ایران: نوجوان کرد لڑکی مھسا امینی کے قتل کے بعد ملک گیر انقلابی تحریک کا اُبھار

ایران کی بدنامِ زمانہ اخلاقی پولیس (گشتِ ارشاد) کے ہاتھوں نوجوان کرد لڑکی ژینا مھسا امینی کے قتل کے خلاف ایران بھر میں احتجاجوں کا سلسلہ دیکھنے کو ملا ہے۔ احتجاجوں کا آغاز ایران کے کرد علاقوں میں ہوا اور اس کے بعد وہ ملک کے بڑے شہروں سمیت 30 سے زائد شہروں تک پھیل گئے، جن میں تہران، مشھد، اصفہان، کرج، تبریز اور نام نہاد مقدس شہر قم شامل ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز پولیس تشدد کے خلاف ردعمل کے طور پر ہوا تھا مگر جلد ہی اس میں پوری ریاست کے خلاف غم و غصّے کا اظہار کیا جانے لگا۔

[Source]

مھسا کا تعلق بنیادی طور پر سقز شہر سے تھا اور وہ تہران میں گھومنے پھرنے آئی تھی، جسے 13 ستمبر بروز منگل شام کو اخلاقی پولیس نے سکارف ٹھیک طرح سے نہ پہننے کے جرم میں گرفتار کیا۔ اسے حراستی گاڑی میں گھسیٹ کر ”تربیت“ کے لیے لے جایا گیا۔ چند گھنٹوں بعد اس کے مرنے کی اطلاع ملی۔ شروع میں ریاست نے کوئی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی جس کے مطابق کہا گیا کہ اس میں مھسا امینی کو صحت مند حالت میں دیکھا جا سکتا ہے جو دل کا دورہ پڑنے سے گر گئی تھی۔ البتہ بڑھتے ہوئے احتجاجوں کے دباؤ میں آ کر بعد میں سی ٹی سکین کی رپورٹ سے ہڈی کے فریکچر، ہیمرج اور دماغ کی سوجن کا پتہ چلا، جس سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ اس کی موت سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

اس کی موت کی خبر پھیلتے ہی ملک بھر میں خود رو طور پر احتجاج شروع ہو گئے۔ تہران میں ارجنٹائن سکوائر اور ساعی پارک کے گرد ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔ پولیس کی مداخلت نے بالآخر مظاہرین کو منتشر کیا مگر مظاہرین جلد ہی سڑکوں پر دوبارہ نمودار ہوئے اور پولیس کے ساتھ متصادم ہو گئے، وہ کھلے عام سیاسی نعرہ بازی کر رہے تھے: ”مرگ بر خمینی“، ”خمینی قاتل ہے، اس کی حکومت ناجائز ہے“؛ اور ”کردستان تا تہران، خواتین ہیں مظلوم“۔

تہران میں احتجاجوں کی قیادت یونیورسٹی کے طلبہ کرتے رہے ہیں، جو ہزاروں کی تعداد میں اور دارالحکومت کی ہر یونیورسٹی سے نکلے ہیں، ان یونیورسٹیوں سمیت جن کے اندر ماضی میں کوئی خاص سیاسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ تہران کی امیر کبیر یونیورسٹی، ملک کے اول درجے کا تعلیمی ادارہ، کے اندر طلبہ یہ نعرے لگا رہے تھے: ”کردستان تا تہران، خون میں ڈوبا ایران“، ”محض سکارف کے لیے مارا گیا؟“ اور ”کب تک یہ ذلت؟“۔ مظاہروں میں ایک اور مشہور نعرہ تھا: ”خواتین؛ زندگی؛ آزادی“، جو 1979ء کے انقلاب کے اس نعرے ”روٹی، روزگار، آزادی“ سے مشابہت رکھتا ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے دوبارہ لگایا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو قابو کرنے کے لیے حکومت نے کیمپسز کے اندر نوجوانوں کی پیراملٹری تنظیم بسیج کو متحرک کیا، مگر اس کا جواب ”مرگ بر بسیج“ نعرہ لگا کر دیا گیا۔

کثیر تعداد کے احتجاج، جس کی قیادت اکثر خواتین کے پاس تھی، تمام بڑے شہروں اور ملک کے اکثریتی خطوں میں دیکھنے کو ملے، جن میں ایک مشترکہ نعرہ ”مرگ بر آمر“ تھا، جو رہبرِ معظّم علی خمینی اور یوں مجموعی طور پر ریاست کی بنیادوں کو للکارنے کے مترادف تھا۔

کرج، تہران کا صنعتی علاقہ اور ایران کا چوتھا بڑا شہر، کے اندر مظاہرین نے یہ نعرہ بلند کیا: ”اس دن سے ڈرو جب ہم مسلح ہوں گے“۔ یہ نعرہ دیگر کئی علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے۔ رشت کے اندر جب 19 ستمبر کو لوگوں نے بسیج کے اہلکاروں کو مار بھگایا تو وہ یہ نعرہ لگا رہے تھے۔ ایک اور نعرہ جو کسی حد تک مشہور ہوا یہ تھا ”مرگ بر ستمگر، بادشاہ ہو یا رہبر“، جو خمینی اور رضا پہلوی دونوں کی طرف اشارہ تھا، رضا پہلوی آخری بادشاہ کا امریکی حمایت یافتہ بیٹا ہے جو آئینی بادشاہت کے لیے مہم چلاتا رہا ہے۔

قم شہر، مذہبی اداروں اور ملک کے بڑے مدارس کا مرکز جو ملّا ریاست کا اہم گڑھ ہے، کے اندر نوجوان مظاہرین سڑکوں پر یہ نعرہ لگاتے ہوئے نکل آئے: ”اپنے توپ، ٹینک، پٹاخے اور ملّاؤں کو یہاں سے دفع کرو“۔ قم سے ایسی ویڈیوز بھی موصول ہوئی ہیں جن میں غصے سے بھرے نوجوان مرد و خواتین کو بسیج کے اہلکار مارتے پیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک بھر سے موصول ہونے والی بے شمار ویڈیوز میں خواتین کو اپنے سکارف اتارتے ہوئے دیکھا گیا، جن کی اکثریت نے احتجاجاً انہیں جلا دیا۔

ریاست کی سیکورٹی فورسز نے تشدد کے ذریعے احتجاجوں کا جواب دیا۔ پولیس کے ہاتھوں کم از کم 7 افراد کے مارے جانے اور درجنوں مزید زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بہرحال، مظاہرین ثابت قدمی سے جبر کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

ساری شہر کے متعلق خبریں ملی ہیں کہ وہاں بسیج کے ہیڈکوارٹرز اور گورنر کے دفتر کو آگ لگائی گئی ہے۔ آمل شہر کے اندر مظاہرین نے گورنر کے دفتر پر پہلے قبضہ کر دیا اور بعد میں اسے آگ لگا دی۔ کسی بھی احتجاج کو مکمل طور پر دبا دیے جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ہیں۔ اس کے برعکس، ڈنڈے کا ہر وار اور بندوق کی ہر گولی مظاہرین کو مزید مشتعل کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کئی شہروں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہاں لوگوں کی مار پیٹ سے بچنے کے لیے پولیس عام کپڑے استعمال کرنے پر مجبور تھی۔ بے شمار ویڈیوز میں پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے اوپر حملے ہوتے اور غصے سے بھرے مظاہرین کے ہاتھوں مار کھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ریاست کا پلڑا ہلکا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جو اب وسیع تر اور عمومی انقلابی تحریک کے امکانات سے خوفزدہ ہے۔

کرد علاقوں میں بالخصوص شدید غم و غصّہ دیکھنے کو ملا ہے۔ مھسا کی موت کی خبر سن کر ہزاروں نوجوانوں نے آیت اللہ خمینی کی تصاویر سمیت اسلامی جمہوریہ کی تصاویر اور نشانیوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ 17 ستمبر کو مھسا کا جنازہ بھی احتجاج میں تبدیل ہو گیا، جہاں خواتین نے اپنے سروں سے سکارف اتارا اور ہزاروں لوگوں نے یہ نعرہ بلند کیا: ”مرگ بر خمینی“۔ جنازے کے بعد مظاہرین نے گورنر کے دفتر کی جانب مارچ شروع کیا۔ ان کے اوپر سیکورٹی فورسز نے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں، مگر وہ برابر مزاحمت کرتے رہے۔ کردستان کے کئی علاقوں میں پچھلے دنوں کے دوران خانہ جنگی سے مشابہت رکھنے والے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں، جہاں مظاہرین اور ریاستی فورسز نے ایک دوسرے کے اوپر گولیاں چلائی ہیں۔

19 ستمبر کو بھی کسی قسم کی پسپائی دیکھنے میں نہیں آئی جب سقز، بوکان، مھاباد، اشنویہ، بانہ، مریوان، سنندج، پیرانشھر اور محمد شھر کے بازاروں میں ہڑتالیں ہوئیں۔ اب عراق، شام اور ترکی کے کرد علاقوں سمیت کردستان کے پورے خطے میں عام ہڑتال کی کالیں دی جا رہی ہیں۔ بازار کی ہڑتالیں اور احتجاج تہران اور کرج سمیت ایران کے دیگر شہروں تک بھی پھیل چکے ہیں۔

مظلوم پہلی صفوں میں

ایران کے کرد علاقے، جہاں بہت پرانی انقلابی روایات رہی ہیں، کئی دہائیوں سے ریاست کے تعصب اور جبر کا نشانہ رہے ہیں۔ وہ دیگر علاقے جہاں نسلی اقلیتیں آباد ہیں، کی طرح ان کرد علاقوں کے اندر معدنیات، تیل اور پانی کے بڑے ذخائر سمیت گھنے جنگلات بھی پائے جاتے ہیں، جو سب ایرانی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ ریاست دہائیوں سے یہ وسائل دیگر صنعتی علاقوں بالخصوص فارسی آبادی کے لیے استعمال کرتی رہی ہے جبکہ ایرانی کردستان کو جان بوجھ کر اس خوف سے پسماندہ رکھا گیا ہے کہ کہیں وہاں طاقتور کرد محنت کش طبقہ نہ جنم لے۔

نتیجتاً ایرانی کرد آبادی کے بیچ شدید غربت اور بے روزگاری وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے۔ اس دوران، بہتر حالات کے لیے کسی بھی جدوجہد کی کوشش کا ریاست نے سخت جبر اور سزاؤں کی صورت جواب دیا ہے۔ اس عمل نے پچھلے عرصے کے دوران ایرانی کردوں کے بیچ لڑاکا پن کو بڑھاوا دیا ہے، جن کی پولیس اور فوجی دستوں کے ساتھ جھڑپیں ایک معمول بن چکا ہے۔ مھسا امینی کے قتل کی صورت میں ایران کی کرد آبادی بلاشبہ ریاست کی اس نسل پرستی اور شاؤنزم کو دیکھ رہے ہیں جس کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ بات خواتین کے حوالے سے بھی درست ہے۔ ہر سال اخلاقی پولیس حجاب ٹھیک طرح سے نہ پہننے کے جرم میں 16 ہزار سے زائد خواتین کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ ان خواتین کو زبانی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مھسا امینی در حقیقت چند گھنٹوں کے لیے زیرِ حراست تھی مگر اسلامی جمہوریہ کے غنڈوں کی تشدد کا شکار ہو کر اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ عینی شاہدین کے مطابق مھسا اور دیگر قیدی گرفتار ہونے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے جواب میں انہیں زبانی تشدد، مار پیٹ اور مرچوں والی سپرے کا نشانہ بنایا گیا، جس کے باعث بالآخر مھسا بے ہوش ہو گئی۔

اس قسم کی نا انصافیاں ایران میں عام ہیں، جہاں خواتین کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ تقریباً وہ تمام گھرانے جن کا معاشی بوجھ خواتین سنبھالتی ہیں، خطِ غربت سے نیچے ہیں، جو سماج کی غریب ترین پرت ہے۔ شدید غربت سے بچنے کے لیے خواتین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ اپنے شوہروں کی غلامی کرتی رہیں۔ ہر سال 2 ہزار خواتین کو صنفی امتیاز کے تحت قتل کیا جاتا ہے، جو ایران میں کُل قتل ہونے والوں کا 20 فیصد بنتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ اپنے جابرانہ قوانین کے ذریعے اس بھیانک صورتحال کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر، مولوی ٹی وی پر آ کر حیا اور پاک دامنی کی تبلیغ کرتے ہیں۔ مگر وہ سراسر منافق ہیں۔ در حقیقت، وہ اور ان کے بچے مغربی ممالک کے امیروں کی طرح پُر تعیش زندگی بسر کرتے ہیں اور منشیات، شراب اور جسم فروشی وغیرہ جیسے تمام اقسام کی بد کاریوں میں مگن رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی پولیس ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی کیونکہ ان کا مقصد محض عام مرد و خواتین کے بیچ اختلافات پھیلانا اور محنت کشوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔

وہ ادوار جب طبقاتی جدوجہد نسبتاً کم پیمانے پر ہو، کے دوران حکمران طبقہ کچھ حد تک ان کوششوں میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مگر موجودہ دور اس قسم کا نہیں ہے۔ ایرانی خواتین اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ مولویوں کی مسلط کردہ قسمت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ قابلِ ستائش بہادری کے ساتھ، وہ بہت بڑی تعداد میں سڑکوں کے اوپر نکلی ہیں اور اگر اکثریتی نہیں تو کئی علاقوں میں وہ دراصل قائدانہ کردار نبھا رہی ہیں: اپنے سکارف اتار کر، سب سے لڑاکا نعرے لگا کر اور حتیٰ کہ سیکورٹی فورسز کے اوپر ہونے والے اکثر حملوں کی قیادت کر کے۔

خواتین اور نسلی اقلیتوں جیسی دیگر مظلوم پرتیں انقلابات میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جیسا کہ 1917ء کے فروری انقلاب میں دیکھنے کو ملا تھا جب روسی محنت کش خواتین اور گھریلو خواتین نے عام ہڑتال کی جانب پہلا قدم اٹھایا تھا۔ یہی مناظر 2012ء کے مصری انقلاب میں اور حالیہ سالوں میں سوڈان کے اندر بھی دیکھنے کو ملے تھے۔

معمول کے عرصے میں، حکمران طبقہ انتہائی مظلوم پرتوں کے غم و غصّے کو کامیابی سے قابو کر لیتا ہے۔ مگر ایک دفعہ جب عوام متحرک ہونا شروع جائے، یہی غم و غصہ عمومی طور پر سماج کے اوپر حاوی ہو جاتا ہے، جو ان پرتوں کو جدوجہد کی پہلی صفوں میں دھکیل دیتا ہے، جبکہ پرانے ”کارکنان“ اور ”انقلابی“ جو کئی سالوں سے وقت کی مخالف سمت میں چل رہے ہوتے ہیں اور اپنے تجربات کی بنیاد پر ایک حد تک سست پڑ گئے ہوتے ہیں، اکثر ان بڑے واقعات کی توقع نہ کرتے ہوئے محض تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ سماج کی پسماندہ ترین سوچوں کا سہارا لیتی ہے تاکہ عوام میں اختلافات پھیلا کر انہیں مذہب، نسل اور صنف کی بنیاد پر تقسیم کر سکے۔ اس قسم کے شاؤنزم کے بغیر حکمران طبقہ سماج کے اوپر اپنی گرفت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ یہ واضح ہے کہ جبر کے خلاف جدوجہد ایرانی انقلاب کا کلیدی حصہ ہے۔

عوام کو اپنے طور پر اس بات کا احساس ہو رہا ہے اور انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا ہے: ”خواتین، زندگی، آزادی“، جو لڑاکا پرتوں کے بیچ ”مرگ بر آمر“ کے بعد مشہور ترین نعرہ ہے۔ اسی طرح، کرد تحریک کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے بھی بے شمار نعرے لگائے گئے ہیں۔ تبریز یونیورسٹی کے طلبہ نے مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا، جس سے پروان چڑھتے عوامی اتحاد کا اظہار ہوتا ہے:

”ان احتجاجوں کے خوبصورت ترین نعروں میں سے ایک یہ تھا کہ ’جاگ اُٹھا آذربائیجان، اس کا ساتھی کردستان‘

”کئی گروہوں نے سماجی گروہوں، قوموں، قبائل اور مظلوموں کے مختلف دھڑوں کے بیچ اختلافات پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ مگر آج، بہادر اور بیدار آذربائیجان کے اندر ہم لڑاکا اور بیدار کردستان کی یکجہتی میں نعرے سن رہے ہیں۔ مھسا امینی کے نام کے آخری حصے کا مطلب ہے ’ہم‘۔ ہم مظلوم سب ایک ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارا تعلق ملک کے کس علاقے سے ہے یا ہمارا پسِ منظر کیا ہے: مرد و خواتین، بوڑھے اور جوان، ہم سب مظلوم اور اذیتوں میں مبتلا ہیں، ہم کام کرنے والے اور محنت کش اور مظلوم ہیں، ہم سب متحد ہیں۔

”آذربائیجان کے پرُ جوش عوام زندہ باد جو اتنا خوبصورت نعرہ لگا رہے ہیں۔ گیلان صوبے کے پرُ جوش عوام زندہ باد جنہوں نے شاندار جدوجہد کی۔ تہران، خراسان، اصفہان، قزوین کے لوگ۔۔۔اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے تمام بہادر لوگ زندہ باد۔“

یہ اس بات کا اظہار ہے کہ کس طرح یکجہتی اور متحدہ جدوجہد اس رجعتی آذری قوم پرستی کے اوپر غلبہ پا رہی ہے جو ایران کے آذری علاقوں کے اندر ایک لمبے عرصے سے موجود رہی ہے۔

وسیع پیمانے کی حمایت

لینن نے ایک دفعہ وضاحت کی تھی کہ انقلابات ”مظلوموں کی تہواریں“ ہوتی ہیں۔ تحریک جیسے ہی پھیلنا شروع ہو جائے وہ سماج کی مظلوم پرتوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہے۔ سڑکوں پر موجود نوجوان ایران کے کروڑوں مزدوروں، کسانوں، دکانداروں، بے روزگاروں، غریبوں اور محروم عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ان میں سے ہر پرت کے دکھ درد الگ الگ ہیں، مگر مھسا امینی کے ساتھ ہونے والی وحشیانہ نا انصافی کی شکل میں وہ ان دیگر ہزاروں نا انصافیوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ شدید معاشی دباؤ، جس میں پچھلے کچھ سالوں سے مزید اضافہ ہو رہا ہے، کے ساتھ جمہوری حقوق کے فقدان کی گھٹن بھی موجود ہے جس نے عوام کی اکثریت کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ دوسری جانب ریاست کی اوپری پرت مکمل طور پر خونخوار بن چکی ہے، یوں لگتا ہے کہ وہ محض غریبوں کو لوٹنے کے لیے وجود رکھتی ہے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ مکمل آزادی کے ساتھ گھناؤنے جرائم سے بھی باز نہیں آتے۔

سڑکوں پر موجود تحریک اس مجتمع شدہ غصے اور نفرت کے اظہار کا ذریعہ بن رہی ہے، جبکہ اپنی آواز بلند کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہی ہے۔ اس دوران، جدوجہد کی صفوں میں شامل نوجوانوں اور محنت کشوں کا خوف کم ہوتا جا رہا ہے اور آگے کی جانب بڑھتا ہوا ہر قدم اور جدوجہد میں شامل ہونے والی ہر نئی پرت ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ انقلابی عزم و ہمت کا جذبہ پھیل رہا ہے، جو ایک عوامی تحریک کی راہ ہموار کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

مگر تحریک نے محض غریب ترین پرتوں کو متاثر نہیں کیا ہے۔ مھسا امینی کے قتل کے بعد سماج کی متوسط پرتوں نے بھی ریاست کی مذمت اور تحریک سے ہمدردی کی ہے جن میں دانشور، فنکار، کھیل سے وابستہ شخصیات (جن کی اکثریت ماضی میں غیر سیاسی یا حکومت کی حمایتی رہی ہے)، اور حتیٰ کہ مذہبی علماء کے بھی کچھ عناصر شامل ہیں، جو اب ’سکارف کی زبردستی‘ ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ریاست کی بقا کا سوال بن رہا ہے۔

پسپا ہوتی حکومت

اگر تحریک اسی طرح آگے بڑھتی رہی اور سڑکوں کے اوپر مزید پرتوں کو شامل کرتی رہی تو مولویوں کو انقلاب کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسا انقلاب جو آسانی سے ان کا تختہ الٹنے کا اہل ہوگا۔ ان کو اس ساری صورتحال سے بڑا دھچکا لگا ہے۔ 19 ستمبر کو ھم میھن اخبار نے پریشانی کے عالم میں لکھا: ”ہر دن سماجی قوتوں کی نئی لہریں، جیسا کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، تجارتی اور پیشہ ورانہ گروہ، اس مسئلے کو دیکھتے ہیں، اس کے بارے میں مؤقف اپناتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ (۔۔۔) یاد رہے کہ ان عوامی جذبات کو ہمارے دشمنوں اور غیر ملکی میڈیا کے اثر و رسوخ کے طور پر نہیں پیش کرنا چاہیے۔ (۔۔۔) یہ اجتماعی جذبات عوام کے ان تجربات کا نتیجہ ہے جو پچھلے سالوں میں انہوں نے حاصل کیے ہیں۔۔۔“ اس نے انتظامیہ سے قانون کے دائرے میں رہنے اور پیشہ ورانہ تحقیقات کرنے کی اپیل کی۔ اس صورتحال میں موجود ممکنہ سماجی دھماکے کو دیکھتے ہوئے اخبار نے ریاست کو تنبیہہ دی کہ اسے اس معاملے میں اپنے معمول کے مغرور رویے کو ترک کرنا چاہیے ورنہ وہ اس سے بھی بڑی اور قابو سے باہر تحریک کو اشتعال ملے گا۔

ان ممکنات سے خوفزدہ ہو کر ریاستی افسران نے چالاکی سے مھسا امینی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ صدر ابراہیم رئیسی کا مبینہ طور پر مھسا کے والد سے کہنا تھا کہ ان کی بیٹی ”میری اپنی بیٹی جیسی“ تھی اور معاملے کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ محض کھوکھلی باتیں ہیں، خاص کر رئیسی کے معاملے میں کیونکہ وہ خود سکارف کے قوانین اور اس کے نفاذ میں سختی کرتا رہا ہے۔ مگر رئیسی جیسے سخت قدامت پرست کی جانب سے ایسا مفاہمت والا رویہ اپنانا ریاست کی پریشانیوں کی عکاسی کرتا ہے۔

اسی طرح کی باتیں عدلیہ اور پارلیمنٹ جیسے دیگر اداروں کی جانب سے بھی کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس غلام حسین محسنی اژہ ای کا کہنا تھا کہ حکومت مھسا امینی کی موت کی ”تحقیقات“ کے دوران ”حکومتی افسران اور اہلکاروں بشمول پولیس فورس کی غلطیوں کو نظر انداز“ نہیں کرے گی۔ اس کا مزید کہنا تھا: ”نتیجہ چاہے جو کچھ ہو، ہچکچاہٹ کے بغیر کارروائی کی جائے گی۔“ تہران کی اخلاقی پولیس کے چیف کو معطل کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

محنت کش طبقے کو متحرک ہونا ہوگا

ابھی تک ہر گزرتے دن اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تحریک مضبوط ہوتی گئی ہے۔ اگرچہ اس کے حامی ابھی مکمل طور پر متحرک نہیں ہوئے ہیں مگر اس کی حمایت وسیع پیمانے پر پائی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر موجود عوام غریبوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہزاروں کی تعداد تک محدود ہے۔ آگے بڑھنے کی خاطر تحریک کو لازماً شعوری طور پر سماج کی دیگر پرتوں، بالخصوص محنت کش طبقے سے، جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کرنی ہوگی۔ محنت کش طبقہ سماج کا طاقتور ترین طبقہ ہے، جو تمام ملک کو منجمد کر کے ریاست کی کمر توڑنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ 1979ء میں یہی کچھ ہوا تھا جب شاہ کی بوسیدہ حکومت کو بالآخر تیل کے محنت کشوں کی قیادت میں جاری عام ہڑتال کے ذریعے شکست دی گئی اور تمام بڑی صنعتوں کے اوپر محنت کشوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

پچھلے کچھ سالوں کے دوران ہم نے ایرانی مزدور تحریک کا احیا دیکھا ہے اور 40 سالوں کی سب سے بڑی ہڑتالی لہریں دیکھنے میں آئی ہیں۔ نئی ٹریڈ یونینز میں سے کئی نے موجودہ تحریک کی حمایت میں اعلامیے جاری کیے ہیں، بشمول ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی (ہڑتالی اساتذہ کی نمائندہ لڑاکا یونین)؛ کنٹریکٹ یافتہ تیل کے محنت کشوں کے احتجاج منظم کرنے والی کونسل؛ اور ہفت تپہ ٹریڈ یونین۔

تیل کے محنت کشوں کی کونسل نے جاری صورتحال کا خلاصہ یوں پیش کیا:

”سماجی اور احتجاجی تحریکوں کے اندر اب خواتین واضح اور بیباک کرداد ادا کرتی ہیں، جس کے باعث ریاست کی پریشانی اور خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ریاست کے جبر اور تشدد میں بڑھتے ہوئے اضافے نے سماج کو کھلے عام بغاوت کرنے پر مجبور کیا ہے، جس سے ان مظالم کے خاتمے کی خاطر اتحاد کی ضرورت بھی واضح ہوتی ہے۔“

ہفت تپہ کے لڑاکا محنت کشوں نے بھی اتحاد کا نعرہ بلند کیا، مگر وہ سرمایہ داری پر کھلے عام حملہ کرتے ہوئے کافی آگے نکل گئے:

”سرمایہ داری کا جابرانہ نظام نہ صرف مرد و خواتین محنت کشوں کا استحصال اور ان کے اوپر جبر کرتا ہے بلکہ محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے صنفی، نسلی اور مذہبی بنیادوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مظلوم گروہوں کو اپنے مخصوص مطالبات کے لیے لڑنے کے ساتھ ساتھ ظالموں اور سرمایہ داروں کے خلاف آپس میں اتحاد بھی قائم کرنا ہوگا!“

ہفت تپہ نے سڑکوں کے اوپر تحریک میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ یہ بہت مثبت قدم ہے۔ البتہ، جیتنے کے لیے اس سے بھی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ معیشت کے تمام شعبوں کے اندر عام ہڑتال کا نعرہ بلند کرنا ہے۔ تمام محلّوں، سکولوں اور کارخانوں کے اندر جدوجہد کومنظم کرنے کیلئے کمیٹیاں اور کونسلیں قائم کرنی پڑیں گی تاکہ عام ہڑتال کی تیاری کی جا سکے اور حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔

اگر یہ بغاوت تنہا رہ گئی تو پچھلی ساری بغاوتوں کی طرح اسے بھی دبا دیا جائے گا۔ حکومت اپنی قوتیں مجتمع کرتے ہوئے احتجاجوں کے ماند پڑنے کا انتظار کرے گی؛ تاکہ بھرپور جبر کے ساتھ انہیں کچل دے۔ 2018ء، 2019ء اور 2021ء کی خوزستان بغاوت کا یہی مقدر بنا تھا۔

اگلے کچھ دن اس کا اظہار کریں گے کہ یہ تحریک کس حد تک جائے گی۔ مگر فوری واقعات چاہے جو بھی ہوں، یہ تحریک ایرانی عوام کی انقلابی بیداری کی عکاس ہے۔ ایرانی سرمایہ داری کبھی عوام کو با عزت زندگی دینے کی اہل نہیں رہی ہے، خاص کر خواتین کے معاملے میں تو ایسا ہی ہے: لہٰذا اس کا تختہ الٹنا پڑے گا۔ محنت کش طبقہ، اپنی جدوجہد میں متحد ہو کر، وہ واحد قوت ہے جو ایسا کر سکتا ہے اور وہ ایک ایسا نیا سوشلسٹ سماج تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جس میں ایرانی سماج کے تمام استحصال زدہ اور مظلوم عوام کی ضروریات کا خیال رکھنا ممکن ہو۔

خواتین، زندگی، آزادی!
مرگ بر آمر!
ملّا حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عام ہڑتال کی جانب بڑھو!