تائیوان کا قومی سوال اور تائیوانی مارکس وادیوں کی ذمہ داریاں

امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی نے حال ہی میں تائیوان کا دورہ کیا ہے جس کے بعد تائیوانی قومی سوال ایک مرتبہ پھر عالمی سیاست کی توجہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ تائیوان ایک آزاد ریاست ہے لیکن چینی حکومت کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ یہ جزیرہ اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ امریکہ نے اس دوران دہائیوں اپنا موقف دانستہ طور پر مبہم رکھا ہے۔ اس دانستہ توازن کے تابوت میں پیلوسی کا دورہ ایک اور کیل ثابت ہو رہا ہے جس کے بعد پورا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔

[Source]

یہ تحریر تقریباً 6 ماہ پہلے لکھی گئی تھی جسے اب موجودہ صورت حال کی مناسبت سے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اپنے تندوتیز دورے کے دوران پیلوسی نے ”اٹل“ یقین دہانی کرائی کہ امریکہ تائیوان میں ”جمہوریت کی بقاء“ کے لئے پر عظم ہے۔ لیکن جب وہ جزیرے میں ”جمہوریت کے دفاع“ اور ”انسانی حقوق“ کی بات کرتی ہے تو قطعاً اس کی مراد تائیوانی عوام اور ان کے جمہوری حقوق نہیں ہیں۔ اس کے برعکس یہ عالمی سٹیج پر امریکی سامراج کے ایک نمائندے کی اپنے سب سے طاقت ور حریف کو درپردہ دھمکی ہے۔

اس مقصد کے لئے امریکی اور تائیوان میں موجود ان کی کٹھ پتلیاں تائیوانی قوم پرستی کو مسلسل ابھار رہے ہیں اور چین کے ساتھ ملکی تعلقات تائیوانی سیاست میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان تمام مباحثوں میں ملک کی رسمی حیثیت سب سے اہم سوال بن چکی ہے۔

تائیوان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ رسمی آزادی کا اعلان کر دے یعنی دیگر اقوام کے ساتھ آزادانہ سرکاری سفارتی تعلقات اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی ممبرشپ یا پھر چین کے ساتھ دوبارہ الحاق کر لے جس میں چینی ریاست حکمران ہو؟ پچھلے چند سالوں میں اس بحث مباحثے کے دونوں طرف موجود تائیوانی بورژوازی نے اس سوال کو سب سے زیادہ اہم بنا دیا ہے۔

لیکن بطور مارکس وادی ہم کسی بھی پہلو کی طرف داری سے واضح انکار کرتے ہیں کیونکہ محنت کش طبقے اور غرباء کے نقطہ نظر سے یہ بحث ایک جھوٹی جفت شاخیت ہے۔ یہ دو رجعتی کیمپوں یعنی امریکی اور چینی سامراجوں کے درمیان انتخاب ہے اور مستقبل دونوں کے ساتھ تاریک ہے۔

سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تائیوانی قومی سوال صرف شدید رجعتی طریقہ کار سے ہی ”حل“ کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت اس کا حقیقی حل چین اور مشرقی ایشیاء کے انقلابی تناظر سے جڑا ہوا ہے اور مارکس وادیوں، محنت کشوں اور نوجوانوں کو صورتحال کی ماہیت اور ارتقاء پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ اس دستاویز کو اسی مقصد کے لئے تحریر کیا جا رہا ہے تاکہ مارکس وادی اس سوال کے خدوخال اور ان کی روشنی میں اپنے فرائض کو باریکی سے سمجھیں۔

امریکی سامراج

اگرچہ تائیوانی قومی سوال کے اپنے عوامل اور ارتقائی باریکیاں ہیں لیکن آج بھی سرمایہ دارانہ دنیا میں اس کے کردار کا تعین کم و بیش امریکی اور چینی اختلافات کی روشنی میں ہی ہوتا ہے۔

پیلوسی کا حالیہ دورہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال امریکہ اور چین کے درمیان پچھلے کئی سالوں میں بڑھتی مخاصمت کا نتیجہ ہیں۔ اوباما سے لے کر ٹرمپ اور بائیڈن تک پورا امریکی حکمران طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ اس وقت چین امریکی سامراج کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی اس وقت ساری توجہ ایشیاء کی طرف مرکوز ہو چکی ہے اور ایک کے بعد دوسرا ملک اس سامراجی مسابقت کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال میں تائیوانی قومی سوال کی اہمیت دونوں قوتوں کے درمیان تضادات کا اظہار بن چکا ہے۔

”تائیوانی جمہوریت کے دفاع“ کا بہانہ پیش کر کے امریکی سامراج اس مشرقی چینی سمندری جزیرے میں مسلسل اپنی عسکری، سفارتی اور معاشی مداخلت بڑھا رہا ہے۔ صرف 2019-2020ء کے دورانیے میں ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کو 15 ارب ڈالر مالیت سے زیادہ کے ہتھیار سپلائی کرنے کی حامی بھری جن میں 108 نئے ماڈل کے M1A2T ابرامز ٹینک اور 180 ملین ڈالر کے ٹارپیڈو شامل ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ اس رجحان کو جاری رکھنے میں کوشاں ہے۔ پچھلے سال یہ انکشاف بھی ہوا کہ امریکی سپیشل فورسز کو ملک میں ایک ”ٹریننگ مشن“ کے لئے تعینات کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے سرکاری موقف تو یہی ہے کہ یہ ہتھیار دفاعی نوعیت کے ہیں لیکن ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر چین کیوبن یا میکسیکی فوج کو ہتھیار اور ”ٹریننگ“ دینا شروع کر دے تو امریکی ردِ عمل کیا ہو گا۔ یوکرینی حکومت کے ساتھ تعلقات کی طرز پر امریکی سامراج تائیوان کو چین کے ساتھ جنگ میں ایک سرحدی چوکی کے طور پر دیکھتا ہے۔

دہائیوں سے امریکی سرکاری پالیسی تائیوان کے ساتھ غیر رسمی تعلقات رہی ہے جس کے تحت اسے چین سے علیحدہ ایک ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مثلاً ایک امریکی سفارت خانے کے برعکس تائیوان میں ایک امریکی ادارہ ہے اور روایتی طور پر امریکی اور تائیوانی حکومتوں کے درمیان کبھی بھی عوامی یا براہِ راست میل جول نہیں رہا۔ لیکن 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے تائیوانی صدر سائی آنگ وین کو ایک سرکاری فون کال کی جو 1979ء کے بعد کسی بھی امریکی صدر کی طرف سے پہلی کال تھی۔ اس کے بعد سے امریکی ممبر کانگریس کی جزیرے پر آمدورفت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے جن کی حکومتی نمائندگان سے ملاقاتیں اور خاص طور پر مائکروچپ پیداواری فیکٹریوں کے دورے شامل ہیں۔

پیلوسی کا دورہ تائیوان اور صدر سے ملاقات اب تک کا سب سے اشتعال انگیز قدم ہے جس پر کانگریس میں موجود ریپبلیکنز نے بہت بغلیں بجائی ہیں۔

اگرچہ ابھی تک امریکہ ”ون چائینہ“ (یعنی تائیوان، چین کا ہی حصہ ہے) پالیسی پر کاربند ہے اور تائیوان کی رسمی آزادی کے مطالبے سے گریز کر رہا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ پچھلی دہائیوں کی انتہائی پیچیدہ اور ماہرانہ سفارتی ”تزویراتی ابہام“ پالیسی کو ترک کر دیا گیا ہے جو امریکی تائیوانی تعلقات کا خاصہ تھی۔ نومبر 2021ء کی ایک پریس کانفرنس میں بائیڈن نے کہا کہ تائیوان ”آزاد“ ہے۔ بعد میں جب اس حوالے سے روایتی امریکی پالیسی سے متعلق بائیڈن سے سوال کیا گیا تو اس نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ”آزادی کی حوصلہ افزائی“ نہیں کر رہا لیکن یہ تائیوان پر منحصر ہے کہ وہ اس سوال کے حوالے سے کیا ”فیصلہ“ کرتا ہے۔ واضح طور پر بائیڈن اشارہ دے رہا ہے کہ تائیوانی آزادی کے حوالے سے اس کی ہمدردیاں کس طرف ہیں۔

اس طرح کے اعلانات کا مقصد امریکی سامراج کو تائیوانی عوام کے جمہوری حقوق اور امنگوں کا محافظ بنا کر پیش کرنا ہے۔ لیکن یہ حیران کن ہے کہ بائیڈن نے کبھی دیگر چھوٹی اقوام جیسے فلسطینیوں یا کردوں کو ایسا ”فیصلہ“ کرنے کا حق کبھی نہیں دیا جنہیں دہائیوں سے سرمایہ دارانہ جبر تاخت و تاراج کر رہا ہے۔ جب قریبی امریکی حلیفوں، سعودی عرب یا اسرائیل کا معاملہ ہوتا ہے تو، اس وقت ”جمہوریت کے دفاع“ کی بات نہیں کی جاتی جبکہ تائیوان کے معاملے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ امریکی ارادے مہربان اور شفقت سے لبریز ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی واشنگٹن ”جمہوریت کے دفاع“، ”انسانی حقوق“ یا پھر اقوام کے ”حقِ خود ارادیت“ کی باتیں کرنی شروع کر دے تو اس کا مطلب ایک دیو ہیکل دھوکے کی تیاری ہے۔ بڑی عالمی قوتوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں میں چھوٹی اقوام کی اوقات ”ٹکے ٹوکری“ سے زیادہ نہیں۔ وہی قوتیں جو ایک دن اقوام کے حقِ خود ارادیت کے لئے آسمان سر پر اٹھائے ہوتی ہیں اگلے ہی دن انتہائی سفاکی سے اپنے مفادات کے لئے انہی اقوام کو برباد ہونے کے لئے تنہاء چھوڑ دیتی ہیں۔

امریکی سامراج کے مفادات

امریکی اقدامات کا ”تائیوانی جمہوریت کے دفاع“ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ انتہائی سفاک اقدامات ہیں جن کا مقصد چین کو نیچا دکھانا ہے کیونکہ امریکہ اسے مستقبل میں اپنی عالمی مرکزی سامراجی حیثیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ تائیوان کے ذریعے چین کی جغرافیائی حد بندی کی جا سکتی ہے۔ یہ عسکری، معاشی اور تجارتی حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس وقت چینی تجارت کی بھاری اکثریت آبنائے مالاکا سے گزرتی ہے جسے آسانی سے امریکہ بند کر کے چین کو تنہاء کر سکتا ہے۔ لیکن اگر چین تائیوان پر تسلط حاصل کر لیتا ہے تو امریکی مداخلت کے بغیر کلیدی تجارتی راستوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

تائیوان عالمی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور چینی معیشت کے ساتھ گہرے ادغام کے سبب یہ چین پر دباؤ ڈالنے کا ایک اہم اوزار ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مائیکرو چپ پیداکار کمپنی TSMC کا گھر تائیوان ہے جو چینی مصنوعات کے لئے اربوں چپس پیدا کرتی ہے۔ مائیکروچپ کی پیداوار ایک انتہائی کلیدی صنعت ہے جس میں چین کی قومی صنعت آج بھی مغرب سے پیچھے ہے اور مغرب کے ہاتھوں کھلواڑ کے لئے یہ شدید کمزوری ہے۔ امریکہ نے پہلے ہی TSMC کو اربوں ڈالر مالیت کی چپس چینی کمپنیوں کو فروخت کرنے سے روک دیا ہے اور نئی پابندیاں اور رکاوٹیں مسلسل لگائی جا رہی ہیں تاکہ چینی معیشت کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔

اس وقت امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ تائیوان رسمی آزادی کا اعلان کرے۔ اسے پتہ ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی اعلان چین کے ساتھ براہ راست جنگ کا موجب بن سکتا ہے اور فی الحال امریکہ کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن چین کی جانب مسلسل بڑھتے جارحانہ اقدامات جن میں جاری تجارتی جنگ، تائیوان کی معیشت کو چینی معیشت سے علیحدہ کرنے کا دباؤ، تائیوانی قوم پرستی کی حمایت اور نینسی پیلوسی کا دورہ جیسی اشتعال انگیزی سے نازک توازن کا کھلواڑ بکھر سکتا ہے جس کی بنیاد پر علاقائی استحکام دہائیوں سے برقرار رہا ہے۔

چین

اس دوران چین کے صدر شی جن پنگ کا لہجہ، اس کے مطابق تائیوانی ”علیحدگی پسندی“ کے حوالے سے مزید سخت ہو گیا ہے اور وہ بار بار اصرار کر رہا ہے کہ تائیوان کا چین کے ساتھ الحاق ”ناگزیر ہے“۔ چین اپنے عزائم کی سنجیدگی اور امریکہ کے خلاف جارحیت کے مظاہرے میں تائیوان کے اطراف میں باقاعدگی سے جنگی مشقیں کرتا رہتا ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ قوم پرست ہیجان کو ابھارنا ہے تاکہ چین میں بڑھتے طبقاتی غم و غصے کو دبایا جا سکے۔ لیکن چینی حکمران طبقہ طویل مدت میں تائیوان پر قبضے کو عالمی سیاست میں اپنے کردار کی تعمیر میں ایک کلیدی عنصر کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔

ماضی قریب تک امریکی سامراج مشرقی ایشیاء میں سب سے زیادہ طاقتور عسکری، سفارتی اور معاشی قوت تھا۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں چینی سرمایہ داری نے تیز تر ترقی کی ہے اور اب امریکہ اس تخت پر قائم نہیں رہا۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے اور اس کے پاس ایک قابلِ ذکر عسکری قوت ہے۔ مشرقی ایشیاء میں چین سب سے زیادہ طاقتور قوت بن چکا ہے اور مستقبل میں ایک عالمی سامراجی قوت بننے کا عزم رکھتا ہے۔

چین تائیوان کو اپنی معاشی اور عسکری تنہائی ختم کرنے میں ایک کلیدی ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ جس طرح امریکہ نے کیریبین پر تسلط حاصل کرکے اپنی عالمی اجارہ داری قائم کی تھی اسی طرح اگر چینی حکمران طبقہ ایک عالمی قوت بننا چاہتا ہے تو مشرقی اور جنوبی چینی سمندروں پر تسلط ناگزیر ہے۔

چینی سرمایہ داری کی ترقی اور امریکی سامراج کا بحران پورے مشرقی ایشیاء میں دونوں قوتوں کے درمیان تضادات مسلسل بڑھا رہا ہے۔ یہ بعید القیاس نہیں کہ مستقبل میں کسی موڑ پر امریکی سامراج تائیوان سے رسمی آزادی کا اعلان کروا دے یا کچھ ایسے اقدامات کروائے جس کے نتیجے میں چین عسکری مداخلت کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ یوکرین میں روس کو اشتعال دلا کر جنگ کرنے پر مجبور کرنے کی طرز پر ایک دانستہ چال ہو سکتی ہے جس کا مقصد چین کو جنگ کی دلدل میں پھنسا کر تھکانا یا پھر تائیوانی قوم پرستی کو ابھارنے کا غیر دانستہ نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی رجعتی مظہر ہو گا کیونکہ ایک ایسی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

لیکن اس وقت امریکہ اور چین دونوں پچھلی چار دہائیوں سے جاری سٹیٹس کو کی بنیاد پر آبنائے تائیوان میں موجود استحکام کو ختم کر نے کے خواہش مند نہیں ہیں لیکن ان کے مفادات مسلسل ٹکراؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس مخاصمت کا اظہار تائیوانی حکمران طبقے میں بھی ہو رہا ہے جو دونوں طاقتوں کے درمیان دو دھڑوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔

امریکہ اور چین کے درمیان پستا تائیوان ایک بفر ریاست بن رہا ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی قوتوں کا میدانِ جنگ۔ مغرب سے ”جمہوریت کے دفاع“ میں اٹھنے والا شور شرابا محض سفاک امریکی سامراجی مفادات کے لئے ایک پردہ ہے۔ شی کی ”چینی قوم کے مفادات“ کی باتیں بھی چینی سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مفادات کا اظہار ہے۔

تائیوان کا قومی سوال

عالمی قوتوں سے گِھرے ایک چھوٹے مضافاتی جزیرے تائیوان کی تاریخ نو آبادیاتی یلغار اور استحصال سے بھری پڑی ہے۔ اس پر 4 ہزار سال پہلے آسٹرونیز ین لوگ آباد ہوئے جو بعد میں متحرک اور کثیر ثقافتوں میں تبدیل ہو گئے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جزیرے پر دیو ہیکل تعداد میں مہاجرین پہنچے جن میں اکثریت جنوبی چین سے بھاگنے والے غریب کسان تھے۔ ان چینیوں نے مقامی زرعی آبادی کو متشدد طریقوں سے پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور روایتی چینی زرعی سماجی تعلقات کی بنیاد پر زمینیں کاشت کرنے لگے۔ لیکن ہان چینیوں کو اکثریت حاصل ہو جانے کے باوجود تائیوان چینی سلطنت کے لئے ایک نظر انداز کردہ مضافاتی علاقہ تھا جس پر یکے بعد دیگرے ڈچ، ہسپانوی، جاپانی قزاقوں اور دیگر نے حملے کئے اور اسے اپنی کالونی بنانے کی کوششیں کیں۔ 1895ء سے لے کر دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک تائیوان پر جاپانی قبضہ رہا۔ بیرونی تسلط کی اس طویل تاریخ نے تائیوان کی استحصال زدہ عوام میں نوآبادیات کے خلاف ایک گہری نفرت پیدا کر دی ہے۔

1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد رجعتی چینی کومنتانگ (KMT) کے زیرِ تسلط مینڈرن زبان سیکھنے کا ایک خبط سوار ہو گیا کیونکہ آبادی کی اکثریت روزمرہ میں جاپانی اور تائیوانی زبان استعمال کرتی تھی۔

کومنتانگ کا تسلط مضبوط ہونے سے پہلے تائیوانی عوام نے تیزی کے ساتھ جمہوری سرگرمیاں اور یونین سازی کرنی شروع کر دی۔ ان کو شدید جھٹکا لگا جب کومنتانگ نے ان تمام سرگرمیوں پر پابندی لگاتے ہوئے تائیوانی عوام کو خبردار کیا کہ جاپانیوں کے زیرِ تسلط نظریاتی ”غلام“ ہونے کی وجہ سے انہیں مساوی شہری حقوق حاصل کرنے کے لئے کومنتانگ کے شاونسٹ ثقافتی مطالبات تسلیم کرنا پڑیں گے۔ عوام کو مینڈرن سیکھنے اور بولنے پر مجبور کیا گیا اور تائیوانی زبان بولنے پر سزائیں دی گئیں۔ انہیں کومن تانگ معیار کے مطابق نیا ”چینی“ تشخص اپنانے پر مجبور کیا گیا جبکہ ان کی اپنی کئی رسم رواجوں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ مقامی عوام کو اپنا نام تبدیل کر کے چینی نام اپنانے پر مجبور کیا گیا جبکہ تمام حقوق کومنتانگ اشرافیہ، مالکان اور حواریوں نے غصب کر لیے۔ کومنتانگ شاونزم کے نتیجے میں 1947ء میں پھٹنے والے فروری انقلاب کو سفاکی سے کچل دیا گیا۔

اس دوران کومنتانگ کے خلاف چین میں انقلاب پوری قوت سے آگے بڑھ رہا تھا۔ یہاں 1949ء کے چینی انقلاب کے بنیادی خدوخال بیان کرنا مقصد نہیں ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ماؤ زے تنگ اور اس کی کسان فوج کی دیو ہیکل یلغار کے سامنے پرانا سماجی و معاشی نظام تباہ و برباد ہو گیا اور منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر ایک مسخ شدہ مزدور ریاست تعمیر کی گئی۔ کومنتانگ کی قیادت میں ردِ انقلابی بورژوازی اور پرانی چینی ریاستی مشینری اپنی آخری پناہ گاہ تائیوان فرار ہو گئے۔

تائیوان میں مجتمع ہونے کے بعد کومنتانگ نے امریکی آشیرباد میں ایک ہولناک آمریت قائم کی جو چین پر اپنا حق جتاتی رہی۔ اس لئے پرانی کومنتانگ ریاست کے تسلسل میں ہی آج موجودہ تائیوانی ریاست کو چینی جمہوریہ کہا جاتا ہے۔ یہ پرانے چینی حکمران طبقے کے تاریخی سامراجی عزائم کا اظہار ہے جس کا خواب ایک دن چین پر دوبارہ قبضہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تائیوان میں حکمران طبقے کے دونوں دھڑے۔۔۔کومنتانگ سے منسلک بورژوازی اور 1949ء سے پہلے تائیوان میں موجود اشرافیہ۔۔۔مدغم ہو کر آج کے تائیوان کا حکمران طبقہ بن گئے۔ لہٰذا اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لئے اس کا وہی چین سے درآمد کردہ پرانااوزار یعنی چینی جمہوریہ ہے۔

آج موجودہ تائیوان کو سمجھنے کے لئے یہ سب سے اہم جزو ہے۔ تائیوانی سرمایہ داری کے پاس مسلح افراد کا آزاد گروہ موجود ہے یعنی ایک فوج، پولیس، عدلیہ اور جیل کا نظام جو مرکزی جزیرے اور اس کے علاقوں پر (پینگو، کِن مَن، ماتسو، آرکڈ جزیرہ، گرین جزیرہ اور شمالی چینی سمندر میں موجود دیگر چھوٹے جزائر) تائیوانی بورژوازی کا مکمل تسلط قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس لئے تائیوان کے سرکاری نام سے قطع نظر وہ آج ایک آزاد بورژوا جمہوری ریاست ہے۔ اس سارے مسئلے کو کسی اور نکتہ نظر سے دیکھنا محض خود فریبی ہے۔

چینی شاونزم کی مخالفت

اگرچہ چینی اور تائیوانی عوام کے درمیان کئی ثقافتی قدریں مشترک ہیں لیکن دونوں کے درمیان طویل عرصے کی دوریوں نے ایک تائیوانی قوم تشکیل دی ہے جس کی اپنی تاریخ اور ثقافت ہے۔

تائیوان میں کئی دہائیوں سے تقریباً ایک تہائی عوامی حمایت کے ساتھ چینی الحاق ایک قدرے مقبول رائے تھی۔ تائیوانی عوام اپنے آپ کو جتنا تائیوانی محسوس کرتی تھی اتنا ہی چینی بھی محسوس کرتی تھی۔ تیس سال پہلے کی رائے شماریوں میں 46.4 فیصد تائیوانی عوام نے اپنے آپ کو تائیوانی اور چینی کہا، صرف 25.5 نے اپنے آپ کو چینی اور 17.6 فیصد نے اپنے آپ کو تائیوانی بتایا۔ آج یہ اعدادوشمار بدل چکے ہیں اور اب 67 فیصد اپنے آپ کو صرف تائیوانی مانتے ہیں جبکہ صرف 2.4 فیصد اپنے آپ کو صرف چینی مانتے ہیں۔

چینیوں سے مختلف تائیوانی قوم کا تشخص جزوی طور پر کومنتانگ آمریت کے خلاف تاریخی نفرت کا اظہار ہے۔ 1990ء کی دہائی تک پارٹی اور اس کا ریاستی ڈھانچہ یعنی چینی جمہوریہ، ہان چینی شاونزم کی بنیاد پر خوفناک آمریت مسلط کئے بیٹھا تھا۔

1949ء میں چین سے فرار ہونے والی چینی بورژوازی کی ثقافت، زبان اور روایات کو تائیوان کی واحد ثقافت بنا کر پیش کیا جاتا رہا جبکہ تائیوانی عوام کی ثقافت اور تاریخ کو ”غلامانہ“ اور ثانوی بنا دیا گیا۔

اس استحصال کے نتیجے میں مختلف طبقات سے سرگرم کارکنان کی ایک وسیع تحریک نمودار ہوئی جس کا واحد مقصد کومنتانگ آمریت کا خاتمہ تھا۔ یہ ”تائیوانی آزادی“ کی تحریک بن گئی، ایک ایسی تمثیل جو تائیوانی قوم پرستی کے مساوی تھی۔ اس رجحان کا جوہر یہ تھا کہ تائیوان میں ایک بورژوا ریاست قائم کرنی ہے جس کا نام چین نہیں تائیوان ہو۔

1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں کومنتانگ اور اس کے چینی شاونزم کی مخالفت میں جمہوریت نواز عوامی جدوجہد مسلسل ابھرتی رہی۔ محنت کشوں کی ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں ان تحریکوں کی قیادت تائیوانی آزادی تحریک کے قائدین کے پاس آ گئی جس میں وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے بعد میں ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی (DPP) بنائی۔ اس طرح منتشر نظریات کی موجودگی میں جمہوریت کی جدوجہد ”آزادی“ کی جدوجہد بھی بن گئی یعنی پرانی کومنتانگ ریاست، چینی جمہوریہ اور اس کا چین کو فتح کرنے کے عزائم سے آزادی۔

ان تحریکوں نے بالآخر کومنتانگ کو مجبور کر دیا کہ وسیع سیاسی جمہوری اصلاحات کی جائیں۔ لیکن ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کے قائدین کا سرمایہ داری کے خاتمے کے لئے کوئی تناظر یا پروگرام موجود نہیں تھا اور آخر کار انہوں نے کومنتانگ کو بھی قبول کر لیا۔ اس بنیاد پر اگرچہ چینی جمہوریہ ریاست بچ گئی لیکن حکومت بوناپارٹزم سے ایک بورژوا جمہوریت میں تبدیل ہو گئی جس میں اقتدار کے حصول کے لئے دو مرکزی مسابقتی پارٹیاں کومنتانگ اور ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی ہیں۔ اس وقت سے کومنتانگ کی بیساکھی چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات (اور حتمی الحاق) ہے جبکہ ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی ”آزادی نواز“ خواہشات کے ساتھ مبہم اتحاد میں ووٹ بٹور رہی ہے۔

1990ء کی دہائی میں تحریک کی محدود کامیابیوں کے باوجود تائیوانی عوام نے بہرحال جدوجہد کے ذریعے اپنے لئے کچھ جمہوری حقوق جیتے ہیں۔ لیکن چین ایک آمریت رہا جبکہ ریاست ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہو گئی۔ صورتحال کی نشاندہی مرحوم لیبر قائد زینگ ماؤ شنگ نے درست طور پر کی تھی کہ چین اور تائیوان ”دو نظام کے ساتھ ایک ملک نہیں ہیں بلکہ ایک نظام کے ساتھ دو ملک ہیں“۔ اس وجہ نے بھی چین کے ساتھ الحاقی جذبات کو بہت حد تک ٹھنڈا کر دیا ہے۔ اس دوران چینی کمیونسٹ پارٹی نے تائیوان کو ممکنہ الحاق کی ممکنہ مخالفت پر فوج کشی کی دھمکیاں بھی دینی شروع کر دیں۔

معیاری تبدیلی: ہانگ کانگ 2019ء

عوامی رائے میں سب سے بڑی تبدیلی حالیہ سالوں میں ہوئی ہے۔ خاص طور پر 2019ء کے موسمِ سرماء میں ہانگ کانگ میں جمہوری حقوق صلب کرنے کی چینی کوششوں کے خلاف دیو ہیکل تحریک کے بعد یہ تبدیلی اور بھی واضح ہو گئی ہے۔ اس تحریک کی ناکامی کے بعد خطے میں چینی ریاست کے خلاف عوام کی وسیع پرتوں کا موڈ تیزی سے تبدیل ہو گیا۔

اس وقت تائیوانی صدارتی انتخابات مہم عروج پر تھی۔ ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی اور تائیوان کی صدر اور صدارتی امیدوار سائے آنگ وین کو شرمناک شکست کا سامنا تھا۔ کئی سالوں کی جبری سماجی کٹوتیوں اور غداریوں کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی رائے شماریوں میں شکست خوردگی کا شکار تھی۔ اس دوران چین نواز کومنتانگ امیدوار ہان کو یو کے امکانات بہت روشن تھے اور رائے شماریوں میں ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کی زیادتیوں کے خلاف ایک اشتعال انگیز، اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم سے اسے بہت زیادہ پذیرائی مل رہی تھی۔

کومنتانگ سے بہت پیچھے سائی اور ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی نے ہانگ کانگ واقعات کو غنیمت جانا اور کھلم کھلا چین مخالف اشتعال انگیزی شروع کر دی۔ ہانگ کانگ عوام پر جبر کے پسِ منظر میں ایک ”قومی بربادی“ کا موڈ ابھارا گیا جس کے تحت تاثر بنا کہ تائیوان پر جلد ہی چین اور کومنتانگ میں موجود اس کے مقامی غلام قبضہ کر لیں گے اور اس کے بعد تائیوانی عوام کے تمام جمہوری حقوق صلب ہو جائیں گے۔ اس بنیاد پر سائی اور ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی نے انتخابات میں اپنی ساکھ بحال کی اور پھر صدارت اور پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کر لی۔

ظاہر ہے یہ ایک پرانی چال ہے۔ تائیوانی محنت کش طبقے پر ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی نے کئی سال معاشی حملے کئے اور اس وجہ سے شدید نفرت کا شکار ہو گئی۔ ایسے میں سائی نے ایک بیرونی خطرے کا بھوت بنا کر اپنی پارٹی کے جرائم کی پردہ پوشی شروع کر دی۔ ایک ایسے وقت میں جب سست رو انداز میں طبقاتی تضادات سماجی سطح پر نمودار ہو رہے تھے، ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی نے سماج کو قوم پرستی کے ذریعے پولرائز کر دیا اور تائیوانی قوم پرستی اور چین مخالف ہیجان پیدا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں چین کی حمایت مکمل طور پر منہدم ہو گئی۔

اگرچہ عوام کی بڑی اکثریت چین کے ساتھ جنگ کے خوف سے سٹیٹس کو بحال رکھنا چاہتی تھی لیکن اس کے باوجود اعلانیہ آزادی کی حمایت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔

2018ء کی ایک رائے شماری میں 15.1 فیصد عوام سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حق میں تھی لیکن ان کا رجحان رسمی آزادی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جون 2020ء میں یہ تعداد 27.7 فیصد ہو چکی تھی۔ اس دوران سٹیٹس کو قائم رکھنے کے حق لیکن چین کے ساتھ الحاق کا رجحان رکھنے والوں کی تعداد 12.8 فیصد سے 6.8 فیصد پر آ چکی ہے۔ 1994ء سے اب تک یہ سب سے کم رجحان ہے۔

آزادی کا مطلب کیا ہے؟

آج تائیوانی سیاست میں آزادی نواز دھڑا جس کے ساتھ ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی منسلک ہے، چین مخالف لفاظی اور تائیوانی بورژوا جمہوریت کو لاحق ممکنہ چینی خطرے کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ مختلف اشکال میں اس دھڑے کی پارٹیوں کا موقف ہے کہ رسمی آزادی کا اعلان کرنا تائیوانی جمہوریت کو قائم رکھنے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تائیوان ایک غیر اعلانیہ آزاد قومی ریاست ہے۔۔۔کم از کم سرمایہ داری میں ایک چھوٹی قوم جتنی آزاد ہو سکتی ہے۔ تائیوانی ریاست تائیوان کے قوانین وضع اور قائم رکھتی ہے، دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتی ہے، تقریباً ہر جگہ قبول ہونے والا تائیوانی پاسپورٹ جاری کرتی ہے اور تائیوان میں موجود کمپنیاں عالمی منڈی میں آزادانہ کام کرتی ہیں۔

موجودہ سٹیٹس کو اور رسمی آزادی کے اعلان کے درمیان ایک ہی فرق ہے کہ ملک مغربی کنٹرول میں موجود عالمی تنظیموں مثلاً اقوامِ متحدہ اور آئی ایم ایف کا ممبر بن جائے گا۔ اس کاایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ تائیوان دیگر اقوام کے ساتھ سرکاری اور آزادانہ سفارتی تعلقات قائم کر سکے گا یعنی وہ اقوام جو چین کے زیرِ اثر نہیں ہیں۔ لیکن ایسی صورتحال کا عام تائیوانی محنت کشوں اور نوجوانوں کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اس لئے جب تائیوانی لبرلز چین مخالف یا آزادی نواز ا جذبات کا ظہار کرتے ہیں تو ان کا حقیقی مطلب امریکہ نواز اور مغرب نواز ہے۔ اس کا مطلب تائیوان کی حقیقی آزادی نہیں ہے۔ اس کا مطلب امریکی اور دیگر مغربی قوتوں کے بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کی غلامی میں مزید اضافہ ہے۔

امریکی سامراج تائیوانی اور پوری دنیا کی عوام کا دشمن ہے اور یہ مارکس وادیوں کا فرض ہے کہ محنت کش طبقے کو کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے خبردار کیا جائے۔ ہمارا فرض لبرلز اور سامراجیوں کی ہیجان انگیز گفتار کے پیچھے چھپے حقیقی طبقاتی مفادات کو ننگا کرنا ہے۔

جھوٹی جفت شاخیت (A false dichotomy)

ایشیاء میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتے تصادم کے ساتھ قومی سوال شدید تر ہوتا جائے گا۔ لیکن ایک یا دوسرے رجعتی کیمپ کی حمایت کے بجائے مارکس وادیوں کا فرض ہے کہ ان حالات میں سب سے پہلے مختلف کیمپوں کے پسِ پردہ طبقاتی مفادات کو ننگا کریں۔

ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی قوم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ چین کے خلاف متحد ہو۔ ان کے مطابق ”تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو“۔ درحقیقت ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی اور تائیوان سٹیٹ بلڈنگ پارٹی جیسی چمچہ پارٹیاں اس ہیجانی منطق کو انتہاء پر پہنچا چکی ہیں اور کسی بھی حوالے سے حکومت کی مخالفت کرنے والے کی شدید کردار کشی کی جاتی ہے۔ ان کا نشانہ خاص طور پر وہ محنت کش ہیں جو جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پر ”چینی ایجنٹ یا چمچوں“ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

لیکن اس مکار جفت شاخیت (Dichotomy) کو مارکس وادی سختی سے رد کرتے ہیں۔ محنت کش طبقے اور سرمایہ داروں کے درمیان کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا یعنی قومیت سے قطع نظر استحصالیوں اور استحصال زدہ کے درمیان کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا۔

تائیوانی محنت کشوں اور غرباء کے مسائل کا آزادی کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تائیوان میں چینی ریاست کے برعکس یہ تائیوانی سرمایہ دار طبقہ ہے جس نے معیارِ زندگی پر مسلسل دباؤ، کام کی شدت میں مسلسل اضافہ، جبری سماجی کٹوتیاں اور کرپشن مسلط کی ہوئی ہے جس کی اس وقت سب سے بڑی نمائندہ ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کا حقیقی مطالبہ یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اپنے مفادات کو حکمران طبقے کے مطیع کر دے۔

اگر محنت کش طبقہ اس مسلسل گراوٹ کے گرداب سے آزاد ہونا چاہتا ہے تو صرف تائیوانی سرمایہ دار طبقے کے خاتمے اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا راستہ ہی موجود ہے۔

اس کے لئے قومی اتحاد کے برعکس انقلابی طبقاتی جدوجہد لازم ہے۔ چین مخالف ہیجان انگیزی کے خلاف ہمارا موقف ہے کہ ”اصل دشمن گھر میں ہے!“ تائیوانی محنت کش طبقے کا حقیقی دشمن تائیوانی سرمایہ دار طبقہ ہے جس کی قیادت اس وقت ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔

تائیوانی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو تائیوانی قوم پرستی کے خلاف جدوجہد سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب یہ تائیوانی عوام کے لئے کوئی ترقی پسند کردار نہیں ادا کر سکتی اور درحقیقت تائیوانی محنت کش طبقے کی حقیقی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تائیوانی حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کے لئے مارکس وادیوں اور انقلابیوں کو تائیوانی قوم پرستی کے حقیقی رجعتی کردار کو مسلسل ننگا کرنا ہو گا۔

ہانگ کانگ کا تجربہ

کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے لکھا تھا کہ محنت کش طبقے کی کوئی قوم نہیں ہوتی۔ تائیوانی، چینی، جاپانی اور کورین محنت کشوں کے مفادات اپنے حکمران طبقے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مارکس وادی سرحدوں سے آزاد دنیا کی جدوجہد کرتے ہیں جہاں تمام اقوام کے محنت کش عالمی تعاون میں ایک دوسرے کے ساتھ امن اور بھائی چارے سے زندگی گزار سکیں۔

یہ حکمران طبقے کے مفاد میں ہے کہ قومی بنیادوں پر محنت کش طبقے کو تقسیم رکھا جائے لیکن ہم ہمیشہ پوری دنیا کے محنت کشوں کے مضبوط ترین اتحاد کو تعمیر کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اتحاد کی عدم موجودگی میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی ناممکن ہے۔

اس کی ایک واضح مثال تائیوان ہے۔ یہ خیال کہ ایک سوشلسٹ تائیوان سرمایہ دارانہ چین کے بغل میں طویل عرصہ قائم رہے گا، یوٹوپیائی ہے۔ اگر تائیوان میں ایک سوشلسٹ انقلاب ہوا تو چینی ریاست۔۔۔ممکنہ طور پر امریکی حمایت کے ساتھ۔۔ہولناک جبر کرے گی تاکہ اپنی سرحدوں کو انقلابی شورش سے بچایا جا سکے۔

ہم نے دی سپارک (تائیوان میں عالمی مارکسی رجحان کا میگزین) میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ تائیوان اور چین کے درمیان ثقافتی، لسانی اور جغرافیائی قربت آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف طبقاتی جدوجہد کو متحد کر دیتی ہے۔

اس لئے تائیوانی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد براہِ راست چینی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ لیکن یہ جدوجہد صرف طبقاتی بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ محنت کش طبقے کے آزاد موقف کے بغیر تمام راہیں رجعتی قوم پرستی کی طرف ہی جاتی ہیں جو کسی ایک مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس حوالے سے 2019ء کی ہانگ کانگ تحریک میں انتہائی قیمتی اسباق ہیں۔

اس تحریک کے ابتدائی مراحل میں 10 لاکھ سے زیادہ عوام ہانگ کانگ کی سڑکوں پر نکلی اور ممکنہ عام ہڑتال کے خطرے سے چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ان کو سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ ہانگ کانگ کا انقلاب چینی محنت کش طبقے میں بڑھتے غم و غصے اور بے اطمینانی سے جڑ جائے گا۔ درحقیقت کئی چینی محنت کشوں اور ریڈیکل نوجوانوں کی تحریک سے بہت زیادہ ہمدردیاں تھیں۔

لیکن جوشوا وینگ اور دیگر لبرل قائدین نے تحریک کو رجعتی چینی مخالفت میں دھکیلنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی مغربی طاقتوں سے حمایت کی اپیلیں بھی شروع کر دیں۔ وینگ اور لبرلز کے ایک وفد نے امریکہ کا دورہ بھی کیا اور چین کے خلاف معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ اس قسم کی کسی بھی حرکت کو بجا طور پر چینی عوام نے امریکی سامراج کا حملہ تصور کرنا تھا جس کے نتیجے میں محنت کشوں اور غرباء کی زندگیاں شدید محال ہو جاتیں۔

چینی محنت کش طبقے کے ساتھ کسی قسم کے الحاق کے برعکس ہانگ کانگ آٹونومی تحریک نے بڑی ریلیاں منظم کیں جن میں امریکی جھنڈے لہرا کر ٹرمپ انتظامیہ سے مدد کی بھیک مانگی گئی۔ ان عناصر نے چین مخالف موقف اپنایا اور جمہوری حقوق کے مطالبے کو، جس کی چین میں زبردست پذیرائی ہونی تھی، پرانی برطانوی نوآبادیاتی یادوں اور امریکی سامراج سے جوڑ دیا۔ درحقیقت ان کی ساری حکمتِ عملی دانستہ طور پر تحریک کو چین کے خلاف امریکی سامراج کی پراکسی بنا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی خدمات پیش کرنا تھی۔

امریکہ کے ساتھ ملنے کی وجہ تحریک کو تو کیا طاقت ملنی تھی الٹا چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو تحریک مخالف پروپگنڈا کرنے موقع مل گیا۔ شی جن پنگ نے اس اتحاد کو چینی عوام کے سامنے ایک سامراجی سازش بنا کر پیش کیا اور سیاسی طور پر ہانگ کانگ میں موجود تحریک چینی محنت کشوں سے کٹ گئی۔

اس ساری صورتحال میں چینی قوم پرستی کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔ یعنی اس کے ذریعے چینی حکومت نے چین میں طبقاتی تضادات کو مبہم کر دیا اور ہانگ کانگ میں موجود تحریک پر جبر کرنے کے لئے محنت کش طبقے کی حمایت حاصل کر لی۔ اس کے مہلک نتائج نکلے اور بلاشبہ قوم پرست مغرب نواز ہانگ کانگ قائدین نے تحریک کی ناکامی کے لئے سیاسی بنیادیں ہموار کیں۔

اس وقت ہم نے بیان کیا تھا کہ تحریک کو فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کے لئے براہِ راست چینی محنت کش عوام سے اپیل کرنی چاہیئے۔ اگر ہانگ کانگ کے قائدین کا ایک طبقاتی پروگرام ہوتا اور وہ چینی محنت کشوں کو چینی حکمران طبقے کے خلاف ایک متحدہ جدوجہد کی دعوت دیتے تو انہیں وسیع پیمانے پر حمایت ملتی۔

اہم صنعتی مرکز ہمسائے صوبے گوانگ دونگ کے محنت کشوں سے شروع ہو کر تحریک چین میں پھیل جاتی۔ لیکن امریکی اور برطانوی سامراجوں سے اپیل کر کے اور ہانگ کانگ کی محنت کش عوام کے مفادات کو چینی محنت کش عوام کے مفادات سے متضاد بیان کر کے لبرلز نے وسیع پیمانے پر طبقاتی اتحاد کی تمام راہیں مسدود کر دیں۔

تائیوان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ تائیوان میں سوشلزم کے لئے جدوجہد کو چین میں سوشلزم کی جدوجہد سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام صرف تائیوانی قوم پرستی کے خلاف سرگرم جدوجہد کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کسی صورت یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیئے کہ تائیوانی محنت کش طبقہ امریکی سامراج یا اس کے چمچوں ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کی حمایت چاہتا ہے۔ اس کا فوری نتیجہ چینی محنت کش کے ساتھ ناچاقی ہو گا جو درست طور پر امریکی سامراج کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔

اس لئے تائیوانی مارکس وادیوں کا مرکزی نعرہ ”امریکی سامراج مردہ باد!“ ہونا چاہیئے۔ یہ نہ صرف چینی محنت کشوں کے لئے ایک پیغام ہو گا کہ ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں بلکہ تائیوان کے اندر طبقاتی تقسیم کو مزید واضح کرے گا جہاں حاوی حکمران دھڑا امریکی سامراج کا ایجنٹ ہے۔

الحاق؟

تائیوان کی بورژوا سیاست میں دوسرے سرے پر کومنتانگ کھڑی ہے جو ماضی قریب تک کھلے عام چین کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ وہ چینی سامراجی پارٹی جو چین میں سابق مسخ شدہ محنت کش ریاست کو شکست دے کر سارے ملک پر قبضہ کرنے کا عزم بھرا کرتی تھی آج چین کی کٹھ پتلی بن چکی ہے۔

ہانگ کانگ میں ہونے والے واقعات کے بعد عوامی رائے میں ڈرامائی تبدیلی کے نتیجے میں اب کومنتانگ کو رسمی طور پر الحاق کی حمایت کو مبہم کرنا پڑا ہے۔ لیکن عوام میں ایک قدم پیچھے ہٹنے کے باوجود کومنتانگ بہرحال اس تائیوانی بورژوازی کی نمائندہ ہے جو چین کے ساتھ الحاق کو حقیقت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

لیکن عوام کے لئے یہ بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چین کے ساتھ الحاق کا مطلب تائیوان اور تائیوانی محنت کش طبقے کا چینی سرمایہ داری کے مفادات کے آگے سرنگوں ہونا ہے۔

اس کا مطلب 1990ء کی دہائی میں جیتے جانے والے جمہوری حقوق کا خاتمہ ہے۔ اس لئے تائیوانی عوام کی اکثریت اس کے شدید خلاف ہے۔ اس قسم کا الحاق شدید جبر کے ذریعے اور خواہشات کے خلاف ہی ممکن ہے۔ لیکن اس بنیاد پر الحاق محنت کش طبقے کے مفادات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ اس سے چینی اور تائیوانی قوم پرستی مزید مضبوط ہو گی اور چینی اور تائیوانی محنت کشوں کے درمیان دیو ہیکل خلیج بن جائے گی جس کے نتیجے میں وہ اپنے حکمران طبقات کی جھولی میں جا گریں گے۔

بطور مارکس وادی ہمارا فرض ہے کہ ہم تائیوان، چین اور خطے کے دیگر محنت کشوں کے تمام حکمران طبقات کے خلاف متحدہ جدوجہد کا جھنڈا بلند کریں۔ تائیوانی محنت کش طبقے کا سب سے پہلا اور اہم فرض تائیوانی سوشلزم کی جدوجہد ہے۔ اگر فتح حاصل ہو جائے تو پورے خطے پر دیو ہیکل اثر پڑے گا جہاں لاکھوں کروڑوں محنت کش اور غرباء اپنے حکمران طبقات کے ہاتھوں تباہ و برباد ہیں۔ ہانگ کانگ تحریک میں ہمیں اس امکان کی ایک جھلک نظر آئی ہے جس نے چین سمیت خطے میں کروڑوں افراد کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔

ان حالات میں تائیوانی انقلاب چینی محنت کشوں سے کامیاب اپیل کر سکتا ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ریاست اور چینی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو مرکوز کریں اور اقتدار پر قبضے کا آغاز کریں۔ تائیوانی قوم پرستی اور امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد کی بنیاد پر تائیوانی محنت کش طبقہ اپنے اور چینی محنت کش طبقے کے درمیان عدم اعتماد اور دشمنی کی خلیج عبور کر سکتا ہے۔ یہ خطے میں سوشلزم کی حقیقی جدوجہد کے لئے نئی بنیادیں ثابت ہو سکتی ہیں۔

چینی مارکس وادیوں کا فریضہ

چینی مارکس وادیوں کے فرائض تائیوانی مارکس وادیوں سے مختلف ہیں۔ چین میں ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی اور سائی آنگ وین کے برعکس شی جن پنگ، ریاستی اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ مرکزی دشمن ہیں۔

چینی سرمایہ داری کے بڑھتے بحران کے ساتھ چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قوم پرست ہیجان ابھار رہی ہے۔۔۔خاص طور پر تائیوان کے خلاف۔۔۔تاکہ بڑھتے طبقاتی تضادات کو کچلا جا سکے۔ لیکن تائیوان کی طرح چینی مارکس وادیوں کو بھی ”حقیقی دشمن گھر میں ہے!“ کا نعرہ بلند کرنا لازم ہے۔

چینی مارکس وادیوں کا سب سے اہم فریضہ چینی شاونزم کے رجعتی کردار کو ننگا کرنا ہے۔ انہیں ہر صورت تائیوان کے حوالے سے چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے ہر دعوے، جبر یا مداخلت کی مخالفت کرنی ہے۔ چینی مارکس وادیوں کو ان تمام کوششوں کو ننگا کرنا ہے کہ یہ تمام چالیں چینی سامراجی عزائم کا حصہ ہیں اور چینی محنت کشوں کی توجہ اپنی طرف سے ہٹا کر ایک بیرونی دشمن کے کندھوں پر تمام مسائل کا بوجھ ڈالنا ہے۔

یہ تائیوانی قوم پرستی کی حمایت نہیں ہے بلکہ تائیوانی محنت کشوں کے لئے ایک پیغام ہو گا کہ وہ ان کے دشمن نہیں ہیں اور نتیجے میں تائیوانی قوم پرستی کمزور ہو گی۔ اسی طرح تائیوانی مارکس وادی اپنے حکمران طبقے اور امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد سے چینی محنت کشوں کو پیغام دیں گے کہ وہ ان کے دشمن نہیں ہیں۔

قوم پرستانہ ہیجان کو ابھارنے کے لئے شی اور سائی اور ان کے حکمران طبقات ایک دوسرے کا سہارا لیتے ہیں۔ شی امریکہ کے ساتھ سائی کے تعلقات کو استعمال کر کے اندرونِ ملک قوم پرستی کو ابھارتا ہے جبکہ سائی شی کی تقریروں اور چینی عسکری مشقوں کو استعمال کر کے ساری عوام کو اپنے اور ڈیوکریٹک پیپلز پارٹی کے پیچھے متحد کرنے کی کوششیں کرتی ہے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ اس تمام کھلواڑ کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے دونوں اطراف کی غلیظ قوم پرستی کو ننگا کیا جائے۔

سوشلزم اور عالمگیریت

سرمایہ داری کے ابتدائی دنوں میں قومی ریاست نے صنعت اور اس کے ساتھ محنت کش طبقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن آج قومی ریاست ترقی کے راستے میں دیو ہیکل رکاوٹ بن چکی ہے۔

نظام کے بڑھتے بحران کے ساتھ اقوام کے درمیان دباؤ بھی شدت اختیار کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں عدم استحکام مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ، یوکرین میں جنگ اور روس اور مغرب کے درمیان لڑائی، بریگزٹ اور یورپی یونین کا بحران۔۔۔یہ تمام مظاہر اسی ایک عمل کا کھلا اظہار ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی معاشی خوشحالی کی بنیاد عالمی تجارت کا آغاز تھا۔ آج اس کا شیرازہ تیزی سے بکھر رہا ہے جس کے نتیجے میں افراطِ زر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور کمزور معاشی بڑھوتری اور بحران کی شدت میں مسلسل اضافے کا دور تیار کر رہا ہے۔

یہ ایک ہولناک گرداب ہے جو اگر دہائیوں نہیں تو سالوں چلے گا اور کوئی ایک ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ مشرقی ایشیاء پچھلی دہائیوں میں عالمی سطح پر مستحکم ترین خطوں میں سے ایک رہا ہے لیکن آج اس کا بھی بچنا ناممکن ہے۔

آج سائنس اور ٹیکنالوجی ارتقاء کے تاریخی مراحل پر ہے جن کے ذریعے انسانیت کو درپیش گھمبیر مسائل کو فوری حل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے دور میں اربوں افراد بلاوجہ ناقابلِ برداشت الام و مصائب کا شکار ہیں۔

اس پُر انتشار دور میں بطور مارکس وادی ہمارا غیر مصالحانہ فرض ہے کہ ہرلمحہ طبقاتی سوال اٹھائیں اور قوم پرستی کے کسی بھی شائبے کے خلاف جدوجہد کریں۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے محنت کش طبقہ اپنے تاریخی فرائض سرانجام دے سکتا ہے اور ان گھمبیر حالات سے باہر نکلنے کا راستہ تراش سکتا ہے۔

ایک سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کے درمیان ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی اس کو وہ تاریخی کردار عطا کر سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ اجتماعی طور پر اپنے مستقبل کی خوشنما راہیں ہموار کر سکے۔

تائیوانی قوم پرستی مردہ باد!

حقیقی دشمن گھر میں ہے!

امریکی سامراج مردہ باد!

سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چین کے ساتھ الحاق نامنظور!

مشرقی ایشیاء کی سوشلسٹ فیڈریشن میں ایک جمہوری سوشلسٹ تائیوان زندہ باد!