2اور 3 دسمبر 2023ء کو لانڈھی انڈسٹریل ایریا، کراچی میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام دو روزہ مرکزی ورکرز سوشلسٹ سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں کراچی سمیت ملک بھر سے عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
[Source]
اس کے علاوہ سکول میں مختلف یونیورسٹیوں و تعلیمی اداروں کے طلبہ اور نوجوانوں نے بھی شرکت کی۔ مزید برآں انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی (IMT) کے برطانوی سیکشن (سوشلسٹ اپیل) کے دو کامریڈز بھی خصوصی طور پر سکول میں شرکت کی خاطر برطانیہ سے پاکستان آئے تھے۔ یوں کل ملا کر 170 کے قریب شرکاء نے سکول میں ہونے والی سیاسی و نظریاتی بحثوں کو نہ صرف بھرپور انہماک سے سنا بلکہ ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔
مرکزی سکول سے قبل لاہور، ڈی جی خان، کوئٹہ، لورالائی، بہاولپور، تیمرگرہ، کشمیر، کراچی سمیت ملک بھر میں ایریا و ریجنل ورکرز سوشلسٹ سکولز اور محنت کشوں کے سٹڈی سرکلز کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ محنت کش طبقے کو مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے متعارف کروانے کی خاطر ان کے لئے خصوصی طور پر سیاسی و نظریاتی سکولز کا انعقاد کیا گیا ہے۔
ویسے تو مرکزی سکول میں ملک کے طول و عرض سے جن عوامی اداروں، نجی صنعتوں اور مزدور یونینز و ایسوسی ایشنز کے محنت کش شریک ہوئے، ان کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن چیدہ چیدہ ناموں میں واپڈا، ریلوے، پیرا میڈیکس یونین، پاکستان پوسٹ، پاکستان سٹیل ملز، کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ، کے ایم سی، پورٹ قاسم، اے جے کے ٹیچرز یونین، ایپکا و دیگر کلیریکل سٹاف ایسوسی ایشنز، پی ڈبلیو ڈی، جنرل ٹائرز، آئی آئی ایل، یونین ٹیکسٹائل، حبیب یونیورسٹی، گیٹز فارما، میرئیٹ پیکیجنگ، پکسار، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، اوپل لیبارٹریز، الدانیال پیکیجنگ اور یونس ٹیکسٹائل شامل ہیں۔
پہلا دن
مرکزی سکول کے پہلے روز کا آغاز انٹرنیشنل رپورٹ سے ہوا جس کا عنوان تھا ”عالمی مزدور تحریک کا ابھار اور سوشلسٹ نظریات کی ضرورت“۔ رپورٹ عالمی مارکسی رحجان کے مرکزی رہنما کامریڈ بین کری نے پیش کی جبکہ ترجمے کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی صدر کامریڈ آفتاب اشرف نے سر انجام دیے۔ کامریڈ بین نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ پچھلی ڈیڑھ دہائی کے عرصے میں دنیا بھر میں چلنے والی محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں، عام ہڑتالوں وغیرہ پر بات کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ ان تمام تحریکوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں سوشلسٹ انقلاب برپا کئے جا سکتے تھے لیکن محنت کش طبقے کی تمام تر جرات و قربانیوں کے باوجود ایسا صرف اس کارن نہ ہو سکا کہ محنت کش عوام کی قیادت کرنے کے لئے مارکسی نظریات سے مسلح ایک انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی اور ایسی پارٹی کی تعمیر کے لئے لازمی ہے کہ محنت کش طبقے کے بہترین عناصر کو تیزی کے ساتھ مارکسزم کے نظریات سے روشناس کرایا جائے۔
انٹر نیشنل رپورٹ کے بعد سکول کا پہلا سیشن ہوا جس کا موضوع تھا ”سرمایہ داری کا عالمی و ملکی بحران اور انقلابی تحریکیں“۔ اس موضوع پر لیڈ آف ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی راہنما کامریڈ پارس جان نے دی۔ پارس نے جہاں ایک طرف عالمی و ملکی سرمایہ دارانہ بحران کا مارکسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ آنے والا عرصہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں غیر معمولی انقلابی واقعات سے بھرپور ہو گا وہیں دوسری طرف اپنے مخصوص طرز خطابت سے شرکاء کو انقلابی جوش و جذبے سے بھر دیا جس کا اظہار سکول کے دوران وقفے وقفے کے ساتھ ہونے والی بھرپور انقلابی نعرے بازی کے ساتھ ہوتا رہا۔ لیڈ آف کے بعد برطانوی سیکشن سے آئے کامریڈ بین گلینسکی، کشمیر سے تعلق رکھنے والے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی نائب صدر کامریڈ یاسر ارشاد، کوئٹہ سے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی جنرل سیکرٹری کریم پرھار، لاہور سے مقصود ہمدانی اور سلمیٰ ناظر نے بھی بحث میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ اس کے بعد ورکرنامہ کے آرگنائزر کامریڈ ثنا جلبانی نے محنت کشوں کے ماہ نامہ اخبار ”ورکرنامہ“ کی اہمیت پر روشنی ڈالی جبکہ پارس جان نے شرکاء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سیشن کا سم اپ کیا۔
سکول کے دوسرے سیشن کا موضوع تھا ”سرمایہ دار طبقے کا منافع کہاں سے آتا ہے؟“، جس پر آئی ایم ٹی پاکستان سیکشن (لال سلام) کے مرکزی راہنما کامریڈ آدم پال نے لیڈ آف دی۔ کامریڈ آدم نے بڑی مہارت کے ساتھ کموڈیٹی، قدر تبادلہ، قدر استعمال، سماجی لازمی وقت محن، زر، اشیاء کے تبادلے اور زر کے تاریخی ارتقاء، قدر کے نظریہ محنت، قوت محنت کی خرید و فروخت، نظریہ قدر زائد وغیرہ جیسے مشکل موضوعات کا احاطہ کیا۔ لیڈ آف کی بعد کامریڈ آفتاب اشرف اور کامریڈ بین کری نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جبکہ آدم پال نے سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کیا۔ یوں سکول کا پہلا روز اختتام پذیر ہوا۔
دوسرا دن
سکول کے دوسرے روز کا پہلا اور بحیثیت مجموعی تیسرے سیشن کا عنوان تھا ”سرمایہ دارانہ ریاست اور محنت کش طبقہ“۔ اس موضوع پر لیڈ آف ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی صدر کامریڈ آفتاب اشرف نے دی۔ آفتاب اشرف نے اپنی لیڈ آف میں انتہائی سادہ الفاظ میں محنت کشوں کو مارکسی نظریہ ریاست، ریاست کے تاریخی ارتقاء، سرمایہ دارانہ ریاست کی مزدور دشمنی اور سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی مزدور ریاست کے بنیادی خد و خال کے متعلق آگاہ کیا، جسے سکول میں شریک ورکرز نے بہت پسند کیا۔ لیڈ آف کے بعد کامریڈ بین گلینسکی، حب سے کامریڈ ثنا زہری، کشمیر سے کامریڈ اجمل، حیدرآباد سے کامریڈ رشید آزاد، کامریڈ بین کری، بلوچستان سے محکمہ تعلقات کی آل بلوچستان کلرک اینڈ ٹیکنیکل ایمپلائز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر شمس الرحمٰن کاکڑ نے بحث کو آگے بڑھایا جبکہ کامریڈ آفتاب اشرف نے سوویت یونین کی ٹھوس مثال سامنے رکھ کر شرکاء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سیشن کا سم اپ کیا۔
سیشن کے بعد لاہور سے مرکزی ورکرز سکول میں شرکت کے لئے آئی پروگریسو یوتھ الائنس کے طلبہ و نوجوانوں پر مشتمل تھیٹر ٹیم نے صفدر ہاشمی کا لکھا ہوا تھیٹر ”مشین“ پیش کیا جسے محنت کشوں میں بھرپور پذیرائی ملی اور انہوں نے ان انقلابی نوجوانوں کو دل کھول کر داد دی۔
تھیٹر کے بعد سکول کا چوتھا اور آخری سیشن ہوا جس کا عنوان ”جنوبی ایشیاء میں مزدور جدوجہد کی انقلابی تاریخ“ تھا۔ اس موضوع پر لیڈ آف ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی نائب صدر یاسر ارشاد نے دی جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کے محنت کشوں کی جدوجہد سے لے کر پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک اور حال ہی میں سری لنکا کے محنت کش طبقے کی انقلابی بغاوت تک اس خطے کے محنت کشوں کی شاندار انقلابی روایات پر سیر حاصل بحث کی۔ لیڈ آف کے بعد کامریڈ آدم پال نے بحث کو آگے بڑھایا جبکہ یاسر ارشاد نے سوالات کی روشنی میں بحث کا سم اپ کیا۔
چوتھے سیشن کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی سیکرٹری جنرل کامریڈ کریم پرھار نے فرنٹ کی اب تک کی حاصلات اور مستقبل میں درپیش چیلنجز اور ٹارگٹس کے حوالے سے ایک مختصر رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی کے مرکزی راہنما، جنرل ٹائرز ورکرز یونین کے صدر اور سکول کے انعقاد میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والے کامریڈ عزیز خان نے اپنی اور ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی کی صدر کامریڈ انعم خان کی جانب سے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
سکول کے اختتامی کلمات برطانوی سیکشن کے کامریڈ بین کری نے ادا کئے جبکہ ترجمے کے فرائض کامریڈ آفتاب اشرف نے ادا کئے۔ سکول کا باقاعدہ اختتام تمام شرکاء کی جانب سے پورے جوش و خروش کے ساتھ مزدوروں کا عالمی ترانہ ”انٹرنیشنل“ گا کر کیا گیا۔