براعظم امریکہ کے ممالک کی سربراہی کانفرنس روایتی طور پر ایک دکھاوا ہے جس میں شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں کے سربراہان باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں اور خیر سگالی کے اعلامیے جاری کرتے رہتے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے 6 تا 10 جون کو لاس اینجلیس میں جس کانفرنس کی سربراہی کی وہ ایک ایسی ہزیمت ثابت ہوئی جس سے پوری دنیا کو واضح ہو گیا کہ اب امریکہ کا اپنے ہی پچھواڑے میں تسلط کمزور ہو رہا ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
صدر کلنٹن نے 1994ء میں پہلی سربراہی کانفرنس منظم کی تھی اور وہ آج کی کانفرنس سے یکسر مختلف تھی۔ اس وقت سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں دہائیوں سے قائم سٹالن ازم منہدم ہو چکا تھا اور امریکہ کی جانب سے ایک ایسے ”نئے عالمی نظام“ کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی تھیں جس میں پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی اور ہر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ حکمران طبقہ رجائیت سے سرشار تھا۔
اس کے برعکس آج حکمران طبقے کے پالتو تجزیہ نگار آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں کہ کون پچھلے ہفتے کی کانفرنس کے بارے میں زیادہ تنقیدی الفاظ استعمال کرتا ہے۔
فنانشل ٹائمز میگزین کے گیدیون لانگ نے لکھا کہ ”امریکی براعظموں کی سربراہی کانفرنس نے ثابت کر دیا ہے کہ اس قسم کی ملاقاتیں بے معنی ہو رہی ہیں“۔
دی اٹلانٹک میگزین کے ولیم نیومان نے لکھا کہ ”یہ امریکی انتشار اور مرتی ہوئی خواہشات کا اظہار ہے“۔
نیو یارک ٹائمز اخبار نے لکھا کہ ”یہ ایک سربراہی کانفرنس پر شکوک و شبہات کا اظہار تھا جس کا مقصد ہمسایوں کے درمیان تعاون کو ثابت کرنا ہے، لیکن یہاں ایک ایسے خطے کے آپسی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں جو امریکی قیادت کے خلاف سرکشی کرنے کو تیار ہو رہا ہے“۔
واشنگٹن پوسٹ اخبار نے لکھا کہ ”امریکی براعظموں کی سربراہی کانفرنس میں اختلافات حاوی تھے“۔
ٹائمز میگزین نے سرخی لگائی کہ ”امریکی براعظموں کی سربراہی کانفرنس امریکی اثرورسوخ کی گراوٹ کا اظہار ہے“۔
دیگر الفاظ بھی کھل کر استعمال ہوئے جیسے ناکام، فلاپ، مایوس کن، افراتفری۔ کانفرنس کے حوالے سے کوئی ایک مثبت تجزیہ یا لفظ سامنے نہیں آیا۔ سب سے بڑھ کر ناکام لاس اینجلس سربراہی کانفرنس کرونا وباء کی نظر ہو گیا کیونکہ کئی سربراہان اپنے ملک مریض بن کر پہنچے۔
کانفرنس کے آغاز سے بہت پہلے بائیڈن کے لئے مسائل شروع ہو گئے تھے کیونکہ شرکت کا سوال نا صرف قبل از کانفرنس بلکہ دوران کانفرنس بھی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس موقعے پر امریکی صدر میزبانی کر رہا تھا اور وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ شرکاء کا تعین وہی کرے گا جس کے بعد کیوبا، وینزویلا اور نکاراگوا کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی۔ صدر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ممالک ضروری جمہوری معیار پر پورا نہیں اترتے۔
اب واشنگٹن فیصلہ کرے گا کہ ”جمہوریت“ کیا ہے
اگر حالات مختلف ہوتے تو ان معاملات پر کسی کی توجہ ہی نہ ہوتی۔ شائد کچھ ممالک نرم تنقیدی اعلامیے جاری کرتے اور کسی ایک آدھ ملک میں کوئی چھوٹا سا عوامی احتجاج ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میکسیکو کے صدر لوپیز اوبراڈور (جسے AMLO کے مخفف کے طور پر جانا جاتا ہے) نے فوری طور پر اعلان کر دیا کہ اگر ان ممالک کو دعوت نہیں دی جاتی تو وہ بھی شرکت نہیں کرے گا۔ امریکی براعظموں کی سربراہی کانفرنس، جس میں دیگر معاملات کے ساتھ ہجرت کا مسئلہ بھی زیر بحث آنا تھا، امریکی جنوبی ہمسائے کی شمولیت کے بغیر بے معنی ہوتی۔ امریکی حکام نے کئی مہینے میکسیکو کے صدر کی منتیں کیں۔ یہ کوشش بے نتیجہ رہی۔ AMLO کی یہ پوزیشن تو یقیناً قابل تعریف ہے کہ وہ اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہوا جس سے دیگر کا حوصلہ بھی بڑھا۔ بہر حال AMLO کی خارجہ پالیسی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر تنقید کرنے کے لئے بھی بہت کچھ ہے۔ مثال کے طور پر میکسیکو نے امریکہ کے لئے اپنی جنوبی سرحد کی نگرانی پر حامی بھر لی ہے تاکہ وسطی امریکہ سے آنے والے مہاجرین کو شمالی ہمسائے میں گھسنے سے روکا جائے۔ لیکن سربراہی کانفرنس میں شرکاء کے حوالے سے AMLO نے ایک اصولی موقف اپنایا اور واشنگٹن کے حق کو چیلنج کیا کہ وہ ناپسندیدہ ممالک کا راستہ نہیں روک سکتا۔
کیریبین کمیونٹی (CARICOM) میں منظم ہنڈوراس، بولیویا اور دیگر کیریبین ممالک نے بھی بائیڈن پر یہ اعلان کر کے مزید دباؤ ڈال دیا کہ وہ بھی سربراہی کانفرنس کا بائیکاٹ کریں گے۔
وہ درست تھے۔ بھلا امریکہ کو منصفی کا اختیار کس نے دیا کہ وہ فیصلے کرتا پھرے کہ جمہوریت کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ یہ وہ ملک ہے جس کے سعودی عرب جیسی جابر رجعتی ریاستوں کے ساتھ نہ صرف قریبی سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں بلکہ اس نے پچھلے 150 سالوں میں مسلسل جنوبی امریکہ میں جمہوریت کے خلاف عسکری بغاوتوں اور فوج کشیوں کی سرپرستی کی، انہیں منظم کیا اور انہیں ہتھیار اور پیسہ فراہم کیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ واشنگٹن نے بولیویا اور ہنڈوراس کی حکومتوں کو غیر قانونی طور پر گرانے میں کلیدی کردار ادا کیاہے!
بائیڈن کو کیا حق ہے کہ وہ ممالک پر جمہوری اور غیر جمہوری ہونے کے لیبل لگاتا پھرے جب خطے میں اس کا مرکزی اتحادی کولمبیا ہے جہاں سیاسی مخالفین ہر لمحہ اپنی جان کے خوف میں مبتلاء ہیں، ریاستی مشینری اور پیراملٹری منشیات فروش گینگ، ٹریڈ یونین اور سماجی کارکنوں کو دن رات قتل کرتے ہیں اور حکومت نے محض ایک سال پہلے پر امن عوامی احتجاجوں کو کچلنے کے لئے سفاکی سے فوج استعمال کی۔
کیوبا، نکاراگوا اور وینزویلا کو دعوت نہ دینے کا نام نہاد ”جمہوریت“ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ واشنگٹن کو جمہوری حقوق کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی۔ بائیڈن کا یہ سارا ڈرامہ وقتی مفاد کے لئے تھا۔ امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی انتہائی قلیل اکثریت ہے اور اس لئے اس کا تمام دارومدار ڈیموکریٹک سینیٹر رابرٹ میلیندیز پر ہے جو امریکہ میں طاقتور کیوبا مخالف لابی کا ممبر ہے۔ بائیڈن کو کلیدی ریاست فلوریڈا کے ووٹ بھی درکار ہیں جہاں وہ کمیونسٹ مخالف اور رد انقلابی رجعتی کیوبن اور وینزویلن جلاوطن مقیم ہیں جو اپنے اپنے ممالک میں بیرونی امداد سے کُو کرنے کی کوششوں میں ملوث ہیں، دونوں امریکی پارٹیوں کی سیاست پر حاوی ہیں۔ لہٰذا بائیڈن جیسا کمزور امریکی صدر اگر ان ”ممالک کی حکومتوں“ کے حوالے سے نرم دکھا تو انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
درحقیقت اس مسئلے میں بائیڈن شدید پھنسا ہوا ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے واشنگٹن اور کاراکس (وینزویلا کا دارالحکومت) کے درمیان خاموش سفارت کاری ہو رہی ہے۔ کئی سالوں سے پاگل گوئیڈو نے اپنے آپ کو وینزویلا کا ”جائز صدر“ مقرر کیا ہوا ہے اور امریکہ اس کی مسلسل حمایت کرتا آیا ہے۔ اب امریکہ نے صدر مادورو کے ساتھ اس امید پر تعلقات بحال کئے ہیں کہ وینزویلا کے تیل کی مسلسل فراہمی سے شاید روس کے خلاف پابندیوں کو تقویت مل سکے گی۔
کیوبا کے حوالے سے بائیڈن اوباما کی پالیسیوں کا اجراء چاہتا ہے یعنی ناکہ بندی میں نرمی (جس نے 60 سالوں میں کچھ حاصل نہیں کیا) اور جزیرے پر دیگر ذرائع سے سرمایہ داری کی بحالی (سرمائے کی مداخلت اور عالمی سرمایہ دارانہ منڈی کا دباؤ)۔ اس نے اس حوالے سے کچھ انتہائی محدود اقدامات بھی کیے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ محتاط ہے کہ میامی (فلوریڈا کا دارالحکومت) میں گوسانو (فیدل کاسترو کی جانب سے جلا وطن کیے گئے رد انقلابیوں کے لئے گالی جس کا لغوی معنی رینگنے والا کیڑا ہے) لابی ناراض نہ ہو جائے۔
شرکت کے حوالے سے جھگڑا ان ممالک کو دعوت دینے تک ہی محدود نہیں تھا۔ سالواڈور اور گواٹے مالا نے اپنی وجوہات کی بنیاد پر شرکت نہیں کی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ دائیں بازو کے رجعتی برازیلی صدر بولسونارو بھی شائد شرکت نہ کرے! مسئلہ یہ ہے کہ بولسونارو ٹرمپ کا پکا حامی ہے اور اپنے دوست کے جھوٹ کو مسلسل ہوا دے رہا ہے کہ امریکی انتخابات چوری ہوئے ہیں۔ جب پورا امریکہ 6 جنوری کو کیپیٹل (امریکی کانگریس) پر حملے کے واقعات کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کی سرگرمیوں میں مصروف تھا تو بائیڈن اشارے دے رہا تھا کہ شائد وہ بولسونارو سے ملاقات نہ کرے۔ بولسونارو نے جواب دیا کہ اگر ایسا ہے تو اسے شرکت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ برازیل خطے کا دوسرا گنجان آباد ملک ہے اور امریکی براعظموں پر سربراہی کانفرنس میکسیکو اور برازیل کی غیر حاضری میں بے معنی ہے۔ اس لئے بائیڈن نے بولسونارو سے ملاقات کی کیونکہ ظاہر ہے خطے میں برازیلی صدر سے بڑا ”جمہوریت کا علَم بردار“ اور کون ہے۔
شرکت میں کمی کو پورا کرنے کے لئے بائیڈن نے سپین کو شمولیت کی دعوت دی۔ جب آپ ایک میٹنگ منظم کر رہے ہوں تو ہال میں بھری کرسیاں بہت اچھی لگتی ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سپین جنوبی اور شمالی امریکی براعظموں کے بجائے یورپ میں ہے۔
امریکہ نے تمام مدعو کیے گئے ممالک کی فہرست آخری لمحے تک تصدیق نہ کر کے شرکت کے مسئلے کو اور بھی زیادہ الجھا دیا۔ اس وجہ سے یہ تنازعہ کئی مہینے ابلتا رہا۔ اس سوال پر واضح اور فیصلہ کن قیادت کی عدم موجودگی بائیڈن پر متضاد دباؤ کا اظہار ہے۔
امریکی سامراجی تسلط کی کمزوری
سربراہی کانفرنس میں موجود شرکاء نے میزبان کو روسٹرم سے چیلنج کرنے کی جرات کی۔ ارجنٹائن کے صدر البرتو فرنیندیز نے بائیڈن پر تنقید کی کہ ”غیر موجود کی خاموشی ہم پر تنقید کر رہی ہے“ اور میزبان ملک کو کوئی حق نہیں کہ وہ سربراہی کانفرنس پر ”شرکت کا حق“ زبردستی لاگو کرے۔ فرنیندیز اس حکومت کا سربراہ ہے جس نے حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور ظاہر ہے اسے کسی حوالے سے سامراج مخالف نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن سربراہی کانفرنس میں بائیڈن پر تنقید خطے میں امریکی سامراج کے منہدم ہوتے اثرورسوخ کا اظہار ضرور ہے۔
CARICOM کے موجودہ سربراہ اور بیلیز کے وزیر اعظم جان بریسینو نے بھی بائیڈن پر تنقید کی۔ ”یہ۔۔ناقابل برداشت ہے کہ تمام امریکی (براعظموں کے) ممالک یہاں موجود نہیں ہیں اور سربراہی کانفرنس کی قوت ان کی عدم موجودگی سے کم ہوئی ہے“۔
اس نے مزید کہا کہ”بیلیز شرکت سے روکنے کے حوالے سے کسی بھی ملک کے یکطرفہ حق کو مسترد کرتا ہے“۔ اس نے کیوبا پر امریکی سامراجی حملے پر بھی تنقید کی۔ ”کیوبا کی غیر قانونی ناکہ بندی انسانیت کی توہین ہے۔ اس وجہ سے آج بھی ناقابل بیان الام و مصائب جاری ہیں۔ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ درحقیقت یہ غیر امریکی ہے۔ صدر صاحب، اب وقت آ چکا ہے کہ ناکہ بندی ختم کی جائے اور کیوبا کی عوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کئے جائیں“۔
شرکت پر لڑائی کے علاوہ سربراہی کانفرنس میں کوئی کام کی بات نہیں ہوئی۔ مشترکہ اعلامیے کے بجائے ہجرت، معیشت وغیرہ پر کچھ اعلانات ہوئے جن کی کوئی اوقات نہیں ہے۔
بیلیز کے وزیر اعظم بریسینو نے لاطینی امریکہ اور امریکہ میں دولت کی بڑھتی خلیج پر بھی بات کی۔ ”ہم فرشتوں کے شہر (لاس اینجلس کے لغوی معنی) میں اکٹھے ہیں۔ وہ امریکی شہر جو امریکی براعظموں کے بہترین اور گھٹیا ترین اوصاف کا اظہار ہے۔۔ایک ایسا شہر جس میں بہت لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے اور بہت لوگوں کے پاس کچھ نہیں۔ یہ 2022ء میں امریکی براعظموں کا آئینہ دار ہے“۔
مجموعی طور پر پورا لاطینی امریکہ شدید معاشی اور سماجی بحران کی لپیٹ میں ہے جس پر وباء کے تباہ کن اثرات پڑے ہیں اور اب یوکرین جنگ نے حالات اور بھی زیادہ گھمبیر کر دیے ہیں۔ سست رو شرح نمو کے دور کے بعد (2014-19ء کے دوران محض 0.3 فیصد) اس سال خطے میں شرح نمو 1.8 فیصد ہے۔ وباء کے دوران خطے کا معاشی بحران دنیا کے عمیق ترین میں سے ایک تھا اور بعد از وباء بحالی کا دورانیہ انتہائی مختصر رہا۔ اقوام متحدہ کمیشن برائے لاطینی امریکہ (CEPAL) کے مطابق خطے میں خط غربت سے نیچے 30 فیصد لوگ تھے اور اس سال کے اختتام تک یہ شرح بڑھ کر 34 فیصد ہو جائے گی۔ شدید غربت کا شکار افراد کل آبادی کا 11.4 فیصد ہیں اور اب یہ شرح 15 فیصد تک پہنچ جائے گی! CEPAL کے مطابق 78 لاکھ افراد ”غذائی عدم تحفظ“ کا شکار ہوں گے جس کے بعد متاثرین کی کل مجموعی تعداد 8 کروڑ 64 لاکھ ہو جائے گی۔
ان میں سے کسی ایک مسئلے پر سربراہی کانفرنس میں بات نہیں ہوئی کیونکہ امریکی سامراج اور لاطینی امریکہ کے سرمایہ داروں کے پاس سرمایہ داری کی پیدا کردہ تباہی و بربادی کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔
سربراہی کانفرنس پوری دنیا میں امریکی سامراج کو درپیش ذلت و مسائل کا اظہار تھا۔ یوکرین میں جنگ ان کی توقعات کے خلاف آگے بڑھ رہی ہے۔ چین مسلسل بحر الکاہل میں واشنگٹن کے تسلط کو چیلنج کر رہا ہے۔ لاطینی امریکہ میں بھی یہ ایشیائی قوت تجارتی اور معاشی تعلقات بڑھا رہی ہے۔
چین خام مال اور توانائی کے وسائل کے لئے پیاسا ہے اور اپنی مصنوعات کے لئے نئی منڈیاں اور سرمایہ کاری کے مواقعے تلاش کر رہا ہے۔ کیریبین اور لاطینی امریکہ کے ساتھ اس کی تجارت 2002ء میں 18 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2021ء میں 449 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ چین اس وقت جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا اور امریکہ کے بعد لاطینی امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس وقت خطے میں 21 ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے منسلک ہو چکے ہیں جس کے تحت انفراسٹرکچر اور تجارتی منصوبوں کے ذریعے چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں نکاراگوا اور دومینیکن جمہوریہ نے معاشی مراعات کے بدلے میں تائیوان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے۔ اس سے پہلے ایل سالواڈور اور پاناما بھی یہ کام کر چکے ہیں۔
بائیڈن کی ہٹ دھرمی کے جواب میں شاید نکاراگوا نے روس کو اپنی حدود میں عسکری موجودگی اور مشترکہ جنگی مشقوں کی اجازت دی ہے۔
یہ سب کچھ امریکہ کے پچھواڑے میں ہو رہا ہے اور اس وجہ سے بہت زیادہ خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ 1823ء میں مونرو ڈاکٹرائن نے اعلان کیا تھا کہ ”امریکہ امریکیوں کے لئے ہے“ جس کا مطلب یہ تھا کہ اُبھرتے نوجوان امریکی سامراج کو یورپی قوتوں کے مقابلے میں لاطینی امریکہ پر بلا شراکت تسلط کا حق ہے۔ یہ ڈاکٹرائن دہائیوں جاری رہا ہے اور امریکی میرین فورسز نے درجنوں فوجی بغاوتوں اور مداخلتوں کے ذریعے امریکی اجارہ داریوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ آج امریکہ کی پوزیشن کافی کمزور ہو چکی ہے۔ ہاں، امریکہ آج بھی اپنے مخالفین سے دور دنیا کا سب سے طاقتور سامراج ہے۔ لیکن آج امریکہ ماضی کی طرح معاشی قوت نہیں ہے اور اس کے تسلط کو اب چیلنجوں کا سامنا ہے، یہاں تک کہ اپنے پچھواڑے لاطینی امریکہ میں بھی یہی صورتحال بن چکی ہے۔ امریکی براعظموں کی سربراہی کانفرنس میں اب یہ حقیقت پوری دنیا پر آشکار ہو چکی ہے۔
سامراجی سربراہی کانفرنسیں مردہ باد! سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
لاطینی امریکہ میں معاشی اور سماجی بحران نے انتہائی طاقتور قوتوں کو مرکوز کر دیا ہے۔ ٹراٹسکی کے امریکی سامراج کے حوالے سے لکھے گئے الفاظ کی تشریح میں، پورے براعظم کی بنیادوں میں بارود بھرا ہوا ہے۔ 2019ء میں ہم بغاوتوں کی لہر دیکھ چکے ہیں (پورتو ریکو، ہیٹی، ایکواڈور، چلی)۔ کورونا وباء نے عارضی طور پر اس عمل کو کاٹ دیا تھا۔ لیکن وباء کے دوران بھی ہم نے گواٹے مالا اور پیرو میں عوامی تحریکیں اور کولمبیا میں تین مہینے چلنے والی شاندار ملک گیر عام ہڑتال دیکھی ہیں۔
ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور موجودہ اصلاح پسند قائدین کی غداریوں نے ان تحریکوں کو بھٹکا دیا جو بالآخر ماند پڑ گئیں۔ مگر جب عوامی تحرک کی راہ میں رکاوٹیں تھیں تو عوامی غم و غصے نے اپنا پارلیمانی اظہار کیا (چلی، پیرو، ہنڈوراس، کولمبیا)۔ پیرو میں کاستیلو حکومت نے فوراً دکھا دیا ہے کہ بحران زدہ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے بہتری ناممکن ہے۔ چلی میں بورک، پینوشے نواز دائیں بازو کے مسترد ہونے کے نتیجے میں منتخب ہوا لیکن ساتھ ہی اس کے ذریعے 2019ء کے سماجی دھماکے کو زائل بھی کروایا گیا۔
اب ایکواڈور میں عوام ایک مرتبہ پھر متحرک ہے۔ یکے بعد دیگرے تمام ممالک میں دیو ہیکل سماجی دھماکوں کا ماحول بن رہا ہے۔ محنت کش، کسان، نوجوان اور خواتین ایک مرتبہ پھر جدوجہد کے میدان میں اتریں گے تاکہ بحران زدہ سرمایہ داری اور اس کے پیدا کردہ مسائل جیسے غربت، جبر اور استحصال سے آزادی حاصل کی جائے۔ وہ حکومتوں کو اقتدار دیں گے جنہیں وہ بائیں بازو کا سمجھتے ہیں، انہیں آزمائیں گے اور مایوس ہوں گے۔
براعظم پر موجود کروڑوں انسانوں کے سامنے روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم اور پنشن کے درپیش مسائل سے آزاد ہونے کا واحد راستہ سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔ براعظم دولت سے مالامال ہے جبکہ عوام غریب ہے۔ اجارہ داریوں اور مقامی سرمایہ داروں کی دولت کو ضبط اور بیرونی قرضوں سے انکار کر کے ہی لاطینی امریکہ کی دولت کو ایک منصوبہ بند پیداوار کے تحت مٹھی بھر اشرافیہ کے بجائے عوام کی اکثریت کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر محنت کش حقیقی آزادی چاہتے ہیں تو سامراج اور سرمایہ داری کا طوق گلے سے نوچ کر پھینکنا ہو گا۔ پھر ایک حقیقی امریکی براعظموں کی سربراہی کانفرنس ہو گی جس میں محنت کش جمہوریاؤں کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قائدین شرکت کر کے ان عظیم براعظموں کے حقیقی امکانات کو بے لگام کر دیں گے۔
اور پھر ہم موجودہ سربراہی کانفرنسوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیں گے۔