں کر سکتا۔ آج حکمران طبقے اور اس کے سیاستدانوں کے بیچ اختلافات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، اس کی مثال امریکی خانہ جنگی سے پہلے والی صورت حال والے عرصے میں ہی مل سکتی ہے۔
پچھلی کچھ صدیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ جب متصادم اور منجمد ہو کر رہ جاتا ہے تو عوام اپنے لیے اسے بنیادی تبدیلی لانے کا موقع سمجھ کر دھاوا بول دیتے ہیں۔ البتہ جو ہم نے حال میں دیکھا، وہ محنت کشوں کی اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے کر سماج کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں تھی۔ اس سے کئی لوگوں کو انقلاب کا فریب تو دیا گیا مگر نسل پرستوں پر مشتمل اس ہجوم کا انقلاب سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یہ ایک رد انقلابی بھیڑ تھی جو اپنے لیے موقع سمجھ رہے تھے کہ عالمی سامراجیت کی اہم عمارت پر دھاوا بول کر اور ڈرا دھمکا کر اسے مزید دائیں بازو کی جانب دکھیل دیں۔
پارلیمان میں انتشار
یہ بات پہلے سے متوقع تھی کہ 6 جنوری کو جب پارلیمنٹ میں الیکشن کے حتمی نتائج پیش کیے جائیں گے تو واشنگٹن میں کشیدگی والی صورتحال سامنے آئے گی۔ یہ ٹرمپ کا الیکشن کو ایک دھوکہ ثابت کرنے کی آخری کوشش تھی جب اس نے اسی دن ”امریکہ بچاؤ مارچ“ کا انعقاد کیا۔
اس جلسے میں اس کے انتہائی پرجوش حامیوں نے ہزاروں کی تعداد میں شمولیت کی، جن میں سے کئی ملک بھر کے دیہاتوں سے آئے ہوئے تھے اور انتہائی دائیں بازو کی مختلف تنظیموں اور رجعتی عناصر نے شرکت کی۔
وہی ٹرمپ جس نے بلیک لائیوز میٹر تحریک کی شدید مخالفت کرتے ہوئے جون کے مہینے میں فوج کو استعمال کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اب اپنے حامیوں کی ایک چھوٹی تعداد کو بڑے پر امن انداز میں مخاطب کر رہا تھا۔ اس نے اپنے حامیوں کو پینسلوینیا ایوینو جا کر امریکی پارلیمان پر اپنے غصّے کا اظہار کرنے کو کہا۔ ٹرمپ کے ذاتی وکیل ریوڈی گلیانی نے لڑائی کے ذریعے فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا۔
جس طرح بلیک لائیوز میٹر تحریک کے احتجاجوں میں پولیس اور نیشنل گارڈ کے خصوصی دستوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا تھا، اس کے برعکس اب کی بار پولیس کی تیاری نہیں تھی اور وہ مظاہرین کے ساتھ ہمدردی دکھا رہے تھے۔ دایاں بازو کئی ہفتوں سے انٹرنیٹ پر پر تشدد اقدامات کی کھلے عام منصوبہ بندی کر رہا تھا مگر اس کے باوجود پولیس کی وہ تعداد اور اسلحے بالکل غائب تھے جو انہوں نے سیاہ فاموں کی تحریک پر استعمال کیے تھے۔
دوپہر 2 بجے کے قریب جب ٹرمپ کے حامی پارلیمانی ممبران الیکشن پر تنقید کر رہے تھے تو باہر موجود بھیڑ پولیس رکاوٹوں میں سے گزرتی ہوئی شیشے توڑ کر اور دیواریں پھلانگ کر عمارت میں داخل ہونے لگ گئی۔ اس کی خبر جلد ہی پوری دنیا میں پھیل گئی اور لوگ اس بھیڑ کو پارلیمان میں داخل ہوتے اور سینیٹروں کو حفاظتی مقامات پر منتقل ہوتا دیکھ رہے تھے۔
مظاہرین عمارت کے اندر جوق در جوق داخل ہوتے رہے اور پارلیمانی اجلاس کو روکنا پڑ گیا۔ وہ سپیکر نینسی پیلوسی سمیت مختلف ممبران کے دفاتر میں داخل ہو گئے اور ان کی دستاویزات کو فخریہ انداز میں اپنے قبضے میں لے لیا۔ آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے ایف بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کو عمارت خالی کروانے کے لیے بلایا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی کے سارے نیشنل گارڈ، جن کی تعداد 2700 تھی، اور ورجینیا نیشنل گارڈ جن کی تعداد 650 تھی، کو امن بحال کرنے کے لیے متحرک کیا گیا۔ کئی گھنٹوں بعد نیو یارک کے گورنر نے 1000 کی تعداد میں نیو یارک نیشنل گارڈ کے اضافی دستے بھی مدد کے لیے بھیج دیے۔ ملک بھر کے کچھ دیگر ریاستی دارالخلافوں میں بھی حکومتی عمارتوں پر حملے اور مظاہرے کیے گئے، مگر واشنگٹن ڈی سی جیسی صورت حال باقی مقامات پر نہیں تھی۔
ٹرمپ اور اس کے پارلیمانی ساتھیوں کا ہر گز یہ ارادہ نہیں تھا کہ مظاہرین پارلیمان پر دھاوا بول دیں، مگر یہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو گئی تھی۔ جب انتہائی دائیں بازو نے ورجینیا میں مارچ کیا تو ٹرمپ نے اس کی گرمجوشی کے ساتھ حوصلہ افزائی کی۔ اس سے قبل صدارتی مناظرے کے دنوں میں اس نے دائیں بازو کی تنظیموں کو کہا تھا کہ میری مدد کے لیے تیار ہو کر انتظار کرتے رہو۔ انتظار سے اکتا کر ٹرمپ کے شکاری کتوں نے اپنی زنجیریں توڑ دیں اور اپنے مالک کے دشمنوں کو کاٹنے کے لیے دوڑ پڑے۔
کیا یہ بوناپارٹسٹ ’کو‘ کی کوشش تھی؟
بلاشبہ یہ ڈرامائی واقعات تھے! مگر بطورِ مارکس وادی ہمیں حس تناسب برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ امریکی حکومت کا تختہ الٹنے اور محنت کشوں اور بائیں بازو کو پاش پاش کرنے کے لیے فاشسٹ حکومت قائم کرنے کی کوئی منظم بغاوت نہیں تھی۔ بالکل بھی نہیں! ملک میں محنت کش طبقے کی اکثریت موجود ہے جو اگر اپنے مفاد کی خاطر لڑنے نکل پڑے تو اس غلاظت سے چٹکی بجاتے ہی چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
بوناپارٹزم، جو نیپولین بوناپارٹ سے منسوب ہے، سماج میں گہرے اور دیرپا عدم استحکام کے بعد ہی ابھر سکتا ہے، جب طبقاتی جدوجہد تھک ہار کر بند گلی میں پھنس چکی ہو۔ ایسے حالات میں کچھ ایسی شخصیات کا جنم ہوتا ہے جو طبقات سے بالاتر ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور کبھی ایک طبقے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کبھی دوسرے طبقے اور پرت کو، اور ریاستی مشینری استعمال کرتے ہوئے امن لا کر ”تلوار کا قانون“ نافذ کرتے ہیں۔
بوناپارٹسٹ بننے کے لیے فوج کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت لازمی ہوتی ہے جو کہ ٹرمپ کے پاس نہیں ہے۔ کچھ دن قبل سابقہ دس وزراء دفاع نے مل کر واشنگٹن پوسٹ میں ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا جس میں الیکشن کے نتائج کی تصدیق کی گئی اور خبردار کیا کہ الیکشن میں فوج کی مداخلت سے ہم خطرناک، لا قانونیت اور غیر آئینی سماج میں دھکیل دیے جائیں گے۔ اگر فوج کسی معاملے میں مداخلت کرے گی بھی تو وہ ٹرمپ کو صدارت سے ہٹانے کے لیے ہوگی، نہ کہ اسے آمر بنانے میں!
آمریت قائم کرنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کی تنظیمیں کافی نہیں ہیں، نہ ہی وہ ریاستی مشینری کا حصہ ہیں (گو کہ کچھ ممبران انفرادی طور پر پولیس اور فوج کے اندر موجود ہیں)۔ یہ مختلف تنظیمیں تعداد میں انتہائی کم ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انفرادی طور پر فسادات کرنے کے قابل ہیں۔ ابتدائی مرحلے کے کینسر کا اگر علاج نہ کیا جائے تو وہ بھی بڑھ کر مہلک ثابت ہو سکتا ہے، اسی لیے محنت کش طبقے کو متحرک کر کے ان سے جلد ہی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان سے سنجیدہ نقصان کا خطرہ تب ہی ہوگا اگر محنت کش اگلے ایک یا دو دہائیوں میں اقتدار لینے میں ناکام رہے اور بار بار شکستوں سے دو چار ہوتے رہے۔ مگر موجودہ مرحلے پر رد انقلاب کے وار سے مزید عدم استحکام پیدا ہوگا جو محنت کشوں کو متحرک کرنے کا باعث بنے گا۔
ان کے مخالف ترقی پسندوں کی ایک قوت تیار ہو رہی ہے جو امریکی سماج میں موجود نسل پرست رجعتیوں سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ ان لاکھوں لوگوں کی اکثریت جنہوں نے جارج فلوئڈ کے قتل پر بننے والی تحریک میں براہِ راست شرکت کی یا بغیر شریک ہوئے اس کے مطالبات کی حمایت کی، وہی اس ملک کا انقلابی مستقبل ہیں۔ اس تحریک کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا اور کسی بھی وقت وہ مزید شدت کے ساتھ ابھر سکتی ہے۔
ٹرمپ کی خیالی دنیا اور ریپبلکن پارٹی کے اندرونی اختلافات
نظامِ تعلیم، بورژوا سیاستدان، ریاستی میڈیا، مذہبی حلقے اور دیگر سرمایہ دارانہ ادارے ہر وقت یہ باور کرانے میں لگے رہتے ہیں کہ امریکی ریاست دنیا کی اب تک کی سب سے جمہوری ریاست ہے۔ مارکس وادی یہ دعوے تسلیم نہیں کرتے۔ ہم دنیا کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح کہ وہ حقیقت میں ہے۔
ٹرمپ نے نا دانستہ طور پر حقائق کو مزید واضح کرنے میں مدد کی ہے۔ الیکشن میں ارب پتیوں کی شدید مداخلت سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ امریکی ”جمہوریت“ برابری کی بنیاد پر نہیں چلتی۔ سب سے بڑھ کر حکومتی پالیسیوں میں عوام کی اکثریت کی خواہشات کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ ریاستی ادارے جو بھی فیصلے کرتے ہیں، وہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اس کی حفاظت کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ معاشی اور سماجی بحران کے دور میں سوچ سمجھ کر حکمتِ عملی بنانے کی فرصت نہیں ہوتی۔
سرمایہ دار طبقے کو حال اور مستقبل میں سب سے بڑھ کر نظام بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگ اس سراب کا شکار رہیں کہ وہ فیصلہ سازی میں حصہ رکھتے ہیں تو وہ ان کی پالیسیوں کو برداشت کرتے رہیں گے۔ مگر حالاتِ حاضرہ کا گہرا عدم اعتماد دائیں اور بائیں بازو دونوں میں تبدیلیاں لانے کا باعث بن رہا ہے۔ جونہی عوام حقائق کو جاننے لگ جاتے ہیں، عدم استحکام بڑھتا جاتا ہے اور سرمایہ داری کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اسی کے ساتھ نظام کو تبدیل کرنے کے مواقع بھی کھلتے رہتے ہیں۔
ٹرمپ کو محض اپنی ذاتی مفاد کی پڑی رہتی ہے۔ اس کے اس رویے کی وجہ سے اکثریت پر طبقاتی تفریق کی حقیقت واضح ہوئی ہے، جس کو ایک لمبے عرصے تک مختلف طریقوں سے چھپایا گیا تھا۔ ٹرمپ اور حکمران طبقے کی اکثریت کے بیچ تصادم کی ایک اہم وجہ یہی ہے۔
شروع سے ہی ٹرمپ نے بار بار امریکی الیکشن کے نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ 2016ء میں صدارتی الیکشن جیتنے میں تو کامیاب ہوا تھا مگر پاپولر ووٹ میں اسے تیس لاکھ ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ صدر بننے کے باوجود وہ اس بات پر بضد رہا کہ الیکشن میں بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے اور دعویٰ کیا کہ اس نے پاپولر ووٹ بھی حاصل کیا تھا۔ 2020ء کے الیکشن کی شروعات میں اس نے کہا کہ وہ محض دھوکے کی صورت میں ہارے گا اور وعدہ کیا کہ وہ پر امن طریقے سے صدارت نہیں چھوڑے گا۔
ٹرمپ نے نومبر سے اپنے مشیروں کی مدد کے ساتھ الیکشن میں دھوکے کے خیال کو پھیلایا ہے۔ جب ریپبلیکن کے اپنے بندے کرس کریبز، جس کو تکنیکی معاملات کی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا، نے الیکشن میں دھوکے کا انکار کیا تو اسے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہاں تک کہ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اٹارنی جنرل ولیم بار کو بھی تب عہدے سے ہٹا دیا گیا جب اس نے کھلے عام الیکشن میں دھوکے کا انکار کیا۔
جارجیا کے ریاستی سیکرٹری براڈ رافنس پرگر کے ساتھ حالیہ فون کال سے ٹرمپ کا ووٹ کی ”عزت“ کرنے کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ دائیں بازو کا ریپبلیکن اور ٹرمپ کا حامی ہونے کے باوجود رافنس پرگر جارجیا میں ووٹ کی گنتی کی نگرانی کرتا رہا اور اس کی تصدیق کی، اگرچہ اس کا نتیجہ بائیڈن کے حق میں نکلا تھا۔ ٹرمپ نے اس سے ”دوبارہ گنتی“ کر کے ان 11 ہزار 780 ووٹوں کو ”ڈھونڈ نکالنے“ کا مطالبہ کیا جو اس کی جیت کے لیے درکار تھے۔
ٹرمپ نے صدر برقرار رہنے کے لیے جان توڑ کوششیں کی ہیں، جس کا نتیجہ ریپبلیکن پارٹی کے اندرونی اختلافات شدید ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ اختلافات تب سے متوقع تھے جب اس نے 2016ء میں پارٹی کی روایتی قیادت کے اوپر برتری حاصل کر لی تھی، جس کے نتیجے میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔ 2020ء میں شکست کھانے کے بعد بھی پارٹی اس کے زیرِ اثر رہی۔ مگر شلست تسلیم نہ کرنے والے اس بچگانہ رویے کی وجہ سے پارٹی کے کئی لوگ اس پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یا تو سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اداروں کی مخالفت کریں یا ٹرمپ کی۔
سرمایہ دار طبقے نے عموماً اس سے پہلے بھی ٹرمپ کو اپنے نمائندے کے طور پر نہیں دیکھا اور ابھی اس کی بھرپور مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ اس میں بڑے کاروباروں کے تاریخی ترجمان امریکی چیمبر آف کامرس اور 14 ہزار بڑی کارپوریشنوں کی نمائندگی کرنے والی نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز شامل ہیں۔ آخر الذکر نے نائب صدر مائیک پینس سے مطالبہ کیا کہ ٹرمپ کو صدارت کے آخری دو ہفتے پورے کرنے سے پہلے عہدے سے ہٹانے کے بارے میں ”سنجیدگی سے سوچا جائے“۔ یہاں تک کہ روپرٹ مردوخ کی ترجمان، نیویارک پوسٹ نے بھی آخرکار ٹرمپ کو الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کا کہا، جس نے ماضی کے اندر ہر حال میں ٹرمپ کا ساتھ دیا ہے۔
آگے کا راستہ
اس دوران جبکہ وباء اور معاشی بحران جاری ہے، ہمیں محنت کشوں کی زبردست طاقت کو بھولنا نہیں چاہئیے۔ ملک کی سب سے بڑی اکثریت محنت کش طبقے پر مشتمل ہے، جس کے بغیر نہ تو کچھ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ نہ صرف سرمایہ دارانہ معیشت کو مکمل طور پر روک سکنے کا اہل ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ واحد سماجی قوت ہے جو ٹرمپ ازم کو شکست دیتے ہوئے سماج کو بنیادی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔
مزدوروں کو بے باک سماجی مطالبات کے پروگرام کے گرد جدوجہد کے لیے متحرک ہونا چاہئیے، جس میں کم از کم ہفتہ وار اجرت ایک ہزار ڈالر مقرر کرنا، گھریلو بے دخلی کا اور دس فیصد آمدنی سے زیادہ کرائے کا خاتمہ کرنے کے مطالبات شامل ہونے چاہئیں۔ اگر ان مطالبات کو یونین میں موجود لاکھوں محنت کش لے کر آگے بڑھیں تو بحران کی گہرائی کی وجہ سے اس پر لاکھوں لوگ لبیک کہیں گے اور ملک بھر میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ کی وہ کوششیں بھی رد ہو جائیں گی جو وہ خود کو ”محنت کش طبقے کا دوست“ ثابت کرنے کے لیے کر رہا ہے۔
ان مطالبات پر ایک بڑی تحریک ابھرنے کے بعد محنت کش طبقے کے اندر تفریق کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور وہ طبقاتی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ مگر ایسا قیادت کی عدم موجودگی میں نہیں ہو سکتا۔ محنت کشوں کی نئی نسل میں موجود عدم اطمینان اور بڑھتے ہوئے طبقاتی شعور کے باوجود یونین کے قائدین اس طرح کا مؤقف نہیں اپنا رہے۔ مارکس وادیوں کو ان تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو یونین کے اندر حزب اختلاف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انقلابی مارکس وادی خیالات کے ساتھ ان کی جدوجہد میں سرایت کرنی چاہئیے۔ لاکھوں محنت کش طبقاتی جدوجہد کا راستہ اپنا رہے ہیں، جس کا اظہار یونین قیادت کے بغیر احتجاجوں سے ہوتا ہے جو وباء کے بعد سے جنم لے رہی ہیں اور جس میں انہوں نے اہم اداروں کے اندر نئی یونینیں بنانے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ گوگل میں۔
اگرچہ ٹرمپ کے دور حکومت میں چند دن ہی بچے ہیں مگر اسے پچیسویں ترمیم کے ذریعے صدارت سے ہٹانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے مطابق اسے صدر کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے جو صدارت نہ چھوڑنے پر بضد ہو۔ کورونا وباء ابھی تک پھیل رہی ہے اور اکثریت کے ویکسین سے محروم ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر اموات واقع ہو رہی ہیں۔ جارجیا میں حالیہ جیت کے بعد ڈیموکریٹس پارلیمان اور صدارت دونوں جیت چکے ہیں۔ شدید ہوتے معاشی بحران میں اب ان پر امتحان کی گھڑی آ چکی ہے، کیونکہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس مشکلات میں گھرے لاکھوں محنت کشوں کی مدد نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں بچا۔
واقعات کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم صورتحال کا مزید تجزیہ کریں گے۔ مگر ایک بات صاف ظاہر ہے؛ طبقاتی جدوجہد اور انقلابی تحرک کے ذریعے ہی مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔ امریکی بایاں بازو اسی وجہ سے کمزوری کا شکار رہا ہے کیونکہ ان کی اکثریت ڈیموکریٹس کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ بربادی اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ صحیح راستہ چننے میں ابھی دیر نہیں ہوئی! انقلابی مؤقف، طبقاتی پروگرام اور تنظیم سے لیس ہو کر محنت کش طبقہ ایسی قیادت تخلیق کرنے کا اہل ہے جس سے امریکی سرمایہ داری کی موجودہ اور مستقبل میں آنے والی وحشتوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ مزدور حکومت کے لیے لڑو! ٹرمپ ازم کا خاتمہ محض انقلابی سوشلزم ہی کر سکتا ہے!
ہم امریکی بورژوا جمہوریت اور عالمی سرمایہ داری کو آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ موضوعی عنصر کو تخلیق کرنا مارکس وادیوں کا تاریخی فریضہ ہے تاکہ محنت کش طبقے کو متحرک کر کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ انقلابی جمہوریت کو قائم کیا جا سکے اور بے شمار مسائل سے جان چھڑائی جا سکے۔ انقلاب کے جاری عمل کی وجہ سے لاکھوں لوگوں میں شعوری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور انہیں انقلاب کا راستہ چننے پر مجبور کر رہی ہیں۔ اگر آپ ان باتوں سے اتفاق کرتے ہیں تو ہم آپ کو عالمی مارکسی رجحان میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔